سفارش کے کلچر نے ہر چیز تباہ کر کے رکھ دی ہے اسلام آباد ہائی کورٹ

سسٹم بہت گہرائی تک کرپٹ ہوچکا بہتری لانے کے لئے مضبوط سیاسی عزم کی ضرورت ہے، جسٹس اطہر من اللہ


ویب ڈیسک December 24, 2020
عدالتیں کرائے کی دکانوں میں بنی ہیں اور ان کے کرائے تک ادا نہیں ہوئے، جسٹس اطہر من اللہ فوٹو: فائل

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سفارش کے کلچر نے ہر چیز تباہ کر کے رکھ دی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی دارالحکومت میں بڑھتے جرائم اور کچہری کے مسائل کے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالتی حکم پر وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر پیش ہوئے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شہزاد اکبر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کچہری جا کر وہاں کے مسائل دیکھے ہیں ؟کچہری میں جو مسائل ہیں وہ ناقابل تصور ہیں، آپ احتساب کے بھی مشیر ہیں ، وزیراعظم سے کہیں ایک دن آکر احتساب عدالتوں کا حال دیکھیں، احتساب عدالت کے ججوں کے پاس بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے، ججوں کے پاس عملہ تک پورا نہیں ہے، احتساب عدالت کے جج دن رات کام کرنے کو تیار ہیں، کام کا اتنا بوجھ ہے تو ان ججوں کو سہولیات تو دیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہزاد اکبر کو حکم دیا کہ یہ بہت شرمندگی کا باعث ہے عدالتیں کرائے کی دکانوں میں بنی ہیں، ان دکانوں کے کرائے تک ادا نہیں ہوئے مالکان عدالت آئے ہوئے ہیں، وہ معاملہ وزیراعظم کے سامنے رکھ کر عدالت کو رپورٹ دیں، عدالتوں کی تعداد بھلے نہ بڑھائیں انہیں اسٹاف دے دیں، ہائی کورٹ کی نئی عمارت میں بار رُوم ہی نہیں یہ معاملات بھی دیکھیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سفارش کے کلچر نے ہر چیز تباہ کر کے رکھ دی ہے، سسٹم بہت گہرائی تک کرپٹ ہوچکا ہے، بہتری لانے کے لئے ایک مضبوط سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔

دوران سماعت کمرہ عدالت میں ایک وکیل کی جانب سے ماسک اتارنے پر دلچسپ صورتحال ہوگئی، چیف جسٹس نے وکیل کو کہا کہ یہاں وزیراعظم کے مشیر کھڑے ہیں آپ ماسک پہنیں وہ جرمانہ کر سکتے ہیں، جس پر شہزاد اکبر نے کہا کہ میں ماسک اتارنے پر اب صرف جرمانے کا مشورہ دے سکتا ہوں جرمانہ عائد نہیں کر سکتا، آپ کی عدالت فیصلہ دے چکی مشیر کے پاس ایگزیکٹو اختیار نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں