اسمگلنگ کا حجم 34 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ملک کو 22 ارب ڈالر کا نقصان رپورٹ
12 مصنوعات گاڑیاں و پارٹس،ٹائرز،کپڑا،ٹی وی،چائے کی پتی،خوردنی تیل،لبریکنٹس، موبائل،دوائیں،ڈیزل اور سگریٹ سرفہرست اسمگل
پاکستان میں اسمگلنگ کا سالانہ حجم جی ڈی پی کے 11 فیصد یعنی 34 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا جس سے معیشت کو صرف محصولات کی مد میں سالانہ 22 ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے۔
پاکستان میں اسمگل شدہ مصنوعات کی بھرمار معیشت کے ساتھ پاکستان کی سلامتی اور شہریوں کی سیکیورٹی کے لیے بھی خطرہ ہے جب کہ 22 ارب ڈالر کا یہ نقصان پاکستان کی سالانہ ایکسپورٹ یا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانے والی رقوم کے مساوی ہے۔
اس طرح دنیا کے 90 ممالک میں موجود پاکستانی محنت کرکے جو رقوم وطن بھیجتے ہیں یا پاکستان کی فیکٹریوں اور کارخانوں میں دن رات کی محنت سے کی جانے والی ایکسپورٹ کا معاشی فائدہ صرف 12 مصنوعات کی اسمگلنگ کی وجہ سے ضایع ہورہا ہے۔
اسمگلنگ کے لیے استعمال ہونے والے متوازی یا متبادل راستے دہشت گردوں کی آمدروفت کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کا راستہ کھلا ہوا ہے۔
معیشت کے لیے اسمگلنگ ایک سرطان بنی ہوئی ہے پاکستان کا مشکل جغرافیائی محل وقو ع بھی اسمگلنگ کے فروغ کی اہم وجہ ہے۔ افغانستان کے ساتھ غیر روایتی سرحد پار تجارت پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کسٹم اتھارٹیز کے لیے بدستور چیلنج بنی ہوئی ہے۔
اس پر مارکیٹوں میں کنٹرول نہ ہونے اور اسمگل شدہ مصنوعات کا سراغ لگانے اور اسمگلروں کے ساتھ ان کی سرپرستی اور مدد کرنے والے سرکاری عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی نہ ہونے سے اسمگلنگ کے حجم اور معاشی نقصانات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
امریکا کی سر فہرست یونیورسٹی سے فارغ التحصیل پاکستانی طلباء اور معاشی تحقیق کاروں کی سال 2018ء کے ڈیٹا کی بنیاد پر کی جانے والی ایک ریسرچ میں 12 مصنوعات کا جائزہ لیا گیا قبل ازیں اس طرز کی رپورٹ 2015ء میں مرتب کی گئی تھی۔
پانچ سال کے وقفہ کے بعد 2019ء میں مرتب ہونے والی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں اسمگلنگ کے معاشی نقصانات پانچ سال کے دوران جی ڈی پی کے 3.88 فیصد سے بڑھ کر جی ڈی پی کے 11.25 فیصد کے برابر آچکے ہیں۔ اسمگلنگ کے حجم اور معاشی نقصانات میں نمایاں اضافہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
رپورٹ
حالیہ رپورٹ کے مطابق اسمگل شدہ 12 مصنوعات بشمول گاڑیاں، صفائی ستھرائی اور باڈی کیئر مصنوعات، ٹائرز، کپڑا، ٹی وی سیٹ، چائے کی پتی، خوردنی تیل، لبریکنٹس، موبائل فونز، ادویات، ڈیزل، سگریٹ اور گاڑیوں کے پرزہ جات پاکستان میں اسمگل شدہ مصنوعات کا 90 فیصد ہیں۔
جنوری 2018ء سے دسمبر 2018ء کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں اسمگلنگ کا حجم 34 ارب 52 کروڑ ڈالر ہے جس سے ملکی معیشت کو ٹیکسوں کی مد میں 22 ارب 48 کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اسمگل شدہ مصنوعات کی فہرست میں ڈیزل سرفہرست آئٹم ہے جو معیشت کے لیے سب سے زیادہ نقصان کا سبب بن رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2018ء کے دوران 22 ارب 79 کروڑ ڈالر مالیت کا ڈیزل اسمگل کیا گیا جس سے معیشت کو 7.3 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ رپورٹ کے مطابق گاڑیوں کی اسمگلنگ کی مالیت 7.4 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی جس سے محصولات کی مد میں 13 ارب ڈالر سے زائد خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔
اسمگل شدہ مصنوعات میں موبائل فون تیسرے نمبر پر رہے۔ 2.4 ارب ڈالر کے موبائل فونز کی اسمگلنگ سے معیشت کو 77 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسی طرح پرزہ جات کی اسمگلنگ قومی خزانے پر 5 کروڑ 37 لاکھ ڈالر، سگریٹ کی اسمگلنگ 7 کروڑ 30 لاکھ ڈالر، ادویات کی اسمگلنگ 14 کروڑ 75 لاکھ ڈالر، لبریکنٹس کی اسملگنگ 4 کروڑ 55 لاکھ ڈالر کے نقصان کا باعث بنی۔
پاکستان میں اسمگل شدہ مصنوعات کی بھرمار معیشت کے ساتھ پاکستان کی سلامتی اور شہریوں کی سیکیورٹی کے لیے بھی خطرہ ہے جب کہ 22 ارب ڈالر کا یہ نقصان پاکستان کی سالانہ ایکسپورٹ یا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانے والی رقوم کے مساوی ہے۔
اس طرح دنیا کے 90 ممالک میں موجود پاکستانی محنت کرکے جو رقوم وطن بھیجتے ہیں یا پاکستان کی فیکٹریوں اور کارخانوں میں دن رات کی محنت سے کی جانے والی ایکسپورٹ کا معاشی فائدہ صرف 12 مصنوعات کی اسمگلنگ کی وجہ سے ضایع ہورہا ہے۔
اسمگلنگ کے لیے استعمال ہونے والے متوازی یا متبادل راستے دہشت گردوں کی آمدروفت کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کا راستہ کھلا ہوا ہے۔
معیشت کے لیے اسمگلنگ ایک سرطان بنی ہوئی ہے پاکستان کا مشکل جغرافیائی محل وقو ع بھی اسمگلنگ کے فروغ کی اہم وجہ ہے۔ افغانستان کے ساتھ غیر روایتی سرحد پار تجارت پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کسٹم اتھارٹیز کے لیے بدستور چیلنج بنی ہوئی ہے۔
اس پر مارکیٹوں میں کنٹرول نہ ہونے اور اسمگل شدہ مصنوعات کا سراغ لگانے اور اسمگلروں کے ساتھ ان کی سرپرستی اور مدد کرنے والے سرکاری عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی نہ ہونے سے اسمگلنگ کے حجم اور معاشی نقصانات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
امریکا کی سر فہرست یونیورسٹی سے فارغ التحصیل پاکستانی طلباء اور معاشی تحقیق کاروں کی سال 2018ء کے ڈیٹا کی بنیاد پر کی جانے والی ایک ریسرچ میں 12 مصنوعات کا جائزہ لیا گیا قبل ازیں اس طرز کی رپورٹ 2015ء میں مرتب کی گئی تھی۔
پانچ سال کے وقفہ کے بعد 2019ء میں مرتب ہونے والی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں اسمگلنگ کے معاشی نقصانات پانچ سال کے دوران جی ڈی پی کے 3.88 فیصد سے بڑھ کر جی ڈی پی کے 11.25 فیصد کے برابر آچکے ہیں۔ اسمگلنگ کے حجم اور معاشی نقصانات میں نمایاں اضافہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
رپورٹ
حالیہ رپورٹ کے مطابق اسمگل شدہ 12 مصنوعات بشمول گاڑیاں، صفائی ستھرائی اور باڈی کیئر مصنوعات، ٹائرز، کپڑا، ٹی وی سیٹ، چائے کی پتی، خوردنی تیل، لبریکنٹس، موبائل فونز، ادویات، ڈیزل، سگریٹ اور گاڑیوں کے پرزہ جات پاکستان میں اسمگل شدہ مصنوعات کا 90 فیصد ہیں۔
جنوری 2018ء سے دسمبر 2018ء کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں اسمگلنگ کا حجم 34 ارب 52 کروڑ ڈالر ہے جس سے ملکی معیشت کو ٹیکسوں کی مد میں 22 ارب 48 کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اسمگل شدہ مصنوعات کی فہرست میں ڈیزل سرفہرست آئٹم ہے جو معیشت کے لیے سب سے زیادہ نقصان کا سبب بن رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2018ء کے دوران 22 ارب 79 کروڑ ڈالر مالیت کا ڈیزل اسمگل کیا گیا جس سے معیشت کو 7.3 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ رپورٹ کے مطابق گاڑیوں کی اسمگلنگ کی مالیت 7.4 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی جس سے محصولات کی مد میں 13 ارب ڈالر سے زائد خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔
اسمگل شدہ مصنوعات میں موبائل فون تیسرے نمبر پر رہے۔ 2.4 ارب ڈالر کے موبائل فونز کی اسمگلنگ سے معیشت کو 77 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسی طرح پرزہ جات کی اسمگلنگ قومی خزانے پر 5 کروڑ 37 لاکھ ڈالر، سگریٹ کی اسمگلنگ 7 کروڑ 30 لاکھ ڈالر، ادویات کی اسمگلنگ 14 کروڑ 75 لاکھ ڈالر، لبریکنٹس کی اسملگنگ 4 کروڑ 55 لاکھ ڈالر کے نقصان کا باعث بنی۔
اسی طرح چائے کی پتی کروڑوں ڈالر، ٹی وی سیٹ 7 کروڑ 93 لاکھ ڈالر، کپڑے کی اسمگلنگ 28 کروڑ 90 لاکھ ڈالر، ٹائرز کی اسمگلنگ 47 کروڑ ڈالر اور صفائی ستھرائی اور باڈی کیئر مصنوعات کی اسمگلنگ قومی خزانے کے لیے 47 کروڑ ڈالر خسارے کا سبب بنی۔