اک سفر قوسِ قزح کے راستوں پر دریائے کنہار کی سنگت گلیشیئرز کا گولا گنڈا ٹریفک جام نعمت بن گیا
شفاف آبشاروں کے دیس میں نَل سے بہتا گندا پانی، گلگت بلتستان کے سحر میں ڈوبا ایک سفرنامہ۔
دریائے کنہار کی سنگت، گلیشیئرز کا گولا گنڈا، فوٹو: فائل
آج سے چار پانچ سال پہلے شاید 2007ء کی بات ہے، کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہونے کو تھا.
پورے پاکستان میں روایتی جوش و خروش عروج پر پہنچا ہوا تھا۔ کسی نے مجھ سے پوچھا آپ کی فیورٹ ٹیم کون سی ہے؟ میں نے اپنی ٹیم کے حالات سے پوری طرح باخبر ہوتے ہوئے بھی بڑی خوداعتمادی سے جو شاید پاکستانیوں ہی کا خاصہ ہے ، جواب دیا ''پاکستانی ٹیم'' پوچھنے والی خاتون حیرت سے منہ کھول کر مجھے دیکھتی رہ گئیں۔ اور میں ان کی حالت پر دل ہی میں محظوظ ہوئی۔
یہ واقعہ اس لیے یاد آیا کہ اس کے بعد میں نے کئی مرتبہ حقیقت پسندی سے ان خصوصیات اور اعزازات کی لسٹ بنانے کی کوشش کی جو پوری دنیا یا عالم اسلام میں صرف پاکستان ہی کو حاصل ہوئے ہوں اور کتابی معلومات کی بدولت اکثر میں تصور کر سکی کہ پاکستان کو بے شمار خصوصی امتیازات حاصل ہیں۔ تاہم زندگی میں دو مواقع سچ مچ ایسے آئے کہ جب پاکستانی ہونے پر میرا دل اور میری روح خدائے واحد کے حضور اظہار عجز و تشکر سے سجدہ ریز ہوگئی اور مجھے لگا کہ میری زبان خدائے بزرگ و برتر کا شکر ادا کرنے کے بھی قابل نہیں، جس نے مجھے ایک بے مثال ملک کا شہری اور صرف شہری نہیں نظریاتی شہری بنایا ہے۔
ان میں سے بلاشبہہ پہلا موقع تو وہ تھا جب پاکستان ایٹمی طاقت بنا، اور دوسرا موقع ... جی ہاں دوسرا موقع وہ تھا جب میں نے پہلی مرتبہ اسلام آباد سے براستہ ناران، گلگت تک کا سفر کیا۔
ہمارے بے شمار ہم وطن اس راستے سے گزر کر اپنی آنکھوں کو جگہ جگہ بکھرے ان حسین نظاروں سے سیراب کر چکے ہیں، جن کے بیان کا حق شاید کوئی زبان ادا ہی نہیں کر سکتی، مگر بہت سے اہل وطن شاید ایسے ہوں گے جو ان حسین وادیوں سے نام ہی کی حد تک آشنائی رکھتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میں انھیں وہ حسین تصویریں دکھا سکوں جنھوں نے میری روح تک کو مخمور کرکے رکھ دیا ہے۔
دیگر بہت سے لوگوں کی طرح ملک کے حالات پر کُڑھتے اور بہتری کی دعائیں کرتے دن گزر رہے تھے کہ ایک روز مجھے آغا خان یونیورسٹی کی طرف سے شعبۂ کمیونٹی میڈین کی پوسٹ گریجویٹ ٹرینی کے طور پر گلگت جانے کی نوید ملی ۔
ساتھ ہی خبردار کیا گیا کہ کراچی سے اسلام آباد تک تو پی آئی اے کی پرواز لے جائے گی، آگے ممکن ہے کہ بائی روڈ سفر کرنا پڑے۔ اس میں ایڈونچر تو بہت محسوس ہوا، تاہم حالات اور امن وامان کی صورت حال کے پیش نظر میں نے اکیلے بائی روڈ سفر کرنے سے صاف انکار کردیا، جس پر ظاہر ہے پروفیسرز کسی حد تک جُزبُز ہوئے، تاہم ٹیم میں شامل دوسرے ساتھیوں نے بتایا کہ اسلام آباد سے گلگت تک کی پرواز آئے دن ملتوی ہوتی رہتی ہے، اس لیے جب کبھی جہاز جائے تو ویٹنگ لسٹ پر بے شمار افراد ہوتے ہیں۔ ممکن ہے ہمیں بھی فلائٹ نہ ملے، پھر ہم سب جیپ میں چلیں گے۔ چناںچہ یہی طے پایا کہ اسلام آباد تک تو پہنچیں، پھر آگے ساری ٹیم ساتھ ہوگی، تو گاڑی میں جانے میں کوئی حرج نہیں۔
اور پھر وہ دن بھی آگیا جب کراچی سے اسلام آباد روانگی طے ہوئی۔ سفر شروع ہونے کے ایک گھنٹہ پینتیس منٹ بعد جب جہاز چک لالہ ایئر بیس پر لینڈ کر رہا تھا، تو میں اپنے اندر خاصا جوش و خروش محسوس کر رہی تھی۔ ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو راول پنڈی 40'C کے حرارت بھرے ماحول میں کراچی کے مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔
اسلام آباد میں واقع ہوٹل پہنچے تو شام کے سائے گہرے ہوچکے تھے۔ پتا چلا کہ رات کے آٹھ بج رہے ہیں، فلائٹ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چناں چہ صبح دس گیارہ بجے تک ایئر پورٹ پر دھکے کھانے کے بہ جائے یہ فیصلہ کیا گیا کہ شب تین بجے بائی روڈ نکلا جائے، تاکہ کل شام تک خیریت سے گلگت پہنچ سکیں اور اگلے دن سے کام شروع ہوجائے۔ اس اطلاع میں میرے لیے خوش کن بات یہ تھی کہ پوری ٹیم کو بائی روڈ جانے کا آرڈر مل گیا تھا، اور ہمیں روٹین کے راستے یعنی سوات کے بجائے ناران سے جانے کو کہا گیا تھا۔ اس وقت تک ناران کا مفہوم میرے لیے جھیل سیف الملوک تھا، جہاں ''پریوں کا رقص'' دیکھنے کے لیے میں بے قرار تھی۔ کراچی سے صبا میرے ساتھ تھیں۔ اب اسلام آباد میں فاران کو آملنا تھا اور وہاں سے ہم تینوں کو گلگت کی طرف عازم سفر ہوجانا تھا۔
اسلام آباد سے آرام دہ جیپ کا سفر شروع ہوا تو ایسا لگاکہ قدرتی نظاروں کی فلم آنکھوں کے سامنے چلنا شروع ہوگئی ہے۔ خوش قسمتی سے جیپ کے ڈرائیور ذوالفقار انکل راستے میں آنے والے ہر علاقے اور منظر کی چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا ثابت ہوئے۔ ان کے تفصیلی بیانات اور قابل رشک معلومات سے مرعوب ہوتے ہوئے مجھے بار بار یہ احساس ہوا کہ پاکستان کے بارے میں بالعموم اور شمالی علاقوں کے جغرافیائی خدوخال کے بارے میں بالخصوص کسی بھی بات کو Googleکرنا یا ذوالفقار انکل سے پوچھ لینا ایک ہی بات تھی۔
اسلام آباد سے گلگت کے بہ راستہ سڑک سفر میں پہلی منزل ٹیکسلا ہے، جس سے نکل کر حسن ابدال اور پھر واہ کینٹ سے گزرتے ہوئے پنجاب کے میدانوں کی گنگناہٹ مدہم پڑنے لگتی ہے اور ہری پور سے خیبر پختونخوا کا پہاڑی علاقہ شروع ہوجاتا ہے، جو حویلیاں اور ایبٹ آباد سے ہوتا مانسہرہ آپہنچتا ہے، جہاں سے شاہراہ قراقرم سے ہٹ کر کشمیر ہائی وے کا روٹ لیا جاسکتا ہے۔ ہمارے سفر کی ابتدا شاہراہ قراقرم سے ہوئی، جو پاکستان میں حویلیاں کے مقام سے شروع ہوکر چین کے شہر کاشغر تک پہنچتی ہے اور خطے کو لوگوں کو نہ صرف مستحکم ذریعہ آمدورفت فراہم کرتی ہے، بلکہ تجارتی منڈیوں تک مقامی اشیاء کی ترسیل میں بھی اہم ترین کردار ادا کررہی ہے۔
قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑوں سے لپٹی یہ سڑک کچھ 1300 کلومیٹر طویل ہے۔ اس سڑک کا 804 کلو میٹر کا حصہ پاکستان میں، جب کہ 496کلومیٹر کا محیط چین سے گزرتا ہے۔ سڑک پر جگہ جگہ ہوئی ٹوٹ پھوٹ بالخصوص حکومت پاکستان کی غفلت کا حال سناتی ہے۔ واپسی کا سفر اسی راستے سے طے ہوا اور جگہ جگہ ادھڑی ہوئی سڑک نے دل و دماغ کو نہیں پورے وجود کو بھی کئی مرتبہ جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ تاہم گلگت جاتے ہوئے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ہم نے مانسہرہ قراقرم ہائی وے پر سفر کیا اور پھر ناران کا روٹ لیتے ہوئے وقتی طور پر قراقرم ہائی وے کو خدا حافظ کہہ کر کشمیر ہائی وے پر ٹرن ہوگئے۔
اس وقت تک آنکھیں ایبٹ آباد کے حسن اور مانسہرہ کے تین پہاڑوں پر موجود سبزہ زاروں سے خاصی حد تک تراوٹ حاصل کر چکی تھیں۔ اسلام آباد سے مانسہرہ تک کا فاصلہ تقریباً 140 کلو میٹر ہے، جو ہم نے ڈیڑھ دو گھنٹے میں طے کیا تھا۔ یہاں پہنچ کر طے کیا گیا کہ بالا کوٹ کا رخ کیا جائے اور پاکستان ٹور ازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن یعنی PTDC کے ہوٹل میں بیٹھ کر ناشتے کا آرڈر دے دیا جائے۔ بالا کوٹ کا یہ ہوٹل خوب صورت سرسبز پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں کے لوگ نہایت بہادر اور زندہ دل ہیں اور سید احمد شہیدؒ سے خاصی عقیدت رکھتے ہیں۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد شہر دوبارہ تعمیر ہو چکا ہے۔
بازاروں میں صبح سویرے ہی خوب رونق نظر آئی۔ اور سفر کو خوش گوار بنانے کے لیے یہاں سے رس بھرے کھٹے میٹھے آلو بخارے خریدے گئے ۔ یہیں پر ذوالفقار انکل نے ایک جگہ گاڑی روک کر بتایا کہ دیکھیں یہ یہاں کا مدنی پلازہ ہے ، زلزلے میں جب پورا شہر تباہ ہوگیا مگر یہ جوں کا توں کھڑا رہا معلوم ہے کیوں؟ انھوں نے سسپنس قائم کرتے ہوئے بتایا ، یہاں کے مالکان باقاعدگی سے زکوٰۃ ادا کرتے تھے، اسی لیے زلزلے میں یہ عمارت ہلی تک نہیں۔ واﷲ اعلم بالصواب، بہرحال اس مارکیٹ کی عمارت کے اضافی فوٹو لیے گئے اور بالاکوٹ کے شاداب سبزہ زاروں یعنی پہاڑوں پر نظر ڈالتے ہم شوگران، کاغان و ناران کی طرف روانہ ہوئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اب تک راستے میں بڑے خوب صورت مقامات نظر سے گزرے تھے۔ خصوصاً بالاکوٹ میں ان پہاڑوں کی متانت اور وقار سکون بخش محسوس ہوتے ہیں، مگر جب شوگران کی طرف چلتے ہیں تو سچ مچ ایسا لگتا ہے کہ جنوں، پریوں اور کوہ قاف کے شہزادوں کا دیس شروع ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہاڑوں کا حجم و ہیبت دونوں بڑھنے لگتے ہیں۔ سبزہ گھنا ہوتا جاتا ہے۔ سرو کے درخت پہاڑوں پر سنتری معلوم ہوتے ہیں دور برفیلی چوٹیاں اپنی چَھب دکھانا شروع کرتی ہیں اور پھر ایک پُرجوش ساتھی یکایک ہم سفر بن جاتا ہے۔
یہ پرُجوش ہمسفر جو ہم سے مخالف سمت میں میدانی علاقوں کی طرف دوڑتا چلا جا رہا ہے دریائے ''کنہار'' ہے۔ دریائے کنہار، جو کبھی ملکہ ہندوستان نورجہاں کی آنکھوں کے لیے ایسا مرہم بنا کہ وہ بے اختیار اس دریا کو ''نین سکھ'' کا نام دے بیٹھی تھیں۔ اس شور مچاتے تندو تیز دریا کا پانی آگے بہت آگے بولوسر جھیل کے نیلے پیالے سے اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے اور پہاڑوں پر بل کھاتی سڑک سے بہت نیچے گھاٹیوں میں اپنا سفر طے کرتے بالآخر دریائے جہلم میں مل جاتا ہے۔
دریائے کنہار کا شور اس علاقے میں گونجتی بڑی خوب صورت آواز ہے۔ زندگی سے بھرپور اس دریا کا پانی جب راستے کے پتھروں سے ٹکراتا اور مچل مچل کر آگے بڑھتا ہے، تو جہد مسلسل اور حرکت کے تسلسل کا ایک جامع احساس پیدا ہوتا ہے۔ شوگران اور ناران کی طرف جاتے ہوئے اگرچہ دریا کا بہاؤ مخالف سمت میں ہوتا ہے، مگر اس کا ساتھ بڑا بھرپور لگتا ہے۔ دریائے کنہار کے برفیلے پانی کی ٹراؤٹ مچھلی علاقے کی سیاحتی سرگرمیوں کی جان ہے۔ کہیں کہیں سیاح مچھلی پکڑنے کی راڈ دریا میں ڈالے اردگرد کے ماحول کا بھرپور مزہ لے رہے ہوتے ہیں، تو کہیں باقاعدہ PTDC کی طرف سے ٹراؤٹ فارمنگ کا انتظام کیا گیا ہے۔
راستے کی ان رونقوں کو دیکھتے ہم آگے بڑھ رہے تھے کہ کچھ ہی دیر میں جگہ جگہ پہاڑی چشمے ملنا شروع ہوئے، جن کا ٹھنڈا برف پانی اتنا تسکین بخش ہے کہ اس سے منہ ہاتھ دھوتے اور سر پر ڈالتے ہی سفر کی کلفت دور ہوجاتی ہے۔ ساتھ ہی بکھرے نظارے اکساتے ہیں کہ سب کچھ چھوڑو یہیں پڑاؤ ڈالو اور زندگی بتِادو۔ایک چشمے پر گاڑی روکی گئی کہ ساتھ لائے آلو بخاروں کو ''غسل'' دے دیا جائے، تو اوپر پہاڑکے نظر نہ آنے والے راستوں سے بہت سے سرخ و سفید بچے آکر ہمارے اردگرد جمع ہوگئے ۔
ان میں سب سے چھوٹا بچہ جو گلابی ٹوپی میں بالکل گُڈا بلکہ گڑیا معلوم ہو رہا تھا، کسی قدر شرما کر اور دوسرے بچوں کی آڑ میں چھپ چھپ کر ہمیں دیکھ رہا تھا۔ اب کیا تھا ہم سب ان بچوں کے ساتھ تصویریں بنوانے کو بے قرار ہو گئے، جس پر انھوں نے پانچ پانچ روپے کا تاوان لگا دیا، جو بعد میں سب سے بڑی بچی کو ادا کیا گیا، جس نے ایمان داری سے یہ مال غنیمت تقسیم کرنے کی حامی بھری۔
سڑک پر چلتے چلتے ہی ایک سے بڑھ کر ایک حسین منظر اور پانی کے چشمے ہی نہیں بلکہ سیدھے سیدھے گلیشیئرز آنا شروع ہوگئے۔ یہ گلیشیئرز جو برف کی موٹی دیوار کی مانند علاقے کی آب و ہوا کو خنک سی فرحت بخشتے ہیں، مقامی بچوں کے لیے گولے گنڈے کی ایک قسم ہیں۔ وہ بعض اوقات برف کو نوچ نوچ کر کھاتے ہوئے پائے گئے۔ کئی جگہوں پر گلیشئرز کی دیوار کے نیچے پگھلی ہوئی برف کا نالہ ایک قسم کا چشمہ بنا دیتا ہے، جو سڑک کرکے نیچے دریائے کنہار میں جا گرتا ہے۔
ایک جگہ ایک آٹھ نو سال کے بچے نے گلیشئر کی دیوار میں سے برف نکال کر ریک سا بنا دیا تھا، جس کے پانچ چھے خانے تھے۔ وہ اس قدرتی ریفریجریٹر میں ٹھنڈی کی ہوئی سافٹ ڈرنک کی بوتلیں رکھے بیچ رہا تھا، جب کہ کہیں کہیں چشموں میں سیاحوں نے آم اور دیگر پھل دھلنے اور ٹھنڈے کرنے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔
اس ماحول میں آگے بڑھتے، جگہ جگہ رک کر چشموں کے برفیلے پانی سے چھیڑ چھاڑ کرتے، جب ہم ناران کے قریب پہنچے تو پتا چلا کہ مخالف سمت سے آنے والی گاڑیوں کے ازدحام کی وجہ سے ٹریفک جام ہوچکا ہے۔ کوئی اور موقع یا جگہ ہوتی تو شاید جھنجھلاتے ہوئے مسافروں کی ہاہاکار اور گاڑیوں کے ہارنز کے شور میں کوئی آواز سنائی نہ دے رہی ہوتی، مگر جناب! یہاں تو ناران کی حسین وادی پر ٹریفک جام تھا، چناں چہ لوگ خوشی خوشی گاڑیوں سے اتر کر اس موقع کو فوٹوگرافی کا شوق پورا کرنے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ یہاں کسی کو جلدی نہیں تھی۔
نہ آنے والوں کو نہ جانے والوں کو، ایک دوسرے کی تصویریں لیتے اجنبی سیاح علیک سلیک کرتے آگے بڑے بڑھ رہے تھے۔ نیچے دائیں طرف دریائے کنہار بہہ رہا تھا۔ مزید دائیں ہاتھ پر اور سامنے سرسبز پہاڑ سر اٹھائے کھڑے تھے اور ان کے پیچھے سے مغرور برف پوش چوٹیاں جھانک رہی تھیں۔ آج بھی وہ نظارے یاد آتے ہیں تو دل چاہتا ہے بڑے سُپر سُر میں گنگنانا شروع کر دوں ؎
پاک سرزمین شاد باد
کشور حسین شاد باد
پاک سرزمین کے ان ہوش ربا مناظر کو دیکھتے، خدا کی صناعی پر حیران ہوتے، کہیں سجدہ شکر بجا لاتے، ہم آگے بڑھتے بڑھتے خیموں کی ایک بستی تک پہنچ گئے۔ جہاں سے لوگ جھیل سیف الملوک کے لیے پیدل عازم راہ ہوتے ہیں کہ چھے کلو میٹر کا پیدل راستہ ہے۔ اس روز یہ راستہ طے کرنا ہماری قسمت میں نہیں تھا کہ ہم دراصل سیر و سیاحت کے لیے نہیں بلکہ میڈیکل ٹرینگ سے متعلق ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہونے کے لیے نکلے تھے اور اولین نصب العین گلگت پہنچ کر ان فرائض سے سبک دوش ہونا تھا، جن کے لیے ہمیں کراچی سے بھیجا گیا تھا۔
ہمیں نہیں پتا تھا کہ آگے چل کر جہاں ہم دریائے کنہار کو الوداع کہنے والے ہیں، وہیں ایک ایسا نظارہ آنے والا ہے کہ جھیل سیف الملوک تک رسائی حاصل نہ کرنے کا غم ختم نہ سہی کم ضرور ہوجائے گا۔ اور جناب یہ منظر تھا جھیل بولوسر کا۔ جہاں سے دریائے کنہار کی ابتدا ہوتی ہے اور جو 1857ء کی جنگ آزادی میں 55 سرفروشوں کی انگریز سام راج کے خلاف جاںبازی کی تاریخی یادگار بھی ہے۔
حسین پہاڑوں میں گھری یہ ساکت جھیل اپنے نیلے پانی کی پاکیزگی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ شفاف پانی پر سورج کی کرنیں پانی کے ارتعاش کے ساتھ ہلکورے لے رہی تھیں۔ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ اس ٹھہرے ہوئے پانی سے کنہار کا شور جنم لیتا ہے۔ اس جھیل کا پانی اتنا شفاف تھا کہ دن کے مختلف حصوں میں یہ یقیناً مختلف رنگوں کے جلوے دکھاتی ہوگی۔ اس جھیل کی تنہائیوں پر مجلس قربان کرنے کو جی چاہتا ہے۔ یہ مقام سیف الملوک کی طرح مقبول عام نہیں، وجہ غالباً خیمہ بستی کے بعد کا کچا راستہ ہے۔ یہاں سے آگے اونچائی مزید بڑھنے لگی۔ یہاں تک کہ سبزے اور درختوں کا وجود ناپید ہونے لگا، ساتھ ہی سڑک کا بھی۔ یعنی اب ہم سڑک پر نہیں محض پتھروں پر سفر کر رہے تھے، لیکن دنیا بنانے والے کی تخلیق کا تنوع ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ آگے لگتا تھا کہ سرسبز نظارے، جھیلیں، چشمے ختم، تو اب کیا رہ گیا، مگر ابھی آگے ایک اور جہاں تھا۔
اور یہ جہاں تھا بابو سر پاس، اور پھر بابو سرٹاپ، جہاں تقریباً چار ہزار میٹر یعنی ساڑھے چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر ٹھٹھرا دینے والی ہوائیں چل رہی تھیں۔ اپنے ساتھیوں کے برعکس میں تو سانس بھی کھینچ کھینچ کر لے رہی تھی اور کٹا کٹ بجتے دانتوں کے ساتھ چار سو آباد برفستان دیکھ رہی تھی۔ یہ برفیلے پہاڑ شاید وہی تھے، جو ناران اور شوگران میں سرسبز پہاڑوں کے پیچھے سے جھانک رہے تھے، مگر اب تو یہ نظر کے بالکل سامنے سَر اٹھائے کھڑے تھے اور بلاشبہہ قیامت کے حسین لگ رہے تھے۔ اس جگہ من موجی نوجوان بائیکیں تک لے کر آئے ہوئے تھے، جنھیں یہاں چلانا کافی خطرناک تھا۔ کچھ لوگ پکوڑے بیچ رہے تھے۔
ایک جگہ چار دیواری کھڑی کرکے ٹائلٹ قرار دے دیا گیا تھا، جس کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ اس جگہ ہمارے گھر والوں کے اصرار پر رکھے گئے گرم سوئٹر اور شالیں واقعی کام آئیں، جنھیں آگے چل کر گلگت کے 40-c درجہ حرارت میں تو بے کار ہی رہنا تھا۔ بابو سر ٹاپ پر کھڑے ہو کر ہمالیہ اور قراقرم کی بلندی کو محسوس کرنا پڑا دل چسپ تجربہ تھا۔اس جگہ کی کڑکڑاتی سردی اور آگے پیچھے برفیلے پہاڑ زندگی کے نایاب لمحے رقم کر رہے تھے۔
کاش ہماری حکومت کبھی ان مقامات کو سنجیدگی سے سیاحتی مرکز بنانے پر غور کرے، بالخصوص ان تمام راستوں پر مناسب ٹائلٹس کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے، تو پاکستان کو سیاحت کے لیے بہترین علاقہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں وہ کچھ ہے جو دوسرے لوگ مصنوعی طور پر بناتے ہیں، مگر ہمالیہ اور قراقرم کی چوٹیاں سیف الملوک اور بولوسر جیسی جھیلیں، پائن سے ڈھکے ہوئے پہاڑ اور شور مچاتے دریا، بھلا کون بنا سکتا ہے یہ تو خدا کی دین ہے، جو پاکستان کے حصے میں آگئی ۔
بابوسر ٹاپ سے آگے کا سفر چیلاس وادی میں اتنا ہی سنگلاخ تھا جتنا کہ اس وادی کے پہاڑ۔ اور یہاں ڈرائیونگ کرنا غالباً ذوالفقار انکل جیسے ماہر ڈرائیوروں ہی کا خاصا ہے، کیوں کہ میرے اندازے کے مطابق فورویل گاڑی بھی بڑی طاقت اور توجہ مانگ رہی تھی۔ اچانک محسوس ہوا کہ ''فیری ٹیل'' اختتام کو پہنچی اور اب حقیقت کی دنیا میں سفر شروع ہوگیا ہے، جو چیلاس شہر میں واقع ہوٹل پہنچ کر ہچکولے کھاتا ہوا رکا۔
یہاں منہ ہاتھ دھو کر چائے پینے کا ''نسخہ'' 500 روپے سے اوپر بنا، تو جو گرد و غبار سے اٹے اور آثار قدیمہ سے سجے ہوٹل کے ماحول سے مناسبت تو نہیں رکھتے تھے، مگر ادائیگی کے سوا چارہ نہ تھا۔ ان کی چائے سے بڑی نعمت اس وقت ان کے نسبتاً بہتر واش روم تھے۔ چناںچہ کسی قدر تروتازہ ہو کر چیلاس سے گلگت کا شروع کیا تو مغرب کا اندھیرا چھا رہا تھا۔ دریائے سندھ جو یہاں اباسین کہلاتا ہے، یعنی''دریاؤں کا باپ'' اچانک ہمارے سفر میں آشامل ہوا۔
شاید تپتی دوپہر میں یہ منظر صرف بیزار کن ہوتا، مگر اب شام کے دھندلکوں میں اباسین جو ہمالیہ اور قراقرم کے قدموں میں بہے چلا جا رہا تھا، بڑا ہیبت ناک محسوس ہوا دشوار گزار راستہ، کچی سڑک، پھیلتا اندھیرا اور اس میں سراٹھائے دیو جیسے سنگلاخ پہاڑ، اﷲ تعالیٰ کی شان اور جلال کی کیا ہی عظیم علامت لگتے ہیں۔ یہ پورا علاقہ شاید ہمارا واٹر ٹینک ہے، گھر کے اوپر پانی کی ٹنکی۔ اس بیابان سے قدرت ہمارے دریاؤں کو ہماری زراعت اور ہمارے ملک کی معیشت کو کنٹرول کر رہی ہے اور طرح طرح سے یہاں حسن فطرت جلوہ نما ہے، بے شک، ''اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔''
گلگت سے پہلے چیلاس ہی ایک بڑا پڑاؤ تھا۔ اس کے بعد کئی چھوٹے چھوٹے مقامات آتے ہیں۔ ان میں جگلوٹ ایک تیزی سے ابھرتی بستی ہے، جہاں دریائے گلگت، دریائے سندھ میں ضم ہوتا ہے اور قریب ہی تینوں عظیم پہاڑی سلسلے، قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ اس مقام کی نشان دہی یونیک پوائنٹ کے نام سے کی گئی ہے، جس سے گزر کر کچھ ہی دیر میں گلگت کی روشنیاں جھلملاتی ہوئی نظر آئیں اور ادراک ہوا کہ منزل آپہنچی ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں سفر کرتے مسافروں کے لیے گلگت شہر کی اچانک دور سے سامنے آکر جگمگ کرتی روشنیاں کچھ ایسا تاثر دے رہی تھیں جیسے دور کہیں ہیرے جواہرات کا خوب صورت سیٹ سجا ہو۔
گلگت آنے سے پہلے ہی شوق تحقیق و تحسین مجھے اکسا رہا تھا کہ اس قدیم شہر کی تاریخ ، جغرافیائی محل و وقوع اور آبادی کے بارے میں معلومات اکٹھی کرلوں، تاکہ جب وہاں پہنچوں تو مجھے اندازہ تو ہو کہ آخر پاکستان کے کس حصے میں براجمان ہوچکی ہوں۔ قدرت اﷲ شہاب کے والد عبداﷲ کا سرسید کے حکم پر ملازمت کے لیے منتخب کردہ مقام ''گلگت'' آج بھی اس وقت جیسا ہی ایسا ہی دور افتادہ تھا۔
گلگت تو اب پاکستان کے پانچویں صوبے گلگت بلتستان کا صدر مقام بھی ہے اور تو اور یہاں شرح خواندگی 99 فی صد کے قریب ہے۔
یہ آخری بات تو یقیناً بے انتہا حیران کن تھی یہ لوگ اتنا پڑھ لکھ کیسے گئے؟ تعلیم اس ''دور افتادہ'' مقام کے باشندوں کی ترجیح کیوں کر بنی؟ اتنی ترقی اور تہذیب کے ساتھ وہ پہلے صوبے کے درجے پر کیوں نہیں تھے؟ آخر اس علاقے کے بارے میں اتنی خاموشی کیوں ہے؟ نصاب کی کتابوں میں بھی، میڈیا پر بھی اور لوگوں کے ذہنوں میں بھی موجود ان سوالات کے جواب کے لیے متعلقہ لوگوں سے رابطہ کیا اور گوں ناگوں کتابیں کھولیں تو معلوم ہوا کہ:
1947ء سے پہلے متحدہ ریاست جموں کشمیر کی چار انتظامی اکائیاں تھیں۔ جموں، کشمیر، لداخ اور گلگت بلتستان۔ اس ریاست کو 16 مارچ 1846ء میں ''عہد نامۂ امرتسر'' کے ذریعے انگریزوں نے ایک ڈوگرہ گلاب سنگھ کے ہاتھ 75 لاکھ نانک شاہی روپیے کے عوض فروخت کر دیا تھا۔ اس طرح آبادی کے حساب سے انسانوں کی قیمت تقریباً سات یا سوا سات روپے فی کس پڑی۔ اس وقت اس ریاست کی آبادی کا غالب حصہ مسلمان تھا۔
ہندو ڈوگروں کے عہد میں، بالخصوص آخری ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ مسلمان آبادی کے لیے عذاب الٰہی ثابت ہوا اور 1925ء میں اس کے گدی نشیں ہوتے ہی مسلمان ہر طرح کے ظلم و ستم اور جبر کا تختۂ مشق بن گئے، جس کے نتیجے میں ہیجان نے سر اٹھانا شروع کیا اور مسلمانوں کی بہ ظاہر سماجی لیکن درحقیقت سیاسی تنظیمیں وجود میں آئیں، جنھوں نے معاشرے کی ناہمواریوں اور ناانصافیوں پر صدائے احتجاج بلند کی۔ تاہم ہندو ڈوگروں اور سرکاری اہل کاروں کی چیرہ دستیاں بڑھتی ہی جاتی تھیں۔ مسلمانوں کی جان و مال وعزت محفوظ نہ تھی۔
1931ء میں دین و ایمان بھی خطرے کی زد میں آگیا، جب پہلے ریاسی شہر میں مسجد شہید کی گئی، پھر کوٹلی میں نماز جمعہ ادا کرنے سے زبردستی روک دیا گیا۔ ساتھ ہی سرکاری اہل کاروں کے ہاتھوں قرآن مجید کی بے حرمتی کے واقعات ہوئے۔ غیر رسمی طور پر اسی زمانے سے کشمیری مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ جاگ اٹھی اور تحریک آزادی کے لیے فضا استوار ہوتی گئی۔ حُسن اتفاق ہے کہ 14 اگست 1931ء ہی کو کشمیری مسلمانوں نے کشمیر ڈے منایا اور 14اگست 1947ء کو، یعنی سولہ سال بعد، پاکستان وجود میں آگیا۔ تاہم ریاست جموںو کشمیر کے زخموں سے رِستہ خون ابھی تک تازگی لیے بہہ رہا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت جب تقسیم کا فارمولا منظور ہوا تو مہاراجا کشمیر نے ایک طرف چالبازی سے پاکستان کے ساتھ حالات کو ''جوں کا توں'' رکھنے کا معاہدہ کر لیا، دوسری طرف سیالکوٹ کے راستے پاکستان پہنچانے کا جھانسہ دے کر مسلم آبادی کے قتل و غارت لوٹ مار ، بے حرمتی اور اغوا کی قیامت برپا کر دی۔ تاکہ ریاست سے حتی المقدور مسلمانوں کا صفایا کیا جا سکے۔ اس ظلم و زیادتی کے خلاف پونچھ کی مسلم آبادی نے، جن میں ریٹائرڈ فوجیوں کی بڑی تعداد شامل تھی، گلگت کے مسلمانوں اور گلگت اسکاؤٹس کے رضا کاروں کے ساتھ مل کر عَلم بغاوت بلند کر یا اور سارا علاقہ پاکستان کا مطلب کیا ''لاالہ الااﷲ'' کے نعروں سے گونجنے لگا ۔
نتیجتاً ریاست جموں کشمیر کی مسلم آبادی، جو پہلے ہی کئی سال سے ظلم و ستم کا شکار تھی، مکمل طور پر ڈوگرہ فوج اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے بھیڑیوں کی زد میں آگئی۔ گلگت اسکاؤٹس انگریزوں کی منظم کردہ نیم فوجی تنظیم تھی۔ اس کے مقامی سینئر ترین افسر راجا بابر خان نے مقامی انگریز افسران سے تحفظ مانگا، مگر ہندوستان سے اپنا بوریا بسترا سمیٹ کر جاتے انگریزوں کو مقامی مسائل سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ چناںچہ گلگت اسکاؤٹس کے رضاکاروں نے کشمیر کی مسلم قیادت کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا کہ جتنا جلد ممکن ہو کشمیر کا زیادہ سے زیادہ علاقہ آزاد کروایا جائے۔
اس موقع پر ان کشمیریوں نے، جن کی پاکستان کے ملحقہ اضلاع مثلاً سیالکوٹ، گجرات، جہلم، راولپنڈی وغیرہ میں رشتے داریاں تھیں، اپنے اہل خانہ کو محفوظ علاقوں میں بھیجا اور خود سردھڑ کی بازی لگا کر ڈوگرہ حکومت کے خلاف جہاد کے لیے تیار ہوگئے۔ جگہ جگہ مسلم گوریلا دستے منظم ہوگئے اور اپنی زمین کو ڈوگروں کے پنجۂ استبداد سے آزاد کروانا شروع کر دیا۔ بے شمار قربانیوں کے بعد سرفروش مسلم گوریلوں نے ریاست کا بہت بڑا حصہ آزاد کروالیا۔
اس طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا علاقہ پاکستان کا حصہ بنا۔ تاہم اس کی حیثیت کو قانونی طور پر صوبے کی صورت دینے میں کئی سقم حائل ہوگئے کہ اب ریاست جموں و کشمیر کا مجموعی فیصلہ اس استصواب رائے کے ذریعے ہونا ہے، جس کی لوریاں دے کر کشمیر کی مائیں اپنے بچوں کو جوان کرتی ہیں اور جس سے محرومی پر جان و مال کی قربانی دینے کی گھُٹی اپنے بچوں پلاتی ہیں کہ تحریک آزادیٔ کشمیر کی لوَ مجاہدین کے خون سے روشن ہے۔
یہ تفصیل بتانا اس لیے ضروری تھا کہ اس پس منظر کو جانے اور سمجھے بغیر گلگت بلتستان کی موجودہ نشوونما کا اندازہ لگانا اور اس کے خوب صورت چہرے کی تابانی کا احساس کرنا، شاید ممکن نہ ہو۔ اس روز جب دل و دماغ میں گلگت کی تاریخ اور تحریک آزادی میں گلگت اسکاؤٹس کے کارناموں کی یاد تازہ کرتے ہم لوگ شہر میں داخل ہوئے، تو رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے۔ رات کا یہ پہر جو پاکستان کے بیشتر شہروں میں آدھی رات کا وقت سمجھا جاتا ہے، گلگت میں بھی چیدہ چیدہ کھلی ہوئی دکانوں اور اکا دکا راہ گیروں کو چھوڑ کر گہری رات کے عکس کا ظاہر کر رہا تھا۔ سڑکوں اور گلیوں میں اسٹریٹ لائٹس موجود تھیں، مگر کہیں لوڈ شیڈنگ اور کہیں کفایت شعاری کے خیال سے بجھی ہوئی تھیں۔
ہم شہر کے بیچوں بیچ بہتے دریائے گلگت کے اوپر بنے لکڑیوں کے پل جناح برج سے گزرتے سیدھے PDCN (پروفیشنل ڈولپمینٹ سینٹر نارتھ) کی عمارت کے احاطے میں آکر رکے۔ آغاز خان یونیورسٹی کے اس ذیلی ادارے کا نام سن رکھا تھا، مگر ہمارے پہنچنے تک لائٹ جا چکی تھی، اس لیے دیکھنے کو کچھ ملا نہیں۔ سیدھے اندر رہائشی ہوسٹل میں داخل ہوئے جہاں جرنیٹر کی مدد سے روشنی کا انتظام تھا اور ہمارے استقبال کے لیے مقصود صاحب موجود تھے، جنھوں نے چابیاں حوالے کیں، ملحقہ کچن کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور ڈنر منگوایا، جو مرغی کے سالن روٹیوں اور تربوز کی قاشوں پر مشتمل تھا۔
اس کے بعد ذوالفقار انکل سے رخصت لے کر میں صبا اور فاران اپنے اپنے کمروں میں چلے آئے کہ تھکن بے حساب تھی۔ آکر کمرے کا جائزہ لیا، چیزیں ٹھکانے پر رکھیں اور غسل خانے کی طرف قدم بڑھایا کہ مقصود بھائی نے فخر سے بتایا تھا کہ یہاں گلیشیئر کا پگھلا ہوا پانی دریائے گلگت سے پمپ ہو کر آتا ہے، بہت ٹھنڈا ہوتا ہے، مگر ہمارا گیزر ہر وقت چلتا ہے، اس رات موسم میں کچھ خنکی تھی اور تھکن کا احساس سِوا تھا۔ تاہم اتنے طویل سفر کے بعد غسل کیے بغیر سونا میرے لیے ممکن نہ تھا۔ بڑے شوق سے اور ایک تھرل کے ساتھ نَل کھولا کہ گلیشیئرز کے پگھلے پانی کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر دیکھوں۔
بلند مقام پر ہونے کے احساس کی وجہ سے خدا اور اس کی قدرت سے خاصی قربت محسوس ہو رہی تھی اور نہ جانے کیوں کسی گھپ اندھیرے مقام پر موجود گلیشیئر سے بہہ کر آتے پانی کا تصور مجھے بڑا پراسرار سا لگ رہا تھا۔ تاہم نل کھولتے ہی مجھے جھٹکا لگا، پہلے شوں شوں کی آواز آئی اور پھر گندے گدلے تقریباً سیاہ پانی نے پوری روانی سے بیسن کو میلا کرنا شروع کر دیا۔ اوہ ... میرے خدا یہ کیا ؟ میں حیران و پریشان رہ گئی۔ شاید یہ غسل خانہ کچھ عرصے سے استعمال نہیں ہوا اور اس حصے کے پائپوں میں مٹی جمع ہوگئی ہے۔ اس تسلی کے ساتھ پانی کو چھوا تو ٹھیک ٹھاک ٹھنڈا تھا۔ اب گرم حصے کو کھولا تو وہ کچھ کم گدلا اور خاصا گرم تھا۔
ایک پرانے آزمودہ نسخے کے مطابق کچھ دیر نلوں کو کھلا چھوڑ دیا کہ چار پانچ منٹ بعد صاف پانی آجائے گا، مگر جناب! پانی کا رنگ کیوں کر تبدیل ہوجاتا، یہ کسی گلیشیئر سے براہ راست آنے والا پانی نہیں تھا، بلکہ وہ پانی تھا جو گلیشیئر پگھل کر مٹی سمیت دریائے گلگت میں ڈالتے ہیں اور دریائے گلگت سے پمپ کرکے پی ڈی چی این کے منتظمین غسل خانے کے نَلوں تک پہنچاتے ہیں۔ اس وقت اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ پانی میں آئے تنکوں اور مٹی کے ذرّوں کو نظر انداز کرکے شاور لے کر خدا کا شکر ادا کیا جائے، کہ اس ''دور افتادہ'' مقام پر بجلی بھی میسر ہے پانی بھی اور گیزر بھی۔
غسل سے فراغت کے بعد بالوں کی حالت نیم جاں تاروں سے مشابہہ ہوچکی تھی۔ تاہم آنے والے دنوں میں اس پانی سے دو دو ہاتھ کرنے کے طریقے سیکھ ہی لیے۔ یعنی ایک تو لوکل طریقے سے اس طرح فلٹر کرنا کہ گرم حصے سے تسلے میں پانی بھر کر چھوڑ دیں، ریت و ذرات نیچے بیٹھ جائیں گے تو پانی کا مٹیالا رنگ سفید ہوجائے گا (واضح رہے کہ شفاف نہیں، سفید) جو غالباً ان علاقوں میں معدنیات اور نمکیات کی بہتات کی وجہ سے تھا، سو اب خوش دلی سے پانی کو استعمال کرلیں ۔ سائنسی اصطلاح میں ایسے پانی کو Hard Water کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ صابن اور سرف وغیرہ کو حل نہیں کرتا اور استعمال پر کچھ اکڑ سی پیدا کردیتا ہے، کپڑوں اور بالوں میں بھی۔ اس قسم کے پانی کا استعمال دیگر ضرورتوں کے لیے کیا جاسکتا ہے، مگر پینے کے لیے مفید نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں متبادل انتظام کرنا پڑا۔
دریائوں کا پانی جو عموماً گدلا ہی ہوتا ہے، زراعت و کاشت کاری کے لیے انتہائی زرخیز ہے، جو مٹی یہ پانی اپنے ساتھ کھینچ کر لاتا ہے، کھیت کی بارآوری کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ تاہم پینے کے لیے پانی کو فلٹر کرنا ازبس ضروری ہے۔ اگر PDCN کے منتظمین میری تحریر پڑھیں، تو برائے مہربانی اس طرف فوری طور پر توجہ دیں۔ دریائوں کے برعکس پہاڑی چشموں اور نالوں کا پانی انتہائی صاف شفاف صحت بخش اور پُرکیف ہوتا ہے۔ اس پانی کو پینے کی ضروریات کے لیے فراہم کرنا علاقے کے ارباب حل و عقد کی ذمہ داری ہے۔
(باقی آیندہ)