بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
بھارت نے اپنی خاتون سفارت کار کی گرفتاری پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے اور اس پر امریکا کے خلاف شدید احتجاج دیکھا گیا۔
امریکی قوانین کے الزامات ثابت ہونے پر بھارتی سفارت کار کو 15 سال کی قید ہوسکتی ہے فوٹو : فائل
دسمبر 2013 کی پہلی دہائی ختم ہوتے ہی امریکا اور بھارت میں سفارت کاری کا ایک معاملہ گمبھیر صورت اختیار کر گیا اور یوں دونوں نام نہاد دوست ممالک کے درمیان ٹھن گئی۔
ہوا یہ کہ امریکا میں کام کرنے والی ایک بھارتی خاتون سفارت کار دیویانی کھوبرا گڑے نے ای میل کے ذریعے اپنی حکومت کو مطلع کیا ''امریکی حکام نے 12 دسمبر کو مجھے حراست میں لینے کے بعد ہتھ کڑی لگائی، دورانِ حراست مجھے عریاں کرکے تلاشی لی، سفارتی استثنیٰ کے باوجود مجھے عام مجرموں اور منشیات کے عادی قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا حال آں کہ میں نے اپنے اوپر عاید ویزا فراڈ اور ملازمہ کی تن خواہ کے بارے میں غلط بیانی کے الزامات کی صحت سے مکمل انکار کر دیا تھا''۔
اس ای میل کی خبر جب بھارتی میڈیا اور عوام تک پہنچی تو بھارت میں مظاہرے شروع ہو گئے اور ہر جانب سے امریکا کو سخت برا بھلا کہا جانے لگا۔ بھارتی حکومت نے بھی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکا پر آنکھیں لال کرنا شروع کر دیں۔ ایک ہفتے میں ہی یہ معاملہ امریکا کی طرف سے معافی مانگنے کی حد تک جا پہنچا، دوسری جانب انکل سام بھی ڈٹ گئے کہ معافی نہیں مانگی جائے گی۔ یوں دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ بڑھتا گیا اور بھارت نے فوری طور پر ایک شاطرانہ چال یہ بھی چلی کہ اپنی اس سفارت کار کو اقوام متحدہ کی مندوب مقرر کر دیا تا کہ امریکا کو مزید آگے بڑھنے سے روکا جا سکے۔ دسمبر ختم ہو رہا ہے مگر بھارتی سفارت کار دیویانی کھوبراگڑے کی گرفتاری کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی سطح پر تناؤ بہ دستور برقرار ہے۔ اب ساری دنیا اس انتظار میں ہے کہ ان دو مطلب پرست دوستوں کے درمیان جو ۔۔۔۔ ''بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے''۔
بھارتی حکومت نے اپنی خاتون سفارت کار کی گرفتاری پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے اور وہاں اس واقعے پر امریکا کے خلاف شدید احتجاج دیکھنے میں آیا۔ گو کہ خاتون سفارت کار کو امریکی حکام نے اڑھائی لاکھ ڈالر کے زرِ ضمانت پر رہا کر دیا تھا مگر اس کا پاس پورٹ اور دیگر سفری دستاویزات بہ دستور امریکی حکام کے پاس ہیں۔ یاد رہے کہ امریکی قوانین کے مطابق لگائے گئے دونوں الزامات ثابت ہونے پر ملزمہ کو پندرہ سال کی قید ہوسکتی ہے۔ امریکی محکمۂ انصاف نے بھارتی سفارت کارہ کی عریاں تلاشی لیے جانے کی تصدیق کر دی ہے مگر استغاثہ کے وکیل نے سفارت کار خاتون کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو معمول کی کارروائی قرار دیتے ہوئے اپنے ملک کا بھرپور دفاع کیا ہے۔ امریکی اخبارات کے مطابق نیویارک کی عدالت کے سرکاری وکیل پریت بھرارا نے جن الفاظ میں امریکی حکام کے اقدامات کا دفاع کیا ہے وہ کچھ یوں ہے '' کھوبرا گڑے نے اپنی ملازمہ کی ویزا درخواست میں 9.75 ڈالر فی گھنٹہ اجرت لکھا ہے جو کہ امریکی قوانین کے مطابق کم سے کم اجرت ہے لیکن وہ ملازمہ کو رقم کا صرف تیسرا حصہ دیتی رہیں۔
اب اس معاملے سے متعلق میڈیا میں جو رپورٹنگ ہو رہی ہے، وہ درست نہیں ہو رہی۔ بھارتی سفارت کارہ پر گھریلو ملازمہ کا استحصال کرنے، دیر تک گھر میں کام کرانے، کم اجرت دینے اور گھریلوملازم کو امریکی ویزا دلانے کے لیے جھوٹے ثبوت فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق دیویانی کو گرفتار کرتے وقت ہتھ کڑی لگائی گئی اور ان کی برہنہ تلاشی لی گئی، اگر وہ ان الزمات کی مرتکب ثابت ہو گئیں تو انہیں پندرہ سال قید کی سزا ضرور ہوگی۔ پریت بھرارا نے کہا ''مجھے حیرت ہے کہ بھارت میں ایک ایسے فرد کے بارے میں اس قدر غصہ آخرکیوں؟ اگر غصہ کرنا ہی ہے تو وہ اس ملازمہ کے ساتھ ہونے والے سلوک پر کریں۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ سفارت کار خاتون کو ان کے بچوں کے سامنے ہرگز گرفتار نہیں کیا گیا جیسا کہ میڈیا میں رپورٹ کیا گیا ہے۔
انھیں محکمۂ خارجہ کے ایجنٹوں نے گرفتار کیا، جو ایسے معاملات کے ساتھ نمٹنے کا فن بہتر طریقے سے جانتے ہیں۔ بھارتی حکومت نے اسے قابل مذمت واقعہ قرار دیا اور ایوان بالا میں امریکا سے معافی کا مطالبہ کیا ہے،آخر اس میں ناروا سلوک والی بات کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ گرفتار کرنے والے حکام نے ان کا فون تک ضبط نہیں کیا جیسا کہ وہ عام طور پر کرتے ہیں، اس کے برعکس انہوں نے دیویانی کو نجی کال کی اجازت دی بل کہ ضرورت پڑنے پر رابطہ کرنے کی سہولت بھی فراہم کی، بچوں کی دیکھ بھال کرنے میں بھی دیویانی کی مدد کی گئی۔ گاڑی سے باہر زیادہ سردی کی وجہ سے ایجنٹوں نے اپنی کار سے انھیں فون کالز کرنے کی سہولت دی، ان کو کافی پلائی اور ان سے کھانا کھانے کا بھی پوچھا گیا''۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی نائب ترجمان میری ہارف نے اس ضمن میں کہا ہے کہ سفارتی سیکیوریٹی کے عملے نے بھارتی سفارت کار کو مروجہ ضابطے کے تحت ہی حراست میں لیا اور پھر حکام کے حوالے کیا ہے۔ امریکی کے محکمۂ خارجہ کے مطابق بھارتی سفارت کار دیویانی کھوبرا گڑے کو مکمل استثنیٰ حاصل نہیں اور جنیوا کنونشن کے تحت انھیں صرف اپنے کام سے متعلق ہی جرم میں گرفتاری سے استثنیٰ حاصل ہے۔ امریکی ترجمان نے واضح کیا کہ جو الزام بھارتی سفارت دیویانی کھوبراگڑے پر لگائے گئے ہیں ان کے بارے میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی کیوںکہ یہ معاملہ امریکی محکمۂ انصاف کے تحت آتا ہے۔ ترجمان کے مطابق نیویارک میں بھارتی قونصل خانے نے دیویانی کھوبراگڑے کے اقوام متحدہ مشن میں تبادلے کے بارے میں امریکی حکومت کو آگاہ نہیں کیا ہے۔
بھارت کے وزیرِ خارجہ سلمان خورشید نے کہا ہے ''امریکا میں بھارتی قونصل خانے میں متعین خاتون سفارت کار دیویانی کھوبرا گڑے کے خلاف درج مقدمہ امریکا کو ہر صورت واپس لینا پڑے گا''۔ نئی دہلی میں صحافیوں کے ساتھ گفت گو کرتے ہوئے بھارتی وزیرِ خارجہ سلمان خورشید نے کہا کہ ان کی حکومت نے امریکا سے واقعے کی وضات طلب کر لی ہے اور درج شدہ دونوں مقدمات فوری واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ بھارتی وزیرِ خارجہ نے یہاں تک کہا ''اس موضوع پر برسرِ اقتدار پارٹی اور اپوزیشن کو ایوان اور ایوان کے باہر یعنی میڈیا پر اب ایک ہی سْر میں بولنا ہوگا۔ اس معاملے پر ہم مختلف رائے ظاہر نہیں کر سکتے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا''۔ انھوں نے اس معاملے کو سازش قراردیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی امریکی سفارت کار کو نیا شناختی کارڈ جاری نہیں کیا جائے گا اور اب انھیں بغیر محصول کے سامان درآمد کی اجازت بھی نہیں ہو گی،آخری خبریں آنے تک بھارت نے امریکی سفارت خانے کی شراب اور کھانے پینے کی اشیاء بھی بند کر دی تھیں۔
معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے 18دسمبر کو امریکی وزیرِ خارجہ جان کری نے بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر مینن کے ساتھ خاتون سفارت کار کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے اظہارِ افسوس کیا مگر بھارتی حکومت نے جان کری کے ردِ عمل کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے بھارتی تشویش کا ازالہ نہیں ہوتا۔ بھارت کے پارلیمانی امور کے وزیر کمل ناتھ نے دوسرے دن صحافیوں سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو خاتون سفارت کار کے ساتھ بدسلوکی کے واقعے پر صرف اظہارِ افسوس کرنے کے بجائے معافی مانگنی چاہیے تھی۔ اب بھارت اسی صورت میں مطمئن ہو سکتا ہے جب امریکا دیویانی کے خلاف درج مقدمات واپس لے کر اپنی غلطی تسلیم نہ کرلے۔ باضابطہ معافی مانگے جانے تک تعلقات ٹھیک نہیں ہوں گے۔
نیویارک کے ایک صحافی سلیم رضوی کے مطابق امریکی نظام کے تحت گرفتاری کے بعد امریکی وزارتِ خارجہ کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے وزارت خارجہ کے سیکیوریٹی ایجنٹوں نے ہندوستانی سفارت کار کو امریکا کے وفاقی عدالتی نظام کے تحت سیکیوریٹی ایجنسی یعنی''امریکی مارشل سروس'' کے حوالے کر دیا۔ امریکی مارشل سروس کے ایجنٹوں کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ قیدیوں کو عدالت میں پیش کرنے سے پہلے ان کی نگرانی کریں اور مکمل طور ان کی چھان بین کریں تاکہ کوئی ہتھیار چھپا کر نہ لے جا سکے، اسی لیے دیویانی کو عدالت میں جج کے سامنے پیش کیے جانے سے پہلے جس سیل میں رکھا گیا، وہاں امریکی وفاقی قانون کی کئی دیگر خواتین ملزم بھی موجود تھیں اور ان کی بھی جامہ تلاشی لی گئی تھی۔
امریکی دستاویزات کے مطابق سفارت کار خاتون نے گھریلو ملازم کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، جس میں اس کی ماہانہ آمدنی 25 ہزار روپے اور پانچ ہزار روپے اوور ٹام مقرر کیا گیا تھا۔ ویزا درخواست کے وقت امریکی ڈالروں میں یہ رقم فی گھنٹے کے حساب سے 3.31 ڈالر بنتی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی دستاویز کے مطابق ملازم کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ویزا انٹرویو کے دوران اپنی آمدنی 9.75 ڈالر فی گھنٹا ہی بتائے اور 30 ہزار روپے تن خواہ کا ذکر نہ کرے۔ اس واقعے کے فوراً بعد بھارتی حکومت نے بہ طورِ احتجاج ملک میں تعینات امریکی سفارت کاروں کو حاصل متعدد مراعات واپس لے لیں جب کہ نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے کی سیکیوریٹی کے لیے لگائی گئی رکاوٹیں بھی ہٹادیں، دہلی میں امریکی قونصل خانے میں کام کرنے والوں کے شناختی کارڈ اور سفارت خانے کے ملازمین کو دی جانے والی تن خواہوں کی تفصیلات بھی طلب کیں، دباؤ بڑھانے کے لیے بھارتی حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں نے بہ طورِ احتجاج نئی دہلی کا دورہ کرنے والے ایک امریکی وفد کے ساتھ ملاقاتوں سے بھی انکار کردیا۔ اس پر بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر شیوشنکر مینن نے بتایا کہ امریکی وفد سے ملاقات سے انکار احتجاج کے طور پر کیا گیا ہے جب کہ بھارتی حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بھی امریکا کے خلاف عوامی مظاہرے اور احتجاج کرنا شروع کر دیے ہیں۔
کانگریس کے نائب صدر راہُل گاندھی اور بھارت کے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے بھی امریکی کانگریس کے ارکان کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔آئندہ الیکشن میں وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار نریندر مودی نے بھی انٹرنیٹ پر ٹویٹ کیا ہے کہ انھوں نے بھی امریکی وفد سے نہ ملنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نریندر مودی نے ٹوئیٹر پر لکھا ''ملک کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لیے میں امریکی وفد سے نہیں ملا ۔ دوسری جانب بھارتی وزارتِ خارجہ نے بھی امریکی حکام کی طرف سے سفارت کار کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر افسوس ناک رویہ اختیار کیا اور کہا کہ بھارت کو '' صدمہ اور حیرانی'' ہوئی ہے، اس قسم کا رویہ بالکل ناقابلِ قبول ہے''۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوئی، نئی دہلی میں تعنات امریکی سفیر کو بھی طلب کیا گیا۔ نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے نے اس صورت حال پر تبصرہ کرنے سے معذرت کرنے ہی میں عافیت سمجھی۔ بی جے پی کے رہ نما اور سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے کہا کہ امریکا نے جو کیا ہے وہ دنیا کا کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کے سفارت کار کے ساتھ نہیں کر سکتا۔ امریکا میں بھارت کے سابق سفیر رونین سین نے کہا کہ امریکا نے دیویانی کو جس طرح گرفتار کیا اور انہیں منشیات کے عادی مجرموں کے ساتھ رکھا، وہ انتہائی غیر مہذب حرکت تھی۔ دوسری جانب دیویانی کھوبراگاڑے کے والد اوتم نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی کے ساتھ قابل اعتراض رویہ روا رکھا گیا، پورا خاندان اب تک صدمے میں ہے۔
تا دم تحریر بھارت کی آنکھوں کی لالی ابھی تک برقرار ہے، ادھر امریکا نے بھی اب تک کوئی پینترا نہیں بدلا البتہ امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے اتنا کہا کہ مسٹرجان کری نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ واقعہ دونوں ملکوں کے تعلقات پر اثرانداز نہیں ہوگا۔
پوری دنیا اب اس انتظار میں ہے کہ سفارت کاری کا یہ پھڈا دوستی کے تقاضوں کے تحت یا پھر اصولوں پر سمجھوتے کے تحت طے پاتا ہے۔ امریکا اگر دب گیا تو پھر یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ وہ اپنی قانون پسندی کی ناک کس طرح پگھلاتا ہے؟۔
امریکا نے اپنے دوست کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟۔ روسی مبصربورس والھونسکی کا تبصرہ
امریکا میں بھارت کی نائب قونصل جنرل دیویانی کھوبراگڑے کی گرفتاری کے بعد معاملہ زور پکڑ رہا ہے۔ بھارت کے بلند پایہ سرکاری عہدے دار، با اثر سیاسی مدبروں اور اراکین پارلیمان نے آنے والے امریکی کانگریس کے وفد سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا اور بھارتی حکام نے دہلی میں امریکی سفارت خانے کے سامنے نصب حفاظتی رکاوٹوں کو ہٹا دیا، اس کے علاوہ بی جے پی کے لیڈر یشونت سنہا نے اپیل کی کہ انڈین پینل کوڈ کے سیکشن 377 کے مطابق امریکی سفارت کاروں کے ہم جنس پرست پارٹنروں کے خلاف مقدمے دائر کئے جائیں۔
یہ قیاس آرائی بھی بے جا نہیں کہ واشنگٹن نے طے کیا ہوگا کہ بھارت میں ہونے والے عام پارلیمانی انتخابات میں امریکا مخالف قوتوں کی ممکنہ کام یابی کے مد نظر دوطرفہ سفارتی تعلقات بگاڑنے میں پہل کر دی جائے۔روسی مبصر بورس والہونسکی کا کہنا ہے کہ دیویانی کھوبراگاڑے کی بہ دولت امریکی ویزا حاصل کرکے ان کی ملازمہ سنگیتا ریچرڈ گھر سے فرار ہوئی اور امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شکایت دائر کی، اس پس منظر میں دیویانی کھوبراگاڑے کے قصوروار ہونے یا نہ ہونے کا سوال بالائے طاق رکھ دیا گیا کیوں کہ امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے غیر ملکی سفارت کاروں سے متعلق اہم ترین قاعدوں کی در اصل سخت خلاف ورزی کی۔ بورس والہونسکی نے مزید کہا کہ امریکی وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کی کہ گویا دیویانی کھوبراگڑے کا کیس سفارتی تعلقات کے بارے میں سن 1961 کے ویانا کنونشن نہیں بل کہ قونصلوں کی سطح پر تعلقات کے بارے میں سن 1963 کے ویانا کنونشن کے دائرہ عمل میں آتا ہے لیکن دیویانی کھوبراگڑے، قونصل خانے کی اہل کار ہونے کے علاوہ سفارت کار بھی ہیں۔
اس لیے ان کا کیس بہ ظاہر سن 1961 کے کنونشن کے دائرۂ عمل میں ہی آتا ہے، اس لیے امریکی حکام انہیں ملک بہ در کر سکتے تھے لیکن انہیں گرفتار اور ان کی تلاشی لینے کا حق نہیں رکھتے تھے، اس لیے امریکی حکام کو اپنے ان اقدامات پر بھارت ک شدید رد عمل خلاف توقع نہیں سمجھنا چاہیے مگر بھارت نے جو تدبیر اختیار کی ہے، اس کے نتائج امریکا کے لیے ناخوش گوار ہو سکتے ہیں۔ دہلی میں امریکی سفارت خانے کے سامنے نصب حفاظتی رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں، جس کے باعث اب موٹر کاریں تیزرفتاری سے عمارت تک پہنچ سکتی ہیں۔ چوںکہ امریکی، ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اپنے جنگی آپریشنز کی وجہ سے ممکنہ دہشت گردانہ حملوں سے مستقل خوف کی فضا میں رہتے ہیں، اس لیے یہ اندازہ کیاجا سکتا ہے کہ بھارتی حکام کی اس تدبیر کا ان پر گہرا نفسیاتی اثر ہوگا۔ مبصر کے خیال میں بھارتی سفارت کار کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے امریکی حکام کو بھارت کے اس قدر شدید ردعمل کا اندازہ نہ رہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ واشنگٹن نے ایسا پیش بندی کے طور پر کیا ہو کیوں کہ اسے بھی خدشہ ہے کہ بھارت کے آئندہ عام انتخابات میں نریندر مودی برسراقتدار آ سکتے ہیں، جن کا تعلق امریکا مخالف بی جے پی سے ہے اور یاد رہے کہ نریندر مودی امریکا کی ناپسندیدہ شخصیت ہیں؛ واشنگٹن نے ایک موقع پر نریندر مودی کو ویزا جاری کرنے سے انکار کردیا تھا۔