بنگلہ دیش کے حالات
بنگلہ دیش کے طول و عرض میں اس وقت حسینہ واجد نے ایک آگ لگا دی ہے۔یہ بنگلہ دیش کو فسادات کی آگ میں جھونکنے...
بنگلہ دیش کے طول و عرض میں اس وقت حسینہ واجد نے ایک آگ لگا دی ہے۔یہ بنگلہ دیش کو فسادات کی آگ میں جھونکنے کی سازش ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش کی صورت حال خانہ جنگی کی سی ہے۔ 13 دسمبر جب کہ عبدالقادر ملا کو پھانسی پر چڑھایا گیا سے لے کر آج تک بنگلہ دیش کی سڑکیں اور گلیاں سراپا احتجاج لوگوں سے بھری پڑی ہیں۔جماعت اسلامی اور بی این پی کی قیادت سڑکوں پر ہے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ 1971 کے مناظر دہرائے جا رہے ہیں۔ عوامی لیگ کے مسلح کارکن ہندوؤں کی قیادت میں اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں، شہید ہونے والوں کی تعداد پچاس سے اوپر جا چکی ہے۔ جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنماؤں کے گھروں پر حملے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ ان فسادات کو کنٹرول کرنے کے بجائے بڑھایا جا رہا ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ الیکشن جیسے جیسے قریب آئے گا، اس کی ہلاکت خیز کیفیت میں اضافہ ہوگا۔ معاملہ یہ ہے کہ الیکشن کے لیے جماعت اسلامی اور بی این پی نے غیر جانبدار نگراں حکومت کے مطالبے کو تسلیم نہ کرنے کے باعث الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
اس بائیکاٹ کے باعث عوامی لیگ اکثر نشستوں پر اپنے مقابل امیدوار کی غیر موجودگی پر پریشان ہے۔ بائیکاٹ اتنا موثر ہے کہ عوامی لیگ کو اپنے مقابل کرائے کے امیدوار بھی دستیاب ہونے مشکل ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حسینہ واجد کو اپنی اتحادی جاتیو پارٹی کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے۔انھوں نے 5 جنوری کو ہونے والے اس الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا جس کے فوری بعد انھیں گرفتار کرلیا گیا اور جب ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں حکومت کو نوٹس بھیجا کہ جنرل ارشاد کو بغیر کسی الزام اور عدالتی حکم کے قید میں نہیں رکھا جاسکتا تو حسین محمد ارشاد کو ملک سے فوری طور پر نکلنے کا حکم دیا اور عام انتخابات سے قبل باہر رہنے کے لیے کہا۔ حکومت ان کو بلیک میل کرکے زبردستی الیکشن میں شریک کرانا چاہتی ہے۔ حقیقتاً حسینہ واجد نے اس اقدام کا مقصد بھارت کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔ یہ معاملہ انتہائی جلد بازی سے نمٹانے کی کوششیں کی گئیں۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 12 بج کر ایک منٹ کے بجائے رات دس بجے پھانسی دی گئی۔ دنیا کی تاریخ میں یہ بھی پہلی بار ہوا کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے سنائی گئی، عمر قید کی سزا کو سپریم کورٹ نے بڑھا کر سزائے موت میں تبدیل کردیا۔
جب کہ اگر سزا کے خلاف اپیل کی جائے تو یا تو وہ سزا معاف کردی جاتی ہے یا برقرار رکھی جاتی ہے یا سزا میں کچھ کمی کردی جاتی ہے۔ لیکن عمر قید کی سزا کو کبھی بھی پھانسی کی سزا میں بدلا نہیں جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت سمندری اور زمینی دونوں راستوں سے بھارتی حکومت نے ہندوؤں کو ڈھاکہ بھیجنا شروع کردیا ہے تاکہ حسینہ واجد کو امریکی اور یورپی ممالک کی نگاہوں میں بنگالی اور ہندو اقلیتوں کا نمایندہ ظاہرکیا جائے۔ بھارتی اخبار ڈیلی بھاسکر اور آسام ٹائم اور بنگلہ دیشی اخبار اتفاق نے لکھا ہے کہ جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنماؤں کے خلاف متنازعہ اور نام نہاد جنگی ٹریبونل میں گواہوں کی بڑی تعداد بنگلہ دیش کی سرحد پار کرکے خصوصی طور سے بھارت سے آئی تھی۔
بنگلہ دیش میں اس وقت بھارتی اثر و رسوخ حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت مکمل طور پر بھارتی پالیسیوں کے تابع ہے۔ بنگلہ دیش تین طرف سے خشکی اور ایک طرف سے خلیج بنگال کے راستے بھارتی حصار میں ہے۔ یوں اس کی مثال بتیس دانتوں میں گھری زبان کی طرح ہے۔ اس وقت بھارت کو عالمی گٹھ جوڑ کے باعث مزید شہ ملی ہوئی ہے۔ نتیجتاً بنگلہ دیش اور پاکستان ممالک میں بھارتی لابیز اور اثرات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش پوری طرح بھارتی اثر و رسوخ اور ترجیحات کا تابع ہو چکا ہے۔
حسینہ واجد کا یہ سیاسی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے کہ وہ بیالیس سال بعد 71 کے مناظر کو دہرانے کا بندوبست کر رہی ہیں۔ اس وقت حسینہ واجد نے بی این پی کے صلاح الدین قادر کو پھانسی پر چڑھانے کا حکم بھی جاری کردیا ہے۔ مکتی باہنی کی یاد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ بیرون ملک سے بھی ایسے مجرموں کو واپس لائیں گی اور وہ خانہ جنگی کی صورت حال سے نہیں ڈرتیں۔ مظاہرین باز نہ آئے تو ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
افسوس کہ پاکستانی حکومت نے اس معاملے میں زبان بندی کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ بھارت کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ جو پہلے ہی پاکستان کے حامیوں کو نشانہ عبرت بنانے کا ارادہ کیے بیٹھا ہے۔ 92 سالہ ضعیف پروفیسر غلام اعظم کو 90 سال کی سزا سناتے ہوئے جج نے لکھا کہ اس طویل سزا کا مقصد بھی یہ ہے کہ ''مجرم'' جیل میں مرے۔ پاکستان کے لیے وفا اگر جرم ہے تو پھر کل کون اس جرم کے ارتکاب کا سوچے گا۔ یوں پاکستانی حکومت کی زبان بندی اپنے وفاداروں کی حوصلہ شکنی کا باعث ہے۔
سوال یہ کہ حسینہ واجد نے اپنے ملک میں یہ صورت حال کیا بھارت کے آگے تاپنے کے لیے پیدا کی ہے؟ یا عالمی طور پر کچھ اور طاقتیں بھی ملوث ہیں۔ کچھ تجزیے اطلاع دیتے ہیں کہ علاقے سے امریکا کی روانگی قریب ہے۔ لیکن جاتے ہوئے وہ علاقے کے تھانیداروں کے رول کے لیے بھارت اور ایران کو منتخب کرچکا ہے۔ اس سلسلے میں وہ اسلامی قوتوں کو اپنی راہ کی رکاوٹ محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا اس فیصلے کی پشت پر بھارت امریکا کے لیے برطانیہ کا گٹھ جوڑ بھی موجود ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پہلے یہ سزا عملدرآمد سے چند لمحے قبل حکم امتناعی کے ذریعے روک دی گئی تھی۔ اس وقت برطانوی نمایندہ ڈھاکہ کے دورے کے اختتام پر واپسی کی تیاریاں کر رہا تھا اس نے واپسی کو روک کر فوری طور پر بنگلہ دیشی حکام سے دوبارہ ملاقاتیں کیں۔ لہٰذا دباؤ کے باعث نظرثانی کی درخواست سماعت کے بغیر مسترد کردی گئی۔ یوں دنیا میں پہلی مرتبہ سزائے موت بارہ بج کے ایک منٹ کے بجائے دس بجے دے دی گئی۔ شمع وفا کے پروانے نے کلمہ پڑھتے ہوئے مسکرا کر پھندا گلے میں ڈال لیا۔ ان کی پھانسی ثبوت ہے کہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق نہیں ہوا۔ اگر یہ نظریہ زندہ نہ ہوتا تو 42 سال بعد اسلام کے شیدائیوں کے لیے یوں بھارت کی آشیرباد سے پھانسی گھاٹ اور جیل کی کوٹھڑیوں کے در نہ کھولے جاتے۔
حسینہ واجد نے ایک سوچ ایک فکر ایک نظریے اور ایک عقیدے کو ختم کرنے کی سازش کی تھی۔ لیکن وہ بیک فائر کرگئی ہے۔ 42 سال بعد بنگلہ دیش میں بنگالی ایک سیلاب کی طرح امنڈ کر احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق 90 فیصد عوام حسینہ واجد سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ حسینہ اپنے والد کی طرح کے انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔
اس بائیکاٹ کے باعث عوامی لیگ اکثر نشستوں پر اپنے مقابل امیدوار کی غیر موجودگی پر پریشان ہے۔ بائیکاٹ اتنا موثر ہے کہ عوامی لیگ کو اپنے مقابل کرائے کے امیدوار بھی دستیاب ہونے مشکل ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حسینہ واجد کو اپنی اتحادی جاتیو پارٹی کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے۔انھوں نے 5 جنوری کو ہونے والے اس الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا جس کے فوری بعد انھیں گرفتار کرلیا گیا اور جب ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں حکومت کو نوٹس بھیجا کہ جنرل ارشاد کو بغیر کسی الزام اور عدالتی حکم کے قید میں نہیں رکھا جاسکتا تو حسین محمد ارشاد کو ملک سے فوری طور پر نکلنے کا حکم دیا اور عام انتخابات سے قبل باہر رہنے کے لیے کہا۔ حکومت ان کو بلیک میل کرکے زبردستی الیکشن میں شریک کرانا چاہتی ہے۔ حقیقتاً حسینہ واجد نے اس اقدام کا مقصد بھارت کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔ یہ معاملہ انتہائی جلد بازی سے نمٹانے کی کوششیں کی گئیں۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 12 بج کر ایک منٹ کے بجائے رات دس بجے پھانسی دی گئی۔ دنیا کی تاریخ میں یہ بھی پہلی بار ہوا کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے سنائی گئی، عمر قید کی سزا کو سپریم کورٹ نے بڑھا کر سزائے موت میں تبدیل کردیا۔
جب کہ اگر سزا کے خلاف اپیل کی جائے تو یا تو وہ سزا معاف کردی جاتی ہے یا برقرار رکھی جاتی ہے یا سزا میں کچھ کمی کردی جاتی ہے۔ لیکن عمر قید کی سزا کو کبھی بھی پھانسی کی سزا میں بدلا نہیں جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت سمندری اور زمینی دونوں راستوں سے بھارتی حکومت نے ہندوؤں کو ڈھاکہ بھیجنا شروع کردیا ہے تاکہ حسینہ واجد کو امریکی اور یورپی ممالک کی نگاہوں میں بنگالی اور ہندو اقلیتوں کا نمایندہ ظاہرکیا جائے۔ بھارتی اخبار ڈیلی بھاسکر اور آسام ٹائم اور بنگلہ دیشی اخبار اتفاق نے لکھا ہے کہ جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنماؤں کے خلاف متنازعہ اور نام نہاد جنگی ٹریبونل میں گواہوں کی بڑی تعداد بنگلہ دیش کی سرحد پار کرکے خصوصی طور سے بھارت سے آئی تھی۔
بنگلہ دیش میں اس وقت بھارتی اثر و رسوخ حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت مکمل طور پر بھارتی پالیسیوں کے تابع ہے۔ بنگلہ دیش تین طرف سے خشکی اور ایک طرف سے خلیج بنگال کے راستے بھارتی حصار میں ہے۔ یوں اس کی مثال بتیس دانتوں میں گھری زبان کی طرح ہے۔ اس وقت بھارت کو عالمی گٹھ جوڑ کے باعث مزید شہ ملی ہوئی ہے۔ نتیجتاً بنگلہ دیش اور پاکستان ممالک میں بھارتی لابیز اور اثرات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش پوری طرح بھارتی اثر و رسوخ اور ترجیحات کا تابع ہو چکا ہے۔
حسینہ واجد کا یہ سیاسی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے کہ وہ بیالیس سال بعد 71 کے مناظر کو دہرانے کا بندوبست کر رہی ہیں۔ اس وقت حسینہ واجد نے بی این پی کے صلاح الدین قادر کو پھانسی پر چڑھانے کا حکم بھی جاری کردیا ہے۔ مکتی باہنی کی یاد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ بیرون ملک سے بھی ایسے مجرموں کو واپس لائیں گی اور وہ خانہ جنگی کی صورت حال سے نہیں ڈرتیں۔ مظاہرین باز نہ آئے تو ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
افسوس کہ پاکستانی حکومت نے اس معاملے میں زبان بندی کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ بھارت کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ جو پہلے ہی پاکستان کے حامیوں کو نشانہ عبرت بنانے کا ارادہ کیے بیٹھا ہے۔ 92 سالہ ضعیف پروفیسر غلام اعظم کو 90 سال کی سزا سناتے ہوئے جج نے لکھا کہ اس طویل سزا کا مقصد بھی یہ ہے کہ ''مجرم'' جیل میں مرے۔ پاکستان کے لیے وفا اگر جرم ہے تو پھر کل کون اس جرم کے ارتکاب کا سوچے گا۔ یوں پاکستانی حکومت کی زبان بندی اپنے وفاداروں کی حوصلہ شکنی کا باعث ہے۔
سوال یہ کہ حسینہ واجد نے اپنے ملک میں یہ صورت حال کیا بھارت کے آگے تاپنے کے لیے پیدا کی ہے؟ یا عالمی طور پر کچھ اور طاقتیں بھی ملوث ہیں۔ کچھ تجزیے اطلاع دیتے ہیں کہ علاقے سے امریکا کی روانگی قریب ہے۔ لیکن جاتے ہوئے وہ علاقے کے تھانیداروں کے رول کے لیے بھارت اور ایران کو منتخب کرچکا ہے۔ اس سلسلے میں وہ اسلامی قوتوں کو اپنی راہ کی رکاوٹ محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا اس فیصلے کی پشت پر بھارت امریکا کے لیے برطانیہ کا گٹھ جوڑ بھی موجود ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پہلے یہ سزا عملدرآمد سے چند لمحے قبل حکم امتناعی کے ذریعے روک دی گئی تھی۔ اس وقت برطانوی نمایندہ ڈھاکہ کے دورے کے اختتام پر واپسی کی تیاریاں کر رہا تھا اس نے واپسی کو روک کر فوری طور پر بنگلہ دیشی حکام سے دوبارہ ملاقاتیں کیں۔ لہٰذا دباؤ کے باعث نظرثانی کی درخواست سماعت کے بغیر مسترد کردی گئی۔ یوں دنیا میں پہلی مرتبہ سزائے موت بارہ بج کے ایک منٹ کے بجائے دس بجے دے دی گئی۔ شمع وفا کے پروانے نے کلمہ پڑھتے ہوئے مسکرا کر پھندا گلے میں ڈال لیا۔ ان کی پھانسی ثبوت ہے کہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق نہیں ہوا۔ اگر یہ نظریہ زندہ نہ ہوتا تو 42 سال بعد اسلام کے شیدائیوں کے لیے یوں بھارت کی آشیرباد سے پھانسی گھاٹ اور جیل کی کوٹھڑیوں کے در نہ کھولے جاتے۔
حسینہ واجد نے ایک سوچ ایک فکر ایک نظریے اور ایک عقیدے کو ختم کرنے کی سازش کی تھی۔ لیکن وہ بیک فائر کرگئی ہے۔ 42 سال بعد بنگلہ دیش میں بنگالی ایک سیلاب کی طرح امنڈ کر احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق 90 فیصد عوام حسینہ واجد سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ حسینہ اپنے والد کی طرح کے انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔