ہمارا کل ہمارا آج
وقت کی سوئی تیزی سے 2014 کی طرف بڑھ رہی ہے۔ زندگی اتنی مصروف ہوگئی ہے کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔
وقت کی سوئی تیزی سے 2014 کی طرف بڑھ رہی ہے۔ زندگی اتنی مصروف ہوگئی ہے کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔ ابھی تو 2013 آیا تھا، پلک جھپکی اور سال گزرگیا، میڈیا، انٹرنیٹ، موبائل فون سفر میں طرح طرح کی دنیا بھر میں آسانیاں، آج صرف دنیا ہی نہیں شمسی انسان کی ترقی کرنے کی وجہ سے وقت بھی سمٹ گیا ہے۔ گھنٹے منٹوں کی طرح اور مہینے ہفتوں کی طرح گزرتے جا رہے ہیں لیکن پاکستان میں وقت کے علاوہ ہر چیز دھیمی رفتار سے چل رہی ہے۔
ہم ترقی میں دوسرے ملکوں سے دور اور کرپشن مٹانے میں دوسرے ملکوں سے بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان میں ساٹھ فیصد لوگ تیس سال سے کم عمر کے ہیں ہمارے وہ نوجوان جو پاکستان کو ایک بہتر ملک بنانا چاہتے ہیں۔ نوجوان جو ہمارا کل ہیں لیکن اس وقت ہمارا مسئلہ آنے والا کل نہیں ہے آچکا آج ہے، وہ ''آج'' جس کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو شاید پاکستان کا بہتر کل کبھی نہیں آنے دیں گے۔
کچھ دن پہلے پاکستان کی خودمختار ریسرچ آرگنائزیشن ''سینٹر فار انویسٹی گیشن رپورٹنگ'' کے مطابق پاکستان کی حکومت میں موجودہ 47 فیصد یعنی تقریباً آدھے ممبر پارلیمنٹ ایسے ہیں جو کسی بھی قسم کا ٹیکس نہیں بھرتے۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ بارہ فیصد فیڈرل اور صوبائی ممبران جوکہ تعداد میں ہزار سے زیادہ ہیں انھوں نے کبھی نیشنل ٹیکس نمبر حاصل ہی نہیں کیا وہ نمبر جس کے ذریعے آپ ٹیکس بھرتے ہیں۔
آئی ایم ایف جو پاکستان کو 6.7 بلین ڈالرز کا قرضہ دینے والی ہے چاہتی ہے کہ اسلام آباد میں موجودہ اتھارٹیز پہلے پاکستان میں ہو رہی ٹیکس کی اس چوری کو روکیں اسی طرح برطانیہ جو پاکستان کے سب سے بڑے ڈونرز میں سے ایک ہے چاہتا ہے کہ ٹیکس کے اس مسئلے کا پاکستان سنجیدگی سے کوئی حل نکالے۔
پاکستان میں جو وزرا ٹیکس دے بھی رہے ہیں اس میں سے زیادہ تر دس ہزار روپے سالانہ سے کم کا ٹیکس بھرتے ہیں، رپورٹ میں کچھ ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہے جنھوں نے پچھلے سال صرف ہزار روپے کا ٹیکس دیا ہے۔ بعض سیاستدانوں نے ملٹی بلین ڈالر امپائر ہونے کے باوجود 2012 میں صرف بائیس لاکھ روپے کا ٹیکس بھرا۔ بات دو ایک لوگوں کی نہیں ہے یہ حال پاکستان بھر کا ہے۔
ن لیگ حکومتی جماعت کے ارکان اس ''نہ بھروں گا ٹیکس'' کی ریس میں سب سے آگے ہیں جس کے 54 ممبران پارلیمنٹ نے پچھلے سال کوئی ٹیکس نہیں بھرا، تحریک انصاف کے انیس ممبران پارلیمنٹ کا بھی یہی حال ہے جب دونوں ہی پارٹیز کے ترجمان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ٹیکس بھرنا ہر شخص کا ذاتی مسئلہ ہے۔ انسان کو اس میں سچائی سے کام لینا چاہیے اگر کوئی شخص جھوٹ بولے یا ٹیکس نہ بھرے تو اس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگر ہم نے خود کوئی جانچ کی اور ہمیں کوئی غلطی نظر آئی تو ہم ایکشن لیں گے۔
مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ حکومت میں موجود ہائر اتھارٹیز ٹیکس نہیں بھر رہے مسئلہ یہ ہے کہ عام لوگ جب بڑے لوگوں کا یہ حال دیکھتے ہیں تو وہ بھی ٹیکس بھرنے کو بے وقوفی سمجھتے ہیں، اسی طرح کی رپورٹس جب دنیا بھر میں پھیلتی ہیں اور ٹیکس کو لے کر پاکستان پر پریشر آتا ہے تو حکومت عوام پر مزید ٹیکس لگا دیتی ہے جس سے عام لوگ اور بھی دل برداشتہ اور پریشان ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ صرف اعشاریہ 5 فیصد لوگ ٹیکس جمع کرواتے ہیں۔
''پی آئی ایل ڈی ٹی'' کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی عام ممبر پارلیمنٹ آٹھ سے دس کروڑ روپے کی جائیداد رکھتا ہے وہ ممبر جو ہزار سے دو ہزار روپے سالانہ ٹیکس بھر رہا ہے یہی ٹیکس کی چوری ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا جی ڈی پی دنیا کے Average سے کم ہے ہم 9 پر ہیں جب کہ دنیا کا اوسط 14 فیصد ہے۔
برٹش ہائی کمیشن ٹو پاکستان ایڈم تھامس نے کچھ دن پہلے ایک آرٹیکل لکھا تھا جس میں زور دیا گیا تھا کہ پاکستان کو اپنے ان امیروں سے ٹیکس وصول کرنا چاہیے جو بڑی بڑی گاڑیاں رکھتے ہیں بار بار بیرون ملک کے دورے کرتے ہیں لیکن ٹیکس بھرنے کے لیے ان کے پاس رقم نہیں، ایڈم تھامس کے مطابق پاکستان کا مسئلہ عام طبقہ نہیں ہے ہمارا مسئلہ اوپر سے شروع ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کے بڑے صنعت کار اور حکمراں ٹیکس صحیح بھریں گے تو وہ عام لوگوں کے لیے ایک اچھی مثال بنیں گے۔
ایڈم تھامس کا آرٹیکل چھپنے کے بعد برٹش لبرل پارٹی کے سر میکلم بروس نے بی بی سی سے ایک انٹرویو میں کہا کہ برطانیہ کو ایسے ممالک کو امداد نہیں دینی چاہیے جہاں لوگ ٹیکس نہیں بھرتے اگر پاکستان اپنی غربت، تعلیم اور صحت کے مسائل حل کرنے کے لیے خود سنجیدہ نہیں ہوتا خود اپنے ٹیکس دہندگان پر ٹیکس کی ادائیگی کے لیے زور نہیں ڈالتا تو پھر ہم سے امید نہ رکھے کہ ہم اس کی مدد اپنے ٹیکس بھرنے والوں کے پیسے سے کریں گے۔
سر بروس کے مطابق پاکستان کی نئی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ کس طرح کرپشن کو ختم کرے گی یہ ثابت کرے ورنہ برطانیہ سمیت دوسرے ممالک سے مدد کی توقع نہ رکھے۔ برطانیہ نے کچھ دن پہلے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کو ایک بلین پاؤنڈ امداد دینے کا جو اگلے پانچ سال میں تعلیم کے لیے استعمال ہونا ہے وہ تعلیم جو ہمارے ان نوجوانوں کو ملنی ہے جو ہمارے کل کو بہتر کرنے والے ہیں لیکن ہمارا ''آج'' ہمارے ''کل'' کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔
کچھ دن پہلے قائد اعظم محمد علی جناح کی 137 ویں سالگرہ گزری۔ لوگوں نے جاکر مزار پر سلامی دی پھر اس وعدے کو یاد کیا جو ہم نے ان سے کیا تھا ایک بہتر پاکستان بنانے کا۔ وہ دن گزرا اور پھر اگلے دن سے قوم پاکستان کو لوٹنے، نوچنے، کھسوٹنے میں لگ گئی لیکن اب شاید اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اپنے پاکستان کو بدلیں اسی لیے وہ ہمیں آج وہ کل یاد دلا رہا ہے جس میں ہم نے بہتر پاکستان کا تہیہ کیا تھا۔
2014 کا کیلنڈر بالکل 1947 کے کیلنڈر جیسا ہے یعنی اگر آپ 1947 کا کیلنڈر اٹھالیں تو اسے 2014 میں استعمال کرسکتے ہیں۔ وہی تاریخیں وہی دن وہ سال جب ہم نے اپنا پیارا پاکستان بنایا تھا ان امیدوں کے ساتھ جو وقت گزرتے دم توڑتی گئیں۔ کیوں نہ ہم 2014 کو نیا آغاز سمجھیں اور کوشش کریں کہ پاکستان کو ایک بہتر ملک بنائیں اور اگر اور کچھ نہیں کرسکتے تو اس سال ٹیکس ضرور بھریں جس سے ہمارے ملک کو بہتر کرنے کی کچھ تو امید ہوگی۔
ہم ترقی میں دوسرے ملکوں سے دور اور کرپشن مٹانے میں دوسرے ملکوں سے بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان میں ساٹھ فیصد لوگ تیس سال سے کم عمر کے ہیں ہمارے وہ نوجوان جو پاکستان کو ایک بہتر ملک بنانا چاہتے ہیں۔ نوجوان جو ہمارا کل ہیں لیکن اس وقت ہمارا مسئلہ آنے والا کل نہیں ہے آچکا آج ہے، وہ ''آج'' جس کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو شاید پاکستان کا بہتر کل کبھی نہیں آنے دیں گے۔
کچھ دن پہلے پاکستان کی خودمختار ریسرچ آرگنائزیشن ''سینٹر فار انویسٹی گیشن رپورٹنگ'' کے مطابق پاکستان کی حکومت میں موجودہ 47 فیصد یعنی تقریباً آدھے ممبر پارلیمنٹ ایسے ہیں جو کسی بھی قسم کا ٹیکس نہیں بھرتے۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ بارہ فیصد فیڈرل اور صوبائی ممبران جوکہ تعداد میں ہزار سے زیادہ ہیں انھوں نے کبھی نیشنل ٹیکس نمبر حاصل ہی نہیں کیا وہ نمبر جس کے ذریعے آپ ٹیکس بھرتے ہیں۔
آئی ایم ایف جو پاکستان کو 6.7 بلین ڈالرز کا قرضہ دینے والی ہے چاہتی ہے کہ اسلام آباد میں موجودہ اتھارٹیز پہلے پاکستان میں ہو رہی ٹیکس کی اس چوری کو روکیں اسی طرح برطانیہ جو پاکستان کے سب سے بڑے ڈونرز میں سے ایک ہے چاہتا ہے کہ ٹیکس کے اس مسئلے کا پاکستان سنجیدگی سے کوئی حل نکالے۔
پاکستان میں جو وزرا ٹیکس دے بھی رہے ہیں اس میں سے زیادہ تر دس ہزار روپے سالانہ سے کم کا ٹیکس بھرتے ہیں، رپورٹ میں کچھ ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہے جنھوں نے پچھلے سال صرف ہزار روپے کا ٹیکس دیا ہے۔ بعض سیاستدانوں نے ملٹی بلین ڈالر امپائر ہونے کے باوجود 2012 میں صرف بائیس لاکھ روپے کا ٹیکس بھرا۔ بات دو ایک لوگوں کی نہیں ہے یہ حال پاکستان بھر کا ہے۔
ن لیگ حکومتی جماعت کے ارکان اس ''نہ بھروں گا ٹیکس'' کی ریس میں سب سے آگے ہیں جس کے 54 ممبران پارلیمنٹ نے پچھلے سال کوئی ٹیکس نہیں بھرا، تحریک انصاف کے انیس ممبران پارلیمنٹ کا بھی یہی حال ہے جب دونوں ہی پارٹیز کے ترجمان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ٹیکس بھرنا ہر شخص کا ذاتی مسئلہ ہے۔ انسان کو اس میں سچائی سے کام لینا چاہیے اگر کوئی شخص جھوٹ بولے یا ٹیکس نہ بھرے تو اس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگر ہم نے خود کوئی جانچ کی اور ہمیں کوئی غلطی نظر آئی تو ہم ایکشن لیں گے۔
مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ حکومت میں موجود ہائر اتھارٹیز ٹیکس نہیں بھر رہے مسئلہ یہ ہے کہ عام لوگ جب بڑے لوگوں کا یہ حال دیکھتے ہیں تو وہ بھی ٹیکس بھرنے کو بے وقوفی سمجھتے ہیں، اسی طرح کی رپورٹس جب دنیا بھر میں پھیلتی ہیں اور ٹیکس کو لے کر پاکستان پر پریشر آتا ہے تو حکومت عوام پر مزید ٹیکس لگا دیتی ہے جس سے عام لوگ اور بھی دل برداشتہ اور پریشان ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ صرف اعشاریہ 5 فیصد لوگ ٹیکس جمع کرواتے ہیں۔
''پی آئی ایل ڈی ٹی'' کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی عام ممبر پارلیمنٹ آٹھ سے دس کروڑ روپے کی جائیداد رکھتا ہے وہ ممبر جو ہزار سے دو ہزار روپے سالانہ ٹیکس بھر رہا ہے یہی ٹیکس کی چوری ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا جی ڈی پی دنیا کے Average سے کم ہے ہم 9 پر ہیں جب کہ دنیا کا اوسط 14 فیصد ہے۔
برٹش ہائی کمیشن ٹو پاکستان ایڈم تھامس نے کچھ دن پہلے ایک آرٹیکل لکھا تھا جس میں زور دیا گیا تھا کہ پاکستان کو اپنے ان امیروں سے ٹیکس وصول کرنا چاہیے جو بڑی بڑی گاڑیاں رکھتے ہیں بار بار بیرون ملک کے دورے کرتے ہیں لیکن ٹیکس بھرنے کے لیے ان کے پاس رقم نہیں، ایڈم تھامس کے مطابق پاکستان کا مسئلہ عام طبقہ نہیں ہے ہمارا مسئلہ اوپر سے شروع ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کے بڑے صنعت کار اور حکمراں ٹیکس صحیح بھریں گے تو وہ عام لوگوں کے لیے ایک اچھی مثال بنیں گے۔
ایڈم تھامس کا آرٹیکل چھپنے کے بعد برٹش لبرل پارٹی کے سر میکلم بروس نے بی بی سی سے ایک انٹرویو میں کہا کہ برطانیہ کو ایسے ممالک کو امداد نہیں دینی چاہیے جہاں لوگ ٹیکس نہیں بھرتے اگر پاکستان اپنی غربت، تعلیم اور صحت کے مسائل حل کرنے کے لیے خود سنجیدہ نہیں ہوتا خود اپنے ٹیکس دہندگان پر ٹیکس کی ادائیگی کے لیے زور نہیں ڈالتا تو پھر ہم سے امید نہ رکھے کہ ہم اس کی مدد اپنے ٹیکس بھرنے والوں کے پیسے سے کریں گے۔
سر بروس کے مطابق پاکستان کی نئی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ کس طرح کرپشن کو ختم کرے گی یہ ثابت کرے ورنہ برطانیہ سمیت دوسرے ممالک سے مدد کی توقع نہ رکھے۔ برطانیہ نے کچھ دن پہلے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کو ایک بلین پاؤنڈ امداد دینے کا جو اگلے پانچ سال میں تعلیم کے لیے استعمال ہونا ہے وہ تعلیم جو ہمارے ان نوجوانوں کو ملنی ہے جو ہمارے کل کو بہتر کرنے والے ہیں لیکن ہمارا ''آج'' ہمارے ''کل'' کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔
کچھ دن پہلے قائد اعظم محمد علی جناح کی 137 ویں سالگرہ گزری۔ لوگوں نے جاکر مزار پر سلامی دی پھر اس وعدے کو یاد کیا جو ہم نے ان سے کیا تھا ایک بہتر پاکستان بنانے کا۔ وہ دن گزرا اور پھر اگلے دن سے قوم پاکستان کو لوٹنے، نوچنے، کھسوٹنے میں لگ گئی لیکن اب شاید اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اپنے پاکستان کو بدلیں اسی لیے وہ ہمیں آج وہ کل یاد دلا رہا ہے جس میں ہم نے بہتر پاکستان کا تہیہ کیا تھا۔
2014 کا کیلنڈر بالکل 1947 کے کیلنڈر جیسا ہے یعنی اگر آپ 1947 کا کیلنڈر اٹھالیں تو اسے 2014 میں استعمال کرسکتے ہیں۔ وہی تاریخیں وہی دن وہ سال جب ہم نے اپنا پیارا پاکستان بنایا تھا ان امیدوں کے ساتھ جو وقت گزرتے دم توڑتی گئیں۔ کیوں نہ ہم 2014 کو نیا آغاز سمجھیں اور کوشش کریں کہ پاکستان کو ایک بہتر ملک بنائیں اور اگر اور کچھ نہیں کرسکتے تو اس سال ٹیکس ضرور بھریں جس سے ہمارے ملک کو بہتر کرنے کی کچھ تو امید ہوگی۔