بندۂ مومن کا نصب العین

’’کیا ہم نیک کام کرنے والے مومنین کو ان لوگوں کی طرح رکھیں گے جنہوں نے زمین میں فساد پھیلایا ؟‘‘

’’کیا ہم پرہیز گاروں کو بدکاروں کی طرح رکھیں گے۔؟‘‘ فوٹو: فائل

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے گم راہ نہ ہو گے۔ اور وہ کتاب اﷲ اور سنّت رسول اﷲ ﷺ ہے۔'' (رواہ فی المؤطا)

اسلام کے تمام شعبوں کو دیکھا جائے، چاہے وہ عبادات ہوں یا معاملات، اخلاق ہوں یا آداب' معاشرت ہو یا معیشت ان سب کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ان سب ہدایات کا اصل مقصد کیا ہے؟ مقصد اور نصب العین میں تھوڑا سا فرق ہے۔ جس عمل کے لیے ہم کوئی کام کریں وہ اس کام کا مقصد ہوتی ہے لیکن نصب العین مقصد اعلیٰ کو کہتے ہیں۔

جیسے ہم محنت مزدوری کریں یا تجارت کریں تو مقصد یہ ہوتا ہے کہ روپیا پیسا حاصل ہوگا، دولت آئے گی اور زندگی گزارنے کا سامان پیدا ہوگا۔ یہ تجارت و صنعت کا مقصد ہے لیکن اس کا مقصد اعلیٰ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کو پورا کرتے ہوئے ہم روزی کمائیں پھر اپنے بیوی بچوں، اپنے والدین اپنے بہن بھائیوں کے اخراجات کو پورا کریں، رشتے داروں، غرباء اور مساکین کا خیال رکھیں۔ کیوں کہ ان تمام باتوں کا اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو یہ تجارت کا مقصد اعلیٰ ہے، جسے نصب العین کہتے ہیں۔ اگر مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان کا نصب العین صرف اطاعت الٰہی ہے۔

اسی بات کو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر بے مقصد زندگی گزاری جائے تو پھر یہ انسان، انسانیت کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے جب کہ ایک بے شعور بچہ بھی ماں کی گود میں بے مقصد نہیں روتا۔ یا اسے بھوک لگتی ہے یا کوئی تکلیف ہوتی ہے تو پھر ایک عقل مند انسان بے مقصد زندگی گزارنے کا تصور ہی نہیں کرسکتا۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اسی بات کو سوالیہ انداز میں خود انسان سے پوچھا، مفہوم: ''کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بے کار پیدا کیا۔''

یہ اﷲ رب العزت کا حکیمانہ انداز ہے کہ خود انسان کو اس بات پر غور و فکر کر کے قائل کروا لیا جائے کہ تمہارا کوئی نصب العین ہونا چاہیے۔ اگر انسان کا نصب العین نہ ہو تو پھر نیک آدمی کو کس طرح نیکی پر آمادہ کیا جا سکے گا؟ بُرے شخص کو بُرائی سے کس طرح روکا جا سکے گا ۔۔۔۔ ؟ اس لیے کہ نیک کام کی خواہش اور بُرے کام سے پرہیز جب ہی ممکن ہے جب کوئی نصب العین ہو۔


ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ''کیا ہم نیک کام کرنے والے مومنین کو ان لوگوں کی طرح رکھیں گے جنہوں نے زمین میں فساد پھیلایا ؟ کیا ہم پرہیز گاروں کو بدکاروں کی طرح رکھیں گے۔؟''

جب سے دنیا و جود میں آئی ہے اس وقت سے آج تک پوری انسانیت کا نصب العین صرف ایک ہی ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اﷲ ﷺ تک تمام انبیائے کرامؑ کا نصب العین صرف ایک ہی تھا کہ ایک خدا کی عبادت کرو۔ اﷲ تعالیٰ کی اطاعت صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اس ارشاد نبویؐ کو ذہن میں نقش کر لیا جائے۔ رسول اکرم ﷺ نے ہمارے پاس دو چیزیں چھوڑی ہیں جب تک تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے گم راہ نہ ہو گے ان میں سے ایک کتاب اﷲ اور دوسری سنّت رسول اﷲ ﷺ ہے۔

بخاری شریف کے ''باب الزکوٰۃ من الاسلام'' کی پہلی روایت میں ایک صحابیؓ کو رسول اﷲ ﷺ نے اسلامی تعلیمات سکھائیں، آپؐ کے ارشادات گرامی کو سن کر جب وہ صحابیؓ جانے لگے اور کہا، مفہوم: ''خدا کی قسم میں اس میں نہ زیادتی کروں گا نہ اس میں کمی کروں گا۔'' اس پر رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اگر یہ سچ کہتا ہے تو کام یاب ہے۔''

اس سے معلوم ہوا کہ اطاعت الٰہی صرف جب ہی ممکن ہے جب ان دونوں راستوں کو مضبوطی سے تھامے رکھیں گے کیوں کہ یہی نصب العین فلاح و کام یابی کا راستہ ہے۔ لیکن مسلمان اگر اپنا نصب العین کچھ اور بنا لیں، آخرت کی طرف سے رخ موڑ کر دنیا کو مقصد اعلیٰ قرار دے لیں تو وہ مقصد بھی ضرور حاصل ہوگا۔ لیکن ہم اصل نصب العین سے ہٹ کر الگ ہو جائیں گے اور سوائے خسارے کے کچھ بھی نہ ملے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ جو شخص صرف دنیا کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس میں اور اضافہ کریں گے لیکن پھر اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا۔ اﷲ رب العزت ہمیں ہر کام میں خلوص اور محض اطاعتِ الٰہی کے لیے اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرمائے۔
Load Next Story