خون کے سودا گر

اکثر اوقات بلکہ بیشتر وقت میں عام لوگوں کے متعلق لکھتا ہوں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن بنیادی وجہ صرف ایک ہے۔


راؤ منظر حیات December 29, 2013
[email protected]

اکثر اوقات بلکہ بیشتر وقت میں عام لوگوں کے متعلق لکھتا ہوں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن بنیادی وجہ صرف ایک ہے۔ یقین جانیے،6 دہائیوں کے جمہوری اور غیر جمہوری سفر میں عام آدمی کو کچھ نہیں ملا۔ اُس کے مسائل جُوں کے تُوں ہیں بلکہ کئی بار گمان ہوتا ہے کہ اس کی کمر مسائل کے بوجھ سے مزید جھک گئی ہے اور اس کی زندگی میں تکلیف پہلے سے بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ آپ کسی شعبے کو دیکھ لیں۔ آپ کو صرف نعرے اور بیانات نظر آئیں گے۔ ہر دن گزرے ہوئے دن سے زیادہ مشکل محسوس ہوتا ہے۔

میرا ایک غیر ملکی دوست مجھے ملنے کے لیے لورالائی آیا۔ وہ میرے پاس دو دن کے قریب ٹھہرا۔ میں نے جاتے ہوئے اپنے ملک کے متعلق اُس شخص کے ذاتی تاثرات پوچھے۔ وہ لاہور سے جیپ پر ڈی جی خان سے ہوتا ہوا لورالائی پہنچا تھا۔ وہ خاموش ہو گیا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے رکا اور کہنے لگا۔ میں نے پاکستان میں ایک ہزار کلو میٹر سے زیادہ سفر کیا ہے۔ میں بے شمار شہروں اور قصبوں سے گزر کر یہاں پہنچا ہوں۔ میں نے ہزاروں لوگوں کو گاڑی کے شیشوں میں سے غور سے دیکھا ہے۔ ان تمام چہروں میں ایک تاثر بالکل عام تھا۔ کسی چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔ ہزاروں مرد اور خواتین ہر طرح کے کام کرتے نظر آ ئے مگر کوئی چہرہ ایسا نہیں تھا جس پر مسکراہٹ کی ایک ہلکی سی لکیر تک ہو۔ اُس کا یہ جملہ کئی سالوں سے میرے ذہن میں مسلسل گونجتا رہتا ہے۔ آپ غور کریں تو آپ کو اس جملے کی صداقت فوراً نظر آئے گی۔ ہم لوگ بہت کم خوش رہتے ہیں۔

ہمارے چہروں سے مسکراہٹ واقعتاً غائب ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہاں ہر شخص اتنے بنیادی مسائل کا شکار ہے کہ اُس کے ہوش اڑ چکے ہیں اور وہ بالکل حواس باختہ نظر آتا ہے۔ غربت بھی اب موروثی بن چکی ہے۔ امکان غالب ہے کہ جو غریب باپ کا پیشہ ہو گا وہی پیشہ مجبوری میں بیٹا بھی اختیار کرے گا۔ یہاں دھوبی کا بیٹا دھوبی، مزدور کا بیٹا مزدور، نائی کا بیٹا نائی اور نائب قاصد کا بیٹا نائب قاصد ہی رہے گا۔ ہماری معیشت میں جو بھی گرمیِ کاروبار نظر آتی ہے وہ غریب کو مزید نقصان پہنچا رہی ہے۔ ہمارے لیڈر اور دانش ور ہمیں ان مسائل کی طرف لے گئے ہیں جن میں سے اکثریت کا حل کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔ مگر معمولی مسائل جو دراصل قطعاً معمولی نہیں ہیں، انکو حل کرنا تو دور کی بات، ان کا بنیادی ادارک ہی نہیں ہے۔ کسی بھی حکومتی ڈھانچہ کے متعلق اس طرح کا عدم اعتماد اس ملک کی فکری اور نظریاتی اساس کو کمزور تر کرنے کا باعث بنتا ہے۔

ہمارے اسپتالوں میں جعلی دوائیوں کا راج تو ہے ہی، مگر ان شفاخانوں میں مزید اتنے بگاڑ ہیں کہ انکو بیان کرنا بھی ناممکن ہے۔ تقریباً ہر بڑے آپریشن میں مریض کو خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ کئی بار یہ ضرورت عزیز رشتہ دار پوری کر دیتے ہیں۔ لیکن اکثر اوقات اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نجی اور سرکاری شعبہ میں موجود بلڈ بینکس (Blood Banks) کی ضرورت پڑتی ہے۔ انتقال خون کے یہ ادارے مجموعی طور پر انتہائی بگاڑ کا شکار ہیں۔ مختلف قوانین جو کہ صرف ان اداروں کی تصحیح کے لیے بنائے گئے ہیں، عملی طور پر غیر موثر ہیں۔W.H.O کی کئی رپورٹس اور تجزیاتی جائزے اس صورت حال کو کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں مگر خون کا یہ کاروبار مسلسل جاری ہے بلکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔

مجموعی طور پر پاکستان میں2550 بلڈ بینکس ہیں۔ قطعی طور پر ان کی تعداد کسی کو بھی معلوم نہیں۔ ان میں سے 170-180 سرکاری شعبہ میں ہیں۔ باقی تعداد N.G.O's اور پرائیویٹ اداروں کے پاس ہے۔ لیکن ایک بات ثابت ہے کہ ان میں سے 2330 کے لگ بھگ صرف اور صرف منافع کے لیے کام کر رہے ہیں۔ منافع کی شرح بہت کم لوگوں کے گمان میں آ سکتی ہے۔ یہ منافع در حقیقت کسی بھی کاروبار کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ان میں سے اکثر ادارے غیر رجسڑڈ ہیں۔ خون کے اس کاروبار میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں 5-12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ بالکل عام ہے اور سیکڑوں ایسے بلڈ بینکس (Blood Bank ہیں جن کے پاس جنریٹر کی کوئی سہولت موجود نہیں۔ 50% کے پاس کوئی سند یافتہ ٹیکنیکل اور مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (Technical and Management Information System) / (M.I.S موجود نہیں ہے۔ 42% کے پاس کوالٹی کنڑول کا کوئی پیمانہ نہیں۔55% کے پاس اندورنی آڈٹ کا کوئی طریقہ نہیں۔90% کے پاس بیرونی آڈٹ کا کوئی نظام نہیں۔ 10% کے پاس اپنے آلات کو ٹھیک رکھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

مزید یہ کہ ہمارے پاس انتقال خون کی کوئی قومی پالیسی بھی نہیں ہے۔ مگر یہ تو ان اداروں کے اندرونی حالات ہیں۔ یہ اپنا کاروبار کرنے کے لیے کیا کیا حربے استعمال کرتے ہیں، یہ نکتہ اور بھی تشویش ناک ہے۔50% خون ان لوگوں سے لیا جاتا ہے جو اسکو پیسے لے کر فروخت کرتے ہیں یعنی50% خون بازار سے خریدا جاتا ہے۔ خون فروخت کرنے والوں میں اکثریت نشہ کرنے والے ان لوگوں کی ہوتی ہے جو، اس کو کاروبار کے طور پر کر رہے ہیں۔ W.H.O نے عطیہ ) (Donors کے لیے جو لازم اسکرینگ اور ٹیسٹ رکھے ہیں یہ لوگ ان تمام (Tests) ٹیسٹس پر پورے نہیں اترتے۔ H.I.V اور اس کے علاوہ دیگر بیماریوں کے ٹیسٹ بھی شاذ و نادر کیے جاتے ہیں۔ آپ حیران ہو جائینگے کہ30% ادارے اپنے فریج کا وہ) (Temperature درجہ حرارت نہیں رکھتے جو W.H.O کیطرف سے لازم قرار دیا گیا ہے۔ جہالت کا عالم یہ ہے کہ25% اداروں میں تربیت یافتہ ڈاکٹر اور ذیلی اسٹاف موجود نہیں ہے۔ صرف چند اداروں کے پاس انتقال خون کے تربیت یافتہ لوگ موجود ہیں۔ 9% ادارے ایسے ہیں جہاں سرے سے ہی کوئی ڈاکٹر یا نرس موجود نہیں۔ یہ تمام کام وہ لوگ کر رہے ہیں جنکے پاس کوئی ڈگری یا تجربہ نہیں۔ خون دینے والے لوگوں میں سے اکثریت کو نہیں پوچھا جاتا کہ وہ کسی قسم کا کوئی نشہ کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ نشہ کرتے ہیں تو کیا وہ انجکشن کا نشہ ہے یا کوئی اور؟

ثمن گُل وانا میں پیدا ہوئی۔ اسکول تو دور کی بات، اس کے والدین کو شعور ہی نہیں تھا کہ بچیوں کو بھی تعلیم دی جانی چاہیے چنانچہ یہ معصوم بچی اَن پڑھ رہی۔ ویسے بھی اُس کے گائوں کے نزدیک کوئی اسکول ہی نہیں تھا۔ اگر اس کے والدین چاہتے بھی، تو بھی ثمن تعلیم حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ چار سال کی بچی ایک دن مٹی کے کھلونوں سے کھیل رہی تھی۔ اچانک اُس نے ماں کو آواز دی۔ ماں جب آئی تو بچی بے ہوش پڑی تھی۔ ثمن نو بہن بھائی تھے۔ اُس کا والد آیا تو ثمن کو مقامی حکیم کے پاس لے جایا گیا۔ ثمن دو گھنٹے کے بعد ہوش میں آ گئی۔ حکیم صاحب نے بتایا کہ اُس کے جگر میں گرمی ہے چند پڑیوں اور دم کیے ہوئے پانی سے آرام آ جائے گا۔ ثمن ٹھیک نہ ہو سکی۔ وہ چند دن کے بعد بے ہوش ہو جاتی تھی۔ اور کچھ گھنٹوں کے بعد ہوش میں آ جاتی تھی۔ ثمن کا والد سبزی فروش تھا اور بالکل اَن پڑھ تھا۔ وہ اپنی بچی کو لے کر پشاور چلا گیا، پشاور کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں ثمن کو بچوں کے وارڈ میں داخل کر لیا گیا۔

چند ٹیسٹوں کے بعد پتا چلا کہ ثمن کو خون کی مہلک بیماری Thalasemiaہے۔ ثمن کے والد کو یقین تھا کہ حکیم ٹھیک کہتا ہے کہ اس کی بچی کو جگر کا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر نے ثمن کے خون تبدیل کرنے کے لیے چار سے پانچ بوتلیں مانگیں۔ بچی کا بلڈ گروپB+ تھا۔ دریا خان سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خون تبدیل ہو سکتا ہے۔ وہ پہلی بار بلڈ بینک گیا تو حیران رہ گیا۔ اُس نے بہت مشکل سے خون کی چار بوتلیں حاصل کیں۔ ثمن کو خون لگا تو وہ بہت بہتر ہو گئی۔ اُس کو بے ہوشی کے دورے پڑنے بھی ختم ہو گئے۔ مگر ڈاکٹر نے اسکو بتایا کہ اگلے مہینے پھر خون کی بوتلیں لگے گیں۔ دریا خان اپنی بچی کو دو مہینے کے بعد پشاور لایا۔ اب اس کے ساتھ اس کے بیٹے اور بیوی بھی تھی۔ دریا خان نے اپنے خاندان سے خون کی چار بوتلیں حاصل کیں۔

تمام خون کو اُس اسپتال کے سرکاری بلڈ بینک میں حفاظت سے رکھ دیا گیا۔ اگلے دن دریا خان وہ خون کی بوتلیں لے کر ثمن کا خون تبدیل کرنے کے لیے وارڈ میں آیا۔ بچی مسکرا رہی تھی اور کھلونوں سے کھیل رہی تھی۔ خون کی پہلی بوتل لگی تو بچی بے چین ہو گئی۔ اُس کو لگا کہ اس کے پورے جسم میں کسی نے آگ بھر دی ہے۔ دو بوتلوں کے بعد اس معصوم نے چیخیں مارنا شروع کر دیں۔ دریا خان کو کچھ سمجھ نہ آیا۔ ثمن چار سال کی عمر میں بے بسی سے مر گئی۔ ڈاکٹر حیران تھے کہ کیا ہوا؟ پوچھنے پر کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ دریا خان بچی کی لاش کے کر وانا چلا آیا۔ چند ماہ بعد انکشاف ہوا کہ اُس سرکاری اسپتال کے بلڈ بینک سے تازہ خون روزانہ بیچ دیا جاتا تھا اور اُس خون کی جگہ بازار سے خون خرید کر رکھ دیا جاتا تھا۔ اس بازاری خون کا کوئی بھی تجزیہ نہیں ہوتا تھا۔ وہی جعلی خون ثمن کو لگایا گیا تھا۔

ثمن اب اِس دنیا میں نہیں ہے مگر خون کی خرید و فروخت جاری ہے۔ اس بھیانک تجارت کی بدولت ہر سال ہزاروں لوگ بے موت مرتے ہیں؟ مگر وہ شخص جی بھی لینگے تو کیا فرق پڑے گا؟ وہ تو صرف پلاسٹک کے شناختی کارڈ ہیں۔ ایک پلاسٹک کے کاغذ کا ہونا یا نہ ہونا ہمارے حکمرانوں کے لیے بے معنی ہے؟ کیونکہ انھیں یقین ہے کہ انھوں نے ہزاروں سال زندہ رہنا ہے؟ اگر چار سال کی ثمن نہیں، تو کوئی دکھ نہیں؟ خون کے سودا گر تو اپنا کاروبار ہر حال میں جاری رکھیں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں