حکومتیں جلسوں اور استعفوں سے نہیں جاتیں
پاکستان میں اس وقت کورونا وائرس کی دوسری اور زیادہ خطرناک لہر اپنے ٹارگٹس کا پیچھا کر رہی ہے۔
گوجرانوالہ کے بزنس مین اور سابق چیئرمین چیمبر آف کامرس شیخ نسیم سے ٹیلیفون پر بات ہونے پر پوچھا کہ آپریشن کے بعد اب ان کی صحت کیسی ہے؟ انھوں نے الحمدُ للہ کہا اور پھر بتایا کہ غلام دستگیر خان کی طبیعت ناساز ہے۔ ان کو ٹیلیفون کر کے خیریت معلوم کر لیں۔
دستگیر خان نے قومی اسمبلی کے 1977 کے الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کردیا تھا۔ وہ اپنے مسلم لیگی ساتھیوں سے ملنے سے بھی پرہیز کررہے تھے ۔ اُن کے قریبی دوست اور بزنس پارٹنر شیخ اسلم نے مجھ سے کہا کہ آپ ریٹرننگ آفسر ہیں، غلام دستگیر کو الیکشن میں حصہ لینے کے لیے منائیں۔ شیخ اسلم نے کہا کہ وہ ا نہیں کاروباری معاملے پر بات چیت کے لیے فیکٹری بلا کر مجھے فون کرینگے تاکہ میں بحیثیت ریٹرننگ آفسرانھیں یقین دہانی کرائوں کہ ان کے حلقے میں دھاندلی نہیں ہونے دونگا۔ یوں ہم نے انھیں الیکشن میں حصہ لینے کے لیے تیا ر کیا۔
الیکشن کی چھ سیٹوں پر شام کو رزلٹ جمع ہوئے تو پیپلز پارٹی کے سب امیدوار غیر سرکاری طور پر کامیاب پائے گئے۔ اس پر غلام دستگیر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ریٹرننگ افسر یعنی میرے دفتر آئے اور درخواست دی کہ Recounting کی جائے۔ میں نے انھیں کہا کہ جن کمروں میں بیلٹ باکسز رکھے گئے ہیں، حفاظتی مقصد کے پیش نظر ایک سو ورکر ان کمروں کے گرد ساری رات کھڑے رہیں تاکہ بیلٹ باکس محفوظ رہیں اور میں اگلی صبح Recounting کرا دوں ۔ اگلی صبح 9 بجے دوبارہ گنتی کرائی گئی تو دستگیر خاں ڈیڑھ سو ووٹوں سے کامیاب قراردیے گئے ۔ یوں غلام دستگیر خاں غیر حتمی رزلٹ میں کامیاب ہوئے اور مسلم لیگ کی یہ گوجرانوالہ میں واحد سیٹ تھی۔
شیخ اسلم چار بار گوجرانوالہ کارپوریشن کے میئر منتخب ہوئے جب کہ غلام دستگیر خاں کو کچھ عرصہ سختیاں جھیلنی پڑیں۔ لیکن ضیا ء الحق کے دور میں دستگیر خاں مسلم لیگ کی سیٹ پر نہ صرفMNA منتخب ہوئے بلکہ لیبر منسٹر بھی بنے ۔ گوجرانوالہ ہی میں ایک بائی الیکشن میں مجھے ریٹرننگ افسر کے فرائض ادا کرنے کا موقع ملا تھا جس میں ڈپٹی کمشنر چوہدری اختر سعید کو حکم ملا تھا کہ اس الیکشن میں علی محمد دھاریوال ہی کو MNA ایلیکٹ کرایا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہوا کہ nomination paper صرف مذکورہ شخص کو جاری ہو۔
ڈپٹی کمشنر نے اس روز کچہری کے تمام رستوں کو بند کرنے کے لیے SP کو حکم دیدیا کہ صرف ریٹرننگ افسر اور علی محمد کو کچہری میں داخل ہونے دیا جائے لیکن پولیس کو میری پہچان نہ ہونے کی وجہ سے مجھے بھی اپنے دفتر پہنچنے میں مشکل پیش آئی۔ وقت مقررہ ختم ہونے تک صرف ایک شخص کے امیدوار ی فارم جمع ہونے پر علی محمد دھاریوال کو MNA قرار دے دیا گیا۔ یہ الگ بات کہ مجھے آج تک اُس الیکشن کا ریٹرننگ افسر ہونے کا دُکھ ہے۔
''حکم حاکم مرگِ مفاجات ''۔ چند ماہ بعد بھٹو صاحب کو گوجرانوالہ میں پچاس کے قریب اہم شخصیات سے خطاب کرنا تھا ۔ خطاب سے پہلے وہ علی محمد MNA کے گھر گئے وہاں کافی پی پھراہم شخصیات سے خطاب کے دوران ان کی نظر علی محمد پر پڑی۔ اسے دیکھتے ہوئے بھٹو نے ازراہ تفنن کہا کہ '' آپ نے صبح مجھے زبردستی ٹھنڈی کافی پلا کر بدمزہ کر دیا''۔ اس پر سب ہنس دیے۔
اس 1977 کے جنرل الیکشن کے بعد ہنگاموں کا نتیجہ جنرل ضیا ء الحق کے مارشل لاء اور بھٹو صاحب کی گرفتاری کی صور ت میں نکلا ۔ اس وقت میرا تبادلہ بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر کھاریاں ہو چکا تھا۔ ایک روز دستگیر صاحب کا فون آیا کہ وہ اسلام آباد سے گوجرانوالہ آ رہے ہیں اور راستے میں AC ہائوس رک کر میرے والد کو ملنا چاہیں گے۔ میں نے انھیں خوش آمدید کہا اور اپنے گھر آنے کے بجائے ریسٹ ہائوس میں انھیں چائے پیش کی گئی اور والدصاحب سے ملوایا گیا۔
چند روز قبل سول سیکریٹریٹ جانا ہوا۔ اس کے قریب ایک احتساب کی عدالت ہے۔ سیکریٹریٹ کے اطراف میں کنٹینر لگے ہوئے تھے۔ باربڈ وائر بھی تھی۔ پولیس کی بھاری نفری تیعنات بھی، لوگوں کا ہجوم نعرے لگا رہا تھا ''میاں تیرے جانثار بے شمار بے شمار '' مجھے شک ہوا کہ کہیں برٹش حکومت نے نواز شریف کو Deport تو نہیں کر دیا لیکن کچھ ہی دیر بعد Luxury موٹروں کا ایک کارواں آ گیا۔اس کے ساتھ ہی شہباز شریف اور حمزہ کے نعرے لگنے لگے جنھیں پولس جیل سے احتساب عدالت پیشی کے لیے لا رہی تھی۔ صرف یہی نہیں بیشمار سابق حکمرانوں اور VIP ملزمان کے مقدمات سالہاسال سے زیر ِ تفتیش یا زیر ِ سماعت ہیں یا NAB بے عیب کے نشانے پر ہیں لیکن اپنے انجام کی منزل سے مہینوں نہیں کئی کئی سال سے صرف خبروں کی زینت ہیں۔
پاکستان میں اس وقت کورونا وائرس کی دوسری اور زیادہ خطرناک لہر اپنے ٹارگٹس کا پیچھا کر رہی ہے۔ گرانی اور بیروزگاری کے علاوہ برسرِ اقتدار حکومت اور گیارہ اپوزیشن سیاسی پارٹیوں کا دنگل عوام کو مصروف ِ تماشہ رکھے ہوئے ہے۔ پی ڈی ایم جس میں پریشان حال مولانا فضل الرحمن بھی اس وقت NAB کا ٹارگٹ ہیں اور مریم صفدر جو عمران خاں کی حکومت کو نکال باہر پھینکنے کے لیے دن اور تاریخیں دے رہی ہے، عوام کی ٹیلیویژن تفریح کا مرکز ہیں۔ نا تجربہ کار موجودہ حکومت آصف زرداری اور نواز شریف کو معاشی ، بد حالی و گرانی اور کرپشن کا منبع قرار دے کربلاشبہ اپنی کوششوں میں سر گرم عمل ہے لیکن صرف جی حضوری کی بیماری میں مبتلا بیوروکریسی کو ذمے دار قرار دے کر بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا۔
اسی طرح اپوزیشن کو بھی عوام کی نمایندہ ہونے کے سبب صرف حکومتی پریشانیوں میں اضافہ کرنے کے بجائے ان سے ہاتھ ملا کر ملک اور اس کے شہریوں کی بھلائی کو اولیت دینی چاہیے ۔ ایک منتخب حکومت پر ملک و عوام دشمنی کا ٹھپہ لگا کر جلسوں، جلوسوں اور لانگ مارچوں سے، وہ ملک اور عوام کی خدمت نہیں کر رہے نہ ان کے پاس جمع استعفوں کے ڈھیر PTI کو حکمرانی سے دستبردار کر سکتے ہیں۔
دستگیر خان نے قومی اسمبلی کے 1977 کے الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کردیا تھا۔ وہ اپنے مسلم لیگی ساتھیوں سے ملنے سے بھی پرہیز کررہے تھے ۔ اُن کے قریبی دوست اور بزنس پارٹنر شیخ اسلم نے مجھ سے کہا کہ آپ ریٹرننگ آفسر ہیں، غلام دستگیر کو الیکشن میں حصہ لینے کے لیے منائیں۔ شیخ اسلم نے کہا کہ وہ ا نہیں کاروباری معاملے پر بات چیت کے لیے فیکٹری بلا کر مجھے فون کرینگے تاکہ میں بحیثیت ریٹرننگ آفسرانھیں یقین دہانی کرائوں کہ ان کے حلقے میں دھاندلی نہیں ہونے دونگا۔ یوں ہم نے انھیں الیکشن میں حصہ لینے کے لیے تیا ر کیا۔
الیکشن کی چھ سیٹوں پر شام کو رزلٹ جمع ہوئے تو پیپلز پارٹی کے سب امیدوار غیر سرکاری طور پر کامیاب پائے گئے۔ اس پر غلام دستگیر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ریٹرننگ افسر یعنی میرے دفتر آئے اور درخواست دی کہ Recounting کی جائے۔ میں نے انھیں کہا کہ جن کمروں میں بیلٹ باکسز رکھے گئے ہیں، حفاظتی مقصد کے پیش نظر ایک سو ورکر ان کمروں کے گرد ساری رات کھڑے رہیں تاکہ بیلٹ باکس محفوظ رہیں اور میں اگلی صبح Recounting کرا دوں ۔ اگلی صبح 9 بجے دوبارہ گنتی کرائی گئی تو دستگیر خاں ڈیڑھ سو ووٹوں سے کامیاب قراردیے گئے ۔ یوں غلام دستگیر خاں غیر حتمی رزلٹ میں کامیاب ہوئے اور مسلم لیگ کی یہ گوجرانوالہ میں واحد سیٹ تھی۔
شیخ اسلم چار بار گوجرانوالہ کارپوریشن کے میئر منتخب ہوئے جب کہ غلام دستگیر خاں کو کچھ عرصہ سختیاں جھیلنی پڑیں۔ لیکن ضیا ء الحق کے دور میں دستگیر خاں مسلم لیگ کی سیٹ پر نہ صرفMNA منتخب ہوئے بلکہ لیبر منسٹر بھی بنے ۔ گوجرانوالہ ہی میں ایک بائی الیکشن میں مجھے ریٹرننگ افسر کے فرائض ادا کرنے کا موقع ملا تھا جس میں ڈپٹی کمشنر چوہدری اختر سعید کو حکم ملا تھا کہ اس الیکشن میں علی محمد دھاریوال ہی کو MNA ایلیکٹ کرایا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہوا کہ nomination paper صرف مذکورہ شخص کو جاری ہو۔
ڈپٹی کمشنر نے اس روز کچہری کے تمام رستوں کو بند کرنے کے لیے SP کو حکم دیدیا کہ صرف ریٹرننگ افسر اور علی محمد کو کچہری میں داخل ہونے دیا جائے لیکن پولیس کو میری پہچان نہ ہونے کی وجہ سے مجھے بھی اپنے دفتر پہنچنے میں مشکل پیش آئی۔ وقت مقررہ ختم ہونے تک صرف ایک شخص کے امیدوار ی فارم جمع ہونے پر علی محمد دھاریوال کو MNA قرار دے دیا گیا۔ یہ الگ بات کہ مجھے آج تک اُس الیکشن کا ریٹرننگ افسر ہونے کا دُکھ ہے۔
''حکم حاکم مرگِ مفاجات ''۔ چند ماہ بعد بھٹو صاحب کو گوجرانوالہ میں پچاس کے قریب اہم شخصیات سے خطاب کرنا تھا ۔ خطاب سے پہلے وہ علی محمد MNA کے گھر گئے وہاں کافی پی پھراہم شخصیات سے خطاب کے دوران ان کی نظر علی محمد پر پڑی۔ اسے دیکھتے ہوئے بھٹو نے ازراہ تفنن کہا کہ '' آپ نے صبح مجھے زبردستی ٹھنڈی کافی پلا کر بدمزہ کر دیا''۔ اس پر سب ہنس دیے۔
اس 1977 کے جنرل الیکشن کے بعد ہنگاموں کا نتیجہ جنرل ضیا ء الحق کے مارشل لاء اور بھٹو صاحب کی گرفتاری کی صور ت میں نکلا ۔ اس وقت میرا تبادلہ بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر کھاریاں ہو چکا تھا۔ ایک روز دستگیر صاحب کا فون آیا کہ وہ اسلام آباد سے گوجرانوالہ آ رہے ہیں اور راستے میں AC ہائوس رک کر میرے والد کو ملنا چاہیں گے۔ میں نے انھیں خوش آمدید کہا اور اپنے گھر آنے کے بجائے ریسٹ ہائوس میں انھیں چائے پیش کی گئی اور والدصاحب سے ملوایا گیا۔
چند روز قبل سول سیکریٹریٹ جانا ہوا۔ اس کے قریب ایک احتساب کی عدالت ہے۔ سیکریٹریٹ کے اطراف میں کنٹینر لگے ہوئے تھے۔ باربڈ وائر بھی تھی۔ پولیس کی بھاری نفری تیعنات بھی، لوگوں کا ہجوم نعرے لگا رہا تھا ''میاں تیرے جانثار بے شمار بے شمار '' مجھے شک ہوا کہ کہیں برٹش حکومت نے نواز شریف کو Deport تو نہیں کر دیا لیکن کچھ ہی دیر بعد Luxury موٹروں کا ایک کارواں آ گیا۔اس کے ساتھ ہی شہباز شریف اور حمزہ کے نعرے لگنے لگے جنھیں پولس جیل سے احتساب عدالت پیشی کے لیے لا رہی تھی۔ صرف یہی نہیں بیشمار سابق حکمرانوں اور VIP ملزمان کے مقدمات سالہاسال سے زیر ِ تفتیش یا زیر ِ سماعت ہیں یا NAB بے عیب کے نشانے پر ہیں لیکن اپنے انجام کی منزل سے مہینوں نہیں کئی کئی سال سے صرف خبروں کی زینت ہیں۔
پاکستان میں اس وقت کورونا وائرس کی دوسری اور زیادہ خطرناک لہر اپنے ٹارگٹس کا پیچھا کر رہی ہے۔ گرانی اور بیروزگاری کے علاوہ برسرِ اقتدار حکومت اور گیارہ اپوزیشن سیاسی پارٹیوں کا دنگل عوام کو مصروف ِ تماشہ رکھے ہوئے ہے۔ پی ڈی ایم جس میں پریشان حال مولانا فضل الرحمن بھی اس وقت NAB کا ٹارگٹ ہیں اور مریم صفدر جو عمران خاں کی حکومت کو نکال باہر پھینکنے کے لیے دن اور تاریخیں دے رہی ہے، عوام کی ٹیلیویژن تفریح کا مرکز ہیں۔ نا تجربہ کار موجودہ حکومت آصف زرداری اور نواز شریف کو معاشی ، بد حالی و گرانی اور کرپشن کا منبع قرار دے کربلاشبہ اپنی کوششوں میں سر گرم عمل ہے لیکن صرف جی حضوری کی بیماری میں مبتلا بیوروکریسی کو ذمے دار قرار دے کر بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا۔
اسی طرح اپوزیشن کو بھی عوام کی نمایندہ ہونے کے سبب صرف حکومتی پریشانیوں میں اضافہ کرنے کے بجائے ان سے ہاتھ ملا کر ملک اور اس کے شہریوں کی بھلائی کو اولیت دینی چاہیے ۔ ایک منتخب حکومت پر ملک و عوام دشمنی کا ٹھپہ لگا کر جلسوں، جلوسوں اور لانگ مارچوں سے، وہ ملک اور عوام کی خدمت نہیں کر رہے نہ ان کے پاس جمع استعفوں کے ڈھیر PTI کو حکمرانی سے دستبردار کر سکتے ہیں۔