پڑوسیوں کے بنیادی حقوق
اگر معاشرتی طور پر ہم پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا شروع کر دیں تو ہمارا معاشرہ جنّت کا نمونہ بن جائے۔
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو معاشرتی زندگی بسر کرنے کے لیے پڑوسیوں کی نعمت سے نوازا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ہمسایوں کے حقوق کی بہت اہمیت ذکر فرمائی ہے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''پڑوسیوں کے (حقوق) کے بارے میرے پاس جبریل امینؑ اتنی بار تشریف لائے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ ایک پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث میں وارث (حق دار) قرار دیا جائے گا۔'' (صحیح البخاری)
اس حدیث مبارک سے اندازہ کیجیے کہ شریعت میں پڑوسی کی قدر و منزلت اور اس کا کس قدر احترام ہے؟ اگر معاشرتی طور پر ہم پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا شروع کر دیں تو ہمارا معاشرہ جنّت کا نمونہ بن جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص اﷲ رب العزت اور قیامت کے دن (یعنی تمام ایمانیات کو صدق دل سے) تسلیم کرنے والا ہے، اسے چاہیے کہ وہ پڑوسیوں کی عزت کرے۔'' (صحیح مسلم)
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ مومن کی شان یہی ہے کہ وہ پڑوسیوں کی عزت کرنے اور ان کی عزت کی رکھوالی کرنے والا ہوتا ہے۔
حضرت ابوذر غِفاری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''اے ابوذر! جب شوربہ (والا سالن) بناؤ تو پڑوسیوں کو اس میں سے دینے کے لیے کچھ پانی بڑھا لو۔''
(صحیح مسلم)
اس حدیث مبارک کا مقصد یہ ہے کہ پڑوسیوں کے حقوق ادا کرتے وقت معمولی چیزیں دینے میں بھی کوتاہی سے کام نہ لو، بل کہ اگر سالن بنانا ہے تو اس کی کچھ مقدار اضافہ کرلو تاکہ پڑوسیوں کو بھیجا جا سکے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''کوئی شخص اپنے پڑوسی کو دیوار پر لکڑی وغیرہ گاڑنے یعنی اسے استعمال کرنے سے نہ روکے ۔''(صحیح مسلم)
یہ تب ہے جب دیوار مضبوط ہو اور پڑوسی کے استعمال کرنے سے نقصان کا اندیشہ بھی نہ ہو۔ اگر دیوار مضبوط نہ ہو یا پڑوسی کے استعمال سے نقصان کا اندیشہ ہے تو محبّت کے ساتھ روکا جا سکتا ہے۔
پڑوسیوں کے دس بنیادی حقوق:
شعب الایمان للبیہقی میں ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: کیا تمہیں پڑوسیوں کے حقوق کا پتا ہے؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا:
پہلا حق: پڑوسیوں کا پہلا بنیادی حق یہ ہے کہ جب وہ آپ سے جانِیں یا مالی مدد مانگیں تو (اپنی استطاعت اور اس کی ضرورت دونوں کو ملحوظ رکھ کر) ان کی مدد کریں۔
دوسرا حق: پڑوسیوں کا دوسرا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر (ضرورت کے پیش نظر) وہ قرض مانگیں تو انہیں قرض دیا جائے۔ یہاں بھی یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ اگر پڑوسی ایسا ہو جو قرض لے کر واپس نہ کرتا ہو تو ایسے پڑوسی کو قرض دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر پڑوسی معاملات کا اچھا ہو تو قرض دیا جائے ورنہ قرض کے بہ جائے جہاں تک ہو سکے تعاون کر دیا جائے۔
تیسرا حق: پڑوسیوں کا تیسرا بنیادی حق یہ ہے کہ جب فقر اور محتاجی کی حالت کو پہنچ جائے (پھر وہ مدد نہ بھی مانگے اور قرض نہ بھی مانگے تب بھی اپنی حیثیت کے پیش نظر) تو اس کے فقر و تنگ دستی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
چوتھا حق: پڑوسیوں کا چوتھا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت اور بیمار پُرسی کی جائے۔ اور اس موقع پر بھی کچھ پھل فروٹ وغیرہ ساتھ لے جایا جائے یا کچھ رقم اسے دی جائے لیکن اس دینے کو ضروری نہ سمجھا جائے ہاں اس کی ضرورت کو سمجھا جائے۔
پانچواں حق: پڑوسیوں کا پانچواں بنیادی حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی خوشی کا موقع آئے (مثال کے طور پر: ان کے ہاں اولاد ہونا، امتحان میں پاس ہونا، روزگار کا مل جانا، شادی بیاہ) تو ان کو مبارک باد دینا۔ یہاں بھی یہ بات یاد رکھیں کہ اگر وہ پڑوسی خوشی کے موقع پر غیر شرعی یا غیر اخلاقی پروگرام کرتا ہے تو اس میں بالکل شرکت نہ کی جائے اور نہ ہی اس موقع پر مبارک باد دی جائے تاکہ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو۔
چھٹا حق: پڑوسیوں کا چھٹا بنیادی حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی غمی کا موقع آئے (مثال کے طور پر فوتگی ہو جائے، ان کے ہاں چوری ہو جائے، ایکسیڈنٹ ہو جائے یا گھر میں کسی چیز کا نقصان ہو جائے) تو ان کے ساتھ اظہار ہم دردی کرنا۔
ساتواں حق: پڑوسیوں کا ساتواں بنیادی حق یہ ہے کہ جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کی جائے۔ ہاں اگر فوت ہونے والے پڑوسی کے عقائد غیر اسلامی ہوں تو جنازے میں شرکت سے اجتناب کیا جائے کیوں کہ جنازہ حکم شرعی ہے، رسم نہیں۔
آٹھواں حق: پڑوسیوں کا آٹھواں بنیادی حق یہ ہے کہ اپنے گھر کی دیوار اس کی اجازت کے بغیر اتنی اونچی نہ کی جائے کہ اس کے گھر کی ہَوا رک جائے۔ یا اس صورت میں ہے جب عام آبادیوں میں گھر بنایا جائے اگر کسی مجبوری کی وجہ سے رہائش یا دفاتر وغیرہ کے لیے پلازے بنانا ناگزیر ہوں تب بھی اخلاقی طور پر پڑوسی سے اس کی اجازت لی جائے اور پڑوسی کو بھی اخلاقی طور پر اجازت دے دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ بے پردگی کے پیش نظر پڑوسیوں کو اطلاع کیے بغیر اپنے گھر کی چھت پر چڑھنا جائز نہیں ہے۔
نواں حق: پڑوسیوں کا نواں بنیادی حق یہ ہے کہ گھر میں کھانا تیار کرتے وقت اس بات کا خیال کیا جائے کہ کھانوں کی تیاری کے وقت پیدا ہونے والی خوش بُو سے پڑوسی کو تکلیف نہ دی جائے۔ یہ نہ ہو ایک گھر سے روزانہ قِسم ہا قِسم کے کھانوں کی خوش بُو مہکتی رہے اور ساتھ والا پڑوسی بھوکا رہے، ہاں اگر کھانا تیار کرنے کے بعد کچھ ان کو بھی اخلاقی طور پر بھیج دیا جائے، تب ٹھیک ہے۔
دسواں حق: پڑوسیوں کا دسواں بنیادی حق یہ ہے کہ اگر آپ اپنے لیے پھل وغیرہ خریدیں تو ان میں سے کچھ پڑوسیوں کو بھی ہدیے کے طور پر بھیج دیں۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے یا آپ کے لیے ایسا کرنا فی الوقت ممکن نہیں تو پھر اپنے گھر میں پھل وغیرہ چُھپا کر لائیں تاکہ پڑوسی دیکھ کر دکھ بھری آہیں نہ بھریں اور اپنے بچوں کو پھل دے کر باہر نہ بھیجیں کیوں کہ اس کی وجہ سے پڑوسیوں اور ان کے بچوں کو رنج و ملال اور غربت کا احساس ہوگا۔
پڑوسیوں کو تکلیف دینے کا انجام:
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''پڑوسیوں کو تکلیف دینے والا شخص جنّت میں داخل نہیں ہو سکتا۔'' (صحیح مسلم)
اس حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے کہ اولاً جنت میں داخل نہیں ہوگا ہاں پڑوسیوں کو دی گئی تکلیف والے جرم کی سزا بھگت کر یا پڑوسیوں کے معاف کرنے کی وجہ سے بالآخر جنّت میں جائے گا، کافروں کی طرح ہمیشہ کے لیے جہنّمی نہیں ہے۔
مذکورہ بالا احادیث سے جہاں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پڑوسیوں کے اتنے حقوق ہیں تو خود اپنے گھر والوں کے کتنے حقوق ہوں گے۔ جب پڑوسیوں کو تکلیف دینا، ان کا دل دکھانا جائز نہیں تو خود اپنے گھر والوں سے بول چال چھوڑنا، مارنا پیٹنا اور غیر اخلاقی برتاؤ کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟
آج ہمارے معاشرے میں بہت سے خود کو دین دار کہلانے والوں کا اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں، اور اگر گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک ہو تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور ہر جائز اور ناجائز فرمائشیں پوری کرنا شروع کر دی جاتی ہیں۔ اسلام وہ اعتدال والا دین ہے کہ یہاں خوشی بھی دینی ہے لیکن جائز خوشی دینی ہے۔ اﷲ کریم ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''پڑوسیوں کے (حقوق) کے بارے میرے پاس جبریل امینؑ اتنی بار تشریف لائے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ ایک پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث میں وارث (حق دار) قرار دیا جائے گا۔'' (صحیح البخاری)
اس حدیث مبارک سے اندازہ کیجیے کہ شریعت میں پڑوسی کی قدر و منزلت اور اس کا کس قدر احترام ہے؟ اگر معاشرتی طور پر ہم پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا شروع کر دیں تو ہمارا معاشرہ جنّت کا نمونہ بن جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص اﷲ رب العزت اور قیامت کے دن (یعنی تمام ایمانیات کو صدق دل سے) تسلیم کرنے والا ہے، اسے چاہیے کہ وہ پڑوسیوں کی عزت کرے۔'' (صحیح مسلم)
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ مومن کی شان یہی ہے کہ وہ پڑوسیوں کی عزت کرنے اور ان کی عزت کی رکھوالی کرنے والا ہوتا ہے۔
حضرت ابوذر غِفاری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''اے ابوذر! جب شوربہ (والا سالن) بناؤ تو پڑوسیوں کو اس میں سے دینے کے لیے کچھ پانی بڑھا لو۔''
(صحیح مسلم)
اس حدیث مبارک کا مقصد یہ ہے کہ پڑوسیوں کے حقوق ادا کرتے وقت معمولی چیزیں دینے میں بھی کوتاہی سے کام نہ لو، بل کہ اگر سالن بنانا ہے تو اس کی کچھ مقدار اضافہ کرلو تاکہ پڑوسیوں کو بھیجا جا سکے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''کوئی شخص اپنے پڑوسی کو دیوار پر لکڑی وغیرہ گاڑنے یعنی اسے استعمال کرنے سے نہ روکے ۔''(صحیح مسلم)
یہ تب ہے جب دیوار مضبوط ہو اور پڑوسی کے استعمال کرنے سے نقصان کا اندیشہ بھی نہ ہو۔ اگر دیوار مضبوط نہ ہو یا پڑوسی کے استعمال سے نقصان کا اندیشہ ہے تو محبّت کے ساتھ روکا جا سکتا ہے۔
پڑوسیوں کے دس بنیادی حقوق:
شعب الایمان للبیہقی میں ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: کیا تمہیں پڑوسیوں کے حقوق کا پتا ہے؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا:
پہلا حق: پڑوسیوں کا پہلا بنیادی حق یہ ہے کہ جب وہ آپ سے جانِیں یا مالی مدد مانگیں تو (اپنی استطاعت اور اس کی ضرورت دونوں کو ملحوظ رکھ کر) ان کی مدد کریں۔
دوسرا حق: پڑوسیوں کا دوسرا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر (ضرورت کے پیش نظر) وہ قرض مانگیں تو انہیں قرض دیا جائے۔ یہاں بھی یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ اگر پڑوسی ایسا ہو جو قرض لے کر واپس نہ کرتا ہو تو ایسے پڑوسی کو قرض دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر پڑوسی معاملات کا اچھا ہو تو قرض دیا جائے ورنہ قرض کے بہ جائے جہاں تک ہو سکے تعاون کر دیا جائے۔
تیسرا حق: پڑوسیوں کا تیسرا بنیادی حق یہ ہے کہ جب فقر اور محتاجی کی حالت کو پہنچ جائے (پھر وہ مدد نہ بھی مانگے اور قرض نہ بھی مانگے تب بھی اپنی حیثیت کے پیش نظر) تو اس کے فقر و تنگ دستی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
چوتھا حق: پڑوسیوں کا چوتھا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت اور بیمار پُرسی کی جائے۔ اور اس موقع پر بھی کچھ پھل فروٹ وغیرہ ساتھ لے جایا جائے یا کچھ رقم اسے دی جائے لیکن اس دینے کو ضروری نہ سمجھا جائے ہاں اس کی ضرورت کو سمجھا جائے۔
پانچواں حق: پڑوسیوں کا پانچواں بنیادی حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی خوشی کا موقع آئے (مثال کے طور پر: ان کے ہاں اولاد ہونا، امتحان میں پاس ہونا، روزگار کا مل جانا، شادی بیاہ) تو ان کو مبارک باد دینا۔ یہاں بھی یہ بات یاد رکھیں کہ اگر وہ پڑوسی خوشی کے موقع پر غیر شرعی یا غیر اخلاقی پروگرام کرتا ہے تو اس میں بالکل شرکت نہ کی جائے اور نہ ہی اس موقع پر مبارک باد دی جائے تاکہ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو۔
چھٹا حق: پڑوسیوں کا چھٹا بنیادی حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی غمی کا موقع آئے (مثال کے طور پر فوتگی ہو جائے، ان کے ہاں چوری ہو جائے، ایکسیڈنٹ ہو جائے یا گھر میں کسی چیز کا نقصان ہو جائے) تو ان کے ساتھ اظہار ہم دردی کرنا۔
ساتواں حق: پڑوسیوں کا ساتواں بنیادی حق یہ ہے کہ جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کی جائے۔ ہاں اگر فوت ہونے والے پڑوسی کے عقائد غیر اسلامی ہوں تو جنازے میں شرکت سے اجتناب کیا جائے کیوں کہ جنازہ حکم شرعی ہے، رسم نہیں۔
آٹھواں حق: پڑوسیوں کا آٹھواں بنیادی حق یہ ہے کہ اپنے گھر کی دیوار اس کی اجازت کے بغیر اتنی اونچی نہ کی جائے کہ اس کے گھر کی ہَوا رک جائے۔ یا اس صورت میں ہے جب عام آبادیوں میں گھر بنایا جائے اگر کسی مجبوری کی وجہ سے رہائش یا دفاتر وغیرہ کے لیے پلازے بنانا ناگزیر ہوں تب بھی اخلاقی طور پر پڑوسی سے اس کی اجازت لی جائے اور پڑوسی کو بھی اخلاقی طور پر اجازت دے دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ بے پردگی کے پیش نظر پڑوسیوں کو اطلاع کیے بغیر اپنے گھر کی چھت پر چڑھنا جائز نہیں ہے۔
نواں حق: پڑوسیوں کا نواں بنیادی حق یہ ہے کہ گھر میں کھانا تیار کرتے وقت اس بات کا خیال کیا جائے کہ کھانوں کی تیاری کے وقت پیدا ہونے والی خوش بُو سے پڑوسی کو تکلیف نہ دی جائے۔ یہ نہ ہو ایک گھر سے روزانہ قِسم ہا قِسم کے کھانوں کی خوش بُو مہکتی رہے اور ساتھ والا پڑوسی بھوکا رہے، ہاں اگر کھانا تیار کرنے کے بعد کچھ ان کو بھی اخلاقی طور پر بھیج دیا جائے، تب ٹھیک ہے۔
دسواں حق: پڑوسیوں کا دسواں بنیادی حق یہ ہے کہ اگر آپ اپنے لیے پھل وغیرہ خریدیں تو ان میں سے کچھ پڑوسیوں کو بھی ہدیے کے طور پر بھیج دیں۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے یا آپ کے لیے ایسا کرنا فی الوقت ممکن نہیں تو پھر اپنے گھر میں پھل وغیرہ چُھپا کر لائیں تاکہ پڑوسی دیکھ کر دکھ بھری آہیں نہ بھریں اور اپنے بچوں کو پھل دے کر باہر نہ بھیجیں کیوں کہ اس کی وجہ سے پڑوسیوں اور ان کے بچوں کو رنج و ملال اور غربت کا احساس ہوگا۔
پڑوسیوں کو تکلیف دینے کا انجام:
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''پڑوسیوں کو تکلیف دینے والا شخص جنّت میں داخل نہیں ہو سکتا۔'' (صحیح مسلم)
اس حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے کہ اولاً جنت میں داخل نہیں ہوگا ہاں پڑوسیوں کو دی گئی تکلیف والے جرم کی سزا بھگت کر یا پڑوسیوں کے معاف کرنے کی وجہ سے بالآخر جنّت میں جائے گا، کافروں کی طرح ہمیشہ کے لیے جہنّمی نہیں ہے۔
مذکورہ بالا احادیث سے جہاں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پڑوسیوں کے اتنے حقوق ہیں تو خود اپنے گھر والوں کے کتنے حقوق ہوں گے۔ جب پڑوسیوں کو تکلیف دینا، ان کا دل دکھانا جائز نہیں تو خود اپنے گھر والوں سے بول چال چھوڑنا، مارنا پیٹنا اور غیر اخلاقی برتاؤ کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟
آج ہمارے معاشرے میں بہت سے خود کو دین دار کہلانے والوں کا اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں، اور اگر گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک ہو تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور ہر جائز اور ناجائز فرمائشیں پوری کرنا شروع کر دی جاتی ہیں۔ اسلام وہ اعتدال والا دین ہے کہ یہاں خوشی بھی دینی ہے لیکن جائز خوشی دینی ہے۔ اﷲ کریم ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ