نواب میاں خان کا مقبرہ

اپنے حال پر ماتم کُناں تاریخی عمارت


اپنے حال پر ماتم کُناں تاریخی عمارت

میں ہمیشہ سے لاہور کو عمرو عیار کی اس زنبیل سے تشبیہہ دیتا آیا ہوں، جس میں وہ سب کچھ موجود ہوتا تھا جو اسے چاہیے ہوتا۔

یہی حال اس شہر کا ہے جس میں ایک آوارہ گرد کے لیے وہ تمام لوازمات موجود ہیں جو اسے اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ جب بھی آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اب میں نے لاہور دیکھ لیا، یہ شہر ایک نئے زاویے سے اپنے در آپ پر وا کر دیتا ہے اور آپ محوِحیرت رہ جاتے ہیں کہ اس ملنگ کی گدڑی میں کتنے بیش قیمت لعل چھپے ہیں۔

آج میں یہاں ایک ایسی ہی جگہ کا ذکر کروں گا جو برسوں بعد میرے سامنے آئی ہے۔ لاہور کی اس تاریخی جگہ کا نام ''مقبرہ نواب میاں خان'' ہے جو سنگھ پورہ لاہور کے علاقے بھوگیوال میں جی ٹی روڈ پر کسی لُٹی ہوئی بیوہ کی طرح ماتم کناں نظر آتا ہے۔

چلیں اس کی تاریخ کے بخیئے اُدھیڑتے ہیں:

شاہ عالمی کے ساتھ رنگ محل لاہور میں ایک خوب صورت حویلی واقع ہے جس کا نام حویلی میاں خان ہے۔ بہت سے لوگوں نے یہ حویلی دیکھ رکھی ہو گی جو والڈ سٹی کے اندر واقع ہے۔ یہ مقبرہ انہی نواب صاحب کا ہے۔

نواب میاں خان، نواب سعد اُللہ خان کے فرزند تھے، جو مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں وزیرِاعظم رہ چکے ہیں۔ نواب سعد اللہ خان جنہیں میاں سعد اللہ بھی کہا جاتا تھا، چنیوٹ کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مذہب سے لگاؤ اور تعلیم کی جستجو انہیں لاہور کھینچ لائی جہاں انہوں نے مسجد وزیر خان کے ساتھ واقع مدرسے میں داخلہ لیا اور وہیں ایک کمرے میں رہنے لگے۔ کچھ عرصے کے بعد یہ دہلی روانہ ہوئے اور اپنی ذہانت اور حاظرجوابی کی بدولت شاہجہاں کے دربار تک راستہ بنانے میں کام یاب ہو گئے۔ شاہجہاں، جو پہلے ہی قابل اور ذہین دماغوں کی تلاش میں رہتا تھا، نے اسے انہیں ایوانِ عدل میں نوکری عنایت کردی۔

یہاں میاں سعد اُللہ خان کی ایمان داری اور مخلص طبیعت نے شہنشاہ کو اتنا متاثر کیا کہ شہنشاہ کی طرف سے انہیں ''علامہ فہامی جُملتہُ المُلک'' کا خطاب دیا گیا اور اسی کے ساتھ شاہجہاں نے خان صاحب کو لاہور میں اپنا وزیرِاعظم بنا کہ بھیج دیا۔ اپنے دور میں سعد اللہ خان نے لاہور اور چنیوٹ میں بہت سی تعمیرات کروائیں جو ان کے اعلیٰ ذوق کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ان میں چنیوٹ کی شاہی مسجد، رنگ محل کی حویلی میاں خان اور لاہور کی پتھراں والی حویلی شامل ہیں۔

نواب میاں خان نے شروع دن سے اپنے باپ کو ایک آئیڈیل مان کے ان کی پیروی کی اور آگے چل کر انہی کی طرح اپنی ایمان داری اور شرافت کا سکہ جمایا۔ اِنہی خصوصیات کی بدولت آپ کی شہرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور آپ مغل شہنشاہ اورنگزیب کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔ نواب میاں خان کو اورنگزیب کے دور میں لاہور کا گورنر تعینات کردیا گیا۔ اپنے والد کی طرح آپ بھی مرتے دم تک مغلیہ سلطنت کے وفادار رہے۔ 1671 میں اورنگزیب کے دور میں آپ کی وفات کی بعد سنگھ پورہ کے اس مقام پر آپ کو دفن کیا گیا۔

آپ کے رُتبے کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہاں ایک عظیم الشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا جس پر ہزاروں روپے پانی کی طرح بہائے گئے، چوںکہ آپ کا تعلق چنیوٹ سے تھا، جو خوب صورت بناوٹی کام اور کالے پتھر کے لیے مشہور ہے، اس لیے آپ کے مقبرے کے لیے شہرِ چناب سے کالا پتھر منگوایا گیا۔ عمارت کی بات کریں تو اس کے بنیادی چوکور چبوترے میں بھاری بھرکم کالا پتھر استعمال ہوا ہے جس سے اس کی مضبوطی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس چبوترے کے اوپر درمیان میں ایک اور چھوٹا چبوترا ہے جس پر ایک خوب صورت بارہ دری تعمیر کی گئی ہے جس کے چہارجانب تین تین محرابیں ہیں۔

بارہ دری کے وسط میں تقریباً 6 انچ کا ایک اور چبوترہ ہے جس پر ایک زمانے میں سنگِ مرمر سے بنی میاں خان صاحب کی قبر موجود تھی جسے رام نگر کے راجہ، راجہ سُچیت سنگھ نے ملیامیٹ کر دیا۔ آج صرف بارہ دری کے اندر کا چبوترہ ہی باقی بچا ہے۔

چھت کے کناروں پر نفاست سے گُل بوٹے بنائے گئے تھے جو ان دنوں ایک مہنگا کام تصور کیا جاتا تھا۔ چھت کے اوپر بھی چاروں طرف چھوٹے چھوٹے چبوترے بنائے گئے ہیں۔ اس دور کے مقبروں کی طرح اس مقبرے کے گرد بھی ایک خوب صورت باغ تھا جس میں فوارے لگائے گئے تھے۔ باغ کا نقشہ دوسری مغلیہ عمارتوں کے طرز پر بنایا گیا تھا۔

سِکھ دور میں یہاں کا سنگِ مرمر اور دیگر قیمتی پتھر اکھاڑ لیے گئے۔ خشت فروشانِ شہر نے بھی اس کارِخیر میں اپنا حصہ ڈالا اور اس کی اینٹیں نکلا کر بیچ دی گئیں یہاں تک کہ کنہیا لال (مؤرخ) کے بقول یہ خشت فروش لکھ پتی بن گئے جن میں زیادہ تعداد کشمیر سے آئے لوگوں کی تھی۔ پھر کچھ عرصے کے لیے یہ شیخ امام الدین کے قبضے میں آیا جنہوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ جناب نے مرکزی چبوترے کے کالے پتھر پر دن دیہاڑے ڈاکا مارا اور اسے اپنی حویلی میں استعمال کیا۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ تاریخی عمارتوں کی ''آبرو ریزی'' میں مسلمان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔

سِکھ دور میں یہ عمارت ایک کھنڈر بن چکی تھی جس کا کوئی ولی وارث نہ تھا۔ اسی کا فائدہ اٹھا کر راجا سُچیت سنگھ نے اس پر قبضہ جما لیا تھا۔ اس نے اس کی دیواروں کو تعمیر کروا کے یہاں ایک باغ لگوایا جو اس کے مرنے تک '' باغ راجہ سُچیت سنگھ'' کہلاتا تھا۔ اس دور میں اس جگہ کی اہمیت اور بڑھ گئی۔

انگریز سرکار نے اپنے تئیں اس بے کار جگہ کی بولی لگوائی اور نواب علی رضا خان قزلباش نے اسے 2200 روپے سکہ رائج الوقت میں خرید لیا۔

تب سے اب تک اس مقبرے نے بہت سی تبدیلیاں دیکھی ہیں جن میں راجہ سچیت سنگھ کی گئی کچھ نئی تعمیرات اور نواب علی رضا کی مرمت شامل ہیں۔

یہ جگہ کوئی بہت بڑا سیاحتی مرکز نہیں ہے نہ ہی حکومت نے اس پر کوئی توجہ کی ہے لیکن تاریخ کے متوالوں اور جہاں گردوں کے لیے اس جگہ میں بہت کشش ہے۔ آج بھی جب آپ یہاں جائیں تو خاموشی اور ویرانی آپ کا استقبال کرتی ہے۔ اگرچہ قریبی گراؤنڈ میں بچے بالے ذوق وشوق سے کھیل رہے ہوتے ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ کسی کو بھی خود کی طرف متوجہ نہ پا کر تنہائی کی ماری یہ عمارت روتی ضرور ہو گی اور اس کے آنسو۔

وہ تو ہم جیسوں کے دل پر ہی گرتے ہیں۔

( تحریر میں بیان کردہ تاریخی حقائق مختلف ذرائع سے حاصل شدہ ہیں ان سے مصنف کا متفق ہونا ضروری نہیں )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں