لیاری کے محنت کش کی بیٹی باکسر بن کر نام روشن کرنے لگی

آگرہ تاج کے حنیف سومرونے بیٹی سے محبت کوکمزوری کے بجائے طاقت بنالیا،بیٹی کوباکسنگ کے رنگ میں اتاردیا


Kashif Hussain December 28, 2020
16سالہ عالیہ نے کم عمری میں ہی باکسنگ کے رنگ میں سامنے آنے والے اپنے ہر حریف کو شکست سے دوچار کردیا

بچوں کے والدین بالخصوص باپ کا اپنی بیٹی سے محبت کا تعلق بہت مضبوط ہوتا ہے بیٹی کو پہنچنے والی چھوٹی سی تکلیف پر بھی باپ کا دل تڑپ جاتا ہے اور جب تک بیٹی کو راحت نہ مل جائے باپ کا دل بے سکون ہی رہتا ہے لیکن لیاری کے علاقے آگرہ تاج کے رہائشی حنیف سومرو نے بیٹی سے محبت کو اپنی کمزوری کے بجائے طاقت بنالیا بیٹی کو مضبوط بنایا اور باکسنگ کے رنگ میں اتار دیا۔

بیٹی نے بھی اپنے باپ کے اعتماد اور محبت کا جواب انتھک محنت سے دیا اور کم عمری میں ہی باکسنگ کے رنگ میں اپنے سامنے آنے والے ہر حریف کو شکست سے دوچار کیا حنیف سومرو ایک محنت کش مزدور ہیں جو تجارتی سامان کی لوڈنگ ان لوڈنگ کرکے یومیہ اجرت کماتے ہیں 16سال کی عالیہ 4 بچوں میں ان کی سب سے بڑی بیٹی ہے دیگر بچوں میں عالیہ سے ایک سال چھوٹی ایک بہن اور 9 سے 7 سال کے دو بھائی شامل ہیں۔

حنیف سومرو کو فٹ بال کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق رہا کمر عمری اور نوجوانی میں انھوں نے زیادہ وقت فٹ بال کو دیا لیکن خاندان کی کفالت کے لیے محنت مزدوری کرنے کی وجہ سے وہ فٹ بال کے لیے زیادہ وقت نہ نکال سکے لیکن کھیل کے میدان میں نام کمانے کا عزم کم نہ ہوسکا، حنیف سومر و نے اپنی بیٹی میں باکسنگ کے کھیل کے شوق کو پروان چڑھانے کے لیے پہلے سے زیادہ محنت کی روزگار کمانے کے ساتھ بیٹی کو تربیت دلوانے اور مقابلوں میں شرکت کے لیے لانے لے جانے کی ذمے داری نبھائی سب سے بڑھ کر انھوں نے اپنی بیٹی عالیہ میں سے اس خوف کو کھرچ کر نکال پھینکا کہ وہ لڑکی ہے اور باکسنگ جیسے سخت کھیل میں چوٹ کھانا پڑے گی۔

حنیف سومرو کہتے ہیں کہ انھوں نے فٹ بال کے کھیل میں بہت چوٹیں کھائیں ٹانگ بھی تڑوائی لیکن کھیل میں چوٹ لگنے سے حوصلہ بڑھتا ہے چوٹ کا خوف کامیابی کی خوشی پر حاوی نہیں ہوسکتا اس لیے انھوں نے پہلے روز سے اپنی بیٹی کو ہمت دی۔

سینڈبیگ پرمکے بازی کرتی لڑکیاںاچھی لگتی تھیں،عالیہ

عالیہ سومرو کی باکسنگ میں دلچسپی8سال کی عمر سے شروع ہوئی، ننھی عالیہ اس وقت تیسری جماعت کی طالبہ تھیں اسکول جاتے اور آتے وقت راستے میں آنے والے پاک شاہین باکسنگ کلب میں تربیت لینے والی دیگر لڑکیوں کو دیکھا کرتی، باکسنگ کے گلوز پہنے سینڈ بیگ پر مکے بازی کرتی اور چہرے کو اپنے مکوں سے چھپائے اچھل کود کرتی پنچ لگاتی لڑکیاں عالیہ کو ہمیشہ اچھی لگتی تھیں، عالیہ کے والد حنیف سومرو کا کہنا ہے کہ وہ جب بھی عالیہ کو لے کر باکسنگ کلب کے سامنے سے گزرتے عالیہ کی نظریں باکسنگ کلب پر ہی ٹہری نظر آتیں۔

حنیف سومرو خود بھی فٹ بال کے کھلاڑی ہیں اور عالیہ کی نگاہوں کا شوق ان سے پوشیدہ نہ رہ سکا انھوں نے عالیہ سے پوچھا کہ باکسنگ سیکھوگی تو عالیہ نے فوراً حامی بھرلی جس پر حنیف سومرو نے کہا کہ باکسنگ کلب میں داخلہ دلوادوں لیکن تمہیں پھر پوری لگن اور پابندی کے ساتھ تربیت لینا ہوگی اور عالیہ نے اپنے شوق کے ساتھ اپنے والد کے ساتھ کیا وعدہ نبھایا، پاک شاہین باکسنگ کلب میں یونس کامرانی کی سرپرستی میں عالیہ نے تربیت لینا شروع کی انھیں لانے لے جانے کی تمام ذمے داری ان کی والدہ نے ادا کی جو خود بھی کھیلوں میں دلچسپی رکھتی ہیں اور کسی بھی کھیل پر مردوں کی اجارہ داری کے نظریہ کی سخت مخالف ہیں۔

عالیہ سومرو تمام فائٹس میں اپنے ویٹ کٹیگری میںاب تک ناقابل شکست ہے

عالیہ نے ملکی سطح پر بہت سے ٹورنامنٹ میں حصہ لیا وہ اپنے ویٹ کی کٹیگری میں اب تک ناقابل شکست رہیں اور اپنے کلب میں ہونیو الے ایک مقابلے میں اپنے سے زیادہ مضبوط اور قدآور لڑکے کے ساتھ تین راؤنڈز تک مقابلہ کرکے چار پوائنٹس سے شکست دی اور اپنی عمر اور ویٹ کے مقابلے میں کسی لڑکے کو شکست دینے والی پہلی باکسر بن گئیں۔

عالیہ نے آل بلوچستان خیرمحمد کاکڑ ٹورنامنٹ میں کراچی کی نمائندگی کی اور ان کے راؤنڈ میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی کھلاڑی ان سے مرعوب ہوکر مقابلے کے لیے رنگ میں ہی نہیں اتری جس پر انھیں مقابلہ کا فاتح قرار دیا۔

یونیسف نے اپنی صلاحیتوں کو منوانے والے بچوں میں عالیہ کوشامل کیا
عظیم باکسر محمد علی عالیہ کے آئیڈیل ہیں وہ بچپن سے محمد علی کے مقابلوں کی ویڈیوز دیکھتی ہیں اور ان کی تکنیک سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں، یونیسف نے آئی ایم فیوچر پروگرام کے تحت پاکستان بھر میں سخت حالات کا سامنا کرنے کے باوجود اپنی صلاحیتوں کو منوانے والے بچوں میں عالیہ سومرو کو بھی شامل کرکے انہیں پاکستان کا مستقبل قرار دیا۔

اس پروگرام کے تحت پاکستان بھر سے 1500 بچوں کا انتخاب کیا گیا اگلے مرحلے میں 300بچوں کو منتخب کیا گیا اور ان 300بچوں میں سے بھی 14بچوں کو اس مہم کے حتمی ہیروز کے طور پر منتخب کیا گیا جن کی صلاحیتوں اور جدوجہد پر خصوصی دستاویزی فلم تیار کی گئی تاکہ ان باصلاحیت بچوں کو دیگر بچوں کے لیے مثال بناتے ہوئے بچوں میں آگے بڑھنے کے جذبہ کو فروغ دیا جاسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں