قائداعظم بیسویں صدی کے وہ تاریخ ساز رہنما ہیں جنہوں نے اپنی سچائی، اصول پسندی اور استقامت سے ایک محکوم و مجبور قوم کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کا مالک بنادیا۔ قائد کا یہ احسان پاکستان کی صورت میں ایک قیمتی یاد ہے۔
تحریک پاکستان سے لے کر آج تک بے شمار عقیدت مند اپنے قائد کے کارناموں، ان کے ساتھ گزرے قیمتی لمحات کو قلم بند کرکے ان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی محبت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
گزرے وقتوں کے لوگ اور ان کی یادیں آنے والے وقت کا آئینہ ہوا کرتے ہیں۔ پیشِ نظر تحریر ایسے ہی ایک عقیدت مند کے قائد کے ساتھ گزرے بیش قیمت وقت کے تذکرے پر مبنی ماضی کا ایک عکس ہے۔
سید شہاب الدین احمد ہندوستان کے ان لاکھوں خوش نصیب مسلمانوں میں سے ہیں جنہیں تحریکِ پاکستان کے براہِ راست مشاہدے اور شرکت کا شرف حاصل ہے۔ سید صاحب اس وقت اگرچہ نوعمر تھے لیکن تحریکِ پاکستان اور قائداعظم کے تعلق سے ان کے جذبات و احساسات کسی پرعزم نوجوان سے کم نہیں تھے۔ ہندوستان میں کانگریس ہی عوام کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت تھی۔ کانگریس کے ہندو پرستانہ عزائم واضح ہونے کے بعد مسلمانوں نے اپنی الگ جماعت مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کا آغاز کیا، جس نے آگے چل کر تحریکِ پاکستان کی شکل اختیار کی۔ اس تحریک کی مخالفت اور مسلم دشمنی میں مسلمانوں کی بستیوں میں بلوہ و فساد بڑھتا رہا۔ حفاظت کےلیے ہتھیار اور راتوں کو پہرے کا اہتمام عام طور پر کیا جانے لگا۔
مسلمانوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ قائداعظم کو مسلم لیگ کا صدر بنایا گیا۔ فولادی عزم اور بے مثال قوتِ ارادی رکھنے والے قائد نے مسلم لیگ کی تحریک میں نئی روح پھونک دی۔ علامہ اقبال نے آپ کے بارے میں درست فرمایا تھا کہ ''محمد علی جناح ہی وہ واحد رہنما ہیں جو مسلمانانِ ہند کی منتشر قوتوں کو مجتمع کرکے ان میں متحدہ قوتِ عمل کا فسوں پھونکنے کا کٹھن کام انجام دے سکتے ہیں۔'' مستقبل کے سخت ترین حالات میں قائداعظم کی بےمثال استقامت اور مسلمانوں کی ان کی قیادت میں منزل کی جانب پیش قدمی نے اقبال کی اس پیش گوئی کو سچ ثابت کیا۔
دسمبر 1938 کے آخری عشرے میں آل انڈیا مسلم لیگ کا چھبیسواں سالانہ اجلاس پٹنہ میں منعقد ہوا۔ اس میں سید صاحب کو اپنے نانا محترم کے ساتھ شرکت کا موقع نصیب ہوگیا۔ اس تاریخی جلسے کے مناظر ان کے ذہن میں اب بھی تازہ اور جذبات کو گرماتے ہیں۔ اس اجلاس کا انعقاد بیرسٹر سید عبدالعزیز نے کیا تھا۔ جلسہ کےلیے ایک وسیع پنڈال سجایا گیا تھا جہاں اندر اور باہر سبز ہلالی پرچموں کی بہار تھی۔ قائداعظم اور دیگر مقررین کے استقبال کےلیے حاضرین کا جوش و خروش حیرت انگیز تھا۔ مقررہ وقت پر تلاوتِ قرآن سے آغاز ہوا۔ مقررین نے یکے بعد دیگرے اپنے اپنے علاقے کی رپورٹ سے آگاہ کیا۔ جب قائداعظم تقریر کےلیے آئے تو سارے مجمع نے محبت و عقیدت سے تکبیر اور قائداعظم زندہ باد کے پرجوش نعروں سے ان کا استقبال کیا۔ قائداعظم کی طبیعت ناساز تھی، اس لیے وہ اپنی تقریر لکھ کر نہیں لا سکے تھے۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ برجستہ زبانی تقریر نے حاضرین میں عجیب طرح کا غیر معمولی جوش و جذبہ پیدا کردیا۔ ''پاکستان ناگزیر تھا'' کے مصنف سید حسن ریاض نے اپنی کتاب میں اس کا برملا اعتراف کیا ہے کہ قائداعظم کی زبانی تقریر ان کی تحریری تقریر سے زیادہ اثرانگیز ہوا کرتی تھی۔ وہ ایک ایک لفظ تول کر نہایت جامع اور مدلل انداز میں مخاطب تھے۔
اجلاس کے دوران علامہ اقبال اور مولانا شوکت علی کے انتقال کی خبر ملی۔ قائداعظم نے رقت آمیز لہجے میں اپنے ان عزیز ترین ساتھیوں کی تعزیت کی کہ ہر آنکھ اشکبار ہوگئی۔ اس جلسے میں قائداعظم نے کانگریس کی حقیقت واضح کی کہ ملک کی نمائندہ جماعت ہونے کی دعویٰ کرنے والی جماعت دراصل ملک کے تمام طبقوں اور ثقافتوں پر ہندو راج قائم کرنے تہیہ کیے ہوئے ہے۔ کانگریس سے قائداعظم کی بیزاری کا سبب کانگریس کے اپنی وزارتوں کے زمانے (1937) میں کیے گئے اسلام اور مسلمان مخالف اقدامات تھے۔ قائداعظم کو یہ اندازہ ہوگیا کہ کانگریس مسلمانوں کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کررہی ہے جو انگریزوں نے ہندوستانیوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔ یہ ان کی سیاسی سوجھ بوجھ اور قائدانہ سیاسی کردار کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے ایسے نازک موڑ پر مسلمانوں کی رہنمائی کی اور صحیح منزل کی طرف نشاندہی کی۔ مسلم لیگ کے اسی تاریخی جلسے میں پہلی بار ''قائداعظم زندہ باد'' کا فلک شگاف نعرہ لگا اور زبان زدِ عام ہوکر آپ کا تاریخی لقب بنادیا گیا۔ اس تاریخی جلسے کا ایسا اثر ہوا کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود سید شہاب الدین سمیت ہزاروں سامعین کی زندگی کا نصب العین بن گیا۔ اس ضمن میں سید صاحب قائداعظم سے تعلق کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ قائداعظم نے تحریک کےلیے مالی تعاون، چندے کی اپیل کی۔ انہوں نے کم عمری کے باوجود دوستوں اور رشتے داروں سے مہماتی انداز میں چندہ جمع کیا۔ اس رقم کو منی آرڈر کے ذریعے قائداعظم تک پہنچایا۔ جواب میں قائداعظم نے انہیں رقم کی وصولی کی اپنی دستخط شدہ رسید بھیجی۔ یہ رسید قائد کی نشانی طور پر ان کےلیے کسی بیش بہا سرمایہ کی مانند طویل عرصے سنبھلی رہی۔
بلاشبہ یہ قائداعظم کی عظیم الشان قیادت ہی تھی کہ ان کے پرچم تلے شیعہ، سنی، بریلوی، پنجابی، بنگالی، بہاری، بلوچی، سندھی، پٹھان، امیر، غریب... سب صرف اور صرف مسلمان اور امتِ مسلمہ تھے۔
''پاکستان کا قیام جس کےلیے ہم گزشتہ دس سال سے مسلسل کوشش کررہے تھے۔ اللہ کے فضل سے اب ایک حقیقت بن کر سامنے آچکا ہے۔ لیکن ہمارے لیے اس آزاد مملکت کا صرف قیام مقصود نہیں تھا، بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ تھا۔ یہ کہ ہمیں ایک ایسی مملکت مل جائے جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں، اور اپنی روشنی اور ثقافت کے مطابق نشوونما پاسکیں۔ اور جہاں اسلام کے عدلِ انسانی کے اصول آزادانہ طور پر رو بہ عمل لائے جاسکیں۔'' (خالق دینا ہال میں حکام کے سامنے تقریر، اکتوبر 1947)
قائداعظم اپنی بے مثال قیادت کے نتیجے میں ''پاکستان'' کی صورت میں آج بھی زندہ ہیں۔ فرقہ پرستی، نسل پرستی، مفاد پرستی، کرپشن، ظلم اور فساد کے ناسوروں سے چُور یہ زندگی اپنے محسنوں سے اپنی ''روح'' کی طلبگار ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔