بارے جاڑوں کا کچھ بیاں ہو جائے
جاڑا‘ جاڑا‘ جاڑا<br />
<br />
سردی اب کے پڑی ہے اتنی شدید<br />
<br />
صبح نکلے ہے کانپتا خورشید...
جاڑا' جاڑا' جاڑا
سردی اب کے پڑی ہے اتنی شدید
صبح نکلے ہے کانپتا خورشید
مگر یہ کوئی نئی شکایت نہیں۔ ہر برس جب جاڑے کا موسم اپنے جوبن پر آتا ہے تو ایسی ہی شکایت لب پر آتی ہے۔ سچ پوچھو تو جاڑے نے اپنا زور ابھی دکھایا ہی نہیں ہے۔ اب کے کیا کتنے برسوں سے جاڑے کا وہ رنگ نظر نہیں آتا جو کبھی آیا کرتا تھا۔ جاڑا تو وہ تھا جس کا نقشہ نظیر اکبر آبادی نے یوں کھینچا ہے ؎
ہو شور پھپھو ہو ہو کا اور دھوم ہو سی سی سی سی کی
کلے پر کلہ لگ لگ کر چلتی ہو منہ میں چکی سی
ہر دانت چنے سے دلتا ہو' تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ایسا جاڑا کب کا رفت گزشت ہوا۔ اب تو پرانے تذکروں میں شعر و شاعری ہی میں اس کا ذکر ملتا ہے اور شعر و شاعری میں بھی اس کا ذکر کتنا ہے۔ یہ ہماری اردو شاعری موسموں کو کچھ زیادہ خاطر میں نہیں لاتی۔ ارے موسموں کو ان ہمارے شاعروں نے کتنا سمجھا ہے۔ ہر موسم اس شان سے آتا ہے کہ انسانی زندگی کا طور بدل جاتا ہے۔ ہماری شاعری میں بھلے دنوں میں ایک صنف ہوا کرتی تھی جسے بارہ ماسہ کہتے ہیں۔ بارہ ماسہ کو زیادہ وضاحت سے سمجھنا ہو تو اسے اس عنوان کے تحت پڑھو' موسم اور محبت۔ سمجھ لو کہ برہ کی ماری ہجر میں گھلتی ایک برہن بیٹھی ہے اور آتے جاتے مہینوں کے دن گن رہی ہے۔ نیا موسم چڑھتا ہے تو دن نئے رنگ سے چڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہوا کا رخ بدل جاتا ہے۔ درختوں کی رنگت بدل جاتی ہے۔ پرندے نئے ڈھنگ سے چہچہاتے نظر آتے ہیں۔ برس بھی پھریری لیتی ہے۔ پھر سے اس کی آس بندھتی ہے۔ پھر سے وہ آنے والے کا انتظار شروع کر دیتی ہے مگر پھر یہ نیا موسم اپنے پرانے ڈھرے پر آ جاتا ہے اور برہن کے لیے پھر وہی مایوسی ؎
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رنگت دل کی وہی تنہائی
یہ بارہ ماسہ ہے۔ مگر اب اردو میں یہ ایک متروک صنف ہے۔ ٹٹولو گے تو کہیں کونوں کھڈوں سے کوئی بارہ ماسہ برآمد ہو جائے گا۔ نہ محقق اسے اپنی تحقیق کا موضوع جانتا ہے۔ نہ کسی ناشر کو خیال آتا ہے کہ کوئی بارہ ماسہ برآمد کر کے نئے سرے سے اسے مرتب کر کے شایع کیا جائے۔
اردو شاعری نے ایرانی موسم کچھ زیادہ ہی اپنے اوپر طاری کر لیے ہیں۔ اپنے موسموں کو اکیلے نظیر اکبر آبادی کے سر ڈال کر خود دور کے بہار و خزاں کے استعاروں میں اپنا روگ الاپتی رہتی ہے۔ اور نئی غزل اور نئی نظم تو ویسے بھی موسموں سے نا آشنا ہے۔ سو ہر جاڑے کی آمد پر ہم ناصر کاظمی کا سہارا لیتے ہیں اور اس کے اس شعر کے ساتھ اپنے اس موسم کا افتتاح کرتے ہیں؎
پھر جاڑے کی رت آئی
چھوٹے دن اور لمبی رات
ہر موسم اپنی کچھ غذائیں اپنے ساتھ لاتا ہے۔ بھلے دنوں میں جاڑوں کی آمد کے ساتھ گڑ کی بھی نمود ہوتی تھی۔ گڑ کی بنی مٹھائیوں کا اپنا ہی الگ ذائقہ ہوتا تھا۔ مگر شہری زندگی کے غلبہ نے گڑ کو پیچھے دیہات کی طرف دھکیل دیا۔ سو لاہور کے بازاروں میں سب کھابے نظر آئیں گے۔ بس گڑ کی گزک ریوڑی دکھائی نہیں دے گی۔ مگر ہم نے ابھی خبر پڑھی ہے کہ بجلی گیس کی قلت کی وجہ سے چینی بنانے کا کاروبار کسی قدر ٹھنڈا ہے۔ گڑ اپنی پیداوار کے لیے بجلی گیس کا زیادہ محتاج نہیں ہے۔ سو اب کے گڑ بازار میں زیادہ نظر آئے گا اور زیادہ اس کی کھپت ہو گی۔ اچھی خبر ہے۔ بنیا گڑ نہ دے گڑ کی سی بات تو کرے۔ اچھی خبر سے تھوڑی دیر کے لیے دل تو بہلتا ہے۔ ویسے بھی یکسانیت سے طبیعت مکدر ہو جاتی ہے۔ یہ کیا کہ تیوری پہ مستقل بل پڑا ہوا ہے۔ اور وہی پرانا راگ الاپا جا رہا ہے۔ ڈرون' ڈرون' ڈرون۔ خیر اب تو ہنر ماسٹرز وائس والے ریکارڈوں اور باجے کا زمانہ گزر گیا اور اس کتے کی تصویر جو بھونپو کی طرف تھوتھنی کیے بیٹھا رہتا تھا۔
ان ریکارڈوں کی صورت یہ تھی کہ گانے کے بعد گانے والی اپنے نام کا اعلان کرتی تھی۔ میں ہوں اختری بائی فیض آبادی۔ میں ہوں زہرہ بائی انبالے والی۔ جب ریکارڈ چلتے چلتے بہت گھس جاتا تھا تو آواز جھرجھری ہو جاتی تھی اور پھر سوئی ایک جگہ آ کر اٹک جاتی تھی۔ اور پھر ایک ہی بول کی تکرار۔ میں ہوں زہرہ بائی انبالے والی' میں ہوں زہرہ بائی انبالے والی' میں ہوں زہرہ بائی انبالے والی۔ ہماری دنیائے سیاست کا احوال بھی ان دنوں کچھ ایسا ہی ہو گیا ہے۔ سوئی ایک جگہ آ کر اٹک گئی ہے۔ وہی سید منور حسن۔ وہی عمران خاں کرکٹ والے۔ وہی ایک راگ۔ وہی ایک جھرجھری آواز۔ ڈرون' ڈرون' ڈرون۔ میں ہوں زہرہ بائی انبالے والی' میں ہوں زہرہ بائی انبالے والی۔ بلاول بھٹو کے نمودار ہونے سے خیر سے اتنا تو ہوا کہ کوئی نئی آواز نئی لہک کے ساتھ سنائی دی۔ لگا کہ موسم بدلنے لگا ہے۔ شاخ پہ کوئی نیا پنچھی اترا ہے اور اس نے اک تازہ لہک کے ساتھ چہچہانا شروع کیا ہے۔ نئی ہوا تازہ لہک کے ساتھ ع
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
خیر یہ واقعہ تو خوب ہوا' خوب ہوا۔ مگر یہ کونسا بھلا طریقہ ہے کہ ابھی جاڑے نے زور دکھانا شروع کیا ہے تو یاروں نے بسنت کا ذکر چھیڑ دیا۔ ارے کم از کم جاڑے کو تھوڑا رنگ پکڑنے دو۔ اسے اپنا زور دکھا کر بہر طور ڈھلنا ہے۔ پھر جب گلابی جاڑا اپنا رنگ نکالے تو پھر بیشک بسنت کا ذکر چھیڑو۔ اس میں بھی اب کونسی دیر ہے دسمبر کا اخیر ہے۔ 13ء آخری سانس لے رہا ہے۔ اچھا ہی ہے۔ اس تیرہ والے ہندسے کے سال نے ہمیں بہت ستایا۔ ہمارے سچ مچ تین تیرہ ہو گئے۔ سوچو کہ اس برس کتنا خون بہا ہے۔ کشتوں کے سچ مچ پشتے لگ گئے۔ لیکن جیسا بھی وقت آئے بالآخر گزر جاتا ہے۔ اب نیا سال شروع ہونے کو ہے۔ مطلب یہ کہ تیرہ کے منحوس ہندسے کی نحوست سے باہر نکلنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ نیا سال طلوع ہونے والا ہے۔ نئی ہوا نے سنکنا شروع کر دیا ہے۔ آنے والے سال میں بیشک کوئی بڑا انقلاب نہ آئے مگر بسنت کو بہر حال اپنا رنگ دکھانا ہے۔ موسموں پر اور موسموں کے جلو میں آنے والی سیرت پر آپ بند باندھ بھی دیں مگر تابکے۔ اسے تو واپس آنا ہی آنا ہے۔ اور کیا عجب ہے کہ سیاسی موسم میں بھی کوئی نئی لہر آ جائے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ع
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ