استاد کی قدر کئے بغیرمعیار تعلیم کی بہتری ممکن نہیں

کم تنخواہ اور غیرتدریسی ڈیوٹیوں کے ساتھ استاد اپنے پیشے سے کیسے انصاف کرے؟


کم تنخواہ اور غیرتدریسی ڈیوٹیوں کے ساتھ استاد اپنے پیشے سے کیسے انصاف کرے؟۔ فوٹو: فائل

ایک آدمی نے بھینس پالی اور اسے چارہ ڈالنے اور دودھ دوہنے کے لیے ایک ملازم رکھ لیا۔

ملازم بہت ایماندار تھا مگر مہنگائی میں اتنی کم تنخواہ میں گھر کا گزارہ بڑی مشکل سے ہوتا۔ اس نے مالک سے کہا میری تنخواہ بڑھائو تو مالک نے ٹکا ساجواب دے دیا۔ اب ملازم نے سوچا ایمانداری سے کام نہیں چلے گا۔ ملازم نے چند دن خالص دودھ گھر پہنچانے کے بعد دودھ پر سے بلائی اُتارنا شروع کر دی۔ مالک نے دیکھا کہ دودھ پتلا آ رہا ہے تو اس نے سوچا کہ یہ ضرور کوئی گڑ بڑ کرتا ہے، سو اس کی نگرانی کے لیے بھی کوئی ہونا چاہیے۔اس نے ایک ملازم اس کی نگرانی کے لیے رکھ لیا۔ اب پھر کچھ دن تک خالص دودھ آتا رہا لیکن کچھ عرصہ کے بعد اس کی کوالٹی پہلے سے بھی گر گئی۔ اب اس نے ان دونوں کی نگرانی کے لیے ایک سپروائزر رکھ لیا۔ اس سے فرق یہ پڑا کہ ایک محدود عرصہ کے لیے دودھ کی کوالٹی پھر بہتر ہوگئی۔ لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد کوالٹی پہلے سے بھی گر گئی۔

اس نے سوچا کہ اس کی نگرانی کے لیے کوئی ہونا چاہیے سو اس نے ان تینوں کی نگرانی کے لیے ایک کوآرڈی نیٹر رکھ لیا۔ اس سے وہی ہوا کہ کچھ عرصہ کے لیے دودھ کی کوالٹی اچھی ہوئی مگر کچھ ہی عرصہ بعد دودھ صرف پانی رہ گیا۔ اب اُس شخص کی عقل پر ماتم نہ کیا جائے تو کیا کریں، جس نے ایک آدمی کی تنخواہ بڑھانے کے بجائے چار آدمیوں کو تنخواہ پر رکھ لیا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے محکمہ ایجوکیشن کا بھی ہے۔ جب اس مہنگائی کے دور میں تنخواہ سے گزارہ مشکل ہو گیا، تو اساتذہ نے ملازمت کے ساتھ دیگر کام کرنا شروع کر دیئے۔ اس طرح اساتذہ کی غیر حاضری میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ لیکن حکومت نے بجائے اس کے کہ اُن کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے انہیں حل کرنے کی کوشش کرتی یا سابق تعلیمی ڈھانچے کو فعال کرتی، اُس نے اس غیر حاضری کو روکنے کے لئے میٹرک پاس ریٹائرڈ فوجی جو بیچارے تعلیم کی تعریف سے بھی آشنا نہیں تھے، بطور مانیٹرنگ آفیسر بھرتی کر لیے جو وقتاً فوقتاً ہر سکول میں ایسے لوگوں کو چیک کرتے ہیں جو گریڈ 9 سے لے کر 18میں کام کر رہے ہیں اور اس کی رپورٹ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر کو دیتے ہیں۔

اس طرح ایک سکول کو چیک کرنے والوں کی تعداد چار ہو گئی یعنی District Education Officer, Deputy District Edication Officer, Assistant Education Officer, Monitoring Officers۔ جب اس سے بھی حکومت کی تسلی نہ ہوئی تو UPEکے لوگوںکو بھی اس کام پر لگا دیا۔ اس کے بعد نیوٹریشنز، DTs بھی اسی کام پر لگ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر اور ہیڈ مسٹریس بھی سکول چیک کریں گے۔ اب نئی اطلاعات کے مطابق ایجوکیشن اتھارٹیز کے تحت مقامی کونسلر اور پٹواری بھی سکول کو چیک کر سکیں گے۔ یوں ایک استاد کی تنخواہ بڑھانے کے بجائے اس کو چیک کرنے کے لیے بھاری تنخواہوں پر لوگ بھرتی کرلئے گئے۔ جس کے باعث تعلیم کا معیار تو بہترتو کیا ہونا تھا اُلٹا خراب ہوتا چلا گیا۔

یو پی ای (یونیورسل پرائمری ایجوکیشن) کے لوگوں کو یہ ذمہ داری تھی کہ وہ گھر گھر سروے کریں اور ایسے بچوں کی فہرست تیار کریں جو سکول جانے کے قابل ہیں اور پھر اُن کے والدین کو اس بات پر رضا مند کریں کہ وہ اپنے بچوں کو سکول داخل کروایں۔ لیکن افسروں کی ملی بھگت سے اُنہوں نے اپنا کام خود کرنے کے بجائے اساتذہ کے ''سر منڈھ'' دیا اور خود دفتروں کے مزے لوٹنے لگے۔ اب استاد2 :00 تک سکول میں بچوں کو پڑھاتا ہے اور پھر گھر گھر سروے کر کے فہرستیں تیار کرتا ہے اور اپنے اپنے نئے آفیسرز کو دفتر میں پہنچاتا ہے۔اس طرح اس کے پاس بچوں کو پڑھانے کا وقت اور کم ہو گیا اور وہ ان نئی اُلجھنوں میں اُلجھ کر رہ گیا۔ پرائمری سکول میں ایک اُستاد کو6جماعتوں کے تقریباً 30 مضامین پڑھانے پڑتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ اس سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ کوئی بچہ Drop Outنہ ہو اور رزلٹ بھی100%سے کم نہ ہو۔ نتائج کم آنے کی صورت میں اسے انکوائری بھی بھگتنا پڑتی ہے۔



ہمارے ہاں محکمہ تعلیم میں بے شمار سیٹیں خالی پڑی ہیں لیکن اُن کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں ہے۔ بہت سارے سکول ایسے ہیں جہاں سکول میں صرف ایک ہی استاد ہے اور نرسری سے لے کر پانچویں تک چھ جماعتیں ہیں۔ یہاں اس ایک استاد کو 3 اساتذہ جتنا کام کرنا پڑتا ہے۔ حکومت نے تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے جہاں افسران کی ایک فوج تعینات کی، وہاں اس استاد کے ہر قسم کے تقرر و تبادلے پر پابندی عائد کر دی۔ اس کی استحقاقیہ چھٹی پر بھی پابندی لگا دی۔ حالانکہ چھٹی یا تبادلہ اس کا قانونی اور اخلاقی حق ہے۔ اگراس کے گھر کے قریب کبھی بھی سیٹ خالی ہوتی ہے تو اسے تبادلہ کروانے کا حق ہونا چاہیے۔ خالی ہونے والی سیٹ کو پُر کرنا اُس استاد کی نہیں بلکہ محکمہ کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے معاشرے میں استاد کو معاشرے کا کم تر شہری سمجھا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری سماجی قدروں کو زوال آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بنیاد جتنی زیادہ مضبوط ہو عمارت بھی اتنی ہی دیرپا ہوتی ہے۔ یہی بات تعلیم پر بھی تو صادق آتی ہے کہ بچے کی تعلیمی بنیادیں جتنی مضبوط ہوں گی اس کا مستقبل بھی اُتنا روشن ہوگا۔ ہمارے ہاں پرائمری سطح کے استاد کو سب سے کم تر درجے کا استاد سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ وہی ہے جو پنیری اگانے کا کام کر رہا ہے باقی سارے لوگ تو اس کی رکھی گئی بنیاد پر عمارت تعمیر کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پرائمری سطح کے اساتذہ کی مراعات میں اس قدر اضافہ کرے کہ ایجوکیشن میں پوزیشن ہولڈر لوگ استاد بننے کی خواہش کریں۔ جب بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگ پرائمری سطح پر آئیں گے تو تعلیم کا معیار خود بخود بہتر ہوتا چلا جائے گا۔ اور اگر ہمیں اپنے پرائمری سکول سیکشن کو بہتر بنانا ہے تو درج ذیل نکات پر عمل اس سے مشروط ہے۔

1۔ سالانہ تعلیمی بجٹ میں گراں قدر اضافہ کیا جائے اور سرکاری سکولوں کو بہتر بنایا جائے۔

2۔ پہلے سے موجود سکولوں کی حالت کو بہتر کر دیا جائے اور وہاں پر اساتذہ کی تعداد کو بین الاقوامی معیار کے مطابق یعنی ہر30بچوں پر ایک استاد کی پالیسی پر سختی سے عمل کیا جائے۔

3۔ پرانے تعلیمی ڈھانچے کو فعال کیا جائے۔ ہر ڈسٹرکٹ کا DEOماہانہ رپورٹ سیکرٹری ایجوکیشن کو ارسال کرے۔

4۔ سیکرٹری ایجوکیشن صرف DEOکی رپورٹ پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کے e-mailکا پتہ ہر استاد کے پاس ہو اور وہ DEOکی رپورٹ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی طرف سے بھیجی جانے والیe-mailsکو بھی پڑھے اور اگر اس میں انتظامیہ کی غفلت کی شکایات ہو تو اس کا فوری ازالہ کیا جائے۔

5۔ اساتذہ کو بے جا ذمہ داریوں(پولیو پلانا، مردم شماری کرنا، ووٹ بنانا، ڈینگی سپرے کروانا وغیرہ) میں اُلجھانے کی بجائے اپنا کام کرنے دیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں