چند تجاویز گرقبول افتد
ویسے تو پاکستان ان گنت مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے، لیکن تین ایسے حساس اور نازک مسائل مسائل ہیں، جنھیں حل کے ...
ویسے تو پاکستان ان گنت مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے، لیکن تین ایسے حساس اور نازک مسائل مسائل ہیں، جنھیں حل کے لیے بغیر ملکی سلامتی کو لاحق خطرات میں کمی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال،بگڑتی معیشت' مہنگائی اور بیروزگاری خطے کی تبدیل ہوتی صورتحال بالخصوص افغانستان سے ایساف افواج کے جزوی انخلاء اور بھارت میں عام انتخابات کے بعد پیدا ہونے والا منظر نامہ۔ نیز عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں منفی رجحانات یہ تینوں معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے پر تسلسل کے ساتھ اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس لیے ان پر سیر حاصل بحث و مباحثے کی ضرورت ہے۔
پہلا معاملہ خالصتاً اندرونی انتظامی معاملہ ہے۔ یہ مسائل گو پیچیدہ ہیں، لیکن ناقابل حل نہیں ہیں۔ ان کے حل کے لیے جس دور اندیشی کی ضرورت ہے، وہ حالیہ حکومتوں میں نظر نہیں آ رہی۔ امن و امان کا مسئلہ پھر دو حصوں میں منقسم ہے۔ دہشت گردی اور فرقہ واریت جوریاستی رٹ کے لیے بہت بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ دوسرے اسٹریٹ کرائمز کے ساتھ ساتھ اغواء برائے تاوان جیسے سنگین جرائم کی شرح میں تیز رفتار اضافہ ہو رہا ہے دیگر انتظامی شعبہ جات کے علاوہ پولیس کے محکمے میں کلیدی نوعیت کی تبدیلیاں ضروری ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت وفاق اور صوبوں میں مقتدر کوئی بھی سیاسی جماعت اختیارات کی نچلی سطح پر حقیقی معنوں میں منتقلی کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے، بلکہ درپردہ مخالف ہیں۔ اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔
اول، ان جماعتوں کو خدشہ ہے کہ ضلع حکومتوں کے قیام کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں محض کٹھ پتلی بن کر رہ جائیں گی اور تمامتر اختیارات ضلع حکومتوں کے ہاتھوں میں چلے جانے اور عوام سے براہ راست رابطے میں ہونے کی وجہ سے نچلی سطح پر کام کرنے والے نمایندوں کا اثر و نفوذ بڑھ جائے گا۔ یہ ایک غلط اور غیر جمہوری تصور ہے۔ لازمی طور پر مقامی سطح پر انھی جماعتوں کے نمایندے منتخب ہو کر آئیں گے۔ جو اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی کی بنیاد پر اپنی ذات کے علاوہ جماعت کی مقبولیت میں اضافے کا سبب بنیں گے۔ دوئم، اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی، جنھیں جنرل ضیاء کی غیر جماعتی اسمبلیوں کے دور سے مخصوص ترقیاتی فنڈ سے حصہ مل رہا ہے، وہ کسی طور ان مراعات کو ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتے۔ لہٰذا خود سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت اور ان کے منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی ضلع اور اس سے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے مخالف ہیں۔ وہ ایک ایسے بلدیاتی نظام کے حق میں ہیں، جس میں تمام انتظامی، سیاسی اور مالیاتی اختیارات خود ان کے ہاتھوں میں رہیں، جب کہ نچلی سطح پر کونسلر صرف صفائی ستھرائی اور گلی سڑکیں بنانے کا کام سرانجام دیں اور مالیاتی امور میں ان کے دست نگر رہیں۔
اسی نوعیت کی رکاوٹیں پولیس کے محکمے میں اصلاحات اور اس میں مقامی سطح پر بھرتیوں کے حوالے سے ہیں۔ اقتدار میں آنے والی ہر سیاسی جماعت پولیس کو اپنے مخصوص سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خواہش مند ہوتی ہے۔ اس لیے وہ پولیس کا اختیار ضلع انتظامیہ کو منتقل کرنے اور پولیس میں مقامی سطح پر میرٹ کی بنیاد پر تقرریوں کی مخالف ہے۔ ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی اپنے حلقے میںSHO سے SP تک من پسند پولیس افسران کی تعیناتی چاہتا ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنے حلقے کے ووٹروں کو سپاہی بھرتی کر کے ان کو مخالفین کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ یہ رویہ دراصل ہماری سیاسی قیادتوں کے آمرانہ مزاج کا عکاس ہے۔ جو آمرانہ ہونے کی وجہ سے مرکزیت پرست بھی ہیں اور تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو سیاسی جماعتوں میں انتخابات ہوتے ہیں اور نہ قیادت ایک مخصوص خاندان سے باہر جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں لمیٹڈ کمپنیاں بن کر رہ گئی ہیں۔
اب اسی تناظر میں معاشی مسائل کو دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان کے گذشتہ 66 برس کے تجربات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ پیداواری ذرایع اور منفعت بخش اداروں کو قومیانے یا ان کی نجکاری کبھی سود مند ثابت نہیں ہوئی، بلکہ ہر دو صورتیں قومی معیشت کے لیے نقصان کا باعث بنی ہیں۔ ایک طرف اگر ریاستی کنٹرول میں چلنے والے ادارے کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے دیوالیہ ہوئے ہیں، تو دوسری طرف نجی تحویل میں دیے گئے ادارے بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکے، جس کی واضح مثال KESC ہے۔ نجکاری کے عمل سے اول تو قومی خزانے کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچتا۔ دوسری طرف عملے کی چھانٹی کے نتیجے میں بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب کہ ہمارے ملک میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا تجربہ خاصا کامیاب رہا ہے۔ جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن اس عمل میں کامیابی کا انحصار سیاسی مفادات سے بلند ہو کر میرٹ پر کی گئی فیصلہ سازی پر ہے۔
اب دوسری طرف آئیے۔ گزشتہ حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت پانچ برس تک جو رقم غریب لوگوں میں بانٹی۔ اگر اس رقم سے گائوں گائوں اور قصبہ قصبہ چھوٹی صنعتیں لگا دی جاتیں، تو ہزاروں خاندانوں کے مستقل روزگار کا بندوبست ہو سکتا تھا۔ لیکن لوگوں کو معاشی طور پر با اختیار بنانے کے بجائے انھیں خیرات کی راہ پر لگانا مناسب سمجھا گیا، کیونکہ معاشی با اختیاری سماجی اور سیاسی بااختیاری کا سبب بنتی ہے، جو حکمرانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ اب موجودہ حکومت نے نوجوانوں کو کاروبار کے لیے قرض دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ ایک کامیاب اسکیم بن سکتی ہے، بشرطیکہ حکومت اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے۔ دوسرے قرض کی رقم کی ادائیگی یک مشت کرنے کے بجائے منصوبہ کے مختلف مراحل کی تکمیل سے مشروط کرتے ہوئے اقساط میں دی جائے۔ اس طرح ایک طرف منصوبے کے عملی شکل اختیار کرنے میں مدد ملے گی۔ دوسری طرف قرض کی رقم ڈوبنے کے خدشات کم ہونے کا امکان ہے۔ اسی طرح حکومت PIA اور اسٹیل مل کی نجکاری کے بجائے ان اداروں کو بھی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانے کی کوشش کی جائے تو بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اس طرح ایک طرف ان اداروں پر حکومتی کنٹرول برقرار رہے گا اور دوسری طرف محنت کشوں کے مسائل میں اضافہ نہیں ہو پائے گا۔
پاکستان میں امن و امان اور معیشت کی بحالی کے لیے خطے کی صورتحال کا متوازن ہونا ضروری ہے۔ اس عمل میں پاکستان کا کلیدی کردار بنتا ہے۔ 2014 میں ایک طرف نیٹو افواج کے چلے جانے کے بعد ایساف افواج کی بہت کم تعداد افغانستان میں رہ جائے گی۔ دوسری طرف بھارت کے عام انتخابات میں BJP کی کامیابی کے امکانات ہیں۔ پاکستان کو دونوں ممالک میں بدلتی صورتحال پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں شدت پسندوں کی پس پشت حمایت کرنے کے بجائے وہاں جمہوری عمل کو پروان چڑھانے کی کوششوں کا ساتھ دینا ہمارے لیے سود مند ہو گا، کیونکہ جمہوری حکومت اگر ہماری مخالف بھی ہو گی تو اس سے ہمارے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کو وہ نقصان نہیں پہنچے گا، جو شدت پسند عناصر کے اقتدار میں آنے کی صورت میں پہنچنے کا احتمال ہے۔ لہٰذا طالبان جیسے غیر جمہوری گروپوں کی حمایت خود ہمارے اپنے معاشرے میں موجود غیر جمہوری قوتوں کے مستحکم ہونے اور انھیں انتشار پھیلانے کا موقع فراہم کرنے کا باعث بنے گی۔ اس لیے اس عمل سے اجتناب کی ضرورت ہے۔ جہاں تک بھارت کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہے تو جس طرح 14 برس بعد DGMOs کی ملاقات کے ذریعے سرحدی معاملات پر پیش رفت ہوئی ہے، اسی طرح دیگر امور پر بھی بھارت کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو جاری رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ وہاں کون سی جماعت اقتدار میں ہے اور اس کے کیا نظریات ہیں؟
اب جہاں تک پاکستان کے عالمی سطح پر ایک روشن خیال اور متحمل مزاج اسلامی ریاست کے طور پر تشخص کی بحالی کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں میاں نواز شریف کو ذاتی طور پر چند سخت گیر اقدامات کرنا ہوں گے۔ اول، وزارت خارجہ کی تشکیل نو اور خارجہ امور کے ماہر کی بطور وزیر خارجہ تعیناتی۔ دوئم، شدت پسند عناصر کے خلاف واضح حکمت عملی اور عمل، جس میں کسی قسم کی مصلحت کوشی کو دخل نہ ہو۔ سوئم، وزیر خارجہ پارلیمان میں اور وزارت خارجہ کا ترجمان ذرایع ابلاغ کو حسب روایت ہفتہ وار بریفنگ دیں۔ لیکن کسی دوسرے وزیر کو خارجہ امور پر اظہار رائے کی اجازت نہ ہو۔ اگر پاکستان یہ اقدامات کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ 2014 کے بعد کا پاکستان ایک پُر امن، ترقی دوست اور آگے کی جانب بڑھتا ملک ہو گا۔
پہلا معاملہ خالصتاً اندرونی انتظامی معاملہ ہے۔ یہ مسائل گو پیچیدہ ہیں، لیکن ناقابل حل نہیں ہیں۔ ان کے حل کے لیے جس دور اندیشی کی ضرورت ہے، وہ حالیہ حکومتوں میں نظر نہیں آ رہی۔ امن و امان کا مسئلہ پھر دو حصوں میں منقسم ہے۔ دہشت گردی اور فرقہ واریت جوریاستی رٹ کے لیے بہت بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ دوسرے اسٹریٹ کرائمز کے ساتھ ساتھ اغواء برائے تاوان جیسے سنگین جرائم کی شرح میں تیز رفتار اضافہ ہو رہا ہے دیگر انتظامی شعبہ جات کے علاوہ پولیس کے محکمے میں کلیدی نوعیت کی تبدیلیاں ضروری ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت وفاق اور صوبوں میں مقتدر کوئی بھی سیاسی جماعت اختیارات کی نچلی سطح پر حقیقی معنوں میں منتقلی کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے، بلکہ درپردہ مخالف ہیں۔ اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔
اول، ان جماعتوں کو خدشہ ہے کہ ضلع حکومتوں کے قیام کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں محض کٹھ پتلی بن کر رہ جائیں گی اور تمامتر اختیارات ضلع حکومتوں کے ہاتھوں میں چلے جانے اور عوام سے براہ راست رابطے میں ہونے کی وجہ سے نچلی سطح پر کام کرنے والے نمایندوں کا اثر و نفوذ بڑھ جائے گا۔ یہ ایک غلط اور غیر جمہوری تصور ہے۔ لازمی طور پر مقامی سطح پر انھی جماعتوں کے نمایندے منتخب ہو کر آئیں گے۔ جو اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی کی بنیاد پر اپنی ذات کے علاوہ جماعت کی مقبولیت میں اضافے کا سبب بنیں گے۔ دوئم، اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی، جنھیں جنرل ضیاء کی غیر جماعتی اسمبلیوں کے دور سے مخصوص ترقیاتی فنڈ سے حصہ مل رہا ہے، وہ کسی طور ان مراعات کو ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتے۔ لہٰذا خود سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت اور ان کے منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی ضلع اور اس سے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے مخالف ہیں۔ وہ ایک ایسے بلدیاتی نظام کے حق میں ہیں، جس میں تمام انتظامی، سیاسی اور مالیاتی اختیارات خود ان کے ہاتھوں میں رہیں، جب کہ نچلی سطح پر کونسلر صرف صفائی ستھرائی اور گلی سڑکیں بنانے کا کام سرانجام دیں اور مالیاتی امور میں ان کے دست نگر رہیں۔
اسی نوعیت کی رکاوٹیں پولیس کے محکمے میں اصلاحات اور اس میں مقامی سطح پر بھرتیوں کے حوالے سے ہیں۔ اقتدار میں آنے والی ہر سیاسی جماعت پولیس کو اپنے مخصوص سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خواہش مند ہوتی ہے۔ اس لیے وہ پولیس کا اختیار ضلع انتظامیہ کو منتقل کرنے اور پولیس میں مقامی سطح پر میرٹ کی بنیاد پر تقرریوں کی مخالف ہے۔ ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی اپنے حلقے میںSHO سے SP تک من پسند پولیس افسران کی تعیناتی چاہتا ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنے حلقے کے ووٹروں کو سپاہی بھرتی کر کے ان کو مخالفین کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ یہ رویہ دراصل ہماری سیاسی قیادتوں کے آمرانہ مزاج کا عکاس ہے۔ جو آمرانہ ہونے کی وجہ سے مرکزیت پرست بھی ہیں اور تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو سیاسی جماعتوں میں انتخابات ہوتے ہیں اور نہ قیادت ایک مخصوص خاندان سے باہر جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں لمیٹڈ کمپنیاں بن کر رہ گئی ہیں۔
اب اسی تناظر میں معاشی مسائل کو دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان کے گذشتہ 66 برس کے تجربات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ پیداواری ذرایع اور منفعت بخش اداروں کو قومیانے یا ان کی نجکاری کبھی سود مند ثابت نہیں ہوئی، بلکہ ہر دو صورتیں قومی معیشت کے لیے نقصان کا باعث بنی ہیں۔ ایک طرف اگر ریاستی کنٹرول میں چلنے والے ادارے کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے دیوالیہ ہوئے ہیں، تو دوسری طرف نجی تحویل میں دیے گئے ادارے بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکے، جس کی واضح مثال KESC ہے۔ نجکاری کے عمل سے اول تو قومی خزانے کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچتا۔ دوسری طرف عملے کی چھانٹی کے نتیجے میں بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب کہ ہمارے ملک میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا تجربہ خاصا کامیاب رہا ہے۔ جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن اس عمل میں کامیابی کا انحصار سیاسی مفادات سے بلند ہو کر میرٹ پر کی گئی فیصلہ سازی پر ہے۔
اب دوسری طرف آئیے۔ گزشتہ حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت پانچ برس تک جو رقم غریب لوگوں میں بانٹی۔ اگر اس رقم سے گائوں گائوں اور قصبہ قصبہ چھوٹی صنعتیں لگا دی جاتیں، تو ہزاروں خاندانوں کے مستقل روزگار کا بندوبست ہو سکتا تھا۔ لیکن لوگوں کو معاشی طور پر با اختیار بنانے کے بجائے انھیں خیرات کی راہ پر لگانا مناسب سمجھا گیا، کیونکہ معاشی با اختیاری سماجی اور سیاسی بااختیاری کا سبب بنتی ہے، جو حکمرانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ اب موجودہ حکومت نے نوجوانوں کو کاروبار کے لیے قرض دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ ایک کامیاب اسکیم بن سکتی ہے، بشرطیکہ حکومت اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے۔ دوسرے قرض کی رقم کی ادائیگی یک مشت کرنے کے بجائے منصوبہ کے مختلف مراحل کی تکمیل سے مشروط کرتے ہوئے اقساط میں دی جائے۔ اس طرح ایک طرف منصوبے کے عملی شکل اختیار کرنے میں مدد ملے گی۔ دوسری طرف قرض کی رقم ڈوبنے کے خدشات کم ہونے کا امکان ہے۔ اسی طرح حکومت PIA اور اسٹیل مل کی نجکاری کے بجائے ان اداروں کو بھی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانے کی کوشش کی جائے تو بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اس طرح ایک طرف ان اداروں پر حکومتی کنٹرول برقرار رہے گا اور دوسری طرف محنت کشوں کے مسائل میں اضافہ نہیں ہو پائے گا۔
پاکستان میں امن و امان اور معیشت کی بحالی کے لیے خطے کی صورتحال کا متوازن ہونا ضروری ہے۔ اس عمل میں پاکستان کا کلیدی کردار بنتا ہے۔ 2014 میں ایک طرف نیٹو افواج کے چلے جانے کے بعد ایساف افواج کی بہت کم تعداد افغانستان میں رہ جائے گی۔ دوسری طرف بھارت کے عام انتخابات میں BJP کی کامیابی کے امکانات ہیں۔ پاکستان کو دونوں ممالک میں بدلتی صورتحال پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں شدت پسندوں کی پس پشت حمایت کرنے کے بجائے وہاں جمہوری عمل کو پروان چڑھانے کی کوششوں کا ساتھ دینا ہمارے لیے سود مند ہو گا، کیونکہ جمہوری حکومت اگر ہماری مخالف بھی ہو گی تو اس سے ہمارے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کو وہ نقصان نہیں پہنچے گا، جو شدت پسند عناصر کے اقتدار میں آنے کی صورت میں پہنچنے کا احتمال ہے۔ لہٰذا طالبان جیسے غیر جمہوری گروپوں کی حمایت خود ہمارے اپنے معاشرے میں موجود غیر جمہوری قوتوں کے مستحکم ہونے اور انھیں انتشار پھیلانے کا موقع فراہم کرنے کا باعث بنے گی۔ اس لیے اس عمل سے اجتناب کی ضرورت ہے۔ جہاں تک بھارت کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہے تو جس طرح 14 برس بعد DGMOs کی ملاقات کے ذریعے سرحدی معاملات پر پیش رفت ہوئی ہے، اسی طرح دیگر امور پر بھی بھارت کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو جاری رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ وہاں کون سی جماعت اقتدار میں ہے اور اس کے کیا نظریات ہیں؟
اب جہاں تک پاکستان کے عالمی سطح پر ایک روشن خیال اور متحمل مزاج اسلامی ریاست کے طور پر تشخص کی بحالی کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں میاں نواز شریف کو ذاتی طور پر چند سخت گیر اقدامات کرنا ہوں گے۔ اول، وزارت خارجہ کی تشکیل نو اور خارجہ امور کے ماہر کی بطور وزیر خارجہ تعیناتی۔ دوئم، شدت پسند عناصر کے خلاف واضح حکمت عملی اور عمل، جس میں کسی قسم کی مصلحت کوشی کو دخل نہ ہو۔ سوئم، وزیر خارجہ پارلیمان میں اور وزارت خارجہ کا ترجمان ذرایع ابلاغ کو حسب روایت ہفتہ وار بریفنگ دیں۔ لیکن کسی دوسرے وزیر کو خارجہ امور پر اظہار رائے کی اجازت نہ ہو۔ اگر پاکستان یہ اقدامات کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ 2014 کے بعد کا پاکستان ایک پُر امن، ترقی دوست اور آگے کی جانب بڑھتا ملک ہو گا۔