یونیورسٹی آف بلوچستان سینکڑوں نامور شخصیات کی مادر علمی

چار شعبوں سے آغاز کرنے والی یونیورسٹی آج 52 شعبوں کے ساتھ15108 طلباء کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہی ہے

جامعہ بلوچستان کے قیام کی پچاسویں سالگرہ کی تقریبات کرونا عالمی وباء کے باعث منعقد نہیں کی جاسکیں

بلو چستان انگریزی عہد کی مروجہ تعلیم کے لحاظ سے آزادی سے قبل پورے برصغیر میں اور آزادی کے بعد پورے پاکستان میں درس گاہوں کے قیام کے لحاظ سے پیچھے رہا ہے۔

انگریزوں نے 1839 میں پہلی افغان جنگ لڑی اور رنجیت سنگھ کی فوجی مدد سے کابل پر قبضہ کر لیا۔ اسی دوران جب سندھ سے انگریزی فوجیں بلوچستان میں داخل ہو ئیں تھیں تو بلوچستان میں خصوصاً درہِ بولان میں بلوچوں نے اِن پر پہاڑوں سے گوریلا طرز کے حملے کئے تھے۔ انگریزوں نے کابل پر قبضے کے بعد چاہا کہ یہاں بھی طاقت سے مقامی بلوچ حکمران کو انگریز حکومت کا تابعدار بنایا جا ئے۔ یوں 1839 ہی میں انگریزی فوجیں افغانستان سے بلوچستان میں داخل ہوئیں۔

اُس وقت بلوچستان کے حکمران ،،خان آف قلات،، میر محراب خان تھے جنہوں نے ٹیپو سلطان کی طرح انگریزوں کی جانب سے اطاعت قبول کرنے کے بجائے بہادری سے لڑتے ہو ئے شہادت کو ترجیح دی۔ مگر انگریز میر محراب خان شہید کے بعد برسوں تک بلوچستان پر کنٹرول حاصل نہ کر سکے اور آخر کار ڈیرہ غازی خان میں انگریز اسسٹنٹ کمشنر سر رابرٹ سنڈیمن کی سیاسی حکمت عملی کام آئی جس نے بلوچستان میں AGG ایجنٹ ٹودی گورنر جنرل کا عہدہ سمبھالتے ہی قبائل اورخان آف قلات سے نوے فیصد سے زیادہ رقبے پر اُن کی آزادی و خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے یہاں امن و امان کے قیام کے لئے معاہدے کئے اور یہ معاملات گرینڈ جرگہ کی بنیاد پر طے پا گئے۔

سر رابرٹ سنڈیمن بلوچستان میں 1877 میں اے جی جی تعینات ہو ئے تھے اور یہاں اُن ہی کے دور میں 1878 میںکو ئٹہ شہر اور کوئٹہ کینٹ کی تعمیر مکمل ہو ئی۔ اُس وقت وادی کوئٹہ میں بہت سے مکتب تھے اور علاقے میں مکتبی تعلیم کی بنیاد پر خواندگی کی شرح 65% سے زیادہ تھی۔ شہر کی تعمیر کے بعد یہاں کی اولین آبادی کی 90% تعداد وہ تھی جنہیں انگریز ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے لا ئے تھے لہذا ان کے مطالبے پر یہاں چند اسکول قائم کئے گئے جن کی تعداد میں تھوڑا بہت اضافہ 14 اگست 1947 میں آزادی تک ہوا۔ بلوچستان کو 1970 میں صوبے کا درجہ دیا گیا اور اسی سال بلوچستان کی پہلی یو نیورسٹی قائم ہو ئی جو اب 50 سال پورے ہو نے پر گولڈن جوبلی پوری کر چکی ہے لیکن گولڈن جوبلی کی تقریبات کورونا وباء کی وجہ سے منعقد نہیں کی جا رہیں۔

جب یہ یو نیورسٹی قائم ہو تھی تو اُس وقت صوبے کی کل آبادی23 لاکھ اور کو ئٹہ شہر کی آبادی تقریباً ایک لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ سریاب روڈ پر جہاں یہ یو نیورسٹی قائم ہے آج یہاں ٹریفک جام رہتا ہے لیکن اُس زمانے میں جب یہاں یو نیورسٹی بننے سے قبل مائینگ کالج کی عمارت اور ملازمین کے لیے کالونی تعمیر کی گئی تھی، یہ علاقہ جی پی او یعنی شہر کے مر کز سے محض تین کلو میٹر دور ہونے کے باوجود سنسان تھا۔ ابھی اس مائینگ کالج نے کام شروع کرنا تھا کہ بلوچستان کو صوبے کا درجہ دینے کے بعد طے ہوا کہ یہاں پہلی یو نیورسٹی قائم کی جا ئے اور یوں مائینگ کالج کی عمارت اور کالونی کو یونیورسٹی آف بلو چستان میں بدل دیا گیا۔

یونیورسٹی کا باقاعدہ آغاز10 اکتوبر 1970 کو ہوا جب اس کے پہلے وائس چانسلر جسٹس ریٹائر دراب پٹیل کو بلوچستان کے پہلے گورنر لیفٹیننٹ جنرل ریاض حسین نے تعینات کیا۔ جسٹس دراب پٹیل 17 جون1924کو کو ئٹہ میں پیدا ہوئے اور 15 مارچ 1997 کو کراچی میں وفات پائی۔

وہ کو ئٹہ کی پارسی کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے تعلیم ممبئی اور بر طانیہ سے حاصل کی۔ وہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کو رٹ کے جسٹس رہے وہ ایشین ہیو من رائٹس کمیشن اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پا کستان کے بانیوں میںسے تھے۔ ذوالفقار بھٹو کے مقدمے میں سپریم کورٹ سات ججوں میں سے جن تین نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا اُن میں جسٹس دراب پٹیل بھی شامل تھے۔

1981 میں مارشل لاء کے تحت حلف اٹھانے کے بجائے وہ جسٹس کے عہدے سے مستعٰفی ہو گئے۔ یونیورسٹی آف بلوچستان کے پہلے وی سی کی حیثیت سے اُنہوں نے 10 اکتوبر 1970 سے 11 اکتوبر 1972 تک خد مات انجام د یں۔ بلوچستان یو نیورسٹی اِ س وقت 184 ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ ابتداء میں یونیورسٹی میں ایم اے ،ایم ایس سی کے صرف چار شعبے کھولے گئے۔

جسٹس دراب پٹیل کے بعد 12 اکتوبر 1972 کو پروفیسرکرار حسین وائس چانسلر ہو ئے جو اس سے قبل طویل عرصے تک بلوچستان کے پہلے اور مرکزی گورنمنٹ کالج کے پرنسپل رہے تھے۔ پروفیسر کرارحسین 6 دسمبر 1976 تک وی سی رہے اس دوران اُنہوں نے کراچی سے پروفیسر ڈاکٹر احسن فاروقی پروفیسر ڈاکٹر بندے حسن،پروفیسرڈاکٹر خلیل احمد،پروفیسر ڈاکٹر نعیم احمد، پروفیسر مجتبیٰ حسین، پروفیسر شمیم احمد اور اسی طرح دیگر عالم اور تجربہ کار پروفیسر وں کو یہاں بلوایا اور یونیورسٹی کی ساکھ قائم ہو گئی۔

اِن کے بعد بلوچستان یو نیورسٹی کے تیسر ے وائس چانسلر بریگیڈ ئیر ریٹائر آغا اکبر شاہ 6دسمبر 1976 سے24 مئی 1986 تک طویل ترین عرصے تک وی سی رہے۔ آغا اکبر شاہ کو ئٹہ شہر کے رہنے والے تھے اور یونیورسٹی کی تاریخ میں سب سے طویل عرصہ یعنی دس سال تک وائس چانسلر رہے۔

اِس دوران بلو چستان یو نیورسٹی نے بہت ترقی کی۔ اِس کا سائنس بلاک اور آرٹس بلاک الگ الگ ہو گیا۔ اِن سے قبل بلو چستان یونیورسٹی میں سبز ہ پھول اور درخت خال خال ہی دکھائی دیتے تھے، انہوں چند برسوں میںیہاں اتنے پھول اور درخت لگائے کہ 1982 سے 1986 تک اس حوالے سے یونیورسٹی آف بلو چستان ملک کی خوبصورت ترین یو نیو رسٹی کہلائی۔ اِن دس برسوں میں یونیورسٹی میں سائنس اور آرٹس کے کئی نئے شعبے کھو لے گئے۔

بلو چستا ن میں بولی جانے والی زبانوں بلوچی ، براہوی ،،اور پشتو کے شعبے کھل گئے۔ اس کے بعد فارسی کا شعبہ بھی کُھلا۔ اس دوران بلوچستان یو نیورسٹی میں بلوچی ، براہوی ، پشتو، فارسی اور انگریزی ادب کے شعبوں نے یکساں انداز میں ترقی کی جس سے بلو چستان کے متنوع علمی ادبی ماحول اور فضا کو بہت فائدہ پہنچا۔

اس دور میں پروفیسر نادر قمرانی ،پروفیسر عبدالہ جان جمالدینی، پروفیسر عابد شاہ عابد، پروفیسر بہادر خان رودینی، پروفیسر شکر اللہ بلوچ، متحرمہ پروفیسر ڈاکٹر زینت ثنا بلوچ ،ڈاکٹر احسن فاروقی ، پروفیسر وارث اقبال،پروفیسر مجتبیٰ حسن ، پروفیسر شمیم احمد ، پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر شرافت عباس ناز، پروفیسر ڈاکٹر فاروق احمد اور پروفیسر ڈا کٹر فردوس انور قاضی نے یونیورسٹی کی ادبی سوسائٹیوں کی بنیاد پر اردو، بلوچی، بر ہوئی ، پشتو ، فارسی اور انگریزی ادب کے اعتبار سے نوجوان ادیبوں اورشعرا کی ایسی کھیپ تیارکی جو آج صوبائی اور قومی سطح پر اپنی شناخت رکھتی ہے۔

جن میں فاروق سرور کاکڑ، وحید ظہیر، افضل مراد، پر وفیسر ڈاکٹر بیرم غوری ،نجم الثاقب،ڈاکٹر منیر احمدریسانی ، ڈاکٹر شاہ محمد مری، ڈاکٹر تاج ریسانی،ڈاکٹر آغا محمد ناصر،اعتبار ساجد،ڈاکٹر عبدلباقی درانی ،محسن شکیل ،نسیم اچکزئی،منیر احمد منیر،سرور جا وید، عابد خواجہ ،ریاض احمد ،تنویر اقبال، پروفیسر ڈاکٹر خا لد خٹک،زاہد آفاق ،راغب تحسین اور دیگر بہت سی نامورا شخصیات شامل ہیں۔ اُس وقت یونیورسٹی کے یہ تمام پروفیسر یونیورسٹی کی ادبی تنظیموںکے ساتھ بلو چستا ن کے معرف اردو ، بلو چی ، براہوی ،پشتو اور فارسی شعرا اور ادیبوں کے ساتھ ملکر یو نیورسٹی میں اور کو ئٹہ ، سبی، لورلائی اور ڈیرہ مراد جمالی کے شہروں میں ادبی محفلیں سجا تے تھے۔

اُس وقت کے مشہور ادیبوں اور شعراء میں عطا شاد، ماہر افغانی ، عین سلام ،خادم مرزا ، میر مٹھا خان مری، ملک پناہ ، ملک رمضان ، گل بنگلزئی ،ربنواز مائل، سرورسودائی،ڈاکر انعام الحق کوثر، استاد رشید انجم، پروفیسر انور رومان،پروفیسر خلیل صدیقی پروفیسر رشید احمد،پروفیسر سعید احمد رفیق،محترمہ ثاقبہ رحیم الدین، منیر احمد بادینی، حاوی اعظم ، مقبول رانا ، شاہین روحی بخاری، شبنم شکیل ، ظفرخان نیازی، ریاض قمیر،نسیم احمد نسیم ،رفیق راز ،عابد رضوی ،افسر بہزاد،اثرجلیلی ،غوث بخش صابر، بشیر بلوچ،حکیم بلوچ ،صورت خان مری، امیر الملک مینگل اور سعید گو ہر شہر کی مجلسی سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں سرگرم عمل رہتے تھے۔

ستر سے اسی کی دہا ئی تک بلو چستان یو نیو رسٹی کے ان اساتذہ اور بلوچستان کے اِن نامور ادیبوں شاعروں کی وجہ سے یہ دور بلو چستا ن کی سماجی ، علمی اور ادبی ترقی کا سنہری دور تھا جس کی ابتدا تو پروفیسر کرار حسین کے ز مانے میں ہو ئی تھی اور پھر اُن ہی کے لا ئے پروفیسروں نے بلو چستان کے ادیبوں شاعروں ساتھ مل کر یہاں ایک خوبصورت ادبی فضا قائم کردی۔

وائس چانسلر آغا اکبر شاہ کے دس سالہ دور میں فٹبال کے مشہور کھلاڑی اور فزیکل ایجوکیشن میں گریجویٹ محمد جان کو یونیورسٹی کا اسپورٹس آفیسر بنا یا گیا تو اِن دس برسوں میں بلو چستان یو نیورسٹی کی ہاکی ، اور فٹبا ل کی ٹیموں اور اتھلیٹس نے قومی سطح کے ٹور نا منٹ جیتے۔ یوں یہ نو عمر یو نیورسٹی جلد ہی قومی سطح پر نامور یو نیو رسٹی کے طور پر تسلیم کی جانے لگی۔

اِ ن کے بعد محمد حسن بلوچ1986 تا 1990 وی سی رہے۔ پھر شوکت بلو چ 1990 سے1991 تک وی سی رہے پھر بلو چستان لا کالج کے پرنسپل محمد خان ریسانی 1991 سے1993 تک وائس چانسلر رہے۔ اِن کے بعد ڈاکٹر ڈی کے ریاض بلوچ 1993 تک اورپھر پروفیسر بہادر خان رودینی 1997 سے 2001 تک وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ نویں نمبر پر جسٹس ایم اے رشید 2001 سے اکتوبر2004 تک یو نیو رسٹی آ ف بلو چستان کے وائس چانسلر رہے۔ 11 اگست2003 کوقائد اعظم کے دست ِ راست عبدالرب نشتر کے بھتیجے اویس غنی بلو چستان کے گو رنر اور بلوچستان یونیورسٹی کے چانسلر بنے۔

انہوں نے بلوچستان میں تعلیم کے شعبے میں خصوصی تو جہ دی اور نہ صر ف کو ئٹہ میں بیوٹم یو نیورسٹی ، سردار بہار خان ویمن یو نیورسٹی اور اوتھل میں میرین یو نیو رسٹیاں بنائیں بلکہ بلو چستان یو نیو رسٹی پر بھی بھر پور تو جہ دی۔ جسٹس ایم اے رشید کے دور میں ایک بار پھر بلو چستان یو نیورسٹی کی نہ صرف علمی ادبی فضا کافی بہتر ہوئی بلکہ اساتذ ہ کے احتر ام کو بنیاد بنایا گیااور ساتھ ہی ریسرچ کی جانب توجہ دی گئی۔

یہی وہ دور ہے جب وفاقی حکومت کی جانب سے ڈاکٹر عطا الرحمن کی خد مات حاصل کی گئیںاور یو نیورسٹی گرانٹ کمیشن کو ہائر ایجو کیشن کمیشن کا نام دیکر علم و تحقیق کے شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں کی گئیں۔ یوں بلو چستان یو نیورسٹی نے بھی یہاں اساتذہ اور طالب علموں کے باہمی تعاون سے علمی تحقیقی فضاء کو بہت خوشگوار بنا دیا۔

اس دور میں بلو چستان یو نیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا کو ملک کے اندر اور بیرون ملک ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کے بہت سے مواقع ملے۔ اِن کے بعد غلام محمد تاج سابق وفاقی سیکرٹری وائس چانسلر بنے۔ ان کے والد محمد تاج بھی قیام پا کستان سے قبل بلوچستان میں علیٰ منصب پر فائز رہے۔ بد قسمتی سے ان دنوں بلوچستان میں سیاسی بحران شدید ہوا جو 2006 تک انتہا تک جا پہنچا۔ 7 اکتوبر 2006 کے بعد بریگیڈئر ریٹائرڈ آغا احمدگل یو نیورسٹی آف بلوچستان کے وائس چانسلر ہو ئے جو 12 جو لائی2008 تک وی سی رہے۔ اُنہوں نے اساتذہ کی استعداد کار کو بڑھانے اور بلو چستان یونیورسٹی کے معیار تعلیم کو زیادہ بہتر کر نے کی کامیاب کو شش کی ،پروفیسر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی یو نیو رسٹی آف بلو چستان کے بارویں وائس چانسلر بنے۔ یہ اسی یو نیورسٹی کے فارغ التحصیل اور پر وفیسر ہیں۔

2008 سے2010 تک وائس چانسلر رہے اس کے بعد ڈاکٹر معصوم یاسین قائد اعظم یو نیورسٹی کے وائس چانسلر بنے اور اب اعلیٰ تعلیم کے شعبے میںاہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اِن کے بعد پروفیسر ڈاکٹر عبدالنبی 2010 سے 2012 تک وی سی رہے پھر2012 سے 2013 تک پرو فیسر ڈاکٹر رسول بخش ریسانی وائس چانسلر رہے اِن کے بعد پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال 2013 سے 2020 کے آغاز تک وائس چانسلر رہے یوں ڈاکٹر جاوید اقبال آغا اکبر شاہ کے بعد سب سے زیادہ مدت تک یو نیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور اِن کے دور میں یو نیورسٹی بہت مسائل کا شکار بھی رہی تو ساتھ ہی اس میں وسعت بھی آئی۔

24 فروری 2020 کو پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمن نے یونیورسٹی آف بلوچستان کے سولہویں وائس چانسلر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سمبھالیں ہیں اور اب جب صوبے کی اس پہلی جامعہ کو پچاس سال مکمل ہو گئے ہیں توگورنر جسٹس ریٹائرڈ امان اللہ خان یاسین زئی بلو چستان یونیورسٹی کے چانسلر ہیں ، ڈاکٹر شفیق الرحمن ہیومن ریسور HR, , ,کے شعبے میں پی ایچ ڈی ہیں انہوں نے بلو چستان یو نیو رسٹی ہی سے ایم ایس سی کیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یہاں پروفیسر کی حیثیت پڑھا یا پھر رجسٹرار اور دیگر اہم عہد وں پر تعینات رہے پھر قائد اعظم یو نیورسٹی کے رجسٹرار ہوئے۔


جہاں سے اب وہ یو نیورسٹی آف بلوچستان میں وی سی کی حیثیت سے آئے ہیں تعلیمی انتظامی امور کے حوالے سے میرا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ Educational Administration is Completely Different from General Administration یعنی تعلیمی انتظامی امور ہمیشہ عام انتطامی امور سے مختلف ہو تے ہیں، یوں یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی مر تبہ ایسا ہو ا ہے کہا انتظامی اعتبار سے یو نیورسٹی کا سر براہ ایک ایسی شخصیت ہے جو ایچ آر کے شعبے میں پی ایچ ڈی بھی ہیں ا ور ان کی ملازمت کا سارا تجربہ یو نیورسٹی کی تدریس اور انتظامیہ کا رہا ہے اگر چہ جب انہوں نے چارج لیا تو پوری دنیا میں کرونا کی وبا تھی لیکن اس کے با وجود اُنہوں نے یو نیوسٹی کے مسائل اور معیار تعلیم پر تو جہ دی ہے۔

اُنہوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ یو نیورسٹی آف بلو چستان جو آج سے50 سال قبل صر ف ڈیڑھ دو درجن پروفیسروں اور چار شعبوں کے ڈیرھ سو کے قریب طلبا و طالبات اور ایک بلاک پر مشتمل تھی آج ماشااللہ یہاں 8 فیکلٹیز کے 52 ڈیپارٹمنٹ یا شعبے ہیں اور طلبا و طالبات کی تعداد ہز اروں میں ہے۔ یونیورسٹی آف بلو چستان سے 73 گورنمنٹ کالجز 20 پرائیویٹ کالجز( Affilited )منسلک ہیں۔کل فیکلٹی ممبرز کی تعداد 505 ہے، جن میں سے167 پی ایچ ڈی 201 ایم فل اور137 ایم اے ایم ایس سی ہیں۔ پرفیسروں کی تعداد39 ہے جن میں سے 33 مرد اور 6 خواتین ہیں۔

ایسوسی ایٹ پروفیسرز30 ہیں جن میں سے25 مرد اور5 خواتین ہیں۔ اسسٹنٹ پروفیسروں کی تعداد 169 ہے جن میں سے 124 مرد اور45 خواتین ہیں۔ لیکچرار263 ہیں جن میں سے مرد 158 اورخواتین 105 ہیں۔ ریسرچ آفیسرز 4 ہیں جن میں سے ایک خاتون ہے۔ 16 گریڈ سے اُوپر تک اسٹاف کی تعداد296 اورپی بی ایس 2 گریڈ سے 15 تک کے ملازمین کی کل تعداد 705 ہے۔ جب تک بلو چستان یو نیورسٹی قائم نہیں ہو ئی تھی تو بلو چستان سے چند درجن طلبا کراچی اور لاہور جا کر ایم اے، ایم ایس سی کی سطح کی تعلیم حاصل کر تے تھے اور کو ئی طالبہ اس سطح کی تعلیم کا تصو ر بھی نہیں کر سکتی تھی۔

1970 سے پہلے جب یہ صوبہ نہیں بنا تھا تو ون یو نٹ کی وجہ سے یہاںتعلیمی ترقی پر وہ تو جہ نہیں دی گئی جس کی ضرورت تھی۔ یوں 1970 تک بلو چستان میں گریجویٹ افراد کی تعداد چند سو تھی۔ جب یہ یو نیورسٹی قائم کی گئی تو اس میں داخلہ فیس اور ٹیویشن فیس بہت ہی کم، بلکہ نہ ہو نے کے برابر رکھی گئی اور یہ روایت اب بھی قائم ہے۔

اِس وقت پورے ملک کی تمام یو نیو رسٹیوں کے مقابلے میں یہاں فیسیں سب سے کم ہیں۔ بلوچستان یو نیورسٹی کے قیام 1970 کے بعد سے برائے نام فیسوں اور ہو سٹل فیس پر یہاں سے اب ہر سال ہزاروں طلبا و طالبات فارغ التحصیل ہو تے ہیں اور اب تک یہ یو نیورسٹی بی اے ،بی ایس سی ،ایل ایل بی، بی ایڈ ، ایم ایڈ اور ایم اے ایم ایس سی کی211035 ڈگریاں جاری کر چکی ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے ہاں ، عدلیہ ، مقننہ ،اور انتظامہ میں موجود افراد کی 75% تعداد اسی یو نیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے۔

اِ ن میں سابق وزیر اعلیٰ بلو چستان اور موجودہ ایم پی اے نواب محمد اسلم خا ن ریسانی، سابق وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ خان زہری موجودہ چیر مین سینٹ میر صادق، موجود ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری، سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی وحید بلوچ، خواتین کے حقوق کے لیے کام کے حوالے سے عالمی شہرت کی حامل شخصیت اور بلو چستان صوبائی اسمبلی کی سابقہ اسپیکر محترمہ راحیلہ درانی موجود اسپیکر بلو چستان صوبائی اسمبلی عبدالقدوس بزنجو ،بلو چستان میں تعلیم کے شعبہ عالمی سطح پر شہرت حاصل کرنے والی شخصیت سابق وفاقی وزیر تعلیم اور حالیہ رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر دفاعی پیداوار محتر مہ زبید ہ جلال ،بلو چستان ہائی کو رٹ کی سابق چیف جسٹس سیدہ طاہرہ صفدر،سابق وفاقی وزیر ڈاکٹرآیت اللہ درانی مرحوم جو بلو چستان یو نیورسٹی سے فزکس کے شعبے میں پہلے پی ایچ ڈی تھے۔

سابق وفاقی وزیر مملکت اور معروف سیاستدان رانا محمد افضل خان ،افغانستان اور ایران میں پاکستان کے سابق سفیر آصف علی خان درانی ،پانچ براعظموں میں بارہ ملکوں میں پاکستان کے سفارتکار کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے اور سابق ڈائریکٹر جنرل دفترِخارجہ معروف شاعر ، ادیب ،ناول نگار اور ٹی وی اینکر نجم الثاقب نے بھی بلوچستان یو نیو رسٹی سے ڈگری لی ہے، یو نیورسٹی آف بلو چستان سے مختلف فارن اسکالرشب پر لیکچرار اور پروفیسر پی ایچ ڈی کے لیے امریکہ، کینیڈا ،آسٹریلیا، اور یورپ کے ملکوں میں جاتے رہے ہیں لیکن اِن کو ملک سے باہر جاتے ہو ئے تحریری طور پر یہ اقرار نامہ دینا ہو تا ہے کہ وہ واپس آکر یو نیورسٹی آف بلو چستان میں خدما ت انجام دیں گے کیو نکہ بیرونِ ملک تعلیم کے تمام تر اخراجات مختلف اداروں یا حکومت کی جانب سے دئیے جاتے ہیں۔

یہاں اُن کی ماہانہ تنخواہیں بھی یو نیو رسٹی ادا کرتی ہے۔ اب تک بلو چستان سے ایسے 136 اساتذہ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے لیے بیرونِ ملک گئے جن میں سے 126 اپنی اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ مکمل کر کے واپس یہاں آگئے۔ 12 ایسے اسکالرز واپس نہیں آئے اِن غیر حاضر اسکالرز کے حوالے سے سوال کے جواب میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شفیق الرحمن نے کہا کہ جو دس اسکالرز اپنی پی ایچ ڈی مکمل کر نے کے بعد واپس نہیں آئے ان کے خلاف اب ہم متعلقہ صوبائی اور قومی اداروں کے تعاون سے کاروائی کر یں گے اور قانون کے مطابق اِس مسئلے کو حل کیا جا ئے گا۔

بلوچستان یو نیورسٹی کے معیار تعلیم اور ملک کی دوسری یو نیورسیٹوں سے موازنہ کے سوال پر انہوں کہا کہ بلوچستان یو نیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو نے والی چند اہم شخصیات کے بارے میں ابھی آپ کو بتایا ہے ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں کہ ہماری یو نیورسٹی سے فارغ التحصیل نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر نامور ہیں ،آپ اور میں بھی تو اسی یو نیو رسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔

ہماری یو نیورسٹی سے گذشتہ 18 برسوں میں 136 کے قریب لیکچرار اور پروفیسر بیرونِ ملک پی ایچ ڈی کے لیے گئے اور یہ یونیورسٹیاں دنیا کی بہترین یو نیو رسٹیاں ہیں جن کے معیار کو کو ئی بھی چیلنج نہیں کر سکتا۔ ریزلٹس دیکھیں تو سو فیصد کامیابی ہے اس کا مطلب ہے کہ ہمارے اساتذہ اور اسٹوڈنٹس کی اہلیت ہے کہ وہ عالمی سطح پر بھی مقابلہ کر سکتے ہیں۔

جہاں تک تعلق نقل کے رحجانات کا ہے تو اب یونیورسٹی کی سطح پر سالانہ امتحانات کا سسٹم ہی نہیں رہا اب تو بی ایس اور ایم ایس کی بنیاد پر سمسٹر سسٹم ہے، اب طالب علم کی لیاقت قابلیت کمپیو ٹرائزڈ انداز میں جانچی جا تی ہے۔ پھر اب طالب علم کو خود بھی احساس ہے کہ تعلیم سے فارغ ہو نے کے بعد مقابلہ اُوپن جاب مارکیٹ میں ہے اس لیے اب خود اسٹودنٹس بھی نقل یا سفارش اور اقرابا پروری کو استعمال کرنے سے گریز کر تے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دو سال بعد ہی انشااللہ ہمارا معیار تعلیم سب کے سامنے مقابلے کے لیے ہوگا۔ انہوں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن،بلوچستان کی صوبائی حکو مت اوریو این ڈی پی کی جانب سے ORIC کے لیے تعاون اور اشتراک عمل کا ذکر کرتے ہو ئے بتایا کہ ORIC کے لیے بنیادی طور پر سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ایک کروڑ روپے فراہم کئے تھے اس فنڈ میں اضافہ ہوا ہے اور اب طلباء میں پروجیکٹ کی بنیاد پر تحقیق ، نئی ایجادات اور سماجی ، اقتصادی طور پر فائدہ مند تصورات ، نئے خیال ،منصوبے اور اِ ن کو فروغ دینے میں او آر آئی سی بہترین انداز میں کا م کر رہا ہے۔

اس حوالے سے اساتذہ اور طلباء کی استعداد کار میں بہتری کے لیے سیمنیار وں اور ورکشاپوں کا انعقاد بھی ہو تا ہے اوراب یو نیورسٹی اس قابل ہو گئی ہے کہ سرکاری نیم سرکاری اداروں کو ہم مشاورت ومعاونت کی بنیاد پر سروسز اور دیگر خد مات فراہم کر رہے ہیں۔ وائس چانسلر ڈاکٹر شفیق الرحمن نے کہا کہ بلوچستان یو نیورسٹی کے کچھ شعبے ملک بھر کی یو نیو رسٹیوں سے منفرد ہیں مثلا براہوی ، بلوچی ،کے شعبے صرف ہمارے ہاں ہیں اسی طر ح فارسی اور پشتو کے شعبے بھی ملک کی ایک دو یو نیورسٹیوں ہی میں ہیں۔

دوسری جانب بلو چستان یو نیورسٹی کے نئے شعبے مقامی اور قومی پیدواری اہمیت اور اس کے فروغ سے ہم آہنگ ہیں اس لیے آئیندہ ہمارے فارغ التحصیل طلبا و طالبات اور اسکالرز کو جلد روزگار ملنے کے روشن امکانات ہیں اور اسی طرح کچھ شعبے ایسے بھی ہیں جن سے فارغ ہو نے والے خود روزگار کے اعتبار سے بھی عزت کے ساتھ مناسب ماہانہ آمدنی حاصل کر سکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اب ایم اے ،ایم ایس سی کے بند ہو جا نے کے بعد بی ایس اور ایم ایس ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ پورے صوبے کے لیے ایک چیلنج ہے۔

اب ہم نے اپنے Affiliated (منسلک) کالجوں پر بھی تو جہ دینی ہے ،2004 سے2019 تک کمپیو ٹراڈریکارڈ کے مطابق 950 افراد نے یو نیورسٹی سے ایم فل کیا اور 112000 افراد نے ایم اے، ایم ایس سی کیا۔ دو سے چار سال بعد ہمارے ہاں سے بی ایس اور ایم ایس کر نے والوں کی تعداد ہر چھ ما ہ بعد نہ صرف ہزاروں میں ہو گی بلکہ یہ عالمی معیار کے مطابق ہو گی۔

اگرچہ اب یونیورسٹی ترقی کی منازل طے کرتی اُس مقام پر ہے جہاں یہ ملک کی ایک مصروف اور اہم یو نیورسٹی کہلا تی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یونیورسٹی کے چینلجز میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے کچھ پہلو خوشگوار اور کچھ تشویشناک ہیں۔

37 برس قبل جب ہم اس یو نیو رسٹی کے اسٹوڈنٹ تھے تو یو نیورسٹی میں طلبا و طالبا ت کی تعداد بارہ تیرا سو سے زیادہ نہیں تھی اور اُس وقت بلو چستان کی کل آبادی 40 لاکھ اور کو ئٹہ شہر کی مجموعی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہیںتھی۔ آج صوبہ بلو چستان کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ بتائی جا تی ہے۔ صوبائی دارالحکومت کو ئٹہ کی آبادی 25 لاکھ کے قریب پہنچ رہی ہے۔ بیوٹم یو نیو رسٹی اور سردار بہادر خان یو نیورسٹی کے با وجود یو نیورسٹی آف بلو چستان میںمارچ2020 میں طلبا و طالبات کی مجموعی تعداد15108 تھی جس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

اس سرکاری یو نیورسٹی سے سالانہ ہزاروں طلبا و طالبات اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد فارغ ہو نگے جو بلو چستان کے لیے اُمید اور روشنی کی علامت ہے۔ یہی اعلیٰ تعلیم یا فتہ افراد صوبے اور ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر یں گے مگر فی الحال بڑا چیلنج یہ ہے کہ آنے والے تین چار برسوں میں یہاں طلبا و طالبات کی مو جودہ تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو جا ئے گی کیونکہ بی ایس اب دگنی مدت کے دورانیے یعنی چار سال کی مدت کا ڈگری پروگرام ہے۔

یوں اب بلوچستان یو نیورسٹی کے 49 Teaching Departments تدریسی شعبوں اور128 اسٹیڈی پروگراموںمیں بی ایس کی سطح پر چاربرس میں ہر شعبے کے آٹھ سیمسٹر ہو نگے اور ایم ایس کے دو سالہ پروگرام کے چار سیمسٹر ہو ں گے اِن کے لیے کل 294 کلاس رومز کی ضرورت ہے اور اِس وقت 156 کلاس رومز ہیں یوں 138 کلاس رومز کی کمی کا سامنا کر نا پڑے گا۔ واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل HEC کو 104 کلاس رومز کی ضرورت کی بنیاد پر پی سی ون بھیجی گئی تھی ،اسی طرح ٹرانسپورٹ کی بھی شدید کمی ہے اس وقت یونیو رسٹی کے پا س 33 بسیں ہیں جن میں طلبا کے بیٹھنے کی گنجا ئش 1418 ہے جب کہ 12368 طلبا ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔

بلوچستان یو نیورسٹی میں ہوسٹل کی سہو لت 2740 طلبا کو حاصل ہے اِن مسائل کے علاوہ یونیورسٹی کو مستقل نوعیت کے اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے اور شدت اختیار کرتے دو بڑے مالیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ یونیورسٹی آف بلو چستان کے ریٹائر ملازمین کی پینشن کی رقوم نہ صرف اس وقت زیادہ ہیں بلکہ اس میں مسلسل اور زیادہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس وقت یو نیورسٹی کے ریٹائر ملازمین کی تعداد 646 ہے اور اِن کی سالانہ پینشن کا بل 42 کروڑ روپے ہے۔ دسمبر2020 میں ریٹائر ہونے والوں کو کموٹیشنCommutation کی مد میں 9 کروڑ روپے دئیے گئے اور 2012 میں یہ رقم 10 کروڑ روپے ہو جائے گی۔ جب کہ 2012 دسمبر تک مزید 37 ملازمین ریٹائر ہو نگے اس طرح پینشن کی سالانہ رقم 42 کروڑ روپے میں مزید اضافہ ہو جا ئے گا اسی طرح اس وقت یونیورسٹی کے مجموعی سالانہ اخراجات کا حجم2 ارب 98 کروڑ روپے سے زیادہ ہے مگر آمدنی ایک ارب ستر کروڑ روپے ہے یوں مجموعی سالانہ خسارہ 88 کروڑ روپے سے زیادہ کا ہے۔

یونیورسٹی کے وسائل کم ہیں فیسیں ملک کی تقریباً تمام یونیورسٹیوں کے مقابلے میں اس لئے کم ہیں کہ بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں غربت اور پسماندگی ہے وہاں کم سے کم ایک ایسی سرکاری یو نیورسٹی تو ہے جو یہاں کے نو جوانوں کو50 سے زیادہ شعبوں میں بی ایس ، ایم ایس اور پی ایچ ڈی کی سطح کی اعلیٰ تعلیم فراہم کر رہی ہے۔

2010 کے بعد اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم مکمل طور پر صوبائی سبجیکٹ ہے۔ اگر چہ یہ یو نیو سٹی ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منسلک ہے جہاںسے اسے گرانٹ ملتی ہے وہاں کے ارباب اختیار کو چاہیے کہ بلوچستان کی خصوصی صورتحال کے پیش نظر یو نیورسٹی کے مالی مسائل حل کرنے میں فراخدلی سے کام لے۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ سی پیک منصوبے سے متعلق اس یو نیورسٹی کے تشویشناک مالی مسائل پر بھی تو جہ دیں۔

جہاں تک صوبائی حکومت کا تعلق ہے تو سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور میں سالانہ صوبائی بجٹ کے علاوہ بھی یو نیورسٹی میں ہونے والی ریسرچ کے لیے انہوں نے امداد دی تھی ، اس حکو مت کو بھی چاہیے کہ وہ صوبے کی اس اہم یو نیورسٹی کے مالی مسائل کے حل کی جانب توجہ دیں۔
Load Next Story