اشتعال انگیزی کب تک
حکومتی حلقے بھڑکتی آگ پر پانی کے بجائے پٹرول مزید مہنگا کرکے چھڑک رہے ہیں اور خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھرکہا ہے کہ لٹیرے کوئی ہتھکنڈا اختیارکریں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پی ڈی ایم نے بہت ساری رقم اور وقت لگایا پھر بھی این آر او نہیں ملے گا۔
لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے کے بعد وزیر اعظم ہی نہیں ان کے وزیروں اور معاونین خصوصی کے رویے اور بیانات بہت زیادہ جارحانہ انگیز ہوچکے ہیں جب کہ پی ڈی ایم کی طرف سے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے کے اعلان کے بعد سے کسی ایک بھی وزیر، مشیر، معاون خصوصی یا پی ٹی آئی رہنما کی طرف سے کوئی مفاہمانہ یا مصالحانہ رویے کا بیان سامنے نہیں آیا جب کہ ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے کسی وزیر یا رہنما نے بھی پی ڈی ایم سے متعلق کوئی منفی بیان نہیں دیا۔ جماعت اسلامی نے بھی کہا ہے کہ اگر پی ڈی ایم نے استعفے دیے تو جماعت اسلامی بھی دے دے گی۔
امیر جماعت اسلامی بھی نہ صرف پی ڈی ایم کے مطالبات کے حامی ہیں بلکہ وہ بھی حکومت کے خلاف جلسے اورحکومت پر تنقید کرتے آ رہے ہیں اور انھوں نے حکومت سے کہا ہے کہ عوام کی آواز دبانے کے بجائے یا ان پر غداری کا لیبل لگانے کے بجائے ان کی آواز سنی جانی چاہیے اور سیاسی جماعتوں نے گفتگوکا آغاز نہ کیا تو عدم استحکام بڑھے گا۔ صرف ایک حکومتی حلیف بلوچستان عوامی پارٹی کے وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے کہ بلوچستان میں اگر استعفے دیے گئے تو قبول کر لیے جائیں گے جس طرح وزیر اعظم کہتے آ رہے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ نے بھی استعفوں سے متعلق پی ڈی ایم کے خلاف کوئی بات نہیں کی اور اسپیکر قومی اسمبلی بھی خاموش ہیں، صرف اسپیکر پنجاب اسمبلی نے استعفوں سے متعلق قانون اور طریقہ کارکی وضاحت کی ہے اور پی ٹی آئی وزیروں کی طرح کوئی اشتعال انگیز بات نہیں کی۔ وزیر ہوا بازی نے استعفوں کو شعبدہ بازی قرار دیتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کے بجائے خود کہا ہے کہ اسپیکرز دفاتر استعفوں کی وصولی کے لیے چوبیس گھنٹے سروس فراہم کرنے کو تیار ہیں، معاون خصوصی شہبازگل کا کہنا ہے کہ ابھی اپوزیشن استعفوں کی ایک اور جھوٹی تاریخ دے گی۔ ایک سرکاری سینیٹر نے کہا کہ اپوزیشن چوبیس گھنٹے میں استعفے دے پانچ منٹ میں قبول کرلیں گے۔
ایک سرکاری رکن قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن کے بعد فراڈ موومنٹ ختم ہو جائے گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کہتی ہیں کہ جلسے جلوس حکومت کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے ان کی استعفوں کی باتیں ایک دوسرے کو تسلی دینے کے لیے ہیں۔ ایک وفاقی وزیر نے تو اسپیکر کو پہلے استعفیٰ دینے والے پانچ ارکان کو عمرہ ٹکٹ دینے کا بھی اعلان کردیا ہے۔
وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ لاہور میں پی ڈی ایم نے اپنی سیاست کا جنازہ نکالا ہے اور اپوزیشن استعفیٰ دے کیوں نہیں دے رہی۔ پی ٹی آئی کے وزرا، رہنما اور ترجمان بہت جلدی میں ہیں کہ استعفوں کے اعلانات ہو رہے ہیں دیے نہیں جا رہے تاکہ حکومت انھیں فوری منظورکرکے الیکشن کرا دے تاکہ جن کے پاس عوامی مینڈیٹ نہیں ہے انھیں ضمنی الیکشن کے ذریعے اسمبلیوں میں آنے کا موقعہ مل سکے۔
2014 کے دھرنے میں صرف پی ٹی آئی کے صرف تین درجن ارکان قومی اسمبلی نے استعفے دیے تھے تو کسی حکومت اور اپوزیشن حلقوں نے ان کا خیر مقدم نہیں کیا تھا بلکہ سب استعفے منظور نہ کیے جانے کے حامی تھے اور پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں واپس لانا چاہتے تھے جب کہ استعفے دینے والے بعض رہنما پارلیمنٹ میں نہ جانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔
2014 کے مقابلے میں اب 3 درجن نہیں تمام اپوزیشن کے ارکان مستعفی ہو سکتے ہیں اور ایوان کو اپوزیشن سے مکمل خالی دیکھنے کے خواہش مند اپوزیشن کو اشتعال دلا رہے ہیں کہ وہ جلد استعفے دے۔ اس وقت حکمران مسلم لیگ (ن) نے ہی اسپیکر کو یہ قانونی اختیار دیا تھا کہ وہ اپوزیشن کے استعفے فوری قبول نہ کریں بلکہ مستعفی ہونے والوں کو سمجھانے اور ٹھنڈا کرنے کے لیے 6 ماہ تک انتظارکرلیں۔ پی ٹی آئی کے مستعفی ہونیوالے یہ تھوڑے سے ارکان اسپیکر کی مہربانی اور حکومتی دانش مندی سے چند ماہ بعد نہ صرف ایوان میں آگئے تھے بلکہ انھوں نے اپنی غیر حاضری کی تنخواہ اور مراعات بھی وصول کرلی تھیں مگر انھیں حکومتی ارکان کے طنز ضرور برداشت کرنے پڑے تھے۔
2014 میں حکومت اور تمام اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری کی مخالفت اور ان کی ایوان میں واپسی کی حامی تھیں ورنہ 3 درجن استعفے منظور کرنا مشکل اور خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن ناممکن نہ تھا اور 126 دن دھرنے میں خواری کے بعد 16 دسمبر کے سانحہ اے پی ایس نے دھرنا ختم اور ایوان میں پی ٹی آئی ارکان کی ایوان میں واپسی کی راہ ہموار کردی تھی۔
2014 کی طرح آج پی ٹی آئی حکومت تنہا اور ذمے داران اپنے نرم رویے پر نہیں بلکہ اس وقت کی حکومت اور اپوزیشن کے برعکس اشتعال انگیز بیانات دے کر اپوزیشن کو متحد اور بند گلی میں بھیج چکے ہیں اور اب وزیر اعظم مزید فرما رہے ہیں کہ میں اب بھی اپوزیشن سے بڑا جلسہ کرسکتا ہوں ان سے بہتر کپتان ہوں این آر او دوں گا نہ نیب بند کریں گے۔
حکومت کے تین بڑے اتحادی اور بالاتروں کی طرف سے مکمل خاموشی طاری ہے صرف حکومتی عہدیداروں اور پی ڈی ایم ذمے داروں کے درمیان سخت بیانات کی جنگ جاری ہے جس سے عوام پریشان ہیں کوئی حکومت کو سمجھانے والا نہیں۔
حکومتی حلقے بھڑکتی آگ پر پانی کے بجائے پٹرول مزید مہنگا کرکے چھڑک رہے ہیں اور خوش فہمی میں مبتلا ہیں مگر پاکستان میں حالات بدلتے دیر نہیں لگا کرتی، اس لیے ہوش کے ناخن جلد لے لیے جائیں اور سرکاری اشتعال انگیزی سے گریز کرکے ملکی حالات کی بہتری پر فوری توجہ دی جانی چاہیے ورنہ بھڑکتی آگ پورا آشیانہ بھی جلا سکتی ہے۔