ملک میں اسمگل شدہ مصنوعات کی بھرمار وفاقی حکومت خاموش تماشائی
غیرروایتی سرحد پار تجارت پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کسٹم اتھارٹیز کے لیے بدستور چیلنج بنی ہوئی ہے۔
پاکستان میں اسمگل شدہ مصنوعات کی بھرمار معیشت کے ساتھ پاکستان کی سلامتی اور شہریوں کی سیکیورٹی کے لیے بھی خطرہ ہے۔
پاکستان میں اسمگلنگ کا حجم جی ڈی پی کے 11فیصد سے تجاوز کرگیا ہے جس سے معیشت کو صرف محصولات کی مد میں سالانہ 22ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے،یہ نقصان پاکستان کی سالانہ ایکسپورٹ یا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانے والی رقوم کے مساوی ہے اس طرح دنیا کے 90ملکوں میں موجود پاکستانی محنت کرکے جو رقوم وطن بھیجتے ہیں یا پاکستان کی فیکٹریوں اور کارخانوں میں دن رات کی محنت سے کی جانے والی ایکسپورٹ کا معاشی فائدہ صرف 12مصنوعات کی اسمگلنگ کی وجہ سے ضائع ہورہا ہے۔
اسمگلنگ کیلیے استعمال ہونے والے متوازی یا متبادل راستے دہشت گردوں کی آمدروفت کیلیے استعمال کیے جاتے ہیں اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی دہشت گردی کیلیے استعمال ہونے کا راستہ کھلا ہوا ہے،معیشت کے لیے اسمگلنگ ایک سرطان بنی ہوئی ہے جو معاشی سرگرمیوں پر حکومتی کمزور گرفت کی عکاسی کرتی ہے، پاکستان کا مشکل جغرافیائی محل وقو ع بھی اسمگلنگ کے فروغ کی اہم وجہ ہے۔
افغانستان کے ساتھ غیروایتی سرحد پار تجارت پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کسٹم اتھارٹیز کے لیے بدستور چیلنج بنی ہوئی ہے، اس پر مارکیٹوں میں کنٹرول نہ ہونے اور اسمگل شدہ مصنوعات کا سراغ لگانے اور اسمگلروں کے ساتھ ان کی سرپرستی اور مدد کرنیوالے سرکاری عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی نہ ہونے سے اسمگلنگ کے حجم اور معاشی نقصانات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
امریکا کی سر فہرست یونیورسٹی سے فارغ التحصیل پاکستانی طلبا اور معاشی تحقیق کاروں کی سال 2018کے ڈیٹا کی بنیاد پر کی جانے والی ایک ریسرچ میں 12مصنوعات کا جائزہ لیا گیا،اس سے قبل اس طرز کی رپورٹ 2015میں مرتب کی گئی تھی، پانچ سال کے وقفہ کے بعد 2019میں مرتب ہونے والی رپورٹ میں انکشاف ہواہے کہ پاکستان میں اسمگلنگ کے معاشی نقصانات پانچ سال کے دوران جی ڈی پی کے 3.88فیصد سے بڑھ کر جی ڈی پی کے 11.25 فیصد کے برابر آچکی ہیں۔
اسمگلنگ کے حجم اور معاشی نقصانات میں نمایاں اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدام نہیں کیے گئے، حالیہ رپورٹ کے مطابق اسمگل شدہ 12 مصنوعات بشمول گاڑیاں، صفائی اور باڈی کیئر مصنوعات، ٹائرز، کپڑا، ٹی وی سیٹ، چائے کی پتی، خوردنی تیل، لبریکنٹس، موبائل فونز، ادویات، ڈیزل، سگریٹ اور گاڑیوں کے پرزہ جات پاکستان میں اسمگل شدہ مصنوعات کا 90 فیصد ہیں۔
جنوری 2018 سے دسمبر 2018کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں اسمگلنگ کا حجم 34ارب 52کروڑ ڈالر ہے جس سے ملکی معیشت کو ٹیکسوں کی مد میں 22ارب 48کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے،اسمگل شدہ مصنوعات کی فہرست میں ڈیزل سرفہرست آئٹم ہے جو معیشت کے لیے سب سے زیادہ نقصان کا سبب بن رہاہے،رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2018کے دوران 22ارب 79کروڑ ڈالر مالیت کا ڈیزل اسمگل کیا گیا جس سے معیشت کو 7.3ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔
رپورٹ کے مطابق گاڑیوں کی اسمگلنگ کی مالیت 7.4ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی جس سے محصولات کی مد میں 13ارب ڈالر سے زائد خسارے کا سامنا کرنا پڑا، اسمگل شدہ مصنوعات میں موبائل فون تیسرے نمبر پر رہے 2.4ارب ڈالر کے موبائل فونز کی اسمگلنگ سے معیشت کو 77 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔
اسی طرح پرزہ جات کی اسمگلنگ قومی خزانے پر5کروڑ37لاکھ ڈالر، سگریٹ کی اسمگلنگ 7کروڑ30لاکھ ڈالر، ادویات کی اسمگلنگ 14 کروڑ75لاکھ ڈالر، لبریکنٹس کی اسمگلنگ 4کروڑ 55 لاکھ ڈالر، چائے کی پتی 63ہزار ڈالر، ٹی وی سیٹ 7 کروڑ 93لاکھ ڈالر، کپڑے کی اسمگلنگ 28کروڑ 90لاکھ ڈالر، ٹائرز کی اسمگلنگ 47کروڑ ڈالر اور صفائی اور باڈی کیئر مصنوعات کی اسمگلنگ قومی خزانے کیلیے 47کروڑ ڈالر خسارے کا سبب بنی۔
پاکستان میں اسمگلنگ کا حجم جی ڈی پی کے 11فیصد سے تجاوز کرگیا ہے جس سے معیشت کو صرف محصولات کی مد میں سالانہ 22ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے،یہ نقصان پاکستان کی سالانہ ایکسپورٹ یا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانے والی رقوم کے مساوی ہے اس طرح دنیا کے 90ملکوں میں موجود پاکستانی محنت کرکے جو رقوم وطن بھیجتے ہیں یا پاکستان کی فیکٹریوں اور کارخانوں میں دن رات کی محنت سے کی جانے والی ایکسپورٹ کا معاشی فائدہ صرف 12مصنوعات کی اسمگلنگ کی وجہ سے ضائع ہورہا ہے۔
اسمگلنگ کیلیے استعمال ہونے والے متوازی یا متبادل راستے دہشت گردوں کی آمدروفت کیلیے استعمال کیے جاتے ہیں اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی دہشت گردی کیلیے استعمال ہونے کا راستہ کھلا ہوا ہے،معیشت کے لیے اسمگلنگ ایک سرطان بنی ہوئی ہے جو معاشی سرگرمیوں پر حکومتی کمزور گرفت کی عکاسی کرتی ہے، پاکستان کا مشکل جغرافیائی محل وقو ع بھی اسمگلنگ کے فروغ کی اہم وجہ ہے۔
افغانستان کے ساتھ غیروایتی سرحد پار تجارت پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کسٹم اتھارٹیز کے لیے بدستور چیلنج بنی ہوئی ہے، اس پر مارکیٹوں میں کنٹرول نہ ہونے اور اسمگل شدہ مصنوعات کا سراغ لگانے اور اسمگلروں کے ساتھ ان کی سرپرستی اور مدد کرنیوالے سرکاری عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی نہ ہونے سے اسمگلنگ کے حجم اور معاشی نقصانات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
امریکا کی سر فہرست یونیورسٹی سے فارغ التحصیل پاکستانی طلبا اور معاشی تحقیق کاروں کی سال 2018کے ڈیٹا کی بنیاد پر کی جانے والی ایک ریسرچ میں 12مصنوعات کا جائزہ لیا گیا،اس سے قبل اس طرز کی رپورٹ 2015میں مرتب کی گئی تھی، پانچ سال کے وقفہ کے بعد 2019میں مرتب ہونے والی رپورٹ میں انکشاف ہواہے کہ پاکستان میں اسمگلنگ کے معاشی نقصانات پانچ سال کے دوران جی ڈی پی کے 3.88فیصد سے بڑھ کر جی ڈی پی کے 11.25 فیصد کے برابر آچکی ہیں۔
اسمگلنگ کے حجم اور معاشی نقصانات میں نمایاں اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدام نہیں کیے گئے، حالیہ رپورٹ کے مطابق اسمگل شدہ 12 مصنوعات بشمول گاڑیاں، صفائی اور باڈی کیئر مصنوعات، ٹائرز، کپڑا، ٹی وی سیٹ، چائے کی پتی، خوردنی تیل، لبریکنٹس، موبائل فونز، ادویات، ڈیزل، سگریٹ اور گاڑیوں کے پرزہ جات پاکستان میں اسمگل شدہ مصنوعات کا 90 فیصد ہیں۔
جنوری 2018 سے دسمبر 2018کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں اسمگلنگ کا حجم 34ارب 52کروڑ ڈالر ہے جس سے ملکی معیشت کو ٹیکسوں کی مد میں 22ارب 48کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے،اسمگل شدہ مصنوعات کی فہرست میں ڈیزل سرفہرست آئٹم ہے جو معیشت کے لیے سب سے زیادہ نقصان کا سبب بن رہاہے،رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2018کے دوران 22ارب 79کروڑ ڈالر مالیت کا ڈیزل اسمگل کیا گیا جس سے معیشت کو 7.3ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔
رپورٹ کے مطابق گاڑیوں کی اسمگلنگ کی مالیت 7.4ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی جس سے محصولات کی مد میں 13ارب ڈالر سے زائد خسارے کا سامنا کرنا پڑا، اسمگل شدہ مصنوعات میں موبائل فون تیسرے نمبر پر رہے 2.4ارب ڈالر کے موبائل فونز کی اسمگلنگ سے معیشت کو 77 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔
اسی طرح پرزہ جات کی اسمگلنگ قومی خزانے پر5کروڑ37لاکھ ڈالر، سگریٹ کی اسمگلنگ 7کروڑ30لاکھ ڈالر، ادویات کی اسمگلنگ 14 کروڑ75لاکھ ڈالر، لبریکنٹس کی اسمگلنگ 4کروڑ 55 لاکھ ڈالر، چائے کی پتی 63ہزار ڈالر، ٹی وی سیٹ 7 کروڑ 93لاکھ ڈالر، کپڑے کی اسمگلنگ 28کروڑ 90لاکھ ڈالر، ٹائرز کی اسمگلنگ 47کروڑ ڈالر اور صفائی اور باڈی کیئر مصنوعات کی اسمگلنگ قومی خزانے کیلیے 47کروڑ ڈالر خسارے کا سبب بنی۔