بھٹو خانوادے کی راجدہانی میں تاجے حوالدار کی حکم رانی
ڈی آئی جی ، ایس ایس پی اور اے ایس پی معاملے سے بہ خوبی آگاہ ہونے کے باوجود فدا جتھیال کو گرفتار کرنے سے گریزاں ہیں
بے پناہ مسائل کے شکار لاڑکانہ کی پولیس میں ایک پولیس افسر بھی شامل ہے۔ فوٹو: فائل
شریف شہری بھلے کسی قابلِ دست اندازیٔ پولیس قسم کی آفت میں گھر جائے، پولیس کے پاس جانے سے گریز کرتا ہے۔
اوّل تو پولیس ''خوش کلامی'' کی تربیت کچھ ایسے سلیقے سے پائے ہوتی ہے کہ داد دیتے نہیں بن پاتی، اس پر یہ کہ وہ علم تحریر و قانون کی بھی جید عالم ہوتی ہے، ایسے ایچ پیچ ایجاد کرتی ہے کہ بڑے بڑے وکیل اور عدالتیں بغلیں جھانکتی رہ جاتی ہیں۔ ان بھول بھلیاں سے بچنے کو وہ اپنے مسائل معززینِ شہر کی ثالثی میں حل کرانے میں سہولت محسوس کرتا ہے لیکن پولیس ایک خاص طرح کا دماغ رکھتی ہے، وہ شہریوں کے اس نوع کے چونچلے برداشت نہیں کرتی کہ اس طرح ''وسائل'' ہاتھ سے جاتے رہتے ہیں اور ۔۔۔ روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر! سو کہا جاتا ہے کہ جب حالات ایسے ہوں تو وہ سماج کے ناپسندیدہ عناصر سے پیار پینگ جھولنا شروع کردیتی ہے۔ ذرا اندازہ تو کیجے کہ ایک شخص ایک بااثر خاندان کا فرد ہے، اس پر پولیس افسر بن کر دوآتشہ بنا، پھر جو جنسی بے راہ روی کی علت سے بھی متصف ہوا تو سہ آتشہ ہوگیا بل کہ پورا جہنم ہی جانیے؛ اب شہری اس کے قریب کیا پھٹکے۔
بے پناہ مسائل کے شکار لاڑکانہ کی پولیس میں ایک پولیس افسر شامل ہے جسے نام تو خیر سے ماں باپ نے نیک محمد دیا ہے مگر کردار ایسا کہ غیرت منہ چھپائے پھرتی ہے، عرفیت اس ذاتِ شریف کی فدا، قبیلہ جھتیال اور تعلق لاڑکانہ کے علاقے باڈہ شہر سے ہے، جناب باڈہ تھانے کے سب انسپیکٹر ہیں۔ شہری سرِعام الزام عائد کرتے پھرتے ہیں کہ فدا جھتیال، جرائم پیشہ افراد کی سر پرستی کرتا ہے، شہر سے گذرنے والی پارکو پائپ لائین سے تیل چوری کرتا رہا، منشیات کے دھندے میں ملوث ہے اور بدترین یہ کہ نوجوان لڑکوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے گرفتار کرکے ان سے زیادتی کرنے میں بھی ملوث ہے۔
اس سے متعلق حقائق تب عیاں ہوئے جب چند روز قبل اس نے باڈہ کے ایک انیس سالہ موبائل مکینک عارف موریو کو تنگ کرنا شروع کردیا، چند روز تک یہ سلسلہ جاری رہا تو عارف نے معزز شہر میرثناء اللہ زہری سے مدد طلب کی، جس نے فدا کو اپنی حرکتوں سے باز آنے کی تنبیہ کی۔ چندے عافیت رہی لیکن خبیث خباثت سے بہ آسانی کب ٹلتا ہے سو تین مسلح افراد نے عارف کی دکان پر ہلہ بول دیا، تین موبائل اور آٹھ ہزار روپے چھین، یہ جا وہ جا۔ اگلے ہی روز اسے فدا جتھیال کا فون آتا ہے، اس دعوت کے ساتھ کہ ڈیرے پر آؤ اپنی چیزیں لے جاؤ مگر عارف اس کے دام میں نہ آیا۔ اگلی بار فدا نے اپنے تین دوستوں کے ساتھ مل کر عارف کو اس وقت اٹھایا جب وہ اپنے والد کے ساتھ عشا کی نماز کے لیے جا رہا تھا۔ فدا اسے تھانے لے گیا، جہاں اس سے زیادتی کی کوشش کی لیکن عارف نے مزاحمت کی تو اس پر بد ترین تشدد کیاگیا جس سے اس کی حالت غیر ہو گئی۔
عارف کا والد شہریوں کے ساتھ مل کر احتجاج کرتا ہوا تھانے پہنچا تو ایس ایچ او نے عارف کو چھوڑ تو دیا لیکن المیہ یہ ہوگیا کہ جب بیٹے کو سر تا پا خون میں لتھڑا دیکھا تو ناتواں باپ سوبھوخان اس منظر کی تاب نہ لاتے ہوئے غش کھا کر گرا اور پھر کبھی نہ اٹھا۔ (پولیس کا ہے فرض مدد اپ کی) صورتِ حال بگڑتی دیکھی تو شیردل ایس ایچ او غلام حسین کھوسو نے فوری طور پر تبادلہ کرالیا اور فدا جھتیال بہادر بگٹٹ بھاگ کھڑا ہوا۔ شہریوں نے اس کی گرفتاری کے لیے احتجاج شروع کردیا لیکن کِیا کیا جائے کہ اپنے پیٹی بند بھائی کو گرفتار بھی تو پولیس ہی نے کرنا تھا سو آئیں بائیں شائیں کی جاتی رہی۔ پھر ایک موقع پر ایکسپریس نے معاملے کو اٹھایا تو فدا جھتیال کے خلاف مقدمہ درج کر ہی لیاگیا لیکن ڈھاک کے وہی تین پات۔
ڈی آئی جی لاڑکانہ خادم حسین رند، ایس ایس پی لاڑکانہ خالد مصطفیٰ کورائی اور اے ایس پی ساجد کھوکھر معاملے سے بہ خوبی آگاہ ہیں، اس کے باوجود ماتحت افسر فدا کو گرفتار کرنے سے گریزاں۔ ایس ایس پی نے رابطہ کرنے پر برملا فرمایا ''ملزم برطرف کر دیاگیاہے'' اُدھر ایس ایس پی، پی آر او قطار کنگو کا فرمانا ہے کہ فدا جھتیال شکار پور میں تعینات ہے، اللہ جانے، کون سچا ہے، کون جھوٹا؟ جو سامنے ہے وہ یہ ہے کہ فدا، باڈہ ہی میں حسب سابق ڈیوٹی پر ہے لیکن ۔۔۔۔ اللہ سے یہ لوگ ڈرتے کب ہیں۔
قصۂ مختصر ملزم کو پولیس نے گرفتار نہیںکیا الٹا ضمانت کرانے کی سہولت فراہم کری۔ عارف کی درخواست پر ایکسپریس نے تحقیق کی تو فدا جھتیال کے خلاف مزید انکشافات ہوئے جن میں حیران کن بات یہ تھی کہ وہ سب انسپکٹر نہیں بل کہ ہیڈ کانسٹیبل تھا اور غیر قانونی طور پر رشوت کے عوض اسے پروموشن دی گئی تاہم سپریم کورٹ سے محکمۂ پولیس میں غیرقانونی پروموشنز ختم کرنے کے احکامات کے بعد فدا کا پروموشن بھی منسوخ کردیا گیا۔ اس سے بھی حیران کن بات یہ تھی کہ مذکورہ سنگین الزامات ثابت ہونے پر چار ماہ قبل سابق ایس ایس پی لاڑکانہ سید پیر محمد شاہ نے اسے ملازمت سے برطرف کر دیا تھا لیکن واہ ری دیدہ دلیری! کالی بھیڑوں نے رشوت کے عوض بہ حال کروا لیا۔
ایس ایس پی پیر محمد شاہ کے جاری کردہ برطرفی کے لیٹر میں دیگر الزامات کے ساتھ یہ بھی الزام تھا کہ اس نے ایک ہندو نوجوان کو گرفتار کرکے اسے بھی جنسی بے رہ روی کا نشانہ بنایا اور رشوت بھی اینٹھی لیکن اس کے باوجود وہ ملازمت پر بہ حال ہے۔ اور سنیے کہ فدا نے عارف اور اس کے ورثا پر تصفیے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا تو معززین نے اسے فیصلے کے لیے طلب کیا لیکن بزدل ملزم شہریوں اور میڈیا کے ڈر سے فیصلے کے مقام پر پھٹکا ہی نہیں، باڈہ تھانہ پولیس سے رابطہ کیا گیا تو وہاں کا ایس ایچ او ملزم سے بھی زیادہ بہادر تھا، دفتر ہی سے غایب ہوگیا اور دیگر اہل کار اپنے ساتھی کی بے غیرتی پر شرمندہ تو کیا ہوتے الٹا اپنے بے ہودہ دانت نکالے قہقہہ زنی فرمایا کیے۔
لاڑکانہ پولیس کا ایک اور کارنامہ بھی سنیے: چند روز قبل لاڑکانہ کے ہٹڑی غلام شاہ تھانے کی پولیس نے سترہ مقدمات میں مطلوب ڈاکو ننڈھو ابراہیم جتوئی کو گرفتار کیا اورخفیہ طور پر دھامراہ تھانے میں بندکردیا، اس درندے پر سندھ حکومت نے 5 لاکھ روپے انعام بھی مقرر کیا ہوا تھا۔ ایمان فروشوں نے ''مک مکا'' کرکے اس خطرناک ڈاکو کو کریمینل ریکارڈ پیش کیے بغیر عدالت سے جعلی وارث کے ذریعے رہا کروا لیا۔ یہ بات سیشن کورٹ کے جج سید ارشاد حسین شاہ کے علم میں آئی تو انہوں نے ایس ایس پی لاڑکانہ خالد مصطفیٰ، ایس ایچ او ہٹڑی غلام شاہ محمد، عرس نوناری، ایس ایچ او دھامراہ سمیت دیگر متعلقہ افسروں کو طلب کیا، کافی دیرعدالت کے باہر کھڑے رکھا اور پھر بلاکر سرزنش کی، ڈاکو کی گرفتاری کا ریکارڈ طلب کیا لیکن کاکردگی ملاحظہ ہو کہ پولیس نے ریکارڈ مرتب ہی نہیں کیا تھا، جس پر ایس ایس پی کو دو دن میں اس مجرمانہ حرکت کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے اور اس کی رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔ اُدھر عدالت میں فرضی وارث کے ذریعے ڈاکو کو چھڑانے والے وکیل دلدار چانڈیو نے بار بار اصرار کے باوجود جعلی وارث کے متعلق کچھ نہیں بتایا ۔۔۔۔ آپ بھی چشم بد دور! سبحان اللہ! ان لِلٰہْ۔
یہ ہے مشتے از خروارے وگرنہ وہ وہ خرمستیاں ہیں شہید بھٹوز کے اس شہر میں کہ تو بہ ہی بھلی۔ کوئی دن جاتاہے کہ جب شیطان یہاں رقصاں نہ ہو۔ اس محمکے پر عوام کے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن جس تھالی میں کھانا اس میں چھید کرنا، اس کی اکثریت کی ریت ہے۔ سچ مچ کے ''نیک محمد'' اس میں اتنے قلیل ہیں کہ جن سے آٹا بھی نمکین نہیں ہو پاتا اور یہ ''نیک محمد'' بس اسی حد تک ''نیک محمد'' ہیں کہ محکمے کے رنگ میں رنگے جانے سے گریز تو کرتے ہیں لیکن اس کے خلاف بغاوت کی ہمت ان میں بھی نہیں۔ لاڑکانہ پولیس وہ ''تاجا حولدار'' ہے کہ کیا کہنے۔
ایس ایس پی لاڑکانہ نے 23 سب انسپکٹروں کو چوکی انچارج اور متعدد سپاہیوں کو تھانے کا ایس ایچ او مقرر کرکے نوٹی فیکیشن جاری کر دیا۔ ''آپ جناب'' سے اس بارے میں پوچھنے کی جسارت کی گئی تو موصوف نے فرمایا کہ ''آپ'' مصروف بہت ہیں البتہ اے ایس پی سٹی ساجد کھوکھر رانا نے خوب کہا کہ ''سیاست نے سندھ پولیس کو تباہ کردیا ہے''۔ محکمے کا 93 فی صد عملہ کانسٹیبلوں پر مشتمل ہوتا ہے جو تعلیم، جسم، صحت، تربیت اور میرٹ کے لحاظ سے، کام کے نہ کاج کے، نو من اناج کے؛ اوپر سے ''فدا صاحب'' جیسے باذوق، کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا۔ صاف ظاہر ہے کہ رشوت اور سفارش پر کہیں بھرتی ہونے کا مطلب منہ ہی کالا کرانا ہوسکتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ محکمہ شترِ بے مہار اختیارات کا حامل ہے، ایسے اختیارات کے بہ جا استعمال کے لیے بہت بڑے کردار اور ظرف کے افسر درکار ہوتے ہیں۔
اے ایس پی ساجد کھوکھر کا کہنا ہے ''وڈیروں کے بوٹ پالش کر کے اور سیاست دانوں کو رشوت دے کر بھرتی ہونے والوں کا ایجنڈا فروغِ جرم تو ہوسکتا ہے، انسدادِ جرم نہیں لیکن ہے حقیقت کہ کھوکھر صاحب جیسوں کی بھی ساری تنقید کانسٹیبل جیسے عہدوں تک ہی ہے حال آں کپ پالش اور مالش کرنے والوں میں بڑے پھول، ستاروں والے بھی شامل ہیں۔