کیا میں غدار ہوں
امریکی فوجی ’ ٹیری ہولڈ بروکس‘ کا سوال جس نے مسلمان قیدیوں پر مظالم دیکھ کر اسلام قبول کر لیا
KARACHI:
مسلمانوں کو شدت پسند اور اہل مغرب کو روشن خیال سمجھنے والوں کو ٹیری ہولڈ بروک کی گوانتاناموبے کے قیدیوں پر لکھی گئی کتاب'' ٹریٹر'' کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
ٹیری ہولڈ بروک جن کا موجودہ نام ' مصطفیٰ عبداللہ ' ہے،کی کتاب '' ٹریٹر'' یعنی غدار امریکیوں کی بے حسی، لاقانونیت، ظلم، جہالت اور مسلمان قیدیوں کے ایمان، صبر، ذہانت اور مظلومیت کی بہترین عکاس ہے۔ اختلاف اور ناپسندیدگی جب حد سے بڑھ جائے تو نفرت اور تعصب بن جاتے ہیں۔ اس کتاب سے یہ پتا چلتا ہے کہ تعصب تباہی ہے خواہ وہ فرد کا ہو، قوم کا ہو، یا کسی مذہب، فرقے اور نسل سے ہو۔
گوانتا نامو بے میں امریکیوں کی مسلمان قیدیوں پر مظالم کی وجہ تفتیش کم اور اسلام سے نفرت زیادہ تھی۔ قیدیوں کو اذیت دینے کے ایسے ایسے طریقے دریافت کئے جاتے جو عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ کوئی بھی شخص اس عقوبت خانے میں چند دن گزار کر باہر آنے پر نارمل نہیں رہ سکتا لیکن یہی بُرے دن ٹیری کے اندر ایمان کی روشنی پھیلنے کا باعث بنے۔
' گوانتا نامو بے ' ایک ایسا نام ہے جس کے ذہن میں آتے ہی تشدد کی ان گنت داستانیں ذہن میں آتی ہیں۔ جنھیں پڑھنا، سننا اور بیان کرنا ، ناقابل برداشت ہے۔ یہ ایک ایسا جیل خانہ ہے جس کے بارے میں عالمی سطح پر بہت سی انسانی حقوق کی تنظیموں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ریڈ کراس نے رپورٹس تیار کیں اور وہاں انسانوں پر ہونے والے غیر انسانی سلوک کے خلاف آواز اٹھائی۔
تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان قیدیوں پر نہ تو کوئی کیس بنائے جاتے، نہ مقدمے چلائے جاتے اور نہ انہیں کسی طرح کی وکالت یا عدالت کی سروس دی جاتی تھی، خواہ وہ بالکل بے گناہ ہوں محض امریکیوں کے شک کی بنا پر قید کئے جانے پر انہیں صبح و شام تفتیش اور تشدد کے مراحل سے گزرنا پڑتا۔ امریکہ میں درد دل رکھنے والے لوگوں نے اس جیل کو بند کرنے کے لئے احتجاجی مظاہرے بھی کئے، لیکن دنیا کی بہت ساری نا انصافیوں کی طرح اس کی بھی شنوائی نہیں ہوئی۔ اوباما اور ٹرمپ کے دور میں یہاں کے بہت سارے قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے لیکن اس قیدخانے کو بند نہیں کیا جا سکا۔
ٹیری ہولڈ بروک نے گوانتا نامو بے کے لئے ایک اصطلاح استعمال کی ہے '' دنیا کی بغل'' جو کافی مشہور ہوئی اور ان کے انٹرویوز میں اس کا ذکر کیا جاتا رہا۔ '' دنیا کی بغل'' سے ٹیری کی مراد ایک اندھیری، بد بو دار، ناپسندیدہ جگہ ہے۔ اس نام سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر بیزار کن اور بُری جگہ ہوگی۔
ٹیری نے اپنی ٹریننگ سے ملازمت اور برطرفی تک کے حالات قلم بند کئے ہیں۔ ٹریننگ کے آغاز میں ہی ان لوگوں کا ذہن اسلام، مسلمانوں، بالخصوص گوانتا نامو بے میں قید مسلمانوں کے خلاف اس طرح تیار کیا جاتا تھا جیسے دنیا کے سب سے برے، جاہل، ظالم اور بے رحم لوگ وہاں قید ہیں۔
'' ہماری ٹریننگ کا آغاز ہمیں گراؤنڈ زیرو لے جا کر کیا گیا۔ ہمیں نائن الیون میں مرنے والوں کے نام اور ان کے لواحقین کے پیغامات دکھائے گئے، اس کے بعد ٹریننگ کا ہر لمحہ ہمارا دماغ پوری طرح نفرت اور تعصب سے بھر ا جاتا ہمیں اسلام اور مسلمانوں کی تہذیب کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ صرف مسلمانوں کے خلاف ہماری برین واشنگ کی گئی۔ ان کے لئے جو الفاظ استعمال کئے جاتے ان سے نفرت اور حقارت ٹپکتی جیسے '' تولیوں کے سر والے'' ، '' اونٹ چرانے والے''، '' ریت میں رہنے والے'' ، " اجڈ کسان'' اس کے علاوہ '' القاعد ہ '' اور '' طالبان '' کو '' برے ترین '' ، '' تخریب کار'' ، '' شدت پسند'' کے ناموں سے یاد کیا جاتا۔
مجھے یاد ہے کہ ٹریننگ کے دوران اس طرح کی آوازیں کانوں میں پڑتیں کہ ان کی زمین کو ملیا میٹ کر دینا چاہیے، ان تولیا لپٹے سر والوں پر بم گرا نا چاہیے۔ اس طرح کی گفتگو سے یہ ثابت کرنا مقصد تھا کہ ہم مڈل ایسٹ اور اسلام کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور اسلام اور تشدد ہم معنی الفاظ ہیں ۔
آفیسرز ہمیں بار بار یاد کرواتے کہ مسلمان بہت ظالم لوگ ہیں، ہم سے شدید نفرت کرتے ہیں، اپنی عورتوں کو مارتے ہیں، آزاد ی سے نفرت کرتے ہیں، چوروں کے ہاتھ کاٹتے ہیں، اگر تم شراب پیو تو تمہیں قتل کر د یتے ہیں۔ یہ لوگ اپنا نفرت انگیز مذہب پھیلانے کے لئے خود کو اور دوسروں کو اڑا دیتے ہیں۔ یاد رکھنا ! یہ انسان نہیں ہیں، نفرت سے بھری برائی ہیں جو تمہیں مارنے کے در پے ہیں۔ ''9/11 مت بھولنا ، اپنی ان کے ساتھ جنگ کا مقصد مت بھولنا۔''
اس وقت مجھے اس چیز کا احساس نہیں تھا کہ اس ٹریننگ کا مقصد بغیر دماغ اور بغیر سوال کے فوجی تیار کرنا تھا کیونکہ سوچ سے عاری، سوال سے خالی فوجی کسی مشن کی تکمیل کے لئے بہترین ہوتے ہیں۔ '' ٹریننگ'' کے دوسرے ہفتے میں قائل ہو گیا تھا کہ یہ ٹریننگ ہماری گوانتا نامو بے تقرری کے نتیجے میں تباہی کے لئے ضروری اجزائے ترکیبی تھے۔''ہمیں اسلام اور مسلمانوں کے رہن سہن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔ ہم بالکل بھی ان 774 گوانتا نامو بے کے قیدیوں کے لئے تیار نہیں تھے جو کہ باقاعدہ مذہب پر کارآمد تھے۔ (صفحہ 27)
تعجب ہے کہ فوج اتنا پیسہ، وقت اور طاقت ہمیں ان برے ترین لوگوں کی نگرانی پر قائل کرنے کے لئے کیوں لگاتی ہے، اسلام ہمارا دشمن ہے اور ہم طالبان ، القا عد ہ اور بن لادن کے ڈرائیوروں اور باورچیوں کی نگرانی کریں۔ میرا خود سے سوال تھا کہ انہوں نے اتنی کوشش کیوں کی ہمیں یہ بتانے کے لئے کہ یہ لوگ موقع ملتے ہی ہمیں مار دیں گے؟ یہ سوال میرے دماغ میں اس دیوار کے پیچھے تھے جس پر لکھا تھا کہ'' اپنے سینیئر سے سوال مت کرو۔'' (صفحہ 28)
کتاب میں جزئیات نگاری سے قیدیوں اور انتظامیہ کے رویے، قیدیوں کی ضروریات، احساسات، جذبات کے اظہار کے علاوہ کہیں کہیں گہرا طنز بھی نظر آتا ہے۔ مثلاً جب کیوبا میں ڈرائیور ان لوگوں کو گوانتا نامو بے کی طرف لے جا رہا ہوتا ہے تو راستے میں سڑک پر بہت سے مقامی جانور اور پودے جیسے کہ Banana Rat, iguanas, fallen cacti. خرگوش جتنے چوہے، بہت بڑی چھپکلیاں اور تھور کے پودے اچانک گاڑی کے سامنے آ جاتے جن کی وجہ سے ٹریفک میں رکاوٹ پڑتی تو ڈرائیور نے بہت محتاط ڈرا ئیونگ کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں حکام بالا کی طرف سے ان جانوروں اور پودوں کو نقصان نہ پہنچانے کا حکم ہے، گویا مسلم جانیں ان جانوروں سے بھی زیادہ سستی تھیں ۔
'' وہ توجہ جو فوج ان کیڑوں مکوڑوں کی حفاظت پر صرف کرتی ہے زمیں کے اس تنہا، بنجر ٹکڑے پر پنجروں میں بند انسا ن اس سے کہیں کم توجہ سے بھی محروم ہیں ۔'' (صفحہ 32) ۔ آگے جا کر ٹیری کیوبا کی خوبصورتی کا گوانتاناموبے کی بدصورتی سے موازنہ کرتا ہے جو اس بات کی طرف مبہم اشارہ ہے کہ زمیں بھی برائی اور ظلم کا شکار ہو تو نحوست اور اجاڑپن کا منظر پیش کرنے لگتی ہے ۔
ٹیری اور اس کے ساتھی فوجیوں کو گوانتا نامو کے سارے بلاکس کا دورہ کرنے پر پتا چلا کہ یہ عام جیلوں سے کہیں زیادہ محفوظ تھی اور قیدیوں سے بھی کئی گنا زیادہ بدتر سلوک کیا جاتا ۔ پہلے ہی دن ٹیری نے برطانوی تلفظ کے حامل مسلمان قیدی '' راحل احمد '' کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ ٹریننگ کے دوران ان سے بہت جھوٹ بولے گئے ہیں کہ قیدی بہت خطرناک، جاہل اور تخریب کار ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیری کا اندازہ یقین میں بدل گیا جب اس نے بہت سے پڑھے لکھے،انتہائی ذہین اور آرٹسٹ مزاج قیدیوں سے گفتگو کی۔ اکثر جیل کے قیدیوں کے نام ان کی شخصیت کے مطابق رکھ دئیے جاتے، مثلاً '' پروفیسر''۔
پروفیسر بہت قابل شخص تھا، اسے چھ زبانوں پر عبور تھا، وہ ٹیری سے عربی میں بات کرتا لیکن جہاں دیکھتا کہ ٹیری کو سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے تو فوراً بڑی روانی سے انگلش بولنے لگتا۔ اس نے ٹیری کو بتایا کہ اس کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ اس کی ذہنی بیمار بیوی اور چار بچے ہیں جن کی طرف سے وہ بہت فکر مند رہتا ہے۔ اسے اغوا کر کے افغانستان پہنچایا گیا اور وہاں سے گوانتا نامو بے۔ کیونکہ وہ ایک فلاحی تنظیم '' الحرمین فاؤنڈیشن'' کے لئے کام کرتا تھا۔ جس پر شک کیا جاتا تھا کہ وہ القا عد ہ کو فنڈز مہیا کرتی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ میں نے القاعدہ کا نام صرف خبروں میں سنا تھا یا یہاں آکر سنا ہے''۔
قیدیوں سے تفتیش کے دوران تشدد کیا جاتا ہے لیکن گوانتا نامو میں قید مسلمانوں کو تکلیف دینا امریکیوں کے لئے تفریح طبع، وقت گزاری کے علاوہ ان سے شدید نفرت، کینہ، تعصب اور ذاتی عناد تھا۔ مسلمان قیدیوں کو صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی، نفسیاتی، جذباتی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ، تشدد کے ایسے طریقے ایجاد کیے جاتے جن تک عام انسان کی سوچ نہیں پہنچ سکتی۔ ان
کے جسموں کو زیادہ سے زیادہ تکلیف دہ پوزیشن میں زنجیروں سے باندھ دیا جاتا اور گھنٹوں ان کو اسی پوزیشن میں رکھا جاتا ، ان کے سیل میں ناقابل برداشت حد تک گرمی اور سردی کر دی جاتی اور اکثر بہت اونچی آواز میں میوزک چلایا جاتا جو بارہ بارہ گھنٹے چلتا۔
ٹیری لکھتا ہے کہ کوئی ایسا گانا یا سنگر جو کبھی میرا پسندیدہ تھا اسے اس جیل میں اتنا سننا پڑا کہ اس سے بیزاری ہو گئی۔
امریکی اپنی اعلیٰ ظرفی ثابت کرنے کے لئے قیدیوں کو حلال کھانا مہیا کرتے اور پانچ وقت آذان کی ریکارڈنگ چلاتے جو کافی برے ساؤنڈ سسٹم کے تحت چلائی جاتی لیکن پھر بھی وہ آواز قیدیوں کے لئے سکون کا باعث بنتی۔ ٹیری کے فرائض میں ایک یہ بھی تھا کہ قیدی کو اس کی کوٹھڑی سے تفتیشی مرکز تک لے جانا اور پھر واپس لے کر آنا۔ تفتیش سے ٹیری کا کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا اس
کے باوجود اسے ان گنت تکلیف دہ باتوں کا علم ہو جاتا تھا۔ '' اسلام میں مشکلات کو اللہ کی طرف سے آزمائشیں سمجھا جاتا ہے، گوانتا نامو بے قیدیوں کے لئے سب سے بڑا آزمائش خانہ تھا۔''( 107) '' برے سے بد ترین تک'' کے عنوان سے باب میں ایک نوجوان کا ذکر ہے جو امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور اسے شک میں پکڑا گیا تھا۔ ایک دن جب وہ تفتیشی کمرے سے باہر نکلا تو رو رہا تھا، اس کے چہرے پر خون لگا تھا ۔
اس ساری کتاب میں کسی دوسری جگہ بُرے سے بُرے جسمانی تشدد پر ٹیری نے کسی قیدی کے رونے کا ذکر نہیں کیا ، سوائے اس نوجوان کے ۔ اسے تین دن تک منہ دھونے ، نہانے اور کسی بھی طرح پانی استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ گارڈ ز کو آرڈر تھا کہ اس کے غسل خانے کا پانی بند رکھا جائے ۔ ٹیری نے تفتیش کے بعد اس کے کمرے سے ایک عورت کو بہت خوشی خوشی نکلتے دیکھا تھا جس کے ساتھ ایک رپورٹر بھی تھا اور وہ اسے اس طرح کے قیدیوں کے لئے اپنی پیش کی جانے والی خدمات کے متعلق بتا رہی تھی۔
بعد میں ٹیری کو اپنے ساتھیوں سے پتا چلا کہ پکے مسلمانوں کو جنسی طور پر ٹارچر کرنے کے لئے ایسی عورتوں کو بلایا جاتا ہے جو ان کے ایمان کو متزلزل کرنے کے لئے ہر طرح کی بے ہودگی اور زبردستی کرتی ہیں، قیدی کو زنجیروں سے باندھ رکھا ہوتا ہے اس لئے وہ بہت مزاحمت کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اس قیدی کے اپنا ایمان بچانے کی ہر کوشش کے بعد وہ عورت اس کے منہ پر نجس خون مل کر چلی گئی ۔ اسی لئے ایک نمازی، پرہیز گار نوجوان روتا ہوا باہر نکلا کہ وہ اس غلاظت کو دھو بھی نہیں سکتا تھا ۔ یہ سارا واقعہ اس رپورٹر کی رپورٹنگ کے بعد میڈیا پر بھی ہائی لائٹ ہوا تھا۔ ( صفحہ 108)
ٹیری لکھتا ہے کہ ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح مسلم قیدیوں کو اندر سے توڑا جائے، انہیں کمزور کیا جائے ۔ اس مقصد کیلئے وہ انہیں معصوم بچوں اور مسلمان عورتوں پر ظلم اور ریپ کی و ڈیوز دکھاتے ۔ انہیں چیختی ہوئی مدد کے لئے پکارتی عورتوں کی آ ڈیوز سنواتے اور یہ کہتے کہ یہ تمہاری بیوی ہے جب ہم اسے ریپ کر رہے تھے یا مار رہے تھے ۔ مسلمان کے لئے داڑھی کی اہمیت کے پیش نظر اکثر قیدیوں کی داڑھی شیو کردی جاتی اور سر مونڈ دئیے جاتے ۔ '' میں آرمی کو جتنا سمجھا وہ یہ کہ ان میں ہمدردی اور رحم کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا ۔''( صفحہ 118)
ٹیری کے لاشعور میں ہر وقت موازنہ اور مکالمہ چلتا رہتا جس نے بالآخر انہیں اسلام کی حقانیت پر لا کھڑا کیا۔ وہ امریکی قیدیوں کا مسلمان قیدیوں سے موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' میں نے کیمپ 4 میں مسلمان قیدیوں کو قرآن پڑھتے دیکھا تھا، وہ بہت خوش رہتے اور مسکراتے رہتے کہ وہ گوانتا نامو بے جیسی جگہ پر اپنا وقت بہترین طریقے سے گزار رہے ہیں ۔ وہ مسکراتے ہوئے اٹھتے، اپنے ایمان کے ساتھ جڑے رہتے، ایک دوسرے کی مدد کے لئے تیار رہتے اور ایک گروہ کی طرح کام کرتے۔ یہ سب مجھے دو طرح سے حیران کرتا کہ اسلام میں ایسا کیا ہے جو انہیں اس طرح زندگی گزارنے میں مدد دیتا ہے اور دوسرا یہ کہ اگر 778 امریکی عیسائی پکڑے جاتے اور مشرق وسطیٰ کی کسی تاریک جیل میں اس طرح بے چار گی میں پڑے ہوتے تو ان کا روزمرہ زندگی میں کیا رویہ ہوتا۔
یقیناً ان سے اس طرح کی باتیں سننے کو ملتیں: '' تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے، میں امریکی ہوں۔''
'' تم اس کی ادائیگی کرو گے ۔''
اور یہ کہ میرا ملک مجھے بچانے آئے گا اور تمھیں مزہ چکھائے گا۔ اور اس طرح کے ابتدائی غصے کے بعد ان کی ملتجیانہ غمناک صدائیں نکلتیں : کیوں میں ہی کیوں؟ میرے ساتھ ہی خدا نے ایسا کیوں کیا؟ اور اس کے بعد کچھ ایسا کہتے کہ نہیں یقیناً کوئی خدا
ہے ہی نہیں ورنہ مجھے یہاں نہ ڈال دیا جاتا ۔''( صفحہ نمبر 56، 57)
گندگی میں پاکیزگی، اور شیطانی جگہ پر روحانی عروج کیسے ملتا ہے؟ یہ ٹریٹر کو پڑھنے کے بعد پتا چلتا ہے۔ ''جمعہ کا دن تھا، ہمیں اچانک حکم ملا کہ ایک قید تنہائی کے قیدی کو تفتیشی کیمپ میں منتقل کرنا ہے۔ ہم اس کی بیڑیاں وغیرہ تیار کر رہے تھے کہ ایک مخصوص جانی پہچانی اذان کی آواز آئی کسی گھڑیال کی طرح۔ جب نمازی اپنی جائے نماز پر نماز میں گھٹنوں پر جھکا تو سمٹی ( Smitty) غصے سے پھٹ پڑا، فوراً کھڑے ہو جاؤ لعنتی! قیدی کا قرآن اس کے پاس پڑا تھا، جب وہ سجدہ کر رہا تھا تو سمٹی نے قرآن اٹھایا اور قیدی کے سر پر مارا ، '' لعنتی! کھڑے ہو جاؤ، میں ہر روز کے اس شور ( یعنی اذان) سے تنگ ہوں تم سب لوگ اس سے اکتاتے نہیں ہو ، ہر روز ایک ہی گانا یا نظم سن سن کر انسان پاگل ہو جاتا ہے، اب اٹھ جاؤ فوراً ورنہ یہ تمہاری کتاب ٹائلٹ میں جائے گی جہاں تم روز بیٹھتے ہو، جنرل! ( قیدی کا الٹا نام) سنا تم نے؟ نمازی نماز جاری رکھتا ہے، اونچی آواز آتی ہے:
سمع اللہ لمن حمدہ ( اللہ سنتا ہے جو اس کی تعریف بیان کرتا ہے) ربنا لک الحمد ( اے ہمارے رب سب تعریف تیرے لئے ہے) ۔
قرآن کو ٹائلٹ میں پھینک دیا جاتا ہے، سمٹی پانی کا لیور نیچے کھینچتا ہے، مائیکل نفرت سے قرآن کو ٹائلٹ سے نکالتا ہے ہم جلدی
سے قیدی کو زنجیروں میں جکڑنا شروع کر دیتے ہیں جو اتنی ہڑبونگ میں نماز توڑ چکا تھا۔ ( صفحہ67)
اس کتاب کو پڑھ کر اسلام کے بارے میں بہت سی ایسی باتیں پتہ چلتی ہیں جو پیدائشی مسلمان نہیں جان سکتے ۔ ٹیری کے اندر اسلام قطرہ قطرہ کر کے ٹپکا تھا ۔ ٹیری کو مسلمان قیدیوں کا کسی ذات پر اندھا یقین بہت متاثر کرتا تھا جو انہیں مشکل سے مشکل حاالت میں مایوس نہیں ہونے دیتا تھا۔ اسے اپنے اندر ہمیشہ سے اس یقین کی ، کسی منزل اور زندگی کے مقصد کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ ٹیری کو اتنے تکلیف دہ حالات میں ان قیدیوں کا سکون بے سکون کر دیتا، وہ ان جیسا سکون پانے کے لئے ان کی طرف کشش محسوس کرتا ۔
'' میرے پاس آزادی تھی لیکن میں ہر صبح بے سکون اٹھتا ،جبکہ یہ لوگ پنجروں میں قید پانچ وقت کی نماز پڑھتے اور مسکراتے رہتے ۔''
ٹیری کہتا ہے کہ گوانتا نامو بے میں تعیناتی سے پہلے وہ اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ پہلے پہل قیدیوں سے گفتگو کا مقصد ان کے مذہب کو جاننے کا تجسس تھا، گفتگو کی خاطر اور ان کے مذہب کو جاننے کے لئے اس نے عربی سیکھنا شروع کی، قیدیوں کے حالات، ان کے مذہب کو جان لینے کے بعد ٹیری جیسے سچے اور سکون کے متلاشی شخص کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اسلام قبول نہ کرتا ۔
ٹیری کو سگریٹ اور شراب کی عادت تھی لیکن قرآن کے مطالعے کے بعد اسے مسلمان قیدیوں سے اسلام کے متعلق گفتگو کا نشہ لگ گیا تھا، کتاب کے آخری ابواب میں ایسا لگتا ہے کہ یہ گفتگو ٹیری کے لئے آکسیجن جیسی اہمیت رکھتی تھی اور اس کے نتیجے میں اسے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ساتھی گارڈز کی تنقیدی نظریں اور سینئرز کا بہت سخت رد عمل سہنا پڑا ۔
'' میری قیدیوں سے گفتگو کو مانیٹر کیا جانے لگا ۔ رفتہ رفتہ میری شفٹس بڑھا کر مجھ پر کام کا اتنا بوجھ ڈال دیا جاتا کہ مجھے کسی قیدی سے فالتو بات کرنے کی فرصت ہی نہ ملے ۔''
''ہمدردی غداری کی علامت ہے۔''
'' وہ لوگ نہیں، قیدی ہیں ۔''
'' اگر تم انہیں پسند کرتے ہو تو ہم تمہیں ان کے ساتھ لاک اپ میں بند کر دیتے ہیں ۔''
'' میں تمہاری کھوپڑی ( گندی گالیاں) سے طالبان کو باہر نکال دوں گا ۔''
'' تم ان گندگی کی تھیلیو ں سے نفرت کیوں نہیں کرتے وہ امریکیوں کے لئے قابل نفرت دہشت گرد ہیں اور کچھ بھی نہیں، اگر تم مجھے کوئی ایک وجہ ان سے نفرت نہ کرنے کی نہیں دیتے تو میں تمہارا ۔۔۔۔ (آگے گندی گالیاں)۔
بہت ساری گفتگو کے بعد سینیئر گروپ نے ٹیری کو جسمانی اور نفسیاتی زد و کوب کیا صرف اس جرم پر کہ وہ مسلمان قیدیوں سے ان کے بارے میں اور اسلام کے بارے میں گفتگو کر لیتا تھا۔ ( صفحہ نمبر122)۔
اپنے اسلام قبول کرنے میں ٹیری نے جو بہت بڑی کشش بتائی ہے وہ اسلام کے اندر ڈسپلن اور باقاعدگی کا ہونا ہے۔ یہ ایک ایسی خصوصیت تھی جو ٹیری کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ یہی بات اسے ڈیوڈ ہکس کی باتوں سے بھی پتا چلی کہ اسے بھی اسلام کا منظم مذہب ہونا بہت پسند تھا۔ پانچ ماہ میں ہر مسلمان قیدی نے مجھے اپنی بے گنا ہی کی کہانی سنائی یہاں تک کہ ان کی حکومتوں کے پاس ان کی بے گنا ہی کے ثبوت موجود تھے، وہ کسی مشکوک جگہ سے بندوقوں کے ساتھ گرفتار نہیں کئے گئے تھے۔ ایک شخص جس نے بڑے آرام سے میرے سامنے اعتراف کیا کہ ہاں ! وہ طالبان کی طرف سے نیٹو کی افواج کے خلاف لڑتا رہا ہے، وہ ایک آسٹریلوی گورا شخص تھا '' ڈیوڈ ہکس'' جس نے بعد میں اسلام قبول کیا۔ پہلے جب وہ لڑا تو اس کا مقصد مذہب کے لئے لڑنا نہیں تھا ۔
اس کے بقول '' کچھ لوگوں کے ساتھ کوئی ان کا دفاع کرنے والا نہیں ہوتا۔'' میں نے سمجھا کہ یہ میری اخلاقی ڈیوٹی ہے کہ میں مظلوم اور دبے ہوئے لوگوں کی طرف سے لڑوں۔ اس سوچ کے تحت میں نے البانیہ کی طرف سفر کیا اور کوسووا کی طرف سے لڑا، پھر اسلام میں میری دلچسپی بڑھی اور میں مزید اسلام کو سمجھنے کے لئے پاکستان گیا اور پھر اسلام قبول کرنے کے بعد طالبان کے لئے لڑا اور گرفتار ہو کر گوانتا نامو بے آیا۔''( صفحہ 104)
جنرل جس کا نام احمد الرشیدی تھا اس نے ٹیری کو اسلام کے سمجھنے میں بہت مدد کی اور بالآخر ایک رات ٹیری نے اسے کہا کہ '' مجھے کلمہ پڑھا دو۔'' یوں وہ مسلمان ہو گیا۔ قیدی بھائیوں نے اسے '' مصطفیٰ '' کہنا شروع کر دیا۔ ٹیری کا قیدیوں کے ساتھ بہت نرم رویہ تھا۔ وہ اس کے لئے دوست اور بھائیوں جیسے تھے۔ ان میں سے کچھ قیدی رہا ہونے کے بعد ٹیری یعنی مصطفی سے رابطے میں ہیں جیسے کہ احمد الرشیدی۔
2004 ء میں ٹیری کی گوانتا نامو بے سے ڈیوٹی ختم ہو گئی۔ کچھ عرصہ اس نے فوج میں کام کیا لیکن جلد ہی اسے ذہنی مریض کہہ کر فوج سے فارغ کر دیا گیا۔ ٹیری کے اعصاب پر جیل میں گزارے دنوں کا بہت برا اثر تھا ، وہ شدید ڈپریشن میں چلا گیا تھا۔ پھر اس نے تھراپسٹ کے مشورے پر میڈیا سے رابطہ کیا اور گوانتا نامو بے کے تکلیف دہ حقائق سے عوام کو آگاہ کیا۔ اس کے انٹرویو لئے گئے اور جہاں لوگوں میں اسے پذیرائی ملی وہاں قتل کی دھمکیاں ملیں اور غداری کے الزام بھی لگے۔ اس نے2013 میں '' ٹریٹر'' کے نام سے کتاب لکھ کر عوام کے سامنے یہ سوال رکھا کہ اگر میں ہیرو اور محب وطن نہیں ہوں تواس کا یہ مطلب ہے کہ میں غدار ہوں ؟
'' ٹریٹر'' کے بارے میں کچھ مزید
عبید اللہ عبید
ٹیری سی ہولڈبروکس جونئیر جب امریکی فوج میں بھرتی ہو رہا تھا تو اس کی آنکھوں میں بہت سے خواب جگمگا رہے تھے، مثلاً وہ ایک اچھا امریکی بننا چاہتاتھا، شاندار کیرئیر کا حامل ایک فوجی اور ایک اچھا انسان بھی۔ تاہم اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی اسلام قبول کرے گا، کیونکہ وہ خدا کے وجود پر یقین ہی نہیں رکھتا تھا ۔ وہ شراب کا رسیا تھا، تیز راک میوزک سنتا تھا، اس کا جسم ٹیٹوز سے بھرا ہوا تھا۔ پھر ایک نصف شب اس نے ایک قیدی کی معیت میں اسلام قبول کر لیا اور اسی قیدی کو اپنا نگران بھی مان لیا ۔ ٹیری ہولڈبروکس جیسا شخص کیسے اچانک مکمل طور پر تبدیل ہو سکتا ہے؟ یہی بات مغرب میں رہنے والوں بالخصوص امریکیوں کے لئے نہایت حیران کن ہے۔
جب ٹیری ہولڈ بروکس نے امریکی فوج میں بھرتی ہونے، گوانتا نامو بے میں ڈیوٹی کے لئے دو ہفتے کی تربیت پانے، پھر دنیا کے اس بدترین قید خانے میں فرائض ادا کرنے سے لے کر حلقہ بگوش اسلام ہونے تک کی داستان '' ٹریٹر '' کے عنوان سے لکھی تو یہ کتاب بہت زیادہ پڑھی گئی اور پسند کی گئی۔ ' امازن' پر 87 فیصد پڑھنے والوں نے اسے فائیو سٹار ریٹنگ دی، نو فیصد نے فور سٹار اور چار فیصد نے تھری سٹار ۔ دوسرے الفاظ میں 87 فیصد لوگوں نے اس کتاب کو شاندار قرار دیا۔ لوگوں نے اس کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کئے ، وہ حیران کن ہیں۔ وہ ایک الگ مضمون کے متقاضی ہیں ۔
یہ کتاب عکاسی کرتی ہے کہ '' دہشت گردی کے خلاف جنگ '' کے امریکا میں اور امریکا سے باہر کیسے اثرات مرتب ہوئے۔ کتاب لکھنے والا گوانتا ناموبے میں فرائض کی ادائیگی کے دوران میں سوچتا رہا کہ پنجروں میں قید مسلمان قیدی واقعی امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں؟ اس کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ کیا ایک اچھا امریکی ، مسلمان نہیں ہو سکتا؟ ایک نچلے درجے کے امریکی فوجی کے ذہن میں ان سوالات نے طوفان بپا کئے رکھا لیکن تاریخ اور شماریات کا بہترین علم رکھنے والے امریکی دانش وروں نے ان سوالات کے جوابات نہیں دیے، نتیجتاً انہی سوالات کے جوابات کی تلاش ٹیری ہولڈبروکس کو مسلمانوں اور پھر اسلام کی طرف لے گئی۔
سینتیس سالہ ٹیری ہولڈبروکس کا تعلق امریکی ریاست اریزونا سے ہے، سات برس کا تھا کہ والدین میں علیحدگی ہوگئی ۔ وہ دونوں منشیات کے عادی تھے۔ پھر اپنے نانا کے ہاں پلا بڑھا ۔ والدین اور ننھیال، ہرجگہ ٹیری نے غربت اور مشکلات دیکھیں۔ وہ ان جیسی زندگی نہیں جینا چاہتا تھا چنانچہ وہ اگست 2002ء میں امریکی فوج میں بھرتی ہوا۔ اگلے سال ہی اسے گوانتا نامو بے کے قیدخانے میں تعینات کردیاگیا۔ اس کی ڈیوٹی میں شامل تھا کہ وہ قیدخانے کے اپنے حصے کی صفائی کرے گا، وہاں سے کوڑا کرکٹ اٹھائے گا ، قیدیوں کے پنجروں کے آس پاس جاکر بغور جائزہ لے گا کہ وہ آپس میں کسی چیز کا تبادلہ تو نہیں کرتے، جب تفتیش کار کہیں تو قیدیوں کو ان تک پہنچائے گا۔
ان سارے فرائض کی ادائیگی کے دوران میں ٹیری کو قیدیوں سے گفتگو کرنے کے لئے متعدد مواقع میسر آتے۔ قیدی اسے '' اچھا گارڈ '' قرار دیتے۔ قیدیوں کے ساتھ غلط رویہ اختیار نہ کرنے پر ساتھی گارڈ ٹیری کو برا بھلا کہتے۔ نتیجتاً اس کی اپنے ساتھی گارڈز کے ساتھ بول چال بند ہوگئی۔دوسری طرف ٹیری کی ایک قیدی احمد الرشیدی کے ساتھ زیادہ گفتگو ہونے لگی جو مراکش سے تعلق رکھتا تھا اور اٹھارہ برس تک برطانیہ میں '' شیف '' کے طور پر کام کرتا رہا۔اس نے ساڑھے پانچ برس گوانتاناموبے میں محض اس ایک الزام کے تحت گزارے کہ اس نے القاعدہ کے ٹریننگ کیمپس میں شرکت کی۔ بعدازاں یہ الزام بھی جھوٹا ثابت ہوا۔
ٹیری کہتا ہے:'' ہم گھنٹوں گفتگو کرتے ، کتابوں کا تذکرہ کرتے، موسیقی پر گپ شپ کرتے ، فلسفہ پر بحث کرتے، ہم ساری ساری رات مذہب پر بات چیت کرتے۔''
یہاں محض چھ ماہ کی ڈیوٹی نے ٹیریکی قلب و نظر کی دنیا ہی بدل دی۔ امریکی فوجی افسران نے اسے مسلمان قیدیوں کے بارے میں جو کچھ بتایا تھا، وہ سب کچھ غلط ثابت ہورہاتھا۔ مسلمان بالکل مختلف نکلے۔ وہ ان کے چنانچہ چھ ماہ بعد ،29دسمبر2003ء کو ٹیری نے اسلام قبول کرلیا ، شراب پینا ترک کردی حتیٰ کہ موسیقی سننا بھی۔ ٹیری نے بتایا:'' ساتھی گارڈز کی نظروں سے بچ کر پانچ وقت نماز پڑھنا مشکل ہورہا تھا چنانچہ میں ان سے کہتا کہ میں واش روم جارہاہوں۔''
اس قید خانے میں ٹیری نے جو کچھ دیکھا، اس نے اسے شدید نفسیاتی مسائل کا شکار کردیا۔ قبول اسلام کے بعد ٹیری کی اپنی زندگی قیدیوں سے زیادہ مشکل ہوگئی۔ وہ مختلف انداز میں وقت کو پرلطف بنالیتے تھے، گارڈز حتیٰ کہ تفتیش کاروں کے ساتھ چھیڑخانی کرتے رہتے تھے۔ قیدیوں کو اپنے قیدخانے کے اندر کافی آزادی حاصل تھی۔ یہاں ٹیری قیدیوں کی آزادی فکر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ٹیری کہتا ہے :'' مجھے وہ تمام آزادیاں حاصل تھیں جو قیدیوں کو نہیں تھیں تاہم میں ایک غلام تھا جسے وہی کچھ کرنا تھا جو امریکی فوج چاہتی تھی۔''
2004ء میں اسے یہاں سے واپس بھیج دیا گیا اور پھر اسے '' جنرل پرسنیلیٹی ڈس آرڈر'' کی بنیاد پر امریکی فوج ہی سے نکال دیا گیا۔ وہ اس قدر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوا کہ بیوی نے بھی اسے چھوڑ دیا۔ اب وہ ایک بار پھر شراب، شباب اور موسیقی والی زندگی کی طرف پلٹ گیا۔ گوانتا نامو بے میں اس نے جو تکلیف دہ چیزیں دیکھی تھیں وہ اسے شدید عذاب میں مبتلا کر رہی تھیں ۔ بہرحال اس نے اپنے آپ سے جنگ کی اور گوانتاناموبے کے مشاہدات کو اپنے دماغ سے نکال کر کتاب میں منتقل کیا ۔ اس نے اپنی تعلیم کا سلسلہ مکمل کیا ، اریزونا یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ڈگری حاصل کی ۔ اب ٹیری ہولڈ بروکس گوانتاناموبے کا قیدخانہ بند کرانے کی مہم چلا رہا ہے ۔
مسلمانوں کو شدت پسند اور اہل مغرب کو روشن خیال سمجھنے والوں کو ٹیری ہولڈ بروک کی گوانتاناموبے کے قیدیوں پر لکھی گئی کتاب'' ٹریٹر'' کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
ٹیری ہولڈ بروک جن کا موجودہ نام ' مصطفیٰ عبداللہ ' ہے،کی کتاب '' ٹریٹر'' یعنی غدار امریکیوں کی بے حسی، لاقانونیت، ظلم، جہالت اور مسلمان قیدیوں کے ایمان، صبر، ذہانت اور مظلومیت کی بہترین عکاس ہے۔ اختلاف اور ناپسندیدگی جب حد سے بڑھ جائے تو نفرت اور تعصب بن جاتے ہیں۔ اس کتاب سے یہ پتا چلتا ہے کہ تعصب تباہی ہے خواہ وہ فرد کا ہو، قوم کا ہو، یا کسی مذہب، فرقے اور نسل سے ہو۔
گوانتا نامو بے میں امریکیوں کی مسلمان قیدیوں پر مظالم کی وجہ تفتیش کم اور اسلام سے نفرت زیادہ تھی۔ قیدیوں کو اذیت دینے کے ایسے ایسے طریقے دریافت کئے جاتے جو عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ کوئی بھی شخص اس عقوبت خانے میں چند دن گزار کر باہر آنے پر نارمل نہیں رہ سکتا لیکن یہی بُرے دن ٹیری کے اندر ایمان کی روشنی پھیلنے کا باعث بنے۔
' گوانتا نامو بے ' ایک ایسا نام ہے جس کے ذہن میں آتے ہی تشدد کی ان گنت داستانیں ذہن میں آتی ہیں۔ جنھیں پڑھنا، سننا اور بیان کرنا ، ناقابل برداشت ہے۔ یہ ایک ایسا جیل خانہ ہے جس کے بارے میں عالمی سطح پر بہت سی انسانی حقوق کی تنظیموں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ریڈ کراس نے رپورٹس تیار کیں اور وہاں انسانوں پر ہونے والے غیر انسانی سلوک کے خلاف آواز اٹھائی۔
تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان قیدیوں پر نہ تو کوئی کیس بنائے جاتے، نہ مقدمے چلائے جاتے اور نہ انہیں کسی طرح کی وکالت یا عدالت کی سروس دی جاتی تھی، خواہ وہ بالکل بے گناہ ہوں محض امریکیوں کے شک کی بنا پر قید کئے جانے پر انہیں صبح و شام تفتیش اور تشدد کے مراحل سے گزرنا پڑتا۔ امریکہ میں درد دل رکھنے والے لوگوں نے اس جیل کو بند کرنے کے لئے احتجاجی مظاہرے بھی کئے، لیکن دنیا کی بہت ساری نا انصافیوں کی طرح اس کی بھی شنوائی نہیں ہوئی۔ اوباما اور ٹرمپ کے دور میں یہاں کے بہت سارے قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے لیکن اس قیدخانے کو بند نہیں کیا جا سکا۔
ٹیری ہولڈ بروک نے گوانتا نامو بے کے لئے ایک اصطلاح استعمال کی ہے '' دنیا کی بغل'' جو کافی مشہور ہوئی اور ان کے انٹرویوز میں اس کا ذکر کیا جاتا رہا۔ '' دنیا کی بغل'' سے ٹیری کی مراد ایک اندھیری، بد بو دار، ناپسندیدہ جگہ ہے۔ اس نام سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر بیزار کن اور بُری جگہ ہوگی۔
ٹیری نے اپنی ٹریننگ سے ملازمت اور برطرفی تک کے حالات قلم بند کئے ہیں۔ ٹریننگ کے آغاز میں ہی ان لوگوں کا ذہن اسلام، مسلمانوں، بالخصوص گوانتا نامو بے میں قید مسلمانوں کے خلاف اس طرح تیار کیا جاتا تھا جیسے دنیا کے سب سے برے، جاہل، ظالم اور بے رحم لوگ وہاں قید ہیں۔
'' ہماری ٹریننگ کا آغاز ہمیں گراؤنڈ زیرو لے جا کر کیا گیا۔ ہمیں نائن الیون میں مرنے والوں کے نام اور ان کے لواحقین کے پیغامات دکھائے گئے، اس کے بعد ٹریننگ کا ہر لمحہ ہمارا دماغ پوری طرح نفرت اور تعصب سے بھر ا جاتا ہمیں اسلام اور مسلمانوں کی تہذیب کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ صرف مسلمانوں کے خلاف ہماری برین واشنگ کی گئی۔ ان کے لئے جو الفاظ استعمال کئے جاتے ان سے نفرت اور حقارت ٹپکتی جیسے '' تولیوں کے سر والے'' ، '' اونٹ چرانے والے''، '' ریت میں رہنے والے'' ، " اجڈ کسان'' اس کے علاوہ '' القاعد ہ '' اور '' طالبان '' کو '' برے ترین '' ، '' تخریب کار'' ، '' شدت پسند'' کے ناموں سے یاد کیا جاتا۔
مجھے یاد ہے کہ ٹریننگ کے دوران اس طرح کی آوازیں کانوں میں پڑتیں کہ ان کی زمین کو ملیا میٹ کر دینا چاہیے، ان تولیا لپٹے سر والوں پر بم گرا نا چاہیے۔ اس طرح کی گفتگو سے یہ ثابت کرنا مقصد تھا کہ ہم مڈل ایسٹ اور اسلام کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور اسلام اور تشدد ہم معنی الفاظ ہیں ۔
آفیسرز ہمیں بار بار یاد کرواتے کہ مسلمان بہت ظالم لوگ ہیں، ہم سے شدید نفرت کرتے ہیں، اپنی عورتوں کو مارتے ہیں، آزاد ی سے نفرت کرتے ہیں، چوروں کے ہاتھ کاٹتے ہیں، اگر تم شراب پیو تو تمہیں قتل کر د یتے ہیں۔ یہ لوگ اپنا نفرت انگیز مذہب پھیلانے کے لئے خود کو اور دوسروں کو اڑا دیتے ہیں۔ یاد رکھنا ! یہ انسان نہیں ہیں، نفرت سے بھری برائی ہیں جو تمہیں مارنے کے در پے ہیں۔ ''9/11 مت بھولنا ، اپنی ان کے ساتھ جنگ کا مقصد مت بھولنا۔''
اس وقت مجھے اس چیز کا احساس نہیں تھا کہ اس ٹریننگ کا مقصد بغیر دماغ اور بغیر سوال کے فوجی تیار کرنا تھا کیونکہ سوچ سے عاری، سوال سے خالی فوجی کسی مشن کی تکمیل کے لئے بہترین ہوتے ہیں۔ '' ٹریننگ'' کے دوسرے ہفتے میں قائل ہو گیا تھا کہ یہ ٹریننگ ہماری گوانتا نامو بے تقرری کے نتیجے میں تباہی کے لئے ضروری اجزائے ترکیبی تھے۔''ہمیں اسلام اور مسلمانوں کے رہن سہن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔ ہم بالکل بھی ان 774 گوانتا نامو بے کے قیدیوں کے لئے تیار نہیں تھے جو کہ باقاعدہ مذہب پر کارآمد تھے۔ (صفحہ 27)
تعجب ہے کہ فوج اتنا پیسہ، وقت اور طاقت ہمیں ان برے ترین لوگوں کی نگرانی پر قائل کرنے کے لئے کیوں لگاتی ہے، اسلام ہمارا دشمن ہے اور ہم طالبان ، القا عد ہ اور بن لادن کے ڈرائیوروں اور باورچیوں کی نگرانی کریں۔ میرا خود سے سوال تھا کہ انہوں نے اتنی کوشش کیوں کی ہمیں یہ بتانے کے لئے کہ یہ لوگ موقع ملتے ہی ہمیں مار دیں گے؟ یہ سوال میرے دماغ میں اس دیوار کے پیچھے تھے جس پر لکھا تھا کہ'' اپنے سینیئر سے سوال مت کرو۔'' (صفحہ 28)
کتاب میں جزئیات نگاری سے قیدیوں اور انتظامیہ کے رویے، قیدیوں کی ضروریات، احساسات، جذبات کے اظہار کے علاوہ کہیں کہیں گہرا طنز بھی نظر آتا ہے۔ مثلاً جب کیوبا میں ڈرائیور ان لوگوں کو گوانتا نامو بے کی طرف لے جا رہا ہوتا ہے تو راستے میں سڑک پر بہت سے مقامی جانور اور پودے جیسے کہ Banana Rat, iguanas, fallen cacti. خرگوش جتنے چوہے، بہت بڑی چھپکلیاں اور تھور کے پودے اچانک گاڑی کے سامنے آ جاتے جن کی وجہ سے ٹریفک میں رکاوٹ پڑتی تو ڈرائیور نے بہت محتاط ڈرا ئیونگ کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں حکام بالا کی طرف سے ان جانوروں اور پودوں کو نقصان نہ پہنچانے کا حکم ہے، گویا مسلم جانیں ان جانوروں سے بھی زیادہ سستی تھیں ۔
'' وہ توجہ جو فوج ان کیڑوں مکوڑوں کی حفاظت پر صرف کرتی ہے زمیں کے اس تنہا، بنجر ٹکڑے پر پنجروں میں بند انسا ن اس سے کہیں کم توجہ سے بھی محروم ہیں ۔'' (صفحہ 32) ۔ آگے جا کر ٹیری کیوبا کی خوبصورتی کا گوانتاناموبے کی بدصورتی سے موازنہ کرتا ہے جو اس بات کی طرف مبہم اشارہ ہے کہ زمیں بھی برائی اور ظلم کا شکار ہو تو نحوست اور اجاڑپن کا منظر پیش کرنے لگتی ہے ۔
ٹیری اور اس کے ساتھی فوجیوں کو گوانتا نامو کے سارے بلاکس کا دورہ کرنے پر پتا چلا کہ یہ عام جیلوں سے کہیں زیادہ محفوظ تھی اور قیدیوں سے بھی کئی گنا زیادہ بدتر سلوک کیا جاتا ۔ پہلے ہی دن ٹیری نے برطانوی تلفظ کے حامل مسلمان قیدی '' راحل احمد '' کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ ٹریننگ کے دوران ان سے بہت جھوٹ بولے گئے ہیں کہ قیدی بہت خطرناک، جاہل اور تخریب کار ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیری کا اندازہ یقین میں بدل گیا جب اس نے بہت سے پڑھے لکھے،انتہائی ذہین اور آرٹسٹ مزاج قیدیوں سے گفتگو کی۔ اکثر جیل کے قیدیوں کے نام ان کی شخصیت کے مطابق رکھ دئیے جاتے، مثلاً '' پروفیسر''۔
پروفیسر بہت قابل شخص تھا، اسے چھ زبانوں پر عبور تھا، وہ ٹیری سے عربی میں بات کرتا لیکن جہاں دیکھتا کہ ٹیری کو سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے تو فوراً بڑی روانی سے انگلش بولنے لگتا۔ اس نے ٹیری کو بتایا کہ اس کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ اس کی ذہنی بیمار بیوی اور چار بچے ہیں جن کی طرف سے وہ بہت فکر مند رہتا ہے۔ اسے اغوا کر کے افغانستان پہنچایا گیا اور وہاں سے گوانتا نامو بے۔ کیونکہ وہ ایک فلاحی تنظیم '' الحرمین فاؤنڈیشن'' کے لئے کام کرتا تھا۔ جس پر شک کیا جاتا تھا کہ وہ القا عد ہ کو فنڈز مہیا کرتی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ میں نے القاعدہ کا نام صرف خبروں میں سنا تھا یا یہاں آکر سنا ہے''۔
قیدیوں سے تفتیش کے دوران تشدد کیا جاتا ہے لیکن گوانتا نامو میں قید مسلمانوں کو تکلیف دینا امریکیوں کے لئے تفریح طبع، وقت گزاری کے علاوہ ان سے شدید نفرت، کینہ، تعصب اور ذاتی عناد تھا۔ مسلمان قیدیوں کو صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی، نفسیاتی، جذباتی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ، تشدد کے ایسے طریقے ایجاد کیے جاتے جن تک عام انسان کی سوچ نہیں پہنچ سکتی۔ ان
کے جسموں کو زیادہ سے زیادہ تکلیف دہ پوزیشن میں زنجیروں سے باندھ دیا جاتا اور گھنٹوں ان کو اسی پوزیشن میں رکھا جاتا ، ان کے سیل میں ناقابل برداشت حد تک گرمی اور سردی کر دی جاتی اور اکثر بہت اونچی آواز میں میوزک چلایا جاتا جو بارہ بارہ گھنٹے چلتا۔
ٹیری لکھتا ہے کہ کوئی ایسا گانا یا سنگر جو کبھی میرا پسندیدہ تھا اسے اس جیل میں اتنا سننا پڑا کہ اس سے بیزاری ہو گئی۔
امریکی اپنی اعلیٰ ظرفی ثابت کرنے کے لئے قیدیوں کو حلال کھانا مہیا کرتے اور پانچ وقت آذان کی ریکارڈنگ چلاتے جو کافی برے ساؤنڈ سسٹم کے تحت چلائی جاتی لیکن پھر بھی وہ آواز قیدیوں کے لئے سکون کا باعث بنتی۔ ٹیری کے فرائض میں ایک یہ بھی تھا کہ قیدی کو اس کی کوٹھڑی سے تفتیشی مرکز تک لے جانا اور پھر واپس لے کر آنا۔ تفتیش سے ٹیری کا کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا اس
کے باوجود اسے ان گنت تکلیف دہ باتوں کا علم ہو جاتا تھا۔ '' اسلام میں مشکلات کو اللہ کی طرف سے آزمائشیں سمجھا جاتا ہے، گوانتا نامو بے قیدیوں کے لئے سب سے بڑا آزمائش خانہ تھا۔''( 107) '' برے سے بد ترین تک'' کے عنوان سے باب میں ایک نوجوان کا ذکر ہے جو امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور اسے شک میں پکڑا گیا تھا۔ ایک دن جب وہ تفتیشی کمرے سے باہر نکلا تو رو رہا تھا، اس کے چہرے پر خون لگا تھا ۔
اس ساری کتاب میں کسی دوسری جگہ بُرے سے بُرے جسمانی تشدد پر ٹیری نے کسی قیدی کے رونے کا ذکر نہیں کیا ، سوائے اس نوجوان کے ۔ اسے تین دن تک منہ دھونے ، نہانے اور کسی بھی طرح پانی استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ گارڈ ز کو آرڈر تھا کہ اس کے غسل خانے کا پانی بند رکھا جائے ۔ ٹیری نے تفتیش کے بعد اس کے کمرے سے ایک عورت کو بہت خوشی خوشی نکلتے دیکھا تھا جس کے ساتھ ایک رپورٹر بھی تھا اور وہ اسے اس طرح کے قیدیوں کے لئے اپنی پیش کی جانے والی خدمات کے متعلق بتا رہی تھی۔
بعد میں ٹیری کو اپنے ساتھیوں سے پتا چلا کہ پکے مسلمانوں کو جنسی طور پر ٹارچر کرنے کے لئے ایسی عورتوں کو بلایا جاتا ہے جو ان کے ایمان کو متزلزل کرنے کے لئے ہر طرح کی بے ہودگی اور زبردستی کرتی ہیں، قیدی کو زنجیروں سے باندھ رکھا ہوتا ہے اس لئے وہ بہت مزاحمت کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اس قیدی کے اپنا ایمان بچانے کی ہر کوشش کے بعد وہ عورت اس کے منہ پر نجس خون مل کر چلی گئی ۔ اسی لئے ایک نمازی، پرہیز گار نوجوان روتا ہوا باہر نکلا کہ وہ اس غلاظت کو دھو بھی نہیں سکتا تھا ۔ یہ سارا واقعہ اس رپورٹر کی رپورٹنگ کے بعد میڈیا پر بھی ہائی لائٹ ہوا تھا۔ ( صفحہ 108)
ٹیری لکھتا ہے کہ ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح مسلم قیدیوں کو اندر سے توڑا جائے، انہیں کمزور کیا جائے ۔ اس مقصد کیلئے وہ انہیں معصوم بچوں اور مسلمان عورتوں پر ظلم اور ریپ کی و ڈیوز دکھاتے ۔ انہیں چیختی ہوئی مدد کے لئے پکارتی عورتوں کی آ ڈیوز سنواتے اور یہ کہتے کہ یہ تمہاری بیوی ہے جب ہم اسے ریپ کر رہے تھے یا مار رہے تھے ۔ مسلمان کے لئے داڑھی کی اہمیت کے پیش نظر اکثر قیدیوں کی داڑھی شیو کردی جاتی اور سر مونڈ دئیے جاتے ۔ '' میں آرمی کو جتنا سمجھا وہ یہ کہ ان میں ہمدردی اور رحم کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا ۔''( صفحہ 118)
ٹیری کے لاشعور میں ہر وقت موازنہ اور مکالمہ چلتا رہتا جس نے بالآخر انہیں اسلام کی حقانیت پر لا کھڑا کیا۔ وہ امریکی قیدیوں کا مسلمان قیدیوں سے موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' میں نے کیمپ 4 میں مسلمان قیدیوں کو قرآن پڑھتے دیکھا تھا، وہ بہت خوش رہتے اور مسکراتے رہتے کہ وہ گوانتا نامو بے جیسی جگہ پر اپنا وقت بہترین طریقے سے گزار رہے ہیں ۔ وہ مسکراتے ہوئے اٹھتے، اپنے ایمان کے ساتھ جڑے رہتے، ایک دوسرے کی مدد کے لئے تیار رہتے اور ایک گروہ کی طرح کام کرتے۔ یہ سب مجھے دو طرح سے حیران کرتا کہ اسلام میں ایسا کیا ہے جو انہیں اس طرح زندگی گزارنے میں مدد دیتا ہے اور دوسرا یہ کہ اگر 778 امریکی عیسائی پکڑے جاتے اور مشرق وسطیٰ کی کسی تاریک جیل میں اس طرح بے چار گی میں پڑے ہوتے تو ان کا روزمرہ زندگی میں کیا رویہ ہوتا۔
یقیناً ان سے اس طرح کی باتیں سننے کو ملتیں: '' تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے، میں امریکی ہوں۔''
'' تم اس کی ادائیگی کرو گے ۔''
اور یہ کہ میرا ملک مجھے بچانے آئے گا اور تمھیں مزہ چکھائے گا۔ اور اس طرح کے ابتدائی غصے کے بعد ان کی ملتجیانہ غمناک صدائیں نکلتیں : کیوں میں ہی کیوں؟ میرے ساتھ ہی خدا نے ایسا کیوں کیا؟ اور اس کے بعد کچھ ایسا کہتے کہ نہیں یقیناً کوئی خدا
ہے ہی نہیں ورنہ مجھے یہاں نہ ڈال دیا جاتا ۔''( صفحہ نمبر 56، 57)
گندگی میں پاکیزگی، اور شیطانی جگہ پر روحانی عروج کیسے ملتا ہے؟ یہ ٹریٹر کو پڑھنے کے بعد پتا چلتا ہے۔ ''جمعہ کا دن تھا، ہمیں اچانک حکم ملا کہ ایک قید تنہائی کے قیدی کو تفتیشی کیمپ میں منتقل کرنا ہے۔ ہم اس کی بیڑیاں وغیرہ تیار کر رہے تھے کہ ایک مخصوص جانی پہچانی اذان کی آواز آئی کسی گھڑیال کی طرح۔ جب نمازی اپنی جائے نماز پر نماز میں گھٹنوں پر جھکا تو سمٹی ( Smitty) غصے سے پھٹ پڑا، فوراً کھڑے ہو جاؤ لعنتی! قیدی کا قرآن اس کے پاس پڑا تھا، جب وہ سجدہ کر رہا تھا تو سمٹی نے قرآن اٹھایا اور قیدی کے سر پر مارا ، '' لعنتی! کھڑے ہو جاؤ، میں ہر روز کے اس شور ( یعنی اذان) سے تنگ ہوں تم سب لوگ اس سے اکتاتے نہیں ہو ، ہر روز ایک ہی گانا یا نظم سن سن کر انسان پاگل ہو جاتا ہے، اب اٹھ جاؤ فوراً ورنہ یہ تمہاری کتاب ٹائلٹ میں جائے گی جہاں تم روز بیٹھتے ہو، جنرل! ( قیدی کا الٹا نام) سنا تم نے؟ نمازی نماز جاری رکھتا ہے، اونچی آواز آتی ہے:
سمع اللہ لمن حمدہ ( اللہ سنتا ہے جو اس کی تعریف بیان کرتا ہے) ربنا لک الحمد ( اے ہمارے رب سب تعریف تیرے لئے ہے) ۔
قرآن کو ٹائلٹ میں پھینک دیا جاتا ہے، سمٹی پانی کا لیور نیچے کھینچتا ہے، مائیکل نفرت سے قرآن کو ٹائلٹ سے نکالتا ہے ہم جلدی
سے قیدی کو زنجیروں میں جکڑنا شروع کر دیتے ہیں جو اتنی ہڑبونگ میں نماز توڑ چکا تھا۔ ( صفحہ67)
اس کتاب کو پڑھ کر اسلام کے بارے میں بہت سی ایسی باتیں پتہ چلتی ہیں جو پیدائشی مسلمان نہیں جان سکتے ۔ ٹیری کے اندر اسلام قطرہ قطرہ کر کے ٹپکا تھا ۔ ٹیری کو مسلمان قیدیوں کا کسی ذات پر اندھا یقین بہت متاثر کرتا تھا جو انہیں مشکل سے مشکل حاالت میں مایوس نہیں ہونے دیتا تھا۔ اسے اپنے اندر ہمیشہ سے اس یقین کی ، کسی منزل اور زندگی کے مقصد کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ ٹیری کو اتنے تکلیف دہ حالات میں ان قیدیوں کا سکون بے سکون کر دیتا، وہ ان جیسا سکون پانے کے لئے ان کی طرف کشش محسوس کرتا ۔
'' میرے پاس آزادی تھی لیکن میں ہر صبح بے سکون اٹھتا ،جبکہ یہ لوگ پنجروں میں قید پانچ وقت کی نماز پڑھتے اور مسکراتے رہتے ۔''
ٹیری کہتا ہے کہ گوانتا نامو بے میں تعیناتی سے پہلے وہ اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ پہلے پہل قیدیوں سے گفتگو کا مقصد ان کے مذہب کو جاننے کا تجسس تھا، گفتگو کی خاطر اور ان کے مذہب کو جاننے کے لئے اس نے عربی سیکھنا شروع کی، قیدیوں کے حالات، ان کے مذہب کو جان لینے کے بعد ٹیری جیسے سچے اور سکون کے متلاشی شخص کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اسلام قبول نہ کرتا ۔
ٹیری کو سگریٹ اور شراب کی عادت تھی لیکن قرآن کے مطالعے کے بعد اسے مسلمان قیدیوں سے اسلام کے متعلق گفتگو کا نشہ لگ گیا تھا، کتاب کے آخری ابواب میں ایسا لگتا ہے کہ یہ گفتگو ٹیری کے لئے آکسیجن جیسی اہمیت رکھتی تھی اور اس کے نتیجے میں اسے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ساتھی گارڈز کی تنقیدی نظریں اور سینئرز کا بہت سخت رد عمل سہنا پڑا ۔
'' میری قیدیوں سے گفتگو کو مانیٹر کیا جانے لگا ۔ رفتہ رفتہ میری شفٹس بڑھا کر مجھ پر کام کا اتنا بوجھ ڈال دیا جاتا کہ مجھے کسی قیدی سے فالتو بات کرنے کی فرصت ہی نہ ملے ۔''
''ہمدردی غداری کی علامت ہے۔''
'' وہ لوگ نہیں، قیدی ہیں ۔''
'' اگر تم انہیں پسند کرتے ہو تو ہم تمہیں ان کے ساتھ لاک اپ میں بند کر دیتے ہیں ۔''
'' میں تمہاری کھوپڑی ( گندی گالیاں) سے طالبان کو باہر نکال دوں گا ۔''
'' تم ان گندگی کی تھیلیو ں سے نفرت کیوں نہیں کرتے وہ امریکیوں کے لئے قابل نفرت دہشت گرد ہیں اور کچھ بھی نہیں، اگر تم مجھے کوئی ایک وجہ ان سے نفرت نہ کرنے کی نہیں دیتے تو میں تمہارا ۔۔۔۔ (آگے گندی گالیاں)۔
بہت ساری گفتگو کے بعد سینیئر گروپ نے ٹیری کو جسمانی اور نفسیاتی زد و کوب کیا صرف اس جرم پر کہ وہ مسلمان قیدیوں سے ان کے بارے میں اور اسلام کے بارے میں گفتگو کر لیتا تھا۔ ( صفحہ نمبر122)۔
اپنے اسلام قبول کرنے میں ٹیری نے جو بہت بڑی کشش بتائی ہے وہ اسلام کے اندر ڈسپلن اور باقاعدگی کا ہونا ہے۔ یہ ایک ایسی خصوصیت تھی جو ٹیری کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ یہی بات اسے ڈیوڈ ہکس کی باتوں سے بھی پتا چلی کہ اسے بھی اسلام کا منظم مذہب ہونا بہت پسند تھا۔ پانچ ماہ میں ہر مسلمان قیدی نے مجھے اپنی بے گنا ہی کی کہانی سنائی یہاں تک کہ ان کی حکومتوں کے پاس ان کی بے گنا ہی کے ثبوت موجود تھے، وہ کسی مشکوک جگہ سے بندوقوں کے ساتھ گرفتار نہیں کئے گئے تھے۔ ایک شخص جس نے بڑے آرام سے میرے سامنے اعتراف کیا کہ ہاں ! وہ طالبان کی طرف سے نیٹو کی افواج کے خلاف لڑتا رہا ہے، وہ ایک آسٹریلوی گورا شخص تھا '' ڈیوڈ ہکس'' جس نے بعد میں اسلام قبول کیا۔ پہلے جب وہ لڑا تو اس کا مقصد مذہب کے لئے لڑنا نہیں تھا ۔
اس کے بقول '' کچھ لوگوں کے ساتھ کوئی ان کا دفاع کرنے والا نہیں ہوتا۔'' میں نے سمجھا کہ یہ میری اخلاقی ڈیوٹی ہے کہ میں مظلوم اور دبے ہوئے لوگوں کی طرف سے لڑوں۔ اس سوچ کے تحت میں نے البانیہ کی طرف سفر کیا اور کوسووا کی طرف سے لڑا، پھر اسلام میں میری دلچسپی بڑھی اور میں مزید اسلام کو سمجھنے کے لئے پاکستان گیا اور پھر اسلام قبول کرنے کے بعد طالبان کے لئے لڑا اور گرفتار ہو کر گوانتا نامو بے آیا۔''( صفحہ 104)
جنرل جس کا نام احمد الرشیدی تھا اس نے ٹیری کو اسلام کے سمجھنے میں بہت مدد کی اور بالآخر ایک رات ٹیری نے اسے کہا کہ '' مجھے کلمہ پڑھا دو۔'' یوں وہ مسلمان ہو گیا۔ قیدی بھائیوں نے اسے '' مصطفیٰ '' کہنا شروع کر دیا۔ ٹیری کا قیدیوں کے ساتھ بہت نرم رویہ تھا۔ وہ اس کے لئے دوست اور بھائیوں جیسے تھے۔ ان میں سے کچھ قیدی رہا ہونے کے بعد ٹیری یعنی مصطفی سے رابطے میں ہیں جیسے کہ احمد الرشیدی۔
2004 ء میں ٹیری کی گوانتا نامو بے سے ڈیوٹی ختم ہو گئی۔ کچھ عرصہ اس نے فوج میں کام کیا لیکن جلد ہی اسے ذہنی مریض کہہ کر فوج سے فارغ کر دیا گیا۔ ٹیری کے اعصاب پر جیل میں گزارے دنوں کا بہت برا اثر تھا ، وہ شدید ڈپریشن میں چلا گیا تھا۔ پھر اس نے تھراپسٹ کے مشورے پر میڈیا سے رابطہ کیا اور گوانتا نامو بے کے تکلیف دہ حقائق سے عوام کو آگاہ کیا۔ اس کے انٹرویو لئے گئے اور جہاں لوگوں میں اسے پذیرائی ملی وہاں قتل کی دھمکیاں ملیں اور غداری کے الزام بھی لگے۔ اس نے2013 میں '' ٹریٹر'' کے نام سے کتاب لکھ کر عوام کے سامنے یہ سوال رکھا کہ اگر میں ہیرو اور محب وطن نہیں ہوں تواس کا یہ مطلب ہے کہ میں غدار ہوں ؟
'' ٹریٹر'' کے بارے میں کچھ مزید
عبید اللہ عبید
ٹیری سی ہولڈبروکس جونئیر جب امریکی فوج میں بھرتی ہو رہا تھا تو اس کی آنکھوں میں بہت سے خواب جگمگا رہے تھے، مثلاً وہ ایک اچھا امریکی بننا چاہتاتھا، شاندار کیرئیر کا حامل ایک فوجی اور ایک اچھا انسان بھی۔ تاہم اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی اسلام قبول کرے گا، کیونکہ وہ خدا کے وجود پر یقین ہی نہیں رکھتا تھا ۔ وہ شراب کا رسیا تھا، تیز راک میوزک سنتا تھا، اس کا جسم ٹیٹوز سے بھرا ہوا تھا۔ پھر ایک نصف شب اس نے ایک قیدی کی معیت میں اسلام قبول کر لیا اور اسی قیدی کو اپنا نگران بھی مان لیا ۔ ٹیری ہولڈبروکس جیسا شخص کیسے اچانک مکمل طور پر تبدیل ہو سکتا ہے؟ یہی بات مغرب میں رہنے والوں بالخصوص امریکیوں کے لئے نہایت حیران کن ہے۔
جب ٹیری ہولڈ بروکس نے امریکی فوج میں بھرتی ہونے، گوانتا نامو بے میں ڈیوٹی کے لئے دو ہفتے کی تربیت پانے، پھر دنیا کے اس بدترین قید خانے میں فرائض ادا کرنے سے لے کر حلقہ بگوش اسلام ہونے تک کی داستان '' ٹریٹر '' کے عنوان سے لکھی تو یہ کتاب بہت زیادہ پڑھی گئی اور پسند کی گئی۔ ' امازن' پر 87 فیصد پڑھنے والوں نے اسے فائیو سٹار ریٹنگ دی، نو فیصد نے فور سٹار اور چار فیصد نے تھری سٹار ۔ دوسرے الفاظ میں 87 فیصد لوگوں نے اس کتاب کو شاندار قرار دیا۔ لوگوں نے اس کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کئے ، وہ حیران کن ہیں۔ وہ ایک الگ مضمون کے متقاضی ہیں ۔
یہ کتاب عکاسی کرتی ہے کہ '' دہشت گردی کے خلاف جنگ '' کے امریکا میں اور امریکا سے باہر کیسے اثرات مرتب ہوئے۔ کتاب لکھنے والا گوانتا ناموبے میں فرائض کی ادائیگی کے دوران میں سوچتا رہا کہ پنجروں میں قید مسلمان قیدی واقعی امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں؟ اس کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ کیا ایک اچھا امریکی ، مسلمان نہیں ہو سکتا؟ ایک نچلے درجے کے امریکی فوجی کے ذہن میں ان سوالات نے طوفان بپا کئے رکھا لیکن تاریخ اور شماریات کا بہترین علم رکھنے والے امریکی دانش وروں نے ان سوالات کے جوابات نہیں دیے، نتیجتاً انہی سوالات کے جوابات کی تلاش ٹیری ہولڈبروکس کو مسلمانوں اور پھر اسلام کی طرف لے گئی۔
سینتیس سالہ ٹیری ہولڈبروکس کا تعلق امریکی ریاست اریزونا سے ہے، سات برس کا تھا کہ والدین میں علیحدگی ہوگئی ۔ وہ دونوں منشیات کے عادی تھے۔ پھر اپنے نانا کے ہاں پلا بڑھا ۔ والدین اور ننھیال، ہرجگہ ٹیری نے غربت اور مشکلات دیکھیں۔ وہ ان جیسی زندگی نہیں جینا چاہتا تھا چنانچہ وہ اگست 2002ء میں امریکی فوج میں بھرتی ہوا۔ اگلے سال ہی اسے گوانتا نامو بے کے قیدخانے میں تعینات کردیاگیا۔ اس کی ڈیوٹی میں شامل تھا کہ وہ قیدخانے کے اپنے حصے کی صفائی کرے گا، وہاں سے کوڑا کرکٹ اٹھائے گا ، قیدیوں کے پنجروں کے آس پاس جاکر بغور جائزہ لے گا کہ وہ آپس میں کسی چیز کا تبادلہ تو نہیں کرتے، جب تفتیش کار کہیں تو قیدیوں کو ان تک پہنچائے گا۔
ان سارے فرائض کی ادائیگی کے دوران میں ٹیری کو قیدیوں سے گفتگو کرنے کے لئے متعدد مواقع میسر آتے۔ قیدی اسے '' اچھا گارڈ '' قرار دیتے۔ قیدیوں کے ساتھ غلط رویہ اختیار نہ کرنے پر ساتھی گارڈ ٹیری کو برا بھلا کہتے۔ نتیجتاً اس کی اپنے ساتھی گارڈز کے ساتھ بول چال بند ہوگئی۔دوسری طرف ٹیری کی ایک قیدی احمد الرشیدی کے ساتھ زیادہ گفتگو ہونے لگی جو مراکش سے تعلق رکھتا تھا اور اٹھارہ برس تک برطانیہ میں '' شیف '' کے طور پر کام کرتا رہا۔اس نے ساڑھے پانچ برس گوانتاناموبے میں محض اس ایک الزام کے تحت گزارے کہ اس نے القاعدہ کے ٹریننگ کیمپس میں شرکت کی۔ بعدازاں یہ الزام بھی جھوٹا ثابت ہوا۔
ٹیری کہتا ہے:'' ہم گھنٹوں گفتگو کرتے ، کتابوں کا تذکرہ کرتے، موسیقی پر گپ شپ کرتے ، فلسفہ پر بحث کرتے، ہم ساری ساری رات مذہب پر بات چیت کرتے۔''
یہاں محض چھ ماہ کی ڈیوٹی نے ٹیریکی قلب و نظر کی دنیا ہی بدل دی۔ امریکی فوجی افسران نے اسے مسلمان قیدیوں کے بارے میں جو کچھ بتایا تھا، وہ سب کچھ غلط ثابت ہورہاتھا۔ مسلمان بالکل مختلف نکلے۔ وہ ان کے چنانچہ چھ ماہ بعد ،29دسمبر2003ء کو ٹیری نے اسلام قبول کرلیا ، شراب پینا ترک کردی حتیٰ کہ موسیقی سننا بھی۔ ٹیری نے بتایا:'' ساتھی گارڈز کی نظروں سے بچ کر پانچ وقت نماز پڑھنا مشکل ہورہا تھا چنانچہ میں ان سے کہتا کہ میں واش روم جارہاہوں۔''
اس قید خانے میں ٹیری نے جو کچھ دیکھا، اس نے اسے شدید نفسیاتی مسائل کا شکار کردیا۔ قبول اسلام کے بعد ٹیری کی اپنی زندگی قیدیوں سے زیادہ مشکل ہوگئی۔ وہ مختلف انداز میں وقت کو پرلطف بنالیتے تھے، گارڈز حتیٰ کہ تفتیش کاروں کے ساتھ چھیڑخانی کرتے رہتے تھے۔ قیدیوں کو اپنے قیدخانے کے اندر کافی آزادی حاصل تھی۔ یہاں ٹیری قیدیوں کی آزادی فکر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ٹیری کہتا ہے :'' مجھے وہ تمام آزادیاں حاصل تھیں جو قیدیوں کو نہیں تھیں تاہم میں ایک غلام تھا جسے وہی کچھ کرنا تھا جو امریکی فوج چاہتی تھی۔''
2004ء میں اسے یہاں سے واپس بھیج دیا گیا اور پھر اسے '' جنرل پرسنیلیٹی ڈس آرڈر'' کی بنیاد پر امریکی فوج ہی سے نکال دیا گیا۔ وہ اس قدر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوا کہ بیوی نے بھی اسے چھوڑ دیا۔ اب وہ ایک بار پھر شراب، شباب اور موسیقی والی زندگی کی طرف پلٹ گیا۔ گوانتا نامو بے میں اس نے جو تکلیف دہ چیزیں دیکھی تھیں وہ اسے شدید عذاب میں مبتلا کر رہی تھیں ۔ بہرحال اس نے اپنے آپ سے جنگ کی اور گوانتاناموبے کے مشاہدات کو اپنے دماغ سے نکال کر کتاب میں منتقل کیا ۔ اس نے اپنی تعلیم کا سلسلہ مکمل کیا ، اریزونا یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ڈگری حاصل کی ۔ اب ٹیری ہولڈ بروکس گوانتاناموبے کا قیدخانہ بند کرانے کی مہم چلا رہا ہے ۔