دل کو کراچی سمجھ رکھا ہے تم نے

پرنٹ، الیکٹرونک ،سوشل میڈیا کی یلغار اور بھرمار کے موجودہ دور میں مطالعے اور مشاہدہ کے لیے نت نئی باتیں معلومات اور...


ناصر محمود شیخ December 29, 2013
[email protected]

پرنٹ، الیکٹرونک ،سوشل میڈیا کی یلغار اور بھرمار کے موجودہ دور میں مطالعے اور مشاہدہ کے لیے نت نئی باتیں معلومات اور تجربات ہر روز ہی سامنے آتے رہتے ہیں۔ عرصہ پہلے جب کراچی میں ہر روز ہونے والے قتل و غارت کے واقعات کا ''افتتاح'' ہی ہوا تھا تو ایک شعر سامنے آیا تھا ...!

بھاگتے کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا

بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا

یہ شعر اس وقت بہت مقبول ہوا تھا کیونکہ بعض اوقات صرف ایک تصویر یا شعر ہی معاشرے کے حالات کی بھرپور ترجمانی کر رہا ہوتا ہے۔ روشنیوں کے شہر کراچی ہی کے حوالے سے کسی دل جلے کا کیا خوب شعر اب فیس بک کے ذریعے پڑھنے کو ملا...!

دل کو کراچی سمجھ رکھا ہے تم نے

آتے ہو ! جلاتے ہو ! چلے جاتے ہو

کسی بھی ملک یا شہر میں امن و امان کی نامناسب صورتحال کا اثر ہر شعبہ خصوصاً اقتصادیات اور معاشیات پر لازمی پڑتا ہے جب کہ کراچی میں خدانخواستہ حالات خراب ہوں تو اس کے اثرات پورے ملک کی معیشت پر پڑتے ہیں کیونکہ کراچی وطن عزیز کی شہ رگ' سب سے بڑا شہر' صنعتی' تجارتی' تعلیمی' مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔

پاکستان کی تمام صنعتی پیداوار کا 30 فیصد اور بڑی صنعتوں کی پیداوار کا 40 فیصد صرف کراچی میں پیدا ہوتا ہے۔ملک کے تمام بینکوں میں زرمبادلہ کے کل ذخائر کا نصف کراچی میں ہے۔ کراچی میں صنعتوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہاں مزدور بہت سستے داموں مل جاتے ہیں۔ چونکہ سستے داموں خوراک اور بنیادی انسانی ضروریات کی دستیابی اور صنعتی علاقوں کے قریب نسبتاً سستی رہائش کے باعث کراچی کو غریب کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔چنانچہ مادر وطن کے مختلف علاقوں سے جفاکش ، محنتی نوجوان بسلسلہ روزگار کراچی کا رخ باقاعدگی سے کرتے ہیں۔

2007میں ورلڈ بینک نے کراچی کو کاروبار کے لیے سب سے زیادہ موافق شہر قرار دیا تھا دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے اسے 2010 اور 2012میں روزمرہ کی اشیا کے حوالے سے دنیا کا سب سے سستا شہر بھی قرار دیا جا چکا ہے لیکن جانے روشنیوں کے اس شہر کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ اب یہ شہر نہ پرامن ہے اور نہ ہی سستا رہ گیا ہے اگر کوئی چیز سستی رہ گئی ہے تو وہ صرف اور صرف انسانی جان ہے جس کی کوئی قدر و قیمت ہی نظر نہیں آتی۔

یہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہو' کہیں کوئی بم بلاسٹ ہو جائے' فائرنگ ہو جائے تو سب سے پہلے ''ٹریفک جام'' زندگی کا پہیہ جام کر دیتا ہے ایسے میں ٹریفک پولیس اہلکار اور ٹریفک رضا کار بے بس نظر آتے ہیں بلکہ نظر ہی نہیں آتے۔ سڑکوں پر غیر معمولی دبائو کی وجہ سے عام حالات میں بھی کراچی کے عوام کا زیادہ ''وقت'' اور ''ایندھن'' ٹریفک جام کی نذر ہوتا ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2 کروڑ سے زیادہ آبادی والے دنیا کے دس بڑے شہروں میں شمار ہونے والے کراچی میں کل رجسٹرڈ وہیکلز کی تعداد تقریباً 30 لاکھ 52 ہزار ہے۔ ان میں سب سے زیادہ 18 لاکھ 42 ہزار 136 موٹر سائیکلیں ہیں۔ امن و امان کی خراب صورتحال کا سب سے زیادہ شکار موٹر سائیکل سواروں کو ہونا پڑتا ہے۔ آبادی کے تناسب سے ٹرانسپورٹ کی کم سہولیات کی وجہ سے موٹر سائیکل کی سواری چھوٹی فیملیز کے لیے بڑا سہارا ہوتی ہے لیکن ڈبل سواری پر پابندی کی وجہ سے ان کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔

اہل کراچی کو خاص طور پر فیملیز کو تفریح کے بہت کم مواقعے میسر آتے ہیں جو تفریحی مقامات ہیں وہاں ناجائز منافع خوری پر کسی محکمہ کا نہ اختیار نظر آتا ہے اور نہ ہی وہاں کے معاملات درست کرنے پر کوئی تیار نظر آتا ہے لہٰذا مہنگائی کے ستائے عوام نے اب تفریحی پارکوں کا رخ کرنا بھی کم کر دیا ہے۔

کراچی سے 3ستمبر 1999 کو اپنی اشاعت کا آغاز کرنے والے روزنامہ ''ایکسپریس'' نے کم عرصہ میں زیادہ کامیابیوں کے نئے ریکارڈ بنائے ہیں ۔ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر انتظام روزنامہ ''ایکسپریس'' پاکستان کے 11 شہروں سے بیک وقت شایع ہونے والا واحد قومی روزنامہ ہے۔ ''ایکسپریس'' انتظامیہ نے ہمیشہ خبروں کی اشاعت کے حوالے سے احساس ذمے داری' قومی اور ملکی مفاد کو سامنے رکھا ہے۔ اپنے قارئین کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کے ساتھ ساتھ انھیں مختلف تقریبات کے ذریعے صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع بھی باقاعدگی سے فراہم کیے ہیں۔ فیملیز کو تفریح فراہم کرنے کے لیے منعقد ہونے والے ایکسپریس کے زیرانتظام فیملیز فیسٹیول کا شمار ملکی سطح کے بڑے ایونٹس میں ہوتا ہے۔ ہر سال اس میں لاکھوں افراد شرکت کرتے ہیں کراچی میں گزشتہ دنوں 2 روزہ ایکسپریس فیملیز فیسٹیول تیسری بار منعقد کیا گیا اس فیسٹیول کا مقصد کراچی کے شہریوں کو بالکل فری تفریح مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ فیملیز کے تمام ممبرز کے لیے گھروں سے باہر نکلنے کے لیے حوصلہ بڑھانا تھا ایکسپو سینٹر میں بچوں ، بڑوں اور خواتین سمیت سب کے لیے بہترین تفریحی اور معلوماتی مواقع فراہم کیے گئے۔

ایکسپریس کی سیلز اینڈ مارکیٹنگ ٹیم کی محنت کی بدولت فیسٹیول میں شرکت کرنے والی ملکی اور بین الاقوامی کمپنیوں نے اپنے اسٹالز دلکش ڈیزائننگ کے ساتھ سجا رکھے تھے۔ ہزاروں لوگوں کی مسلسل آمدورفت دیکھ کر دل بے حد خوش ہوا لوگوں کو ''ایکسپریس'' کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے دیکھا۔ اکثریت کی رائے تھی کہ کراچی میں امن و امان کے حوالے سے غیر یقینی حالات کے باوجود ایکسپریس میڈیا گروپ کی انتظامیہ نے بڑی بہادری اور دلیری سے اتنا بڑا میلہ سجا دیا حالانکہ ''ایکسپریس'' کو خود بھی دہشت گرد کارروائیوں کا سامنا ہے۔ کراچی میں اس کے آفس پر متعدد بار حملے کیے گئے کارکنوں اور انتظامیہ میں خوف وہراس پھیلانے کی کوششیں کی گئیں لیکن سینئر مینجمنٹ اور کارکنوں نے خوفزدہ ہوئے بغیر صاف ستھری صحافت کے فروغ کا سفر نہ صرف جاری رکھا ہے بلکہ ایسے واقعات سے سب کے عزم و ہمت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

ایکسپریس فیملیز کے انتظامی امور کے حوالے سے اپنے کراچی میں قیام کے دوران بے شمار باصلاحیت اور نامور شخصیات سے ملاقاتیں ہوئی۔ پاکستان میں پاپ موسیقی کے بانی گلوکار عالمگیر کی عیادت کے لیے ان کے فلیٹ پر گیا۔ گردوں کی بیماری کے سبب ہفتہ میں تین بار ڈائیلاسسز کرانے کے باوجود ان کی ہمت اور جذبہ قابل تعریف تھا۔ طنز و مزاح کے حوالے سے بے مثال اور باصلاحیت انور مقصود اپنی ٹیم کے ساتھ کراچی آرٹس کونسل میں مزاحیہ اسٹیج ڈرامہ ''ہاف پلیٹ،، کامیابی سے منعقد کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے ڈرامہ شو کے اختتام پر خاص طور پر ایکسپریس اور اس کی انتظامیہ کا خصوصی تعاون پر شکریہ بھی ادا کیا اور اس کے لیے خود اسٹیج پر آئے۔ کراچی آرٹس کونسل کا کردار امن و امان کی ناخوشگوار صورتحال کے باوجود بہترین رہا ہے۔ کراچی کے شہریوں کو باقاعدگی سے تفریحی سہولیات کی فراہمی کے لیے کونسل انتظامیہ کی کوششیں بلاشبہ قابل تعریف ہیں۔

میری ملاقات ابصار احمد سے ہوئی جو مختلف گلوکاروں کے اب تک گائے گئے قومی نغموں کا ریکارڈ مرتب کر رہے ہیں اور چاروں صوبوں کے مختلف علاقوں میں جا کر قومی گیتوں کا ریکارڈ بڑی محنت سے اکٹھا کرکے ''سبز گیت'' کے عنوان سے اپنی کتاب شایع کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ ایکسپریس فیسٹیول میں گلوکار علی حیدر' فاخر اور جواد احمد نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ انتہائی شاندار پرفارمنس دی لیکن سندھ کی نمایندگی کرنے والی شازیہ خشک کا رنگ ہی جدا تھا۔ انھوں نے اپنی 16 رکنی ٹیم کے ہمراہ سندھی ثقافت کی بھرپور نمایندگی کی ان کے شوہر پروفیسر ابراہیم خشک کی صلاحیتیں بھی خوب نظر آئیں ایک اچھے انسان اور سچے پاکستانی کی حیثیت سے وہ پس پردہ رہ کر بہترین ثقافتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایکسپریس فیملیز فیسٹیول کے انعقاد نے کاروباری اداروں اور کمپنیوں کو اپنی سیلز اینڈ مارکیٹنگ وسیع کرنے کے مواقعے فراہم کرنے کے ساتھ کراچی کے عوام کو بھی نیا حوصلہ اور نیا اعتماد دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں