شبلی فراز کارکردگی کے تناظر میں

وفاقی وزارت اطلاعات کانٹوں کی سیج ہے جس پر چلنے والا ہمیشہ خود کو زخمی کرتا ہے


مزمل سہروردی December 28, 2020
[email protected]

پاکستان میں سیاسی لڑائی اور سیاسی کشیدگی کا درجہ حرارت دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے میں حکومت کے میڈیا مینیجرز پر دہری ذمے داری آگئی ہے۔ ایک طرف انھوں نے اپوزیشن کو جواب بھی دینا ہے اور دوسری طرف نظام حکومت کی ترجمانی بھی کرنی ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کام دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے ۔ وہ موجودہ حکومت کے تیسرے وفاقی وزیر اطلاعات ہیں۔ ان سے پہلے فواد چوہدری اور محترمہ فردوس عاشق اعوان بھی وفاقی حکومت کی ترجمانی کر چکے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ وفاقی حکومت اور تحریک انصاف میں میڈیا مینیجرز کی ایک بھر مار ہے۔ افتخار گیلانی، یوسف بیگ مرزا اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم باجوہ بھی موجودہ دور میں ہی اطلاعات اور نشریات کے محکمہ میں عمران خان کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ اس طرح شبلی فراز کو بطور وفاقی وزیر اطلاعات لانے سے پہلے عمران خان کافی لوگوں کو آزما چکے ہیں۔

اس لیے شبلی فراز کی اب تک کی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شبلی فراز بطور وفاقی وزیر اطلاعات عمران خان کی پہلی چوائس تو نہیں تھے لیکن اب تک کی بہترین چوائس ضرور ثابت ہوئے ہیں۔ ا ن کے آنے سے بہت واضح فرق نظر آرہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی سامنے رکھنی ہوگی کہ وہ ایک مشکل دور میں وفاقی وزیر اطلاعات بنے ہیں۔

موجودہ حکومت کے پہلے دو سال حکومت کی سیاسی طور پر اپوزیشن پر چڑھائی تھی۔ تحریک انصاف بھی سیاسی طور پر اپوزیشن پر حاوی تھی۔ اپوزیشن کے بڑے لیڈر نیب کے شکنجے میں تھے۔ ساتھ ساتھ اپوزیشن تقسیم بھی تھی۔ نہ کوئی پی ڈی ایم تھا اور نہ ہی اپوزیشن کا کوئی اتحاد تھا۔ اس لیے حکومت اور تحریک انصاف کے پاس کھلا میدان تھا اور تحریک انصاف کے پاس میڈیا میں بھی کھلا میدان تھا۔ جیسے مرضی اور جتنا مرضی کھیلیں نہ کوئی جواب دینے والا تھا اور نہ کوئی سوال کرنے والا تھا۔

پہلے دو سال کارکردگی کا بھی کوئی سوال نہیں تھا۔ لوگوں کی امیدیں قائم تھیں۔ اپوزیشن بھی خوف کا شکار تھی۔ اس لیے میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ پہلے دو وفاقی وزیر اتنے کھلے میدان اور سازگار حالات میں بھی عمران خان کی امیدوں پر کیوں پورا نہیں اتر سکے۔ اس قدر سازگار حالات میں تو آپ جتنی مرضی لمبی اور مضبوط اننگ کھیل سکتے ہیں۔ لیکن فواد چوہدری جیسے مضبوط اور فردوس عاشق اعوان جیسی تجربہ کار وفاقی وزیر اطلاعات بھی اگر آؤٹ ہوئے ہیں تو یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ عمران خان کے ساتھ بطور وفاقی وزیر اطلاعات کام کرنا آسان نہیں ہے۔ وہ میڈیا پر خاص نظر رکھتے ہیں اور کئی دوستوں کا یہ بھی خیال ہے کہ وہ میڈیا اسٹرٹیجی کے خود بھی ماہر ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں ہے۔

آج ماحول اور حالات بدل گئے ہیں۔ حکومت کا ہنی مون کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ لوگ امید سے کارکردگی جانچنے کے موڈ میں آگئے ہیں۔ خاموش اور دفاعی اپوزیشن جارحانہ موڈ میں آگئی ہے۔ نیب بھی تھک گئی ہے۔ اور گرفتاریاں اب نظر نہیں آرہی ہیں۔ پی ڈی ایم بن چکی ہے۔ اپوزیشن جلسہ جلوس کر رہی ہے۔ حکومت کے خلاف تحریک چل رہی ہے۔

ایسے میں شبلی فراز کا کام پہلے وزیروں کی نسبت بہت مشکل ہے۔ انھیں ایک جارحانہ اپوزیشن کا سامنا ہے۔ لیکن انھوںنے اس ماحول میں بھی شائستگی اور تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ ان کے مخالف بھی ان کی گفتگو کو سنتے ہیں ۔ شبلی فراز نے دلیل سے گفتگو کو دوبارہ زندگی بخشی ہے۔ انھوں نے ماحول کو ٹھنڈا رکھ کر حکومت کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ شبلی نے تحریک انصاف کو بتایا ہے کہ سب و شتم کے بغیر بھی بات ہو سکتی ہے۔

ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ عمران خان ترجمانوں کا اجلاس بھی باقاعدگی سے کیسے کرتے ہیں۔ اور اس اجلاس میں حکومت اور تحریک انصاف کے سیاسی بیانیہ پر کھل کر بات ہوتی ہے۔ بدلتے سیاسی حالات کے مطابق بیانیہ کو ڈھالنے پر بھی بات ہوتی ہے۔ حکومت کی کارکردگی کو اجاگر کرنے اور اپوزیشن کے بیانیہ کو شکست دینے کی حکمت عملی پر بھی بات ہوتی ہے۔ پرانی حکمت عملی کے نتائج کو بھی دیکھا جاتا ہے اور نتائج کی روشنی میں نئی حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ موجودہ حکو مت کی میڈیا پر توجہ نہیں ہے، غلط ہے۔ بلکہ سب سے زیادہ توجہ میڈیا پر ہے۔ اسی لیے وفاقی وزیر اطلاعات کا کام سب سے مشکل ہے۔ وہ ہر وقت کٹہرے میں ہی کھڑے نظر آتے ہیں۔ کوئی اور کام کرے یا نہ کرے لیکن اسے اپنا کام پورا کرنا ہوتا ہے۔

اس لیے شبلی فراز کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات کوئی آسان وزارت نہیں تھی۔ کچھ دوستوں کا ان کے وزیر اطلاعات بننے کے بعد یہ بھی خیال تھا کہ اگر تجربہ کار لوگ بطور وزیر اطلاعات آؤٹ ہوئے ہیں تو شبلی تو بہت جلد آؤٹ ہو جائیں گے۔ویسے بھی یہ ان کی پہلی وزارت تھی۔ اور پہلی دفعہ میں ہی اتنی مشکل وزارت شبلی کے ساتھ دوستوں کی رائے میں کوئی انصاف نہیں تھا۔

لیکن یہ سب تمام اندازے اور تجزیے کافی حد تک غلط ہی ثابت ہوئے ہیں۔ شبلی فراز کی اننگ اچھی جا رہی ہے۔ ان کو آؤٹ کرنے کی تمام سازشیں ابھی تک ناکام ہی ہوئی ہیں۔ بلکہ پہلے جو یہ رائے تھی کہ انھیں کسی مددگار کی ضرورت ہوگی ۔ انھوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ انھیں کسی مددگار کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ اکیلے ہی کافی ہیں۔

شبلی فراز نے نہ صرف میڈیا اور حکومت کے درمیان تعلقات اچھے کیے ہیں۔ بلکہ انھوں نے تعلقات کی سرد مہری کو بھی کافی حد تک ختم کیا ہے۔ پہلے دو سال میں ایک ماحول بن گیا تھا کہ میڈیا کے سرپر آنے والی تحریک انصاف اب میڈیا مخالف حکمت عملی پر چل رہی ہے۔ ایک رائے بن گئی تھی کہ میڈیا کا گلا دبایا جا رہا ہے۔ میڈیا میں بھی بحرانی کیفیت آگئی تھی۔ ایک عام صحافی بھی پریشان تھا۔ لیکن اب شبلی فراز کے آنے سے منظر نامہ اور ماحول بھی بدل رہا ہے ۔ میڈیا میں دوبارہ زندگی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ نئے میڈیا ہاؤسز بھی کھل رہے ہیں۔ جو واضح اشارہ ہیں کہ میڈیا دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ اس کا کچھ نہ کچھ کریڈٹ ہمیں شبلی فراز کو دینا ہوگا۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ تحریک انصاف میں میڈیا مینیجرز اورمیڈیا ایکسپرٹ کی بھر مار ہے۔ اس لیے وفاقی وزیر اطلاعات کی ٹانگیں کھینچنے کا ایک عمل جاری رہتا ہے۔ ایسے نہیں ایسے کرتے تو بہتر تھا کی بھر مار ہے۔ اس لیے آج حکومت اور تحریک انصاف کو بطور سیاسی جماعت جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں اب میوزیکل چیئر کا کھیل بند ہونا چاہیے۔ دوستوں کو ان چیلنجز سے نبٹنے اور سیاسی لڑائی جیتنے کے لیے شبلی فراز کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اسی میں حکومت اور تحریک انصاف کی بہتری ہے۔

انھوں نے ایک ٹیم بنائی ہے۔ اب اس ٹیم کو کھیلنے کا موقع ملنا چاہیے۔ شبلی فراز نے بہت مشکل سے جگہ بنائی ہے۔ ا ن کے لیے یہ اننگ کوئی آسان نہیں تھی۔ لیکن وہ ثابت قدم کھڑے نظر آئے ہیں۔ انھوں نے تنقید برداشت کی ہے اور اس کا جواب دینے کا حوصلہ بھی دکھایا ہے۔ وہ لڑتے نہیں ہیں۔ بلکہ تحمل سے بات کہنے کا سلیقہ خوب جانتے ہیں۔اسی تبدیلی نے ماحول کو بدل دیا ہے۔ باقی ہم نے دیکھا ہے کہ وفاقی وزارت اطلاعات کانٹوں کی سیج ہے۔ جس پر چلنے والا ہمیشہ خود کو زخمی کرتا ہے اور شبلی فراز کے زخم شاید کسی کو نظر نہیں آرہے ہیں۔ لیکن زخم ہیں۔ اس کا ہم سب کو بخوبی اندازہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔