ریسرچ اور فارمولا

جب سال ختم ہوتا ہے تو روزنامچے یا ڈائریاں بدل جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ وکلا کے دفتر میں کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے

03332257239@hotmail.com

جب سال ختم ہوتا ہے تو روزنامچے یا ڈائریاں بدل جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ وکلا کے دفتر میں کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ نئے سال کے لیے ملنے والی تاریخیں نئی ڈائری میں درج کی جاتی ہیں۔ فیصلہ ہو جانے والے مقدمات بھی ایک طرف لکھے جاتے ہیں کہ اندازہ ہو کہ کتنے معاملات نمٹ گئے۔ ممکن ہے قارئین کو اس لمحے میں بھارتی فلم کا ایک مکالمہ یاد ہو۔ ''تاریخ پہ تاریخ، تاریخ پہ تاریخ'' عدالتی سسٹم کا یہ سچ ہے کہ مقدمات کی رفتار سست ہوتی ہے لیکن اگر یہ تیز ہو جائے تب بھی لوگ شکایت کرتے۔ ہمارا موضوع آج وہ خواتین ہیں جنھوں نے اپنے شوہر سے خلع حاصل کیا ہے۔ جب پرانی ڈائری دیکھی تو اکثر صنف نازک میں ایک چیز مشترکہ نظر آئی۔ مجازی خدا سے علیحدگی اختیار کرنے والی تمام تر بیویوں میں ایک کامن چیز ہے۔

بظاہر ان تمام میں ایک ہی بات کا ہونا خامی سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی بلے باز ایک ہی بالر کے ہاتھوں آؤٹ ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ گیند باز نے بیٹسمین کی خامی پکڑ لی ہے۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان اظہر الدین جلد آؤٹ ہونے لگے تھے۔ انھوں نے ظہیر عباس سے مشورہ کیا تو عظیم کھلاڑی نے سمجھایا کہ تم فلاں قسم کی گیند پچھلے قدموں پر کھیلتے ہو اور ایل بی ڈبلیو ہو جاتے ہو۔ اظہر نے ظہیر کی بات سمجھی اور اپنی خامی دور کرلی۔ اگر والدین اور منگنی شدہ و شادی شدہ خواتین اس کالم کے لیے کی گئی ریسرچ اور دیے گئے فارمولے کو سمجھ لیں تو وہ رشتوں کے برتنے میں زیادہ محتاط ہوجائیں گی۔ اگر کچھ خواتین کی شوہر سے ناچاقی ہے یا عدالت میں مقدمہ زیر سماعت ہے تو وہ بھی خامی دور کرکے گھر بسانے کی جانب بڑھ سکتی ہیں۔ آپ ان چار خواتین کے عدالتی معاملات پڑھیے اور سمجھیے کہ شاہینہ، صائمہ، کوثر اور سارہ میں کیا چیز مشترک ہے۔ اگلے دو منٹ آپ کی ذہانت کا امتحان ہے۔ فیصل شدہ چار مقدمات کی فائلیں میز پر رکھی ہیں۔

شاہینہ کے چار بچے ہیں۔ شوہر نے اختلافات پر طلاق دے دی۔ اس کا مقدمہ تھا کہ بچوں کا باپ اب ان کے اخراجات اپنے ذمے لے۔ شاہینہ بڑی پڑھی لکھی اور سمجھدار خاتون تھیں۔ وہ کہنے لگیں کہ میں نے تو شوہر کے مظالم برداشت کیے ہیں وہ بچوں کی پرورش و تعلیم و تربیت کے اخراجات برداشت کرے۔ دو بیٹیاں اور دو بیٹے چھوٹے چھوٹے چار بچے۔ کچھ عرصے بعد ارشد نے بچوں سے ملنے اور ان کو تحویل میں لینے کا مقدمہ دائر کردیا۔ چار بچوں کو ہفتے کی اسکول کی چھٹی والے دن عدالت لانا واقعتاً ایک معرکا تھا۔ شاہینہ کا اٹھارہ سالہ بھائی اپنے والد کے ساتھ آتا۔ علیحدگی کے سابقہ عرصے کے نان نفقے کے بدلے ارشد نے مکان شاہینہ اور بچوں کے نام کردیا اور آیندہ کے لیے عدالت کی مقرر کردہ رقم سالانہ دس فیصد اضافے کے ساتھ جمع کرواتا ہے۔

صائمہ تین بچوں کی ماں ہے۔ اس کا شوہر طفیل ایک ہوائی کمپنی میں ملازم ہے۔ صائمہ کو شک ہے کہ طفیل نے دوسری شادی کرلی ہے۔ وہ کئی کئی دنوں کے لیے جاب کے سلسلے میں غیرملکی دوروں پر ہوتا ہے۔ بیوی کے پاس شوہر کے نکاح ثانی کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ اس مقدمے کو داخل کروانے اور طفیل پر تعمیل کروانے کے تمام مراحل میں صائمہ کے دونوں چھوٹے بھائی ساتھ ساتھ تھے۔ طفیل نے عدالت میں قسمیں کھائیں کہ وہ بیوی کے ساتھ وفادار ہے۔ آگے چل کر صائمہ نے ایک خاتون کا نام بھی بتایا جس سے طفیل نے دوسری شادی کی ہے۔ وہ کسی صورت میں شوہر کے ساتھ گزارا کرنے پر تیار نہ تھی۔ خلع کے بعد بچے صائمہ کے پاس رہے۔ وہ خود بھی ایئرہوسٹس رہ چکی تھی اور والد کا ورثہ بھی ملا تھا۔ صائمہ کا اپنا مکان اس کی والدہ اور بھائیوں کے گھر کے قریب ہے۔ طفیل بے قاعدگی سے عدالت کا مقررکردہ نان نفقہ جمع کرواتا ہے۔ بات آخر تک راز رہی کہ آخر طفیل نے دوسری شادی کی تھی یا نہیں۔


کوثر دو بچوں کی ماں ہے اور عدالت سے خلع لے چکی ہے۔ وہ شوہر کی لاپرواہی کی شکایت کرتی رہی۔ اختر کسی اناج مارکیٹ میں بروکر ہے۔ اس نے صلح کی بڑی کوششیں کیں۔ شوہر کی برادری کے بزرگ دفتر تشریف لائے توکوثرکو بھی بلالیا۔ بڑی تگ و دو کی گئی۔ بزرگ نے کوثر کو سمجھایا کہ تمہارا شوہر اچھا کماتا ہے اور اس کا مکان بھی اپنا ہے۔ چھوٹی موٹی شکایتیں ہر گھر میں ہوتی رہتی ہیں۔ کوثر نے سوچنے کا وعدہ کیا لیکن ایک ہفتے بعد منع کردیا۔ اس کے دونوں بھائی اپنی بہن سے بڑھ کر بہنوئی کے شاکی تھے۔ بیس سالہ عمران اور بائیس سالہ کامران اپنی بہن کے حامی بن کر سامنے آ رہے تھے۔ شاہینہ، صائمہ اورکوثر میں کیا چیز مشترک ہے؟

سارہ کا ایک بچہ تھا اور وہ اپنے شوہر سے ناراض تھی۔ شاہ رخ ماں سے زیادہ ماموں کا لاڈلا تھا۔ سارہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی۔ پہلے وہ شوہر کی طویل عرصے تک افریقہ میں رہائش سے پریشان تھی۔ جب مزمل نے اسے افریقہ بلالیا تو وہ وہاں بھی بور ہونے لگی۔ بغیر شوہر و سسر کو بتائے وہ پاسپورٹ اپنے قبضے میں لے کر اور ٹکٹ بنوا کر پاکستان آگئی۔ مزمل نے گمشدگی کی رپورٹ وہاں درج کروائی۔ جب رشتے داروں سے علم ہوا کہ سارہ بچے کو لے کر وطن واپس آگئی ہے تو مزمل کو بھی پاکستان آنا پڑا۔ بیوی افریقہ میں رہنا نہیں چاہتی تھی اور شوہر کی کاروباری مجبوریاں تھیں۔ سارہ کو خلع بھی مل گیا اور بچہ بھی۔ اس نے دوسری شادی کرلی۔ جب بچے کو عدالت میں باپ سے ملوانے لایا جاتا تو اس کے ساتھ اس کا شوہر بھی ہوتا۔ یہ مرحلہ مزمل کے لیے رقابت کا سا لمحہ ہوتا۔ ہماری شکایت پر عدالت نے سوتیلے باپ کو مزمل سے ملاقات کے وقت بچے سے دور رہنے کا کہا۔ پھول سا شاہ رخ مرجھاتا جا رہا تھا۔ پہلے تو چھ سال کے بچے کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ماں باپ کیوں لڑ رہے ہیں۔ پھر سوتیلے باپ کے ساتھ رہنا اور سگے باپ سے مہینے میں دو مرتبہ عدالت میں ملنے آنا۔ اس بچے کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ تو معلوم نہیں لیکن یہ خبر ضرور مل گئی کہ اب مزمل نے بھی دوسری شادی کرلی ہے۔ لڑنے والے میاں بیوی نے اپنا اپنا نیا جیون ساتھی تو چن لیا لیکن شاہ رخ کا کیا بنے گا؟ وہ شاہ رخ جو دونوں طرف سے سوتیلے بھائی بہنوں کا منتظر ہے۔

یہ ہیں چار دکھ بھری داستانیں۔ اس میں پہلے دیکھیے کہ ریسرچ کیا ہے؟ فارمولا کیا ہے؟ شاہینہ، صائمہ، کوثر اور سائرہ اپنے والدین کی بڑی بیٹیاں ہیں۔ شاید ایک آدھ ہوگی جس کی ایک بڑی بہن بھی ہے لیکن سب کے صرف چھوٹے بھائی آپ کو محسوس ہوئے ہوں گے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ گھر میں سب سے بڑی بیٹی۔ مطلب لاڈلی۔ جب وہ پیدا ہوئی ہوں گی تو ماں باپ خوشی سے پھولے نہیں سمائے ہوں گے۔ یہ نانا اور دادا کی بھی چہیتی ہوں گی اور چچا و ماموں اس بچی کی فرمائشوں کو حکم کا درجہ دیتے ہوں گے۔ چھوٹے بھائی بچپن میں تو بڑی بہن کو تنگ کرتے ہوں گے لیکن جوں جوں بڑے ہوتے جاتے ہوں گے تو انھیں کچھ محسوس ہوتا ہے۔ چھوٹے بھائی محسوس کرتے ہوں گے کہ بڑی بہن کو ہمارے ہاں زیادہ دیر نہیں رہنا۔ اسے ایک نہ ایک دن پرائے گھر جانا ہے۔

یہ جذبہ انھیں بہن کی فرماں برداری پر مائل کرتا ہوگا۔ وہ بڑی بہن جنھیں وہ ماں کا سا درجہ دیتے ہوں گے۔ پھر کیا ہوا ہوگا؟ پھر جب بڑی بہن کا رشتہ طے ہوا ہوگا تو یہ چھوٹے بھائی اپنے بہنوئی کو بڑے بھائی کا سا سمجھتے ہوں گے۔ شادی میں باپ کا بھرپور ہاتھ بٹایا ہوگا اور رخصتی پر آنسو بہائے ہوں گے۔ بہن کے نہ ہونے سے گھر سونا سونا سا لگتا ہوگا۔ جب بہن میکے آتی ہوگی تو بھائی نہال ہوجاتے ہوں گے۔ جب ماموں بنے تو بھانجا یا بھانجی ان کی توجہ کا مرکز رہے ہوں گے۔ جب بہن دکھی ہوگی اور سبب بہنوئی ہوگا تو چھوٹے بھائی میدان میں نکل آئے ہوں گے۔ وہ ہر صورت میں بہن کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہ وہ بھائی ہوتے ہیں جو غیر شادی شدہ ہوتے ہیں۔ جب ایسی بیٹیاں سسرال سے روٹھ کر میکے آتی ہیں تو وہاں بھابھیاں نہیں ہوتیں۔ وہ ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں۔ وہ میکے کو اپنے لیے بہتر خیال کرتی ہیں۔

نوجوان بھائیوں کو احساس نہیں ہوتا کہ جب ان کی بیویاں آئیں گی اور بچے ہوں گے تو طلاق یافتہ بہن کی کیا پوزیشن ہوگی؟ اس کے بچوں کا کیا مقام ہوگا؟ وہ لڑکیاں جن کے میکے میں بھابھیاں ہوتی ہیں وہ حالات کا صحیح تجزیہ کرلیتی ہیں۔ شادی شدہ اور کنوارے بھائیوں کے رویے میں ذمے داریوں کے سبب زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ شاید کہ یہ چار خواتین اس وجہ سے اپنا گھر نہ بسا سکی ہوں۔ کاش کہ لڑکیاں اس ریسرچ کو سمجھ لیں۔ وہ بھائیوں کی عمر کے فارمولے کو سمجھ لیں اپنے مستقبل کو طے کرنے سے پہلے۔ لڑکیاں سمجھ لیں اس ریسرچ اور فارمولے کو؟
Load Next Story