نیا بلدیاتی تنازعہ

بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے۔ ساری دنیا میں سیاسی قیادت اسی نرسری سے گزر کر آتی ہے۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

RAWALPINDI:
بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے۔ ساری دنیا میں سیاسی قیادت اسی نرسری سے گزر کر آتی ہے۔ لیکن چونکہ ہماری سیاست میں قیادت نچلی کے بجائے اور نچلی سطح سے دولت اور خاندانی وجاہت کی ٹہنیاں پکڑ کر ٹارزن کی طرح عوام کے سروں پر کودتی ہے۔ لہٰذا ہماری جمہوری سیاست میں بلدیاتی نظام کی نرسری کو وڈیرہ شاہی کے اسکولوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جو درسگاہوں کے بجائے مویشی خانے بنے ہوئے ہیں۔ ہماری زمینی اور صنعتی اشرافیہ کی یہ ضد رہی ہے کہ ریاست کے سارے اختیارات اس کے قبضے میں رہیں ان اختیارات میں ذرہ برابر کسی کو وہ کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بدقسمتی سے بلدیاتی نظام اختیارات کی تقسیم پر استوار ہوتا ہے اور ظلم یہ ہے کہ اس تقسیم کا رخ اونچی سطح سے نچلی سطح کی طرف ہوتا ہے اور اونچے مقامات پر 66 سالوں سے بیٹھنے والے اس غیر اشرافیائی تقسیم کو اپنی توہین بھی سمجھتے ہیں اور لوٹ مار میں کمی کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں مالی اور انتظامی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی سے وہ کمی بااختیار ہو جاتے ہیں جن کا کام ہمیشہ سیاسی سائیوں کے سامنے سر جھکا کر ہاتھ باندھ کر کھڑے رہنا رہا ہے۔

پاکستان کی سیاست میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے داخلے کو بے اثر بنانے کی جو کوششیں 66 سال سے کی جا رہی ہیں ان میں سے ایک بلدیاتی نظام سے گریز ہے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی شرکت کو روکنے کے لیے انتخابی نظام کو اس قدر مہنگا کر کے رکھا گیا ہے کہ کوئی مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس اس نظام میں شرکت کے لیے سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ کروڑوں روپے کی انتخابی مہمیں وہ لوگ نہیں چلا سکتے جو دو وقت کی روٹی کے لیے اپنا سارا وقت برباد کر دیتے ہیں لے دے کر بلدیاتی نظام ہی ایک ایسا زینہ ہے جو مستقبل میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے باصلاحیت مخلص اور ایماندار لوگوں کے لیے اقتدار تک رسائی کا ذریعہ بن سکتا ہے اور پاکستان کے سیاسی وڈیرے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ بلدیاتی نظام کو مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے لیے اقتدار تک رسائی کا زینہ نہ بننے دیں۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے موجودہ تنازعے کو اسی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے مزدور کسان راج کے جو نعرے لگائے تھے وہ نعرے سیاسی جنگل میں آواز گُم گَشتہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔

ہر ملک کے سیاسی مسائل کا تجزیہ اہل علم اہل قلم کرتے ہیں لیکن ہمارے ملک کی یہ خوش قسمتی ہے کہ یہاں سیاسی تجزیہ کرنے کے لیے صرف اہل قلم ہونا ضروری ہے اہل دانش ہونا ضروری نہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی نظر آتی ہے کہ ہمارے ملک میں دانش دانش نہیں رہی سندھی، پٹھان، پنجابی، بلوچ، مہاجر، شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی جیسے ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے اور دانشوروں کا وزن بھی ان ہی حوالوں سے تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاری بھی اپنی وقعت کھو چکی ہے اور اخبار کے قاری عموماً تجزیاتی کالموں سے اسی طرح گزر جاتے ہیں جیسے راہ چلتے لوگ بارشوں کے زمانے میں کیچڑ سے بچ کر گزرتے ہیں ۔

سونے کو پرکھنے کے لیے اسے آگ میں ڈالا جاتا ہے دانش کو پرکھنے کی کسوٹی ''عوامی مفادات'' ہوتے ہیں اگر دانش ذاتی مفادات کے تابع ہو جاتی ہے تو پھر وہ دانش نہیں ضمیر فروشی بن جاتی ہے ہمارا ملک جن عذابوں میں گھرا ہوا ہے اس کی ایک بڑی وجہ دانش کا قحط اور دانشوری کا ذاتی مفادات کے تابع ہونا ہے۔ ہمارے سیاسی مسائل تو بے شمار ہیں لیکن اس وقت جو مسئلہ زیر بحث ہے وہ ہے بلدیاتی انتخابات۔ اس اہم مسئلے پر سیاست دو حصوں میں بٹ گئی ہے کون سا حصہ درست ہے کون سا حصہ غلط ہے اس کا جائزہ بھی عوام کے اجتماعی مفادات کے حوالے سے ہی لیا جا سکتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ سارے جمہوری ادوار میں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب رہے اور جمہوریت کے دشمنوں کے دور ہی میں ''حاضر'' رہے آخری بلدیاتی انتخابات بھی اس جمہوریت دشمن ہی نے کرائے تھے۔ بلدیاتی انتخابات سے گریز کا رویہ آخر ہمارے جمہوری سیاستدانوں نے کیوں اپنایا ہوا ہے؟ اس سوال کے جواب سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ہماری سیاست کے دو حصوں میں بٹ جانے کی وجوہات سامنے آ جائیں گی کیونکہ یہ گریز ہی اس مسئلے کی جڑ ہے۔


جمہوری اشرافیہ دو حوالوں سے بلدیاتی نظام کی مخالف ہے ایک حوالہ یہ ہے کہ اس کے انتظامی اختیارات میں بلدیاتی نظام کی وجہ سے کمی آ جاتی ہے جو جمہوری آمروں کے لیے قابل قبول نہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ اس اشرافیہ نے ترقیاتی فنڈز کے نام پر ایم پی ایز کو اور اپنے وزرا کو کروڑوں روپے دینے کا جو بد دیانتانہ سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ مالی اختیارات کی تقسیم سے چھن جاتا ہے۔ اگر ایم پی ایز کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر دی جانے والی اس رشوت کا سلسلہ رک جاتا ہے تو یہ گھوڑے بے لگام ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ خوف ہے جو بلدیاتی نظام کی وجہ سے انھیں لاحق ہے۔ کراچی میں پرانی اور نئی حلقہ بندیاں ہمارے اسی کھیل کا حصہ ہیں ان کی تاویل و تشریح اگرچہ مختلف حوالوں سے کی جا رہی ہے لیکن اس کا اصل حوالہ کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار کی بامعنی تقسیم کو روکنا ہے۔

بلدیاتی نظام میں عوام کے علاقائی مسائل یوسی اور ٹاؤن لیول پر ہی حل ہو جاتے ہیں اور یوسی ناظم اور ٹاؤن ناظم ان کی پہنچ میں بھی رہتے ہیں اور نگرانی میں بھی، جب کہ ایم پی اے اور ایم این اے عوام کو صرف انتخابی مہم کے جاری رہنے تک نظر آتے ہیں اور پھر عموماً غائب ہو جاتے ہیں اور ترقیاتی فنڈز عموماً ان کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں بھی علاقائی مسائل حل کرنے کی ذمے داری ایم پی اے یا ایم این اے کی نہیں بلکہ بلدیاتی اداروں کی ہوتی ہے۔ لیکن جمہوریت کا نام لے کر عوام کو بے وقوف بنانے والے سیاسی وڈیروں کو اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کا وہ بلدیاتی نظام بھی پسند نہیں جو ان کے انتظامی اور مالی اختیارات میں کمی کر دے۔

بڑی اور روایتی سیاسی پارٹیاں ایم پی ایز اور ایم این ایز کے انتخابات میں اپنے جن امیدواروں کو نامزد کرتی ہیں ان کا اپنے حلقہ انتخاب سے کوئی تعلق ہوتا ہے نہ علاقائی مسائل سے وہ آگاہ ہوتے ہیں بلکہ کراچی کے حلقوں کے لیے نامزد بڑی پارٹیوں کے امیدواروں کا کراچی سے بھی سوائے اس کے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ اپنی دیہی رہائش گاہوں کے علاوہ کراچی کی پوش بستیوں ڈیفنس، کلفٹن میں بھی ان کے محل اور کوٹھیاں ہوتی ہیں اور غریب لیکن انھیں امیر بنانے والی بستیوں میں جانے سے ان کی ناک کا مزہ خراب ہو جاتا ہے۔ غریب بستیوں میں رہائش کا سوچنا بھی ان سیاسی وڈیروں کی شریعت میں حرام ہے۔

سابق صدر مشرف کے متعارف کردہ نظام سے ان محترم اور ایماندار لوگوں کو یہ اختلاف ہے کہ اس نظام میں کرپشن پیدا ہو جاتی ہے اول تو ایک یوسی یا ٹاؤن ناظم کا بجٹ اتنا بڑا نہیں ہوتا کہ اس میں کوئی بڑی کرپشن ہو دوئم یہ کہ یوسی ٹاؤن اور سٹی ناظمین کو جو بجٹ دیے جاتے تھے نہ صرف عوام ان کے بجٹ سے واقف ہوتے تھے بلکہ ان ترقیاتی پروگراموں سے بھی وہ واقف ہوتے تھے جن کے لیے فنڈز مختص کیے جاتے تھے اور عوام کی نظر ان ترقیاتی کاموں پر بھی ہوتی تھی جو یوسی سے لے کر سٹی ناظم کے ذمے ہوتے تھے ایسی کڑی بندشوں اور چھوٹے چھوٹے بجٹوں میں کسی بڑی کرپشن کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی تھی ۔

بلاشبہ ناظمین کا نظام اپنی چھوٹی موٹی کوتاہیوں کے باوجود اس قدر کامیاب تھا کہ اس کی کامیابی کے نشانات ہر جگہ نظر آتے ہیں خواہ اس کا سربراہ جماعت اسلامی کا ہو یا متحدہ کا۔ اس کی اصل وجہ عوام کے سامنے جوابدہی کا خوف اور احساس ہوتا تھا۔ وہ محترم ایم پی ایز اور ایم این ایز جو اسمبلی کے اجلاسوں میں جانے کی آج بھی زحمت نہیں کرتے اور کورم نہ ہونے کی وجہ سے اسمبلیوں کے اجلاس ملتوی ہو جاتے ہیں کیا وہ اپنے اپنے حلقہ انتخابات میں جانے کی زحمت گوارا کر سکتے ہیں؟ اس ایلیٹ دشمن بلدیاتی نظام کو روکنے کی کوششوں میں عوامی اور میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے ناکام ہونے اور کمشنری نظام لانے کی سر توڑ کوششوں میں ناکامی کے بعد اب اس نظام پر قبضہ کرنے کی جو نئی نئی سازشیں ہو رہی ہیں اس کا بنیادی مقصد بھی بلدیاتی نظام کو صوبائی حکومت کی تحویل میں رکھنا ہے۔ اس حوالے سے منتخب بلدیاتی نمایندوں کو بیورو کریسی اور صوبائی وزرا کا جس طرح محتاج اور تابع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور قابل مذمت بھی ہے اور قابل مزاحمت بھی۔ اس پس منظر میں کراچی کی دو حصوں میں تقسیم کا جائزہ لے کر غلط اور صحیح کا فیصلہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔
Load Next Story