فاصلے بڑھ رہے ہیں
گھریلو زندگی کو جدید روابط کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں
منظم زندگی انسان کو آگے لے جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پریشانی اور ناکامی سے سابقہ رہتا ہے اور یہی معاملات و عادات شادی شدہ زندگی میں ہوں تو رشتوں میں دراڑیں اور فاصلے پیدا ہونے لگتے ہیں اور بعض اوقات یہ عادات رشتوں کے خاتمے کا سبب بنتی ہیں۔ عادات جب پختہ ہو جائیں تو احساس ختم ہو جاتا ہے۔ انسان غیر محسوس طریقے سے ان عادات کے تابع ہو جاتا ہے۔
شادی کے بعد ہمارا بہت سے نئے رشتوں سے ناتا جڑتا ہے اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر دونوں اپنے وقت کو صحیح تقسیم کر کے اپنے شریک حیات کو بہترین وقت دیں اور زندگی میں تنظیم ہو تو نہ صرف زندگی خوب صورت ہوتی ہے، بلکہ رشتے بھی مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں، لیکن آج کل وقت کی کمی زوجین کے مابین دوریوں کی ایک بڑی وجہ بن کر سامنے آئے ہیں۔ اسی بنا پر بہت سے شادی شدہ جوڑوں کے جھگڑے بڑھ کر علیحدگی اور طلاق تک جا پہنچے۔
زیادہ تر وجوہات جو بظاہر معمولی محسوس ہوتی ہیں، لیکن بد نظمی کی بنا پر نیا رشتہ قایم کرنے والوں کے بیچ زہر کا کام دیتی ہیں۔ دو افراد میں رشتہ قائم ہونے کے بعد ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔ سماجی معمولات کو اس ڈھب پر رکھیں کہ ساتھ مل بیٹھنے کے لیے وقت کم نہ ہو۔ بعض اوقات پیشہ ورانہ مصروفیات بھی ایک دوسرے کے دل میں فرق پیدا کرنے کا باعث بن جاتی ہیں اور تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ان مصروفیات کو محدود کیا جائے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو معاملات الجھنے لگتے ہیں، کیوں کہ شریک حیات کے اس اقدام سے ایسا لگتا ہے کہ دوسرا فریق نظر انداز کر رہا ہے یا اہمیت نہیں دے رہا۔ ایسے میں اگر کوئی مصروفیت غیر پیشہ ورانہ ہو، اور اس کا تعلق فقط شوق سے ہو تو یہ امر ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ مرد کا دوستوں میں وقت بِتانا یا عورت کا سہیلیوں سے بہت زیادہ باتیں کرتے رہنا اس کی مثال ہے۔ بالخصوص جب ان چیزوں سے گھریلو امور متاثر ہو رہے ہوں۔
موبائل اور انٹرنیٹ آج کل کی زندگی کا ایک لازمی جزو بن گیا ہے، لیکن اس کا استعمال بھی بعض اوقات محبت بھرے رشتوں میں کدورت کا سبب بن جاتا ہے۔ موبائل یا انٹرنیٹ پر سرفنگ یا دوسروں سے چیٹنگ وقت کے زیاں کے ساتھ ساتھ دور کے لوگوں سے تو قریبی تعلق استوار ہو جاتا ہے، لیکن قریبی رشتوں میں سرد مہری اور دوریاں ہونے لگتی ہیں، خصوصاً ایسے وقت میں جب آپ اپنے اردگرد سے بے خبر انہی سرگرمیوں میں مشغول ہوں۔۔۔ حتیٰ کہ کھانے کی میز پر بھی آپ کسی بات کا جواب دینے سے بے پروا موبائل پر کسی اور کے نام پیغام لکھ رہے ہوں، تو یہ امر نہایت برا تاثر دیتا ہے اور لوگ جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے لگتے ہیں۔
اس کے ساتھ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کا استعمال روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، اس کے بے تحاشا استعمال نے انسانی شخصیت پر منفی اثرات بھی مرتب کرنا شروع کر دیے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس بہت تیزی سے ہماری زندگی میں داخل ہوئی ہیں۔ اس ذریعے سے جڑے افراد کو ہم اپنے خاصے قریب گرداننے لگتے ہیں، ان سے کبھی نہ ملنے کے باوجود ہر وقت رابطہ رہتا ہے۔ یہ افراد ہمارے گھر والوں سے زیادہ قریب ہونے لگتے ہیں، گھر والوں سے زیادہ ان سے تبادلہ خیال اور ان کے معمولات سے آگہی زیادہ ہوتی ہے۔ ہم عملاً ان سے زیادہ قریب اور اپنے گھر والوں سے دور ہو جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ بات چیت میں گزارنے لگتے ہیں، جب اپنے اہل خانہ کے بہ جائے ایسے افراد کو فوقیت دی جائے، جو حقیقت میں آپ کی زندگی میں کوئی معنی نہیں رکھتے تو پھر مسائل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح سوشل ایپلیکیشنز کو ری فریش رکھنے کی لگن، پیغامات چیک کرتے رہنا۔۔۔ محض کسی کے آن لائن ہونے کے انتظار میں گھنٹوں انتظار کرنا۔ ایک فوبیا کی سی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، جو انسان سے جڑے دیگر رشتوں کے بندھن کو کمزور کر دیتا ہے۔ ذرا حقیقت پسندی سے سوچیے یہ انٹرنیٹ پر سماجی روابط کسی طور پر ہماری حقیقی دنیا کا متبادل نہیں ہے، اس کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، اس کے باوجود اس کے طلسم نے ہر اس شخص کو اپنے حصار میں جکڑ رکھا ہے۔ اپنے دوست احباب یا سہیلیوں کو اہل خانہ پر ترجیح دینا ذہنی ناپختگی کی علامت ہوتی ہے، خوش گوار زندگی اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے، جب پہلی ترجیح اپنے گھر اور بچوں کو دی جائے، کیوں کہ شادی کے بعد رشتوں میں نکھار اور خوب صورتی اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے، جب آپ وقت کی صحیح تقسیم اور ترجیح سیکھ جائیں۔ حلقہ احباب کو بھی وقت ضرور دینا چاہیے، لیکن ترجیحات کا تعین ضروری ہے۔
بچوں کو والدین کے بھرپور وقت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کے ساتھ بہترین اور بھرپور وقت نہ گزارنے سے ان کی شخصیت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں یا والدین کے آپس میں ایک دوسرے سے وقت کی کمی یا بھرپور وقت نہ دینے کی بنا پر ہونے والی بحث اور جھگڑے بچوں کی شخصیت کو مسخ کر کے رکھ دیتی ہے۔ بچپن کا خوب صورت دور جو شخصیت کی تعمیر کا انتہائی اہم دور ہوتا ہے، ایک ایسا دور جس کی خوب صورت یادیں زندگی بھر ذہن و دل میں خوش گوار احساس جگاتی ہیں، اس دور میں والدین کی توجہ سے محرومی یا ان کی آپس میں ناچاقی ایسی تلخ یادوں کو جنم دیتی ہے، جو شعور کی پختگی کے ساتھ اولاد کے دل میں والدین کے لیے ناپسندیدگی کے احساس کو جنم دیتی ہے اور بچپن کی تلخ یادوں، احساس محرومی اور احساس کمتری جب شخصیت میں شامل ہو جائیں تو وہ کبھی رشتوں کے بندھن کو کام یابی سے نہیں نبھا سکتے۔ عموماً ایسے افراد کی شادی شدہ زندگی لڑائی جھگڑوں کی نذر ہو جاتی ہے اور ایسے افراد زندگی میں ناکامیوں کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ لہٰذا اپنی اولاد اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے آج اپنے وقت کا بہترین استعمال کرنا ہوگا اور اپنی شخصیت میں مثبت تبدیلی لانی ہوگی۔
قصہ مختصر زندگی کے معمولات، معاملات، تعلقات اور رشتے ان سب میں توازن ہی زندگی میں کام یابی کی کنجی ہے۔ کام یاب شخص وہ ہے جو زندگی کے معمولات، معاملات اپنے تعلقات اور رشتوں میں خوب صورتی سے توازن قائم رکھے اور ترجیحات کا صحیح تعین کرے۔
شادی کے بعد ہمارا بہت سے نئے رشتوں سے ناتا جڑتا ہے اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر دونوں اپنے وقت کو صحیح تقسیم کر کے اپنے شریک حیات کو بہترین وقت دیں اور زندگی میں تنظیم ہو تو نہ صرف زندگی خوب صورت ہوتی ہے، بلکہ رشتے بھی مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں، لیکن آج کل وقت کی کمی زوجین کے مابین دوریوں کی ایک بڑی وجہ بن کر سامنے آئے ہیں۔ اسی بنا پر بہت سے شادی شدہ جوڑوں کے جھگڑے بڑھ کر علیحدگی اور طلاق تک جا پہنچے۔
زیادہ تر وجوہات جو بظاہر معمولی محسوس ہوتی ہیں، لیکن بد نظمی کی بنا پر نیا رشتہ قایم کرنے والوں کے بیچ زہر کا کام دیتی ہیں۔ دو افراد میں رشتہ قائم ہونے کے بعد ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔ سماجی معمولات کو اس ڈھب پر رکھیں کہ ساتھ مل بیٹھنے کے لیے وقت کم نہ ہو۔ بعض اوقات پیشہ ورانہ مصروفیات بھی ایک دوسرے کے دل میں فرق پیدا کرنے کا باعث بن جاتی ہیں اور تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ان مصروفیات کو محدود کیا جائے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو معاملات الجھنے لگتے ہیں، کیوں کہ شریک حیات کے اس اقدام سے ایسا لگتا ہے کہ دوسرا فریق نظر انداز کر رہا ہے یا اہمیت نہیں دے رہا۔ ایسے میں اگر کوئی مصروفیت غیر پیشہ ورانہ ہو، اور اس کا تعلق فقط شوق سے ہو تو یہ امر ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ مرد کا دوستوں میں وقت بِتانا یا عورت کا سہیلیوں سے بہت زیادہ باتیں کرتے رہنا اس کی مثال ہے۔ بالخصوص جب ان چیزوں سے گھریلو امور متاثر ہو رہے ہوں۔
موبائل اور انٹرنیٹ آج کل کی زندگی کا ایک لازمی جزو بن گیا ہے، لیکن اس کا استعمال بھی بعض اوقات محبت بھرے رشتوں میں کدورت کا سبب بن جاتا ہے۔ موبائل یا انٹرنیٹ پر سرفنگ یا دوسروں سے چیٹنگ وقت کے زیاں کے ساتھ ساتھ دور کے لوگوں سے تو قریبی تعلق استوار ہو جاتا ہے، لیکن قریبی رشتوں میں سرد مہری اور دوریاں ہونے لگتی ہیں، خصوصاً ایسے وقت میں جب آپ اپنے اردگرد سے بے خبر انہی سرگرمیوں میں مشغول ہوں۔۔۔ حتیٰ کہ کھانے کی میز پر بھی آپ کسی بات کا جواب دینے سے بے پروا موبائل پر کسی اور کے نام پیغام لکھ رہے ہوں، تو یہ امر نہایت برا تاثر دیتا ہے اور لوگ جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے لگتے ہیں۔
اس کے ساتھ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کا استعمال روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، اس کے بے تحاشا استعمال نے انسانی شخصیت پر منفی اثرات بھی مرتب کرنا شروع کر دیے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس بہت تیزی سے ہماری زندگی میں داخل ہوئی ہیں۔ اس ذریعے سے جڑے افراد کو ہم اپنے خاصے قریب گرداننے لگتے ہیں، ان سے کبھی نہ ملنے کے باوجود ہر وقت رابطہ رہتا ہے۔ یہ افراد ہمارے گھر والوں سے زیادہ قریب ہونے لگتے ہیں، گھر والوں سے زیادہ ان سے تبادلہ خیال اور ان کے معمولات سے آگہی زیادہ ہوتی ہے۔ ہم عملاً ان سے زیادہ قریب اور اپنے گھر والوں سے دور ہو جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ بات چیت میں گزارنے لگتے ہیں، جب اپنے اہل خانہ کے بہ جائے ایسے افراد کو فوقیت دی جائے، جو حقیقت میں آپ کی زندگی میں کوئی معنی نہیں رکھتے تو پھر مسائل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح سوشل ایپلیکیشنز کو ری فریش رکھنے کی لگن، پیغامات چیک کرتے رہنا۔۔۔ محض کسی کے آن لائن ہونے کے انتظار میں گھنٹوں انتظار کرنا۔ ایک فوبیا کی سی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، جو انسان سے جڑے دیگر رشتوں کے بندھن کو کمزور کر دیتا ہے۔ ذرا حقیقت پسندی سے سوچیے یہ انٹرنیٹ پر سماجی روابط کسی طور پر ہماری حقیقی دنیا کا متبادل نہیں ہے، اس کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، اس کے باوجود اس کے طلسم نے ہر اس شخص کو اپنے حصار میں جکڑ رکھا ہے۔ اپنے دوست احباب یا سہیلیوں کو اہل خانہ پر ترجیح دینا ذہنی ناپختگی کی علامت ہوتی ہے، خوش گوار زندگی اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے، جب پہلی ترجیح اپنے گھر اور بچوں کو دی جائے، کیوں کہ شادی کے بعد رشتوں میں نکھار اور خوب صورتی اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے، جب آپ وقت کی صحیح تقسیم اور ترجیح سیکھ جائیں۔ حلقہ احباب کو بھی وقت ضرور دینا چاہیے، لیکن ترجیحات کا تعین ضروری ہے۔
بچوں کو والدین کے بھرپور وقت کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کے ساتھ بہترین اور بھرپور وقت نہ گزارنے سے ان کی شخصیت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں یا والدین کے آپس میں ایک دوسرے سے وقت کی کمی یا بھرپور وقت نہ دینے کی بنا پر ہونے والی بحث اور جھگڑے بچوں کی شخصیت کو مسخ کر کے رکھ دیتی ہے۔ بچپن کا خوب صورت دور جو شخصیت کی تعمیر کا انتہائی اہم دور ہوتا ہے، ایک ایسا دور جس کی خوب صورت یادیں زندگی بھر ذہن و دل میں خوش گوار احساس جگاتی ہیں، اس دور میں والدین کی توجہ سے محرومی یا ان کی آپس میں ناچاقی ایسی تلخ یادوں کو جنم دیتی ہے، جو شعور کی پختگی کے ساتھ اولاد کے دل میں والدین کے لیے ناپسندیدگی کے احساس کو جنم دیتی ہے اور بچپن کی تلخ یادوں، احساس محرومی اور احساس کمتری جب شخصیت میں شامل ہو جائیں تو وہ کبھی رشتوں کے بندھن کو کام یابی سے نہیں نبھا سکتے۔ عموماً ایسے افراد کی شادی شدہ زندگی لڑائی جھگڑوں کی نذر ہو جاتی ہے اور ایسے افراد زندگی میں ناکامیوں کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ لہٰذا اپنی اولاد اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے آج اپنے وقت کا بہترین استعمال کرنا ہوگا اور اپنی شخصیت میں مثبت تبدیلی لانی ہوگی۔
قصہ مختصر زندگی کے معمولات، معاملات، تعلقات اور رشتے ان سب میں توازن ہی زندگی میں کام یابی کی کنجی ہے۔ کام یاب شخص وہ ہے جو زندگی کے معمولات، معاملات اپنے تعلقات اور رشتوں میں خوب صورتی سے توازن قائم رکھے اور ترجیحات کا صحیح تعین کرے۔