سارہ الامیری

متحدہ عرب امارات کی ایک ابھرتی ہوئی وزیر ان کی خدمات اور کارکردگی کا شہرہ بین الاقوامی سطح پر ہو رہا ہے

متحدہ عرب امارات کی ایک ابھرتی ہوئی وزیر ان کی خدمات اور کارکردگی کا شہرہ بین الاقوامی سطح پر ہو رہا ہے

سارہ الامیری متحدہ عرب امارات کی حکومت میں شامل نو خواتین وزیروں میں سے ایک ہیں اور ان کے پاس متحدہ عرب امارات کی ترقیاتی سائنس کا قلم دان ہے۔

بعض اخبارات کے مطابق سارہ بنت یوسف الامیری کی پیدائش ایرانی بلوچستان کی ہے۔ اُن کے آبائی علاقے کو کافی سخت گیر قرار دیا جاتا ہے، جہاں لڑکیوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے خاصی رکاوٹیں موجود تھیں اور آگے بڑھنے کی خواہاں لڑکیوں کو جبری طور پر روک دیا جاتا تھا، لیکن اتنی مشکلات کے باوجود سارہ الامیری نے ہمت کی اور نہ صرف بنیادی تعلیم حاصل کی، بلکہ پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے امریکی یونیورسٹی آف شارجہ سے کمپیوٹر انجینئرنگ کی ڈگری بھی حاصل کی اور 2014ء میں ماسٹرز بھی کیا۔ گریجویشن کے بعد سارہ الامیری نے راشد بن محمد اسپیس سینٹر میں جدید نظاموں کی انتظامیہ سنبھالی۔

2011ء سے 2014ء تک وہ مرکز کے ترقی و تحقیق کے شعبے کی سربراہ رہیں۔ سارہ الامیری 2009ء میں دبئی ون، سیٹلائٹ ریموٹ کنٹرول سسٹم پلاننگ ٹیم کی رکن تھیں اور 'دبئی ٹو سیٹیلائٹ' میں بھی انھوں نے ہی اہم کردار نبھایا۔ دبئی کے حکمران اور متحدہ عرب امارات کے وزیر محمد بن راشد المکتوم کے جاری کردہ ایک فرمان کے مطابق سارہ امیری کے لیے اعلیٰ درجے کی سائنس کی وزیر کے عہدے کے علاوہ وہ مریخ ایکسپلوایشن ٹیم کی سربراہ اور سائنس دانوں کے کونسل کی سربراہی بھی کریں گی۔ متحدہ عرب امارات کے سائنس دانوں کی کونسل کا قیام 2016ء میں ہوا تھا۔

اپنے ایک انٹرویو میں سارہ الامیری نے اپنے کام کو اپنی زندگی کے خوابوں میں سے ایک خواب بتاتے ہوئے کہا کہ 'خلائی مرکز میں پہلے دن مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ میرے خواب کو حقیقت بنانے کی طرف یہ میرا پہلا قدم تھا۔


یہ قدم مجھے جگہ کی کھوج اور سیٹلائٹ کے ساتھ کام کرنے کے تجربے کے قریب لایا۔ پہلے دن جب میں ملازمت پر پہنچی، مجھے احساس ہوا کہ مجھے خود پر انحصار کرنا پڑا ہے اور کوئی بھی تجربے کار شخص مجھے کام سکھانے کے لیے نہیں تھا۔ یہ پہلا موقع تھا، جب ٹیم کے تمام اراکین نے سیٹلائٹ ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ کام کیا۔ سب نے سوچا کہ نوجوانوں کے ایک گروہ، جن میں سے سب سے بڑے رکن کی عمر 27 سال ہے، سیٹلائٹ کا ڈیزائن بنا کے خلاف میں بھیج سکتا ہے۔

نومبر 2013ء میں یہ گروپ 'دبئی سیٹلائٹ ٹو' لانچ کرنے کے قابل تھا۔ جس پر وہ پانچ سال سے کام کر رہا تھا۔ اصل خلائی جہاز عرب میں تعمیر کردہ پہلا بین الاقوامی تحقیقات ہے۔ ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی(ArizonaState University)، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے (University of California) اور کولوداڈو یونیورسٹی (University of Colorado) کے 200 محقیقین کے تعاون سے 150 اماراتی سائنس دانوں کی ایک ٹیم 2014ء سے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔

متحدہ عرب امارات کے ایڈوانس سائنس کی مشیر کی حیثیت سے سارہ الامیری اس منصوبے کے کمانڈ سینٹر کا انتظام کرتی ہیں۔ جون 2016ء میں 'ورلڈ اکنامک فورم' کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے اعلان کیا کہ متحدہ عرب امارات کے خلائی جہاز کی تعمیر 2020ء تک مکمل ہو جائے گی اور مارچ 2021ء میں اس کا عملی آغاز کیا جائے گا، لیکن 2020ء میں موسم کے نامناسب حالات سمیت متعدد وجوہات کی بنا پر دو بار تاخیر ہوئی۔

بالآخر اس خلائی جہاز کو جاپان کے ایک خلائی مرکز سے لانچ کر دیا گیا۔ متحدہ عرب امارات کی حکومت کی مشیر وزیر سربراہ سارہ الامیری نے لانچ کے فوراً بعد دبئی ٹیلی ویژن کو بتایا ''جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، وہ متحدہ عرب امارات کا مستقبل ہے۔''

بی بی سی نے 2020ء میں سارہ کو دنیا کی 100 متاثر کن خواتین میں شامل کیا ہے اور یہ ہم سب خواتین کے لیے فخر کی بات اور ایک مشعل راہ ہے، خاص طور سے ان خواتین کے لیے ایک امید کا ذریعہ ہے، جو آگے بڑھنے یا پڑھنے سے ڈرتی ہیں، کہ متحدہ عرب امارات کے سماج میں انھوں نے کیسے اپنا مقام اور مرتبہ بنایا، لیکن ہمارے ہاں آج بھی کچھ لوگ بس یہ ذہنیت لے کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ لڑکیاں صرف چولھا سنبھالیں گی، لیکن سارہ الامیری کی وجہ سے مسلم دنیا میں خواتین کے لیے شاید اور بہتری کا امکان پیدا ہو جائے۔
Load Next Story