جاپانی کھانے اور آداب دستر خوان
جاپان بھی ایک ایسی ہی شاندار تہذیب ہے جس کے کھانے اس کی تہذیب کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔
دنیا مختلف تہذیبوں کامجموعہ ہے۔دنیا میں غالب مغربی تہذیب کے علاوہ اور بھی کئی تہذیبیں ہیں جن میں کچھ ختم ہوچکی ہیں اور کچھ تاحال موجود ہیں۔مثال کے طور پر مٹ جانے والی تہذیبوں میں ایزٹک اور مایا اور قدیم مصری تہذیبیں سرفہرست ہیں، ایسی تہذیبیں بھی ہیں جنہوں نے خود کو بھرپور طریقے سے برقرار رکھا ہے جیسے چینی و جاپانی تہذیب ، ہندوستانی تہذیب اور عرب اسلامی تہذیب وغیرہ۔
ترقی یافتہ تہذیبوں کے کئی مظاہر ہوتے ہیں جیسے ان کا رہن سہن ، زبان ، ثقافت اور کھانا پینا وغیرہ ، اور اسی سے دنیا میں ان کی پہچان ہوتی ہے۔کھانا پینا اوراس کے آداب کسی بھی تہذیب کا اہم ترین مظہر سمجھے جاتے ہیں۔جاپان بھی ایک ایسی ہی شاندار تہذیب ہے جس کے کھانے اس کی تہذیب کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ذیل میں ہم آپ کے لیے جاپانی کھانوں اور ان کے آداب دستر خوانی کا ایک مختصر جائزہ پیش کررہے ہیں۔
جاپانی کھانوں اور ان کے آداب دسترخوانی سے مراد ان کے اجزائے ترکیبی ، تیاری کے مراحل اور ان کو خور ونوش کا طریقہ ہے۔ جاپان چونکہ ایک ایک مشرقی ملک ہے اس لیے ان کے کھانوں میں مشرق کی طرح شوربہ بہت استعمال کیا جاتا ہے۔ جاپان کی روایتی خوراک چاول اور ایک شوربہ ہوتا ہے جسے miso soupکہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ چند اور ڈشیں ہوتی ہیں جنہیں ان کے مخصوص برتنوں میں پیش کیا جاتا ہے۔جاپانی کھانوں کی ایک اور دلچسپ خصوصیت یہ ہے کہ ان میں موسم کے مطابق اجزاء استعمال کیے جاتے ہیں۔
جاپانیوں کی روایتی خوراک میں شامل دیگر غذاؤں میں مچھلی ، سبزیوں کااچار اور مچھلی یا گوشت کے پتلے شوربے میں پکی ہوئی سبزیاں سرفہرست ہیں۔ مچھلی بھی جاپانیوں کی خوراک میں عام ہوتی ہے ۔ یہ عام طورپر گرلڈ یعنی جالی پر بھنی ہوئی ہوتی ہے تاہم اس کو کچا بھی کھایا جاتا ہے جسے sashimi یا sushi کہا جاتا ہے۔سمندری غذاؤں یا سی فوڈز اور سبزیوں کو ڈیپ فرائی کرنے کے بعد ہلکا ہلکا کوٹا جاتا ہے۔
چاولوں کے علاوہ جاپانیوں کی پسندیدہ غذاؤں میں نمکین سویاں بھی شامل ہیں جنہیں نوڈلز کہا جاتا ہے، جیسے سوبا اور اڈون وغیرہ۔جاپانی غذاؤں میں ابلتے ہوئے شوربے سے بنے کھانے بھی بہت مقبول ہیں۔مثال کے طور پر مچھلی کی مصنوعات سے بنا شوربہ جیسے oden یا بڑے گوشت سے بنا شوربہ جسے sukiyaki اور nikujaga کہا جاتا ہے۔تاریخی طورپر دیکھا جائے تو جاپانی گوشت کو کھانا پسند نہیں کرتے تھے لیکن 1860 کی دہائی میں جب جاپان کی ماڈرنائزیشن شروع ہوئی تو گوشت سے بنے کھانے بھی عام ہونے لگے۔
اس طرح جاپان کی مٹھائیاں بھی اپنی مقامی ہیں جسے wagashi کہا جاتا ہے۔اس کے اجزاء میں سرخ دال کا پیسٹ اور مقامی چاول کی شراب نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ چینی اور دیگر خشک میوے ڈالے جاتے ہیں۔جاپان کی روایتی خوراکیں خاص طورپر کچی مچھلی ''سوشی'' اب پوری دنیا میں مقبول ہورہی ہیں۔
اب ذرا مزید وضاحت کردیں۔ جاپانی سفید چاول کو بھاپ کے ذریعے پکاتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ کئی اور مرکزی اور ثانوی ڈشیں ہوتی ہیں۔اس کے ساتھ شفاف یخنی یعنی miso soup اور اچار ہوتا ہے جسے جاپانی میں tsukemono کہتے ہیں۔
جاپانی کھانے کس طرح پیش کیے جاتے ہیں؟
جیسا کہ بتایا گیا کہ چاول اور مچھلی جاپانیوں کی بنیادی غذا ہے۔ چاول ایک چھوٹے پیالے (chawan) میں پیش کیے جاتے ہیں جبکہ ہر کھانا چھوٹی پلیٹوں (sara) یا ، bowl (hachi) میں دیا جاتا ہے۔گھر میں بھی ایسے ہی کھانا کھایا جاتا ہے۔یہ طریقہ مغربی انداز کے کھانے سے مختلف ہے ۔مغربی آداب دسترخوانی میں کھانے کی میز کے درمیان بڑے برتنوں یا بڑے ڈونگوں میں مرکزی کھانے رکھ دیے جاتے ہیں اور سب مہمان چھوٹی پلیٹوں میں کھانا لے کر کھاتے ہیں جبکہ جاپانی طریقے میں مختلف رنگ اور ذائقے کے کھانوں کو ایک پلیٹ میں رکھا جاتا ہے ۔چنانچہ مختلف ذائقوں کے کھانے کے لیے مختلف ڈشز ہوتی ہیں یا ان کے درمیاں پتوں کے ذریعے تقسیم کی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٹیک آؤٹ سوشی یعنی گھر لے جانے والی سوشی جو کہ tamagoyaki کہلاتی ہے اور انڈوں اور مچھلی سے بنتی ہے یا Blue-backed مچھلی اور سفید گوشت دار مچھلی کو احتیاط سے الگ الگ رکھا جاتا ہے ۔ چاولوں کے اوپر اکاوز یعنی مختلف کھانے کی چیزوں کو رکھنا جاپانیوں کی نظر میں اچھا نہیں اور پرانے مہذب جاپانی اس پر ناک بھوں چڑھالیتے ہیں۔ یہ چینی کھانے کے بالکل برعکس ہے جس میں کھانے پینے کی چیزوں کو چاولوں کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے۔
آداب دسترخوانی
جاپان کے زیادہ تر ریسٹورنٹس اور گھروں میں مغربی طرز کی کھانے کی میز استعمال کی جاتی ہے۔تاہم روایتی انداز کی نیچی میز اور کشن والا طریقہ آج بھی بہت عام ہے۔اس میں فرش پر ایک چٹائی نما چادر بچھائی جاتی ہے اوراس کے اوپر نیچی میزیں رکھ دی جاتی ہیں۔جاپانی چٹائی کوTatami کہا جاتا ہے اور یہ تنکوں سے بنی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ بہت جلدی ٹوٹ جاتی یا گندی ہوجاتی ہے اس لیے اس پر جانے کے لیے ہمیشہ جوتے اتارے جاتے ہیں۔
ٹاٹامی پر کھانے کے لیے نیچی میزوں کے ساتھ فرش پر سیدھا بیٹھا جاتا ہے۔ اس میں مرد حضرات تو ٹانگیں موڑ کر بیٹھتے ہیں جبکہ خواتین کو مخصوص طریقے سے بیٹھنا ہوتا ہے جس میں ٹانگوں کو ایک سائیڈ پرکرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی جاپانی ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے لگے ہیں تو میزبان نشست کی جانب آپ کی رہنمائی کرے گا اور مہذب طریقہ یہ ہے کہ اس کی جانب سے بیٹھنے کا اشارہ کرنے کے بعد بیٹھا جائے۔معزز یا سب سے معمر مہمان کو اس میز کے وسط میں بٹھایا جاتا ہے جو داخلی دروازے سے سب سے زیادہ دور ہوتی ہے۔اس طرح گھر میں بھی سب سے اہم مہمان کو داخلی دروازے سے سب سے دور والی نشست پر بٹھایا جاتا ہے۔ اگر کمرے میں کوئی شہ نشین موجود ہے تو مہمان کو اس کے سامنے بٹھایا جاتا ہے۔ میزبان اس کے ساتھ یا داخلی دروازے کے قریب ترین نشست پر بیٹھتا ہے۔
حکمت اور ثقافت کا حسین امتزاج
جاپان میں غذائیت کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ یہ ملک ہے۔ماضی کے اوراق کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جاپانیوں نے مختلف پیشے اپنائے۔پہاڑوں اور سمندروں سے غذائی فوائد حاصل کیے۔انہوں نے اناج کی کاشت پہلی مرتبہ جومون عہد میں کی۔یہ زمانہ دس ہزار سے تین سو قبل مسیح کا ہے۔خاص طورپر چاول کی کاشت کا آغاز اسی دور کے اختتام پر ہوا۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دور سے پہلے جاپانی کھانے نہیں پکایا کرتے تھے ۔ اس زمانے سے بہت پہلے جب جاپانی فصل کاشت کیاکرتے تھے تو وہ ان کو پکایا بھی کرتے تھے۔اس کو پکانے کے لیے پانی اور آگ سے پیدا ہونے والی بھاپ کو استعمال کیاجاتا تھا۔ہیان عہد میں جدید پکوان کے طریقے وضع کیے گئے۔یہ زمانہ سات سو سے گیارہ سو عیسوی کا ہے۔اس دور میں ایک رواج نے فروغ پایا جسے ''اچی یو سان سائی'' کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے ''ہلکا پھلکا کھانا''۔یہ رواج آج بھی زندہ و پائندہ ہے۔اس طریقے کے کھانے میں چاول ، سوپ ا ورسرکے میں بنی سبزیاں شامل ہیں۔
اس جاپانی خوراک میں سب سے خاص چیز چاول کا استعمال ہوتا ہے۔یہ جاپانی کھانا ایک خاص قسم کا ذائقہ اپنے اندر لیے ہوتا ہے اور مختلف اجزاء کا ملاپ کرکے اسے مزید لذید بنایا جاتا ہے۔کاما کورا عہد میں بدھ راہبوں نے غذائی ممانعت شروع کی تو ''شوجن رائی اوری'' کو ایجاد کیا گیا۔یہ ایک سبزی نما کھانا ہے۔ اس زمانے کے قوانین میں مال مویشی پالنے اور کسی بھی قسم کے گوشت کو ذخیرہ کرنے پر پابندی تھی۔ لہٰذا اس کھانے کے انداز کے ذریعے سبزیوں کو ذائقہ دینے کی کوشش کی گئی۔مصالحہ جات اور پکوان کے نت نئے طریقوں نے سبزیوں کے کھانوں کو مزید فروغ دیا۔ پکوان کے کئی طریقوں نے کھانے کی اس جدت کو تخلیق کیا۔ اس میں ڈاشی سٹوک بھی شامل ہے۔ خشک بونیٹو اور کومبو کلپ کی مدد سے بھی ڈاشی سٹوک بنائے جاتے ہیں۔یہی کھانا جاپانی کھانوں کی اصل روح ہے۔ یہ پانچواں ذائقہ ہے جبکہ دیگر جاپانی کھانوں کے چار ذائقوں میں مٹھاس ، کھٹاس ، نمکینی اور کڑواہٹ کے ذائقے شامل ہیں۔
جاپان کے موجودہ دور میں جاپانی کھانوں میں نظر آنے والی جدت کا فروغ کاما کورا عہد کے کئی سال بعد شروع ہوا۔جاپان میں روایتی کھانے بھی دھیرے دھیرے ثقافت کاحصہ بن گئے، جیسے چائے نوشی کی روایت ہے۔حتمی طورپر جاپانی کھانے ایدو عہد میں سترھویں سے انیسویں صدی تک اپنی بناوٹی تکمیل تک پہنچ گئے۔ گزشتہ دو سو برس سے موجودہ عہد تک جاپانیوں نے خوردنی نباتات جیسا کہ mirin میٹھی پکوان وائن ، سرکہ ، سویاساس کا بھی استعمال شروع کردیا۔اس طرح جاپانی کھانوں کی اقسام ڈرامائی طورپر بڑھ گئیں۔پہلے صرف گھر میں کھانا کھانے کی روایت تھی لیکن اب گھر سے باہر کھانا کھانا بھی ایک معمول بن گیا ہے۔ باہر کھانا کھانے میں سوبانو ڈولز ، سوشی اور تیمپورا فرائڈ کھانے بہت مقبول ہوگئے ہیں۔
میجی عہد میں انیسویں سے بیسویں صدی تک جاپانی کھانے مزید ارتقائی مدارج طے کرنے لگے اور جاپانی اجزاء کے مرکبات کی مدد سے مغربی کھانے بھی بننے لگے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان میں جاپانی کھانوں کے علاوہ دنیا کے دیگر کھانوں کا بھی آغاز ہوگیا اور جاپانی خوراک کے حالات رفتہ رفتہ تبدیل ہونے لگے۔اسی ماحول میں جاپانی کھانے کی لذت اور صحت مندانہ پہلو کو دنیا بھر کی جانب سے سراہا گیا۔تاہم اب کئی جاپانی دوبارہ سے اپنے قومی کھانے کی کشش کو دریافت کررہے ہیں۔
مچھلی جاپانی خوراک کا اہم حصہ ہے۔جاپانیوں کی نفاست کا اندازہ ان کے مچھلی کے استعمال سے لگایا جاسکتا ہے۔وہ کس طرح مچھلی کو صاف کرتے ہیںاور کس طرح اس کی کٹائی کرتے ہیں۔ اس مشق میں جب ذائقہ استعمال ہوجائے تو مزید لطف آتا ہے۔ مختلف مصالحہ جات اور جڑی بوٹیوں کا استعمال ان ذائقوں کو محفوظ کر لیتا ہے۔اس کھانے کو سجانے کے لیے میز ، کچھ پھول اور پودے چاہئے ہوتے ہیں۔یہ بھی سجاوٹ کا ایک فطری اظہار ہوتا ہے جس کی مشق کرکے جاپانی طمانیت محسوس کرتے ہیں۔
آخر میں آپ کو بتاتے چلیں کہ جاپانی کھانے کے نظام میں ایک پختہ روایت ہے۔ جس کا تمام جاپانی بہت خیال رکھتے ہیں۔ وہ روایت ہے فطرت کا شکریہ اداکرنا۔آپ کو اس روایت کا ذکر کئی جاپانی کہاوتوں میں ملے گا۔مثال کے طورپر ''ای تا ڈاکی ماسو'' یعنی ''میں کچھ خاص وصول کررہا ہوں۔'' اس طرح ایک کہاوت ہے ''گوچی سوسا ما'' جس کا مطلب ہے کہ ''اس دعوت کے لیے تمہارا شکریہ۔'' یہ احساسات کاایک ذریعہ ہے جس کا اظہار جاپانی روزمرہ زندگی میں کرتے ہیں ۔اب اگر آپ کسی جاپانی کی دعوت میں کھانا کھارہے ہوںتو ''ای تا ڈاکی ماسو'' ضرور کہیں ۔کھانا کھا چکنے کے بعد ''گوچی سوساما'' کہنا بھی نہ بھولیں۔
ترقی یافتہ تہذیبوں کے کئی مظاہر ہوتے ہیں جیسے ان کا رہن سہن ، زبان ، ثقافت اور کھانا پینا وغیرہ ، اور اسی سے دنیا میں ان کی پہچان ہوتی ہے۔کھانا پینا اوراس کے آداب کسی بھی تہذیب کا اہم ترین مظہر سمجھے جاتے ہیں۔جاپان بھی ایک ایسی ہی شاندار تہذیب ہے جس کے کھانے اس کی تہذیب کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ذیل میں ہم آپ کے لیے جاپانی کھانوں اور ان کے آداب دستر خوانی کا ایک مختصر جائزہ پیش کررہے ہیں۔
جاپانی کھانوں اور ان کے آداب دسترخوانی سے مراد ان کے اجزائے ترکیبی ، تیاری کے مراحل اور ان کو خور ونوش کا طریقہ ہے۔ جاپان چونکہ ایک ایک مشرقی ملک ہے اس لیے ان کے کھانوں میں مشرق کی طرح شوربہ بہت استعمال کیا جاتا ہے۔ جاپان کی روایتی خوراک چاول اور ایک شوربہ ہوتا ہے جسے miso soupکہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ چند اور ڈشیں ہوتی ہیں جنہیں ان کے مخصوص برتنوں میں پیش کیا جاتا ہے۔جاپانی کھانوں کی ایک اور دلچسپ خصوصیت یہ ہے کہ ان میں موسم کے مطابق اجزاء استعمال کیے جاتے ہیں۔
جاپانیوں کی روایتی خوراک میں شامل دیگر غذاؤں میں مچھلی ، سبزیوں کااچار اور مچھلی یا گوشت کے پتلے شوربے میں پکی ہوئی سبزیاں سرفہرست ہیں۔ مچھلی بھی جاپانیوں کی خوراک میں عام ہوتی ہے ۔ یہ عام طورپر گرلڈ یعنی جالی پر بھنی ہوئی ہوتی ہے تاہم اس کو کچا بھی کھایا جاتا ہے جسے sashimi یا sushi کہا جاتا ہے۔سمندری غذاؤں یا سی فوڈز اور سبزیوں کو ڈیپ فرائی کرنے کے بعد ہلکا ہلکا کوٹا جاتا ہے۔
چاولوں کے علاوہ جاپانیوں کی پسندیدہ غذاؤں میں نمکین سویاں بھی شامل ہیں جنہیں نوڈلز کہا جاتا ہے، جیسے سوبا اور اڈون وغیرہ۔جاپانی غذاؤں میں ابلتے ہوئے شوربے سے بنے کھانے بھی بہت مقبول ہیں۔مثال کے طور پر مچھلی کی مصنوعات سے بنا شوربہ جیسے oden یا بڑے گوشت سے بنا شوربہ جسے sukiyaki اور nikujaga کہا جاتا ہے۔تاریخی طورپر دیکھا جائے تو جاپانی گوشت کو کھانا پسند نہیں کرتے تھے لیکن 1860 کی دہائی میں جب جاپان کی ماڈرنائزیشن شروع ہوئی تو گوشت سے بنے کھانے بھی عام ہونے لگے۔
اس طرح جاپان کی مٹھائیاں بھی اپنی مقامی ہیں جسے wagashi کہا جاتا ہے۔اس کے اجزاء میں سرخ دال کا پیسٹ اور مقامی چاول کی شراب نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ چینی اور دیگر خشک میوے ڈالے جاتے ہیں۔جاپان کی روایتی خوراکیں خاص طورپر کچی مچھلی ''سوشی'' اب پوری دنیا میں مقبول ہورہی ہیں۔
اب ذرا مزید وضاحت کردیں۔ جاپانی سفید چاول کو بھاپ کے ذریعے پکاتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ کئی اور مرکزی اور ثانوی ڈشیں ہوتی ہیں۔اس کے ساتھ شفاف یخنی یعنی miso soup اور اچار ہوتا ہے جسے جاپانی میں tsukemono کہتے ہیں۔
جاپانی کھانے کس طرح پیش کیے جاتے ہیں؟
جیسا کہ بتایا گیا کہ چاول اور مچھلی جاپانیوں کی بنیادی غذا ہے۔ چاول ایک چھوٹے پیالے (chawan) میں پیش کیے جاتے ہیں جبکہ ہر کھانا چھوٹی پلیٹوں (sara) یا ، bowl (hachi) میں دیا جاتا ہے۔گھر میں بھی ایسے ہی کھانا کھایا جاتا ہے۔یہ طریقہ مغربی انداز کے کھانے سے مختلف ہے ۔مغربی آداب دسترخوانی میں کھانے کی میز کے درمیان بڑے برتنوں یا بڑے ڈونگوں میں مرکزی کھانے رکھ دیے جاتے ہیں اور سب مہمان چھوٹی پلیٹوں میں کھانا لے کر کھاتے ہیں جبکہ جاپانی طریقے میں مختلف رنگ اور ذائقے کے کھانوں کو ایک پلیٹ میں رکھا جاتا ہے ۔چنانچہ مختلف ذائقوں کے کھانے کے لیے مختلف ڈشز ہوتی ہیں یا ان کے درمیاں پتوں کے ذریعے تقسیم کی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٹیک آؤٹ سوشی یعنی گھر لے جانے والی سوشی جو کہ tamagoyaki کہلاتی ہے اور انڈوں اور مچھلی سے بنتی ہے یا Blue-backed مچھلی اور سفید گوشت دار مچھلی کو احتیاط سے الگ الگ رکھا جاتا ہے ۔ چاولوں کے اوپر اکاوز یعنی مختلف کھانے کی چیزوں کو رکھنا جاپانیوں کی نظر میں اچھا نہیں اور پرانے مہذب جاپانی اس پر ناک بھوں چڑھالیتے ہیں۔ یہ چینی کھانے کے بالکل برعکس ہے جس میں کھانے پینے کی چیزوں کو چاولوں کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے۔
آداب دسترخوانی
جاپان کے زیادہ تر ریسٹورنٹس اور گھروں میں مغربی طرز کی کھانے کی میز استعمال کی جاتی ہے۔تاہم روایتی انداز کی نیچی میز اور کشن والا طریقہ آج بھی بہت عام ہے۔اس میں فرش پر ایک چٹائی نما چادر بچھائی جاتی ہے اوراس کے اوپر نیچی میزیں رکھ دی جاتی ہیں۔جاپانی چٹائی کوTatami کہا جاتا ہے اور یہ تنکوں سے بنی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ بہت جلدی ٹوٹ جاتی یا گندی ہوجاتی ہے اس لیے اس پر جانے کے لیے ہمیشہ جوتے اتارے جاتے ہیں۔
ٹاٹامی پر کھانے کے لیے نیچی میزوں کے ساتھ فرش پر سیدھا بیٹھا جاتا ہے۔ اس میں مرد حضرات تو ٹانگیں موڑ کر بیٹھتے ہیں جبکہ خواتین کو مخصوص طریقے سے بیٹھنا ہوتا ہے جس میں ٹانگوں کو ایک سائیڈ پرکرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی جاپانی ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے لگے ہیں تو میزبان نشست کی جانب آپ کی رہنمائی کرے گا اور مہذب طریقہ یہ ہے کہ اس کی جانب سے بیٹھنے کا اشارہ کرنے کے بعد بیٹھا جائے۔معزز یا سب سے معمر مہمان کو اس میز کے وسط میں بٹھایا جاتا ہے جو داخلی دروازے سے سب سے زیادہ دور ہوتی ہے۔اس طرح گھر میں بھی سب سے اہم مہمان کو داخلی دروازے سے سب سے دور والی نشست پر بٹھایا جاتا ہے۔ اگر کمرے میں کوئی شہ نشین موجود ہے تو مہمان کو اس کے سامنے بٹھایا جاتا ہے۔ میزبان اس کے ساتھ یا داخلی دروازے کے قریب ترین نشست پر بیٹھتا ہے۔
حکمت اور ثقافت کا حسین امتزاج
جاپان میں غذائیت کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ یہ ملک ہے۔ماضی کے اوراق کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جاپانیوں نے مختلف پیشے اپنائے۔پہاڑوں اور سمندروں سے غذائی فوائد حاصل کیے۔انہوں نے اناج کی کاشت پہلی مرتبہ جومون عہد میں کی۔یہ زمانہ دس ہزار سے تین سو قبل مسیح کا ہے۔خاص طورپر چاول کی کاشت کا آغاز اسی دور کے اختتام پر ہوا۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دور سے پہلے جاپانی کھانے نہیں پکایا کرتے تھے ۔ اس زمانے سے بہت پہلے جب جاپانی فصل کاشت کیاکرتے تھے تو وہ ان کو پکایا بھی کرتے تھے۔اس کو پکانے کے لیے پانی اور آگ سے پیدا ہونے والی بھاپ کو استعمال کیاجاتا تھا۔ہیان عہد میں جدید پکوان کے طریقے وضع کیے گئے۔یہ زمانہ سات سو سے گیارہ سو عیسوی کا ہے۔اس دور میں ایک رواج نے فروغ پایا جسے ''اچی یو سان سائی'' کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے ''ہلکا پھلکا کھانا''۔یہ رواج آج بھی زندہ و پائندہ ہے۔اس طریقے کے کھانے میں چاول ، سوپ ا ورسرکے میں بنی سبزیاں شامل ہیں۔
اس جاپانی خوراک میں سب سے خاص چیز چاول کا استعمال ہوتا ہے۔یہ جاپانی کھانا ایک خاص قسم کا ذائقہ اپنے اندر لیے ہوتا ہے اور مختلف اجزاء کا ملاپ کرکے اسے مزید لذید بنایا جاتا ہے۔کاما کورا عہد میں بدھ راہبوں نے غذائی ممانعت شروع کی تو ''شوجن رائی اوری'' کو ایجاد کیا گیا۔یہ ایک سبزی نما کھانا ہے۔ اس زمانے کے قوانین میں مال مویشی پالنے اور کسی بھی قسم کے گوشت کو ذخیرہ کرنے پر پابندی تھی۔ لہٰذا اس کھانے کے انداز کے ذریعے سبزیوں کو ذائقہ دینے کی کوشش کی گئی۔مصالحہ جات اور پکوان کے نت نئے طریقوں نے سبزیوں کے کھانوں کو مزید فروغ دیا۔ پکوان کے کئی طریقوں نے کھانے کی اس جدت کو تخلیق کیا۔ اس میں ڈاشی سٹوک بھی شامل ہے۔ خشک بونیٹو اور کومبو کلپ کی مدد سے بھی ڈاشی سٹوک بنائے جاتے ہیں۔یہی کھانا جاپانی کھانوں کی اصل روح ہے۔ یہ پانچواں ذائقہ ہے جبکہ دیگر جاپانی کھانوں کے چار ذائقوں میں مٹھاس ، کھٹاس ، نمکینی اور کڑواہٹ کے ذائقے شامل ہیں۔
جاپان کے موجودہ دور میں جاپانی کھانوں میں نظر آنے والی جدت کا فروغ کاما کورا عہد کے کئی سال بعد شروع ہوا۔جاپان میں روایتی کھانے بھی دھیرے دھیرے ثقافت کاحصہ بن گئے، جیسے چائے نوشی کی روایت ہے۔حتمی طورپر جاپانی کھانے ایدو عہد میں سترھویں سے انیسویں صدی تک اپنی بناوٹی تکمیل تک پہنچ گئے۔ گزشتہ دو سو برس سے موجودہ عہد تک جاپانیوں نے خوردنی نباتات جیسا کہ mirin میٹھی پکوان وائن ، سرکہ ، سویاساس کا بھی استعمال شروع کردیا۔اس طرح جاپانی کھانوں کی اقسام ڈرامائی طورپر بڑھ گئیں۔پہلے صرف گھر میں کھانا کھانے کی روایت تھی لیکن اب گھر سے باہر کھانا کھانا بھی ایک معمول بن گیا ہے۔ باہر کھانا کھانے میں سوبانو ڈولز ، سوشی اور تیمپورا فرائڈ کھانے بہت مقبول ہوگئے ہیں۔
میجی عہد میں انیسویں سے بیسویں صدی تک جاپانی کھانے مزید ارتقائی مدارج طے کرنے لگے اور جاپانی اجزاء کے مرکبات کی مدد سے مغربی کھانے بھی بننے لگے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان میں جاپانی کھانوں کے علاوہ دنیا کے دیگر کھانوں کا بھی آغاز ہوگیا اور جاپانی خوراک کے حالات رفتہ رفتہ تبدیل ہونے لگے۔اسی ماحول میں جاپانی کھانے کی لذت اور صحت مندانہ پہلو کو دنیا بھر کی جانب سے سراہا گیا۔تاہم اب کئی جاپانی دوبارہ سے اپنے قومی کھانے کی کشش کو دریافت کررہے ہیں۔
مچھلی جاپانی خوراک کا اہم حصہ ہے۔جاپانیوں کی نفاست کا اندازہ ان کے مچھلی کے استعمال سے لگایا جاسکتا ہے۔وہ کس طرح مچھلی کو صاف کرتے ہیںاور کس طرح اس کی کٹائی کرتے ہیں۔ اس مشق میں جب ذائقہ استعمال ہوجائے تو مزید لطف آتا ہے۔ مختلف مصالحہ جات اور جڑی بوٹیوں کا استعمال ان ذائقوں کو محفوظ کر لیتا ہے۔اس کھانے کو سجانے کے لیے میز ، کچھ پھول اور پودے چاہئے ہوتے ہیں۔یہ بھی سجاوٹ کا ایک فطری اظہار ہوتا ہے جس کی مشق کرکے جاپانی طمانیت محسوس کرتے ہیں۔
آخر میں آپ کو بتاتے چلیں کہ جاپانی کھانے کے نظام میں ایک پختہ روایت ہے۔ جس کا تمام جاپانی بہت خیال رکھتے ہیں۔ وہ روایت ہے فطرت کا شکریہ اداکرنا۔آپ کو اس روایت کا ذکر کئی جاپانی کہاوتوں میں ملے گا۔مثال کے طورپر ''ای تا ڈاکی ماسو'' یعنی ''میں کچھ خاص وصول کررہا ہوں۔'' اس طرح ایک کہاوت ہے ''گوچی سوسا ما'' جس کا مطلب ہے کہ ''اس دعوت کے لیے تمہارا شکریہ۔'' یہ احساسات کاایک ذریعہ ہے جس کا اظہار جاپانی روزمرہ زندگی میں کرتے ہیں ۔اب اگر آپ کسی جاپانی کی دعوت میں کھانا کھارہے ہوںتو ''ای تا ڈاکی ماسو'' ضرور کہیں ۔کھانا کھا چکنے کے بعد ''گوچی سوساما'' کہنا بھی نہ بھولیں۔