اپنی شخصیت کوکیسے سمجھا جائے
عظیم ماہرنفیسات جان ہالینڈ نے ایک شاندارنظریہ پیش کیا۔
اپنی شخصیت کوکیسے سمجھا جائے؟اس حوالے سے عظیم ماہرنفیسات جان ہالینڈ نے ایک شاندارنظریہ پیش کیا۔اس نظریے کے مطابق بنیادی طور پر شخصیت کی چھ قسمیں ہوتی ہیں، ہم میں سے ہرشخص دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد آپ اپنی قابلیت کے اصل میدان کی طرف آتے ہیں۔
(1) حقائق پسند :۔ یہ لوگ متحرک ہوتے ہیں تصورات اور لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے بجائے اشیاء (Things)کے ساتھ کام کرنا پسندکرتے ہیں، انھیں ہاتھ سے چیزیں بنانے، جوڑنے،آلات اور مشینوں سے کام لینے میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرکے آسانی سے سیکھ لیتے ہیں۔ رابطے، میل جول، اورسماجی سر گرمیوں سے دور رہتے ہیں۔
(2) تحقیقی:۔ انھیں غوروفکرکرنے والا کہا جاتا ہے، ان میں تجزیہ اور مشاہدہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، ان کا میدان تحقیق اوردریافت ہوتا ہے، ان میں دوربینی کا رحجان ہوتا ہے۔ لوگوں کو قائل کرنا،ان میں جو ش وجذبہ پیداکرنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔
(3) آرٹسٹ :۔ یہ تخلیقی لوگ ہوتے ہیں یہ اپنے تخیل اوروجدان کی صلاحیت سے کام لیتے ہیں یہ لکھنے ،ڈرائنگ اور پینٹنگ کرنے اورموسیقی میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، ان کا مزاج غیرروایتی ہوتا ہے انھیں اپنی ذات کا اظہارکرنا اچھا لگتا ہے آزادانہ طبیعت رکھتے ہیں۔
(4) سماجی :۔ ایسے لوگ عام طو رپر مددکرنے والے کہلاتے ہیں، یہ مہربان اور ہمدرد ہوتے ہیں انسانوں کی فلاح وبہبود میں دلچسپی رکھتے ہیں انھیں دوسروں کو سنوارنا ان کے مسائل حل کرنا، پڑھانا اور ٹریننگ دینا اچھا لگتا ہے یہ دوسروں کے نقطہ نظر اور احساسات کو سمجھنے میں اچھے ہوتے ہیں سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، دوسروں کے ساتھ ایک ٹیم کی صورت میں کام کرسکتے ہیں ۔ پر اثر ہوتے ہیں اوردوسروں کو آسانی سے قائل کرلیتے ہیں۔
(5) مہم جو :۔ یہ اپنی جرأت مندی کی وجہ سے دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں یہ خود اعتمادی سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں انھیں لوگوں کو لیڈکرنا اچھا لگتا ہے ان میں لوگوں کو قائل کرنے اوران میں جوش وولولہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، یہ رسک لے سکتے ہیں اور فیصلہ سازی میں کمال رکھتے ہیں۔
(6) روایتی :۔ایسے لوگوں کو بندھے ہوئے طورطریقے پر عمل کرنا آسان لگتا ہے، اسی لیے انھیں اتباع کرنے والے کہا جاتا ہے یہ غیر واضح سر گرمیوں سے دور بھاگتے ہیں یہ تخیل کی صلاحیت کو زیادہ استعمال نہیں کرتے ہیں ان میں تخلیقی سو چ کی بھی کمی ہوتی ہے، لیڈرشپ ان کے لیے مشکل ہوتی ہے۔ انھیں ڈیٹا اور اعداد وشمارکے ساتھ کام کرنا آسان لگتا ہے ۔ سقراط کی ساری تعلیم اس جملے کے گر د گھومتی ہے کہ ''خودکو پہچانو'' کیونکہ آپ اپنی زندگی کے تن تنہا سوفیصد ذمے دار ہوتے ہیں کوئی بھی دوسرا شخص نہ تو آپ کی زندگی کے فیصلے کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے بسرکرسکتا ہے ۔ اس لیے آپ کی زندگی وہ ہی کچھ ہوگا جو آپ چاہیں گے ۔ ترقی یا تنزلی، ہار یا جیت ،کامیابی یا ناکامی ۔ یہ سب کچھ خالصتاً آپ کا اپنا انتخاب ہوتے ہیں ۔ برائن ٹریسی نے کہاتھا In Life there are no winner or losers only choosers۔ کنفیوشس نے کہا تھا کامیابی کا راستہ تین منازل سے ہوکرگزرتا ہے جن میں پہلی منزل ذہنی ابتری سے پاکیزگی دوسری عقل مندی یعنی انسان ابہام کے چنگل سے آزاد ہو اور تیسری ڈر اور خوف پر غلبہ پانا ۔ ہم انسان کمہارکے ہاتھوں میں موجودگیلی مٹی کی طرح ہوتے ہیں ہم جتنا زیادہ سیکھتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے ہیں خدا اتنی ہی زیادہ کارآمد شکلوں میں ہمیں ڈھالتاہے ۔ یاد رکھیں صرف وہ ہی شخص تعلیم یافتہ ہے جس نے یہ سیکھ لیا ہے کہ اسے ہمیشہ سیکھتے رہنا ہے۔ تعلیم یافتہ شخص کی اس سے زیادہ بہتر تعریف ممکن ہی نہیں ہے ہمیشہ سیکھتے رہنے والے سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنے علم میں اضافے کی ذمے داری خود اٹھا لیں بغیرکسی بیرونی دبائو اور مجبوری کے آپ کے اندر سے یہ آواز آئے کہ آپ نے کچھ نیا سیکھنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں انسانی علم 2 سے تین سال میں دگنا ہوجاتا ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق امریکا میں زیادہ دولت کمانے والوں کی اکثریت 2 سے 3گھنٹے مطالعے میں گذارتی ہے ۔ اس لیے توکہتے ہیں کہ جب آپ طالب علم بن جاتے ہیں تو استاد فوراً دستیاب ہوجاتا ہے یعنی جب آپ سیکھنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو مواقع خود بخود پیدا ہونے لگتے ہیں۔ عظیم ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ سے پوچھا گیا کہ خوشگوار زندگی پانے کا طریقہ کیا ہے تو اس نے کہا تھا ''کام اور محبت'' یعنی اگر آپ کو زندگی میں ایسا کام اور شعبہ مل جائے جسے آپ پسندکرتے ہیں تو آپ کو ایک بڑی نعمت مل جاتی ہے محبت سے مراد یہ ہے کہ آپ کے دوسروں کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں، ان دونوں چیزوں کا مل جانا زندگی کو پر لطف بنا دیتا ہے'' اس لیے سب سے پہلے آپ خود کو پہچانیے۔ خود کو جانیے خود کو سمجھیے اور پھر زندگی کے دریامیں چھلانگ لگا دیجیے ۔ یقین جانیے کامیابی،خوشحالی،سکون،آرام ،لطف آپ کا مقدر اور نصیب ہوں گے۔
(1) حقائق پسند :۔ یہ لوگ متحرک ہوتے ہیں تصورات اور لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے بجائے اشیاء (Things)کے ساتھ کام کرنا پسندکرتے ہیں، انھیں ہاتھ سے چیزیں بنانے، جوڑنے،آلات اور مشینوں سے کام لینے میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرکے آسانی سے سیکھ لیتے ہیں۔ رابطے، میل جول، اورسماجی سر گرمیوں سے دور رہتے ہیں۔
(2) تحقیقی:۔ انھیں غوروفکرکرنے والا کہا جاتا ہے، ان میں تجزیہ اور مشاہدہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، ان کا میدان تحقیق اوردریافت ہوتا ہے، ان میں دوربینی کا رحجان ہوتا ہے۔ لوگوں کو قائل کرنا،ان میں جو ش وجذبہ پیداکرنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔
(3) آرٹسٹ :۔ یہ تخلیقی لوگ ہوتے ہیں یہ اپنے تخیل اوروجدان کی صلاحیت سے کام لیتے ہیں یہ لکھنے ،ڈرائنگ اور پینٹنگ کرنے اورموسیقی میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، ان کا مزاج غیرروایتی ہوتا ہے انھیں اپنی ذات کا اظہارکرنا اچھا لگتا ہے آزادانہ طبیعت رکھتے ہیں۔
(4) سماجی :۔ ایسے لوگ عام طو رپر مددکرنے والے کہلاتے ہیں، یہ مہربان اور ہمدرد ہوتے ہیں انسانوں کی فلاح وبہبود میں دلچسپی رکھتے ہیں انھیں دوسروں کو سنوارنا ان کے مسائل حل کرنا، پڑھانا اور ٹریننگ دینا اچھا لگتا ہے یہ دوسروں کے نقطہ نظر اور احساسات کو سمجھنے میں اچھے ہوتے ہیں سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، دوسروں کے ساتھ ایک ٹیم کی صورت میں کام کرسکتے ہیں ۔ پر اثر ہوتے ہیں اوردوسروں کو آسانی سے قائل کرلیتے ہیں۔
(5) مہم جو :۔ یہ اپنی جرأت مندی کی وجہ سے دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں یہ خود اعتمادی سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں انھیں لوگوں کو لیڈکرنا اچھا لگتا ہے ان میں لوگوں کو قائل کرنے اوران میں جوش وولولہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، یہ رسک لے سکتے ہیں اور فیصلہ سازی میں کمال رکھتے ہیں۔
(6) روایتی :۔ایسے لوگوں کو بندھے ہوئے طورطریقے پر عمل کرنا آسان لگتا ہے، اسی لیے انھیں اتباع کرنے والے کہا جاتا ہے یہ غیر واضح سر گرمیوں سے دور بھاگتے ہیں یہ تخیل کی صلاحیت کو زیادہ استعمال نہیں کرتے ہیں ان میں تخلیقی سو چ کی بھی کمی ہوتی ہے، لیڈرشپ ان کے لیے مشکل ہوتی ہے۔ انھیں ڈیٹا اور اعداد وشمارکے ساتھ کام کرنا آسان لگتا ہے ۔ سقراط کی ساری تعلیم اس جملے کے گر د گھومتی ہے کہ ''خودکو پہچانو'' کیونکہ آپ اپنی زندگی کے تن تنہا سوفیصد ذمے دار ہوتے ہیں کوئی بھی دوسرا شخص نہ تو آپ کی زندگی کے فیصلے کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے بسرکرسکتا ہے ۔ اس لیے آپ کی زندگی وہ ہی کچھ ہوگا جو آپ چاہیں گے ۔ ترقی یا تنزلی، ہار یا جیت ،کامیابی یا ناکامی ۔ یہ سب کچھ خالصتاً آپ کا اپنا انتخاب ہوتے ہیں ۔ برائن ٹریسی نے کہاتھا In Life there are no winner or losers only choosers۔ کنفیوشس نے کہا تھا کامیابی کا راستہ تین منازل سے ہوکرگزرتا ہے جن میں پہلی منزل ذہنی ابتری سے پاکیزگی دوسری عقل مندی یعنی انسان ابہام کے چنگل سے آزاد ہو اور تیسری ڈر اور خوف پر غلبہ پانا ۔ ہم انسان کمہارکے ہاتھوں میں موجودگیلی مٹی کی طرح ہوتے ہیں ہم جتنا زیادہ سیکھتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے ہیں خدا اتنی ہی زیادہ کارآمد شکلوں میں ہمیں ڈھالتاہے ۔ یاد رکھیں صرف وہ ہی شخص تعلیم یافتہ ہے جس نے یہ سیکھ لیا ہے کہ اسے ہمیشہ سیکھتے رہنا ہے۔ تعلیم یافتہ شخص کی اس سے زیادہ بہتر تعریف ممکن ہی نہیں ہے ہمیشہ سیکھتے رہنے والے سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنے علم میں اضافے کی ذمے داری خود اٹھا لیں بغیرکسی بیرونی دبائو اور مجبوری کے آپ کے اندر سے یہ آواز آئے کہ آپ نے کچھ نیا سیکھنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں انسانی علم 2 سے تین سال میں دگنا ہوجاتا ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق امریکا میں زیادہ دولت کمانے والوں کی اکثریت 2 سے 3گھنٹے مطالعے میں گذارتی ہے ۔ اس لیے توکہتے ہیں کہ جب آپ طالب علم بن جاتے ہیں تو استاد فوراً دستیاب ہوجاتا ہے یعنی جب آپ سیکھنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو مواقع خود بخود پیدا ہونے لگتے ہیں۔ عظیم ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ سے پوچھا گیا کہ خوشگوار زندگی پانے کا طریقہ کیا ہے تو اس نے کہا تھا ''کام اور محبت'' یعنی اگر آپ کو زندگی میں ایسا کام اور شعبہ مل جائے جسے آپ پسندکرتے ہیں تو آپ کو ایک بڑی نعمت مل جاتی ہے محبت سے مراد یہ ہے کہ آپ کے دوسروں کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں، ان دونوں چیزوں کا مل جانا زندگی کو پر لطف بنا دیتا ہے'' اس لیے سب سے پہلے آپ خود کو پہچانیے۔ خود کو جانیے خود کو سمجھیے اور پھر زندگی کے دریامیں چھلانگ لگا دیجیے ۔ یقین جانیے کامیابی،خوشحالی،سکون،آرام ،لطف آپ کا مقدر اور نصیب ہوں گے۔