وسیم اختر کو ملنے والے 50 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کا آڈٹ کرائیں گے

ذوالفقار بھٹو کی گرفتاری کے دن سیاست میں آیا، پیپلز پارٹی (سندھ) کے جنرل سیکریٹری وقار مہدی سے ملاقات


Rizwan Tahir Mubeen December 27, 2020
ذوالفقار بھٹو کی گرفتاری کے دن سیاست میں آیا، وزیراعلیٰ سندھ کے معاون اور پیپلز پارٹی (سندھ) کے جنرل سیکریٹری وقار مہدی سے ملاقات

پانچ جولائی 1977ء کو جنرل ضیا الحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا اور وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو گرفتار کیا، تو یہ اُن کی پیپلزپارٹی سے وابستہ ہونے کا دن بن گیا۔ وہ پولیس سے چھپ کر احتجاجی مظاہروں میں جانے لگے۔۔۔ جب ذوالفقارعلی بھٹو رہا ہو کر اپنی رہائش '70 کلفٹن' گئے، تب وہ سٹی کالج، ناظم آباد میں فرسٹ ائیر میں تھے۔۔۔ وہاں ان سے پہلی اور آخری ملاقات ہوئی، اس موقع کی تصویر تو نہیں، لیکن بھٹو صاحب کا پُرجوش مصافحہ ان کی یادداشت میں محفوظ ہے۔۔۔

یہ تذکرہ پاکستان پیپلزپارٹی (سندھ) کے جنرل سیکریٹری وقار مہدی سے ہماری ایک مختصر بیٹھک کا ہے۔۔۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہوش سنبھالتے ہی گھر میں سیاسی ماحول دیکھا، وہ پیپلز پارٹی میں 1982ء میں 'وارڈ' کے سیکریٹری اطلاعات بنے، 1985-86ء میں 'سٹی ایریا' میں یہ ذمہ داری ملی، 1992ء میں 'ڈسٹرکٹ' اور 1994-95ء میں ڈویژن کے بعد 2004ء میں صوبائی 'سیکریٹری اطلاعات' ہوگئے، اور 2016ء سے صوبائی جنرل سیکریٹری ہیں، کبھی انتخابی امیدوار نہیں رہے، لیکن سیاسی مہم کا حصہ ضرور ہوئے۔'

وقار مہدی نے پرانے سیاسی منظر کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے مختلف الخیال لوگ سیاسی دلائل سے بات کرتے تھے، مگر اب سیاست میں تحمل، صبر اور برداشت ناپید ہو گیا ہے۔'

اس کی وجوہات کے سوال پر انھوں نے کہا کہ 'جنرل ضیا کے مارشل لا نے قوم کو لسانی، فرقہ وارانہ اور گروہی سیاست میں بانٹا، غیرسیاسی بنیادوں پر انتخابات سے سیاسی روایتیں ختم ہونے لگیں، 'ایم کیو ایم' نے آکر اسے مزید بڑھایا۔ پھر اس شہر نے کتنے فسادات دیکھے، انھوں نے اس شہر میں ایک دہشت قائم کردی، جس سے لوگ سیاست سے ڈرنا شروع ہو گئے، اس وقت تک پتھراؤ کی سیاست تو ہو جاتی تھی، لیکن جان سے مارنے کا کوئی سوچتا بھی نہ تھا۔'

ہم نے جامعہ کراچی میں اس سے پہلے کے 'پی ایس ایف' (پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن) اور 'اسلامی جمعیت طلبہ' کے 'متشدد ٹکراؤ' کا ذکر چھیڑا، تو وہ بولے 'افغانستان کی جنگ سے یہاں جدید اسلحہ اور ہیروئن عام ہوئی۔ 1979ء میں 'جمعیت' کے 'اے پی ایم ایس او' (آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) اور 'پروگریسیو طلبہ' سے تصادم ہوئے اور پہلی بار اسٹین گن استعمال ہوئی، لیکن یہ سب جامعہ کراچی تک محدود تھا، پھر جب اسلحہ گلی، گلی بٹا اور لوگوں کو لسانی بنیادوں پر مارا گیا اور ان کی آبادیوں پر حملے شروع ہوئے، اس بنیاد پر کہ یہ پٹھان، پنجابی، سندھی یا بلوچ ہے۔۔۔'

ہم نے بشریٰ زیدی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ٹکڑا لگایا کہ 'کراچی میں آبادی پر حملوں کا علی گڑھ کالونی کا ہی ایک واقعہ (1986ء) ہوا۔۔۔' وہ بولے کہ بشریٰ زیدی جاں بحق ہوئیں، تو نزدیکی کالج کے طلبہ نے گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی اور جلانا شروع کر دیا۔۔۔'

ہم نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج پر لوگوں کے مشتعل ہونے کا کہا، تو وقار مہدی بولے کہ 'پہلے لڑکوں نے رکشے، ویگن اور ٹیکسیوں کے پختون ڈرائیوروں کو مارنا شروع کیا، پھر پولیس نے یہ سب کیا۔۔۔ بشریٰ زیدی کے واقعے کو لسانی رنگ دیا گیا، جس کے نتیجے میں اورنگی جانے والے اردو بولنے والے 'بنارس' سے گزرے، تو انھیں بسوں سے اتار کر مارا جانے لگا۔

اس زمانے کا عباسی شہید اسپتال کا ریکارڈ بتائے گا کہ کتنی لاشیں اور زخمی کہاں سے آئے۔ اس طرح شہر کی سیاست اور ہم آہنگی کو خراب کیا گیا۔ 'ایم کیو ایم' کے آنے بعد سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی بنادیا گیا کہ اگر پیپلزپارٹی والا کہیں سے گزر رہا ہے، تو اسے مار دو، اغوا کرلو، گھر والوں کو دھمکاؤ۔ مجبوراً کئی لوگوں نے اسی وجہ سے شہر میں گھر بدلے۔

ہم نے 1977ء کی تحریک میں در آنے والے سنگین تشدد کا ذکر کیا، اور کہا کہ جب تو جنرل ضیا بھی نہ تھے؟ تو وہ بولے کہ اس میں امریکی ڈالر استعمال پیپلزپارٹی کے حبیب الرحمن خٹک کو مع اہل خانہ جلایا گیا، لیاقت آباد میں کارکن 'اللہ بندہ' کو مار کے لاش کھمبے پر لٹکا کر اس پر پیشاب کیا گیا۔۔۔ یہ سب 'جماعت اسلامی' کے لوگوں نے کیا، پھر اس تحریک کو چلانے والی 'جماعت اسلامی' ضیا کی کابینہ کا حصہ بنی۔'

وہ کہتے ہیں 'جب بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کر کے 10 اپریل 1986 ء کو لاہور آئیں اور پھر تین مئی 1986 ء کو کراچی تشریف لائیں، تو نئی کراچی، لیاقت آباد، ناظم آباد، گلبرگ، شاہ فیصل کالونی، اورنگی، کورنگی اور بلدیہ وغیرہ میں پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے استقبالیہ کیمپ لگے ہوئے تھے۔

ان علاقوں کے نام اس لیے بتا رہا ہوں کہ یہ 'ایم کیو ایم' کے زیراثر رہے۔۔۔ یہاں سیکڑوں لوگ مع اہل خانہ آتے، پارٹی کے جھنڈے اور اسٹیکر وغیرہ لیتے، پھر جس طرح کراچی کے لوگ بلاخوف وخطر بے نظیر کے استقبال کے لیے آئے، تو اس کا سدباب کرنے کے لیے 'علی گڑھ' کا واقعہ کرایا گیا۔ اس سے پہلے 1965ء میں جنرل ایوب کے بیٹے گوہر ایوب نے فائرنگ کر کے لالوکھیت کے اردو بولنے والوں قتل کیا، 'مہاجر پٹھان' تنازع کی بنیاد تو انھوں نے ڈالی۔'

''تب ذوالفقار بھٹو تو ایوب خان کے ساتھ تھے۔۔۔'' ہم بے ساختہ بولے، تو وہ کہنے لگے کہ وہ چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے عرض کیا کہ 'وہ تو 'معاہدۂ تاشقند' کے بعد چھوڑا، یہ تو اس سے پہلے کی بات ہے؟' تو وہ بولے کہ اُن کے اختلافات شروع ہو چکے تھے۔

مرتضیٰ بھٹو کی مسلح تنظیم 'الذوالفقار' کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اسے پارٹی نے کبھی 'اون' نہیں کیا اور تبھی مرتضیٰ بھٹو نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنائی۔

وقار مہدی، نصرت بھٹو کی جانب سے 'الذوالفقار' کی موافقت میں بیانات کا سبب مرتضیٰ کا ان کا بیٹا ہونا بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بے نظیر نے کبھی ایسی سیاست کو نہیں بڑھایا اور مرتضیٰ کی شہادت کے بعد 1997ء میں نصرت بھٹو نے بے نظیر ہی کی حمایت کی۔ '

'الذوالفقار' کو ضیاالحق کی نفرت میں ایک جذباتی عمل قرار دیتے ہوئے وقار مہدی کہتے ہیں کہ 'پیپلزپارٹی' طیارہ اغوا سمیت ان کی تمام کارروائیوں کی مذمت کرتی ہے اور اس طیارے کے عوض جو قیدی باہر بھیجے، وہ بھی زبردستی لے جائے گئے، اس پر جنرل ضیا نے کہا تھا، میں نے گندے انڈے باہر پھینک دیے۔'

وقار مہدی کہتے ہیں کہ اس شہر میں 'ایم کیو ایم' کے ہاتھوں چار ہزار سے زائد لوگ شہید ہوئے، پھر 18 اکتوبر 2007ء کو 'سانحۂ کارساز' میں ہمارے پونے دو سو کارکن شہید ہوئے۔

'کیا اس میں بھی ایم کیو ایم' کا ہاتھ تھا؟'

وہ بولے 'ایم کیو ایم' حکومت میں تھی، شاہ راہ فیصل پر اندھیرا کیا گیا، 12 مئی 2007ء کے واقعے میں کون ہے؟ ڈرگ روڈ کے پُل سے کس نے فائرنگ کی۔۔۔؟ پھر گورنر عشرت العباد ساری سیاسی جماعتوں سے معافی مانگتے رہے۔'

اس کے باوجود 'ایم کیو ایم' اور پیپلز پارٹی کی ساجھے داری کا پوچھا، تو وہ کہنے لگے کہ ''ہم امن کے لیے ساتھ تھے!'' ہم نے 2013ء کے انتخابات سے قبل متحدہ، اے این پی اور پیپلز پارٹی کو شدت پسندوں کی دھمکیوں کے بعد قریب ہونے کا تذکرہ کیا اور کہا کہ انھیں 'فطری اتحادی' بھی کہا جاتا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ کچھ چیزیں بعض اوقات مشترک ہوجاتی ہیں اور سیاست میں بہت سے کڑوے گھونٹ بھی پینا پڑتے ہیں۔ ہمارا 'ایم کیو ایم' سے اتحاد کراچی کے تاجروں کے کہنے پر رہا، انھوں نے کہا تھا کہ آپ انھیں ساتھ رکھیں، ورنہ یہ آپ کو اور ہم کو تنگ کریں گے۔'

بے نظیر کے دور میں 'ایم کیو ایم' سے اتحاد کے تذکرے پر وقارمہدی بولے کہ 'اس کے بعد انھوں نے ہمارے کارکن اغوا اور 'ڈِرل' کیے، پیپلزپارٹی کے 'اردواسپیکنگ' کارکنوں کو مارا۔۔۔ آپ 'پیپلز سیکریٹریٹ' کی 'شہدا گیلری' دیکھیے۔۔۔'

'شہدا' کا دعویٰ تو وہ بھی کرتے ہیں، ایک فہرست ان کے پاس بھی ہے؟'

ہم نے سوالیہ انداز میں پوچھا، تو وہ بولے کہ پولیس کی تحقیقی رپورٹ بتائے گی کہ کون کیسے مارا گیا، ہم نے تحقیقات کر کے سیاسی اور فرقہ وارانہ 'ٹارگٹ کلنگ' پر 'کمپنسیشن' دیا تھا، لیکن جو 'جرائم پیشہ' تھے، انھیں نہیں دیا۔۔۔ اب یہ انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں اور پھر جب ''کسی'' نے 'انھی' کے ساتھ بٹھا دیا، تو منہ پر تالا لگ گیا، اب کراچی حقوق ریلی{ نکالتے ہیں، انھوں نے36 سال حکومت کی۔'

'وہ تو دو، دو، تین تین سال کی حکومتیں ہوتی تھیں، اس میں بھی آدھی مدت وہ حکومت میں ہوتے تھے، تو 36 سال کیسے کہہ سکتے ہیں؟ ہمارے اس سوال پر وہ کہنے لگے کہ پرویزمشرف کے دور میں تو وہ سیاہ سفید کے مالک تھے، خود قبول کیا کہ سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کو 300 ارب ملے، انھوں نے کون سے ترقیاتی کام کرائے؟ یہاں 'متحدہ اور جماعت اسلامی کے میئر رہے، تو ان لوگوں نے شہر کو کیا دیا؟'

ہم نے کہا 'پرویزمشرف کے زمانے میں تو بہت کام ہوا۔۔۔ وہ بولے کہ پانی کا مسئلہ حل نہیں ہوا اور سیوریج کا مسئلہ باقی رہا۔۔۔

پیپلزپارٹی کی جانب سے بلدیاتی اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہ ہونے دینے کے تاثر پر وہ بولے کہ میئر حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ وغیرہ نے کبھی شکایت نہیں کی، یہ رونا صرف میئر کراچی وسیم اختر روتے تھے، کیوں کہ انھیں کام نہیں کرنا تھا، انھیں چار سال میں 50 ارب روپے ترقی کے لیے دیے گئے، کیا کیا۔۔۔؟

'وہ تو کہتے تھے کہ سب تنخواہوں میں نکل جاتے تھے؟' ہم نے ایک سوالیہ فقرہ جوڑا۔

وہ بولے کہ 'میں ترقیاتی بجٹ کی بات کر رہا ہوں، تنخواہوں کی مد میں تو ماہانہ 55 کروڑ حکومت سندھ دیتی تھی۔ ہم نے اس کے آڈٹ کرانے کا پوچھا، تو بولے کہ اس کے لیے کہا گیا ہے، ان کا خیال ہے کہ اس ترقیاتی بجٹ میں سے کچھ بھی نہیں لگایا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی میں 'حکومت سندھ' نے کام کرایا، ناظم آباد رضویہ کا انڈر پاس، لیاقت آباد ڈاک خانہ اور عائشہ منزل کے فلائی اوور بنائے، انھوں نے کیا کیا؟

ہم نے کہا وہ کہتے تھے کہ وسائل اور اختیار نہیں؟' تو وقار مہدی بولے کہ سب کچھ موجود ہے، آج ضلع وسطی میں اسی محکمے، اسی مشینری اور افرادی قوت سے کچرا اٹھ رہا ہے۔

ہم نے پوچھا 'پھر ان کے کام نہ کرنے کی کیا وجہ تھی، وہ تو الٹا اپنا ہی ووٹ بینک خراب کر رہے تھے؟' وہ بولے کہ 'ووٹ بینک خراب نہیں کر رہے تھے، مال کما رہے تھے۔ آج کیسے یہاں بیش تر جگہوں سے کچرا اٹھ گیا ہے۔'

'کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ 'واٹر بورڈ' اور 'کے ڈی اے' وغیرہ جیسے محکموں کے اختیار کے بغیر کام ممکن تھا؟'

وہ بولے کہ کام کرنا چاہتے، تو کرسکتے تھے، میئرحیدرآباد بھی 'ایم کیو ایم' کا تھا، انھوں نے تو کبھی شکایت نہیں کی، تو ہم نے کہا مگر وہ کام بھی کیا کر سکے؟ تو وہ کہنے لگے کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ کام کیا یا نہیں، بلکہ یہ بتا رہا ہوں کہ ہم نے بلدیاتی اداروں کو پورا موقع اور مکمل وسائل دیے۔

وقار مہدی نے اپنی جماعت کی جمہوری جدوجہد کو دنیا میں بے مثل قرار دیا، تو ہم نے اسی مناسبت سے 'ایم کیو ایم' پر پابندیوں کا ذکر چھیڑا تو انھوں نے کہا ان پر پابندیاں کچھ بھی نہیں۔ 'بانی متحدہ' کے حوالے سے بولے کہ 'وہ تو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ ان کے راہ نما محمد انور نے تو بھارت سے پیسے لینے اور 'را' سے تعلق کا بتا دیا۔۔۔' مقدمے کے ذریعے سزا پر وہ بولے کہ پاکستان آئیں، تو ان پر مقدمہ چلے گا۔

'یعنی ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہے؟' ہم نے منطقی جواب لینا چاہا، تو وقار مہدی بولے ''جو ملک کے خلاف بات کرے، تو اس کے ساتھ تو بہت سختی ہونی چاہیے!''

ہم نے کہا اب تو خیر وہ اس حوالے سے بہت آگے نکل گئے۔۔۔' تو فوراً انھوں نے ٹکڑا لگایا کہ 'وہ تو بہت پہلے سے ہی آگے ہیں، ہندوستان جا کر انھوں نے بہت کچھ کہا تھا۔'

'مگر اس کے باوجود فوج نے کوئی کارروائی نہیں کی، تب تو وہ فوجی حکومت کا حصہ بھی تھے' ہم نے جوابی انداز میں استفسار کیا، وہ بولے کہ ''کارروائی کرنی چاہیے تھی، ہمیں ملک دشمن کوئی بھی لیڈر برداشت نہیں!''

ہم نے 'ملک دشمنی' کے الزامات کے چلن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی بھی تو اس دور سے گزری ہے۔۔۔ وہ بولے کہ ''ہمارے خلاف صرف الزامات تھے، لیکن ان کے خلاف حقائق موجود ہیں۔ بس کسی کے انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہونی چاہیے۔''

'کیا ان کے لوگوں کے حقوق کی پامالی نہیں ہو رہی؟' ہم نے ان کی بات سے سوال نکالا، وہ بولے کہ اگر ہو رہی ہے، تو عدالت جائیں۔ ہم نے کہا وہ کہتے ہیں کہ انھیں اب 'گراؤنڈ' پر ہی رہنے نہیں دیا جاتا؟ جس پر وہ بولے کہ 'یہ تو ان سے پوچھیں کہ وہ تو اپنے مفادات کے لیے اپنے قائد کا نام بھی بدل دیتے ہیں۔'

فراہمیٔ آب: تین سے چار سال میں مسئلہ حل ہوجانا چاہیے!
کراچی کے فراہمیٔ آب کے منصوبے 'کے فور' کے حوالے سے وقار مہدی بتاتے ہیں کہ 2015-16ء میں 'کے فور' کا مسئلہ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے وفاق ست آدھے آدھے تعاون پر طے کرایا۔ اس کی گزرگاہ میں کچھ قانونی تقاضے آگئے، پھر اس کا ڈیزائن بدلا اور اب وفاق نے مکمل ذمہ خود لے لیا ہے، یہ 260 'ایم جی ڈی' پانی کا منصوبہ ہے، اس وقت کراچی میں پانی کی طلب 1200 ایم جی ڈی ہے، اور دست یاب صرف 500 ایم جی ڈی ہے، یہی بحران کا سبب ہے۔' ہم نے کہا یہاں ٹینکروں کو تو خوب پانی مل جاتا ہے؟' وہ بولے کہ کچھ پانی کی تقسیم کا بھی مسئلہ ہے۔

اس پر چئیرمین بلاول اور وزیراعلیٰ سندھ نے نوٹس لیا ہوا ہے۔'وقار مہدی کہتے ہیں کہ 'اگر وفاق نے فنڈنگ مسلسل جاری رکھی، تو ایک سال کے اندر مکمل ہو جائے گا۔ ہمارا سمندر کراچی کے تین ضلعوں جنوبی، غربی اور ملیر سے ملتا ہے، ہمیں 'پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ' کے تحت سمندری پانی کو میٹھا کرنے کے پلانٹ کے لیے بین الاقوامی 'شراکت دار' کی تلاش ہے۔

اگر کراچی کے تین ضلعے سمندری پانی سے ضرورت پوری کرلیں، تو باقی اضلاع کے لیے 'انڈس' کافی ہوگا۔'گویا چار سال میں کراچی میں پانی کا مسئلہ 100 فی صد حل ہو جائے گا؟' ہم نے اپنی ایک امید کو سوال کیا، تو انھوں نے کہا 'بالکل، تین سے چار سال میں ہو جانا چاہیے، کراچی کے لوگ ہمارے بھائی ہیں۔ بلاول بھٹو جتنا کراچی کو 'اون' کرتے ہیں اتنا کوئی اور قیادت نہیں کرتی۔'

''ایم کیو ایم نے ہمیں ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔''
وقار مہدی ایک بہن اور تین بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے 1960ء میں کراچی میں آنکھ کھولی، رہائش ناظم آباد میں تھی، والد سید اصغر مہدی شاعری کرتے تھے، وہ پہلے کمیونسٹ پارٹی میں رہے، پھر پیپلزپارٹی کے قیام کے بعد ذوالفقار بھٹو کراچی آئے، تو ان کے ساتھ ہوگئے۔۔۔ 1994ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی والدہ آج بھی ذوالفقار بھٹو کی مداح ہیں، اخبار پڑھتی ہیں اور ان کو سیاست میں بہت سراہتی ہیں۔ وہ آج بھی 'مشترکہ خاندانی نظام' کے امین ہیں، دونوں بھائی ساتھ رہتے ہیں۔

ان کی شادی 1986ء میں ہوئی، شریک حیات، خاتون خانہ ہیں، وہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے والد ہیں، ایک بیٹا بیماری کی وجہ سے گھر میں زیرعلاج ہے، دوسرے بیٹے ملازمت کرتے ہیں، جب کہ صاحب زادی گریجویشن کر رہی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ فائرنگ کے بعد ناظم آباد کا گھر چھوڑا، پھر 'بفرزون' والی رہائش پر بھی فائرنگ ہوئی، تو ڈیڑھ سال 'قصر ناز' میں رہا، کبھی ڈرا نہیں، پارٹی کے کہنے پر 1996ء میں 'بوٹ بیسن' پر قسطوں میں فلیٹ لیا۔۔۔ 'ایم کیو ایم' نے تو ہمیں ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، تاہم وہ حیدر عباس رضوی اور فیصل سبزواری کی تعریف کرتے ہیں۔

ہم نے کہا کہ ان سے شکایت نہیں کرتے تھے؟ وہ بولے کہ انھیں سب پتا ہوتا تھا، وہ بولتے کہ کیا کریں 'بھائی' کا حکم آتا تھا۔''کہ ایسا کرو۔۔۔؟'' ہم نے مزید جاننا چاہا، تو وہ بولے کہ 'وہ کیا بتائیں گے، بس چپ ہو جاتے، ہنس دیتے، وہ خود بھی پتا نہیں کس بحران سے گزرتے ہیں۔'وقار مہدی چار مرتبہ اسیر ہوئے، یہ واقعات 1980ء، وزیراعلیٰ جام صادق، نوازشریف اور جنرل پرویزمشرف کے ادوار میں پیش آئے۔ دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور بلوے وغیرہ کے مقدمات بھی ہوئے۔ انھوں نے گریجویشن کے بعد ملازمت کی، 'اسٹیل مل' میں رہے، پھر 'کے ڈی اے' میں آگئے اور 2007-08ء میں ریٹائرمنٹ لی۔ اب وہ وزیراعلیٰ سندھ کے معاونِ خصوصی برائے انسپکشن ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔