کراچی سے کوئی مخلص نہیں ہے
سیاسی حلقے چہ میگوئیاں کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی ہی نہیں ایم کیو ایم بھی عوام کو دھوکا دے رہی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا ہے کہ کراچی کی درست مردم شماری ہمارے لیے زندگی و موت سے اہم مسئلہ ہے، جس میں شہری سندھ کے عوام کو دھوکا دیا گیا۔
وفاقی کابینہ کی جانب سے مردم شماری کو درست تسلیم کیے جانے کے بعد وزیر اعظم بتائیں کہ اب ہمارا حکومت میں رہنے کا کیا جواز باقی رہا ہے۔ ایم کیو ایم نے اس سلسلے میں سڑکوں پر آنے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس پر سندھ حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے اہم مسئلے پر سڑکوں پر آنے کی بجائے ایم کیو ایم وفاقی کابینہ سے باہر آئے اور سندھ کے عوام کا ساتھ دے۔
پیپلز پارٹی کے علاوہ مردم شماری درست نہ ہونے پر جماعت اسلامی اور پی ایس پی اور دیگرکو بھی تحفظات ہیں مگر یہ تینوں پارٹیاں اس بات پر بھی حیران ہیں کہ درست مردم شماری کو اپنی زندگی و موت سے اہم قرار دینے والی ایم کیو ایم وفاقی کابینہ میں مردم شماری کو درست قراردیے جانے اور اپنی شرط اولین تسلیم نہ کیے جانے کے بعد بھی وفاقی کابینہ میں کیوں موجود ہے اور اپنے سب سے اہم مطالبے کو تسلیم نہ کیے جانے کے بعد بھی وفاقی حکومت کی حلیف کیوں ہے، اسے تو وفاقی کابینہ میں اپنا موقف مسترد کیے جانے کے فوری بعد حکومت کی حمایت چھوڑ دینی چاہیے تھی۔
ایسا نہ کرکے ایم کیو ایم نے پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ دکھاوا کر رہی ہے اور کراچی سے مخلص نہیں اور اقتدار میں ہی رہنا چاہتی ہے۔ وفاقی کابینہ نے ایم کیو ایم کے ایک اہم مطالبے کوٹہ سسٹم کو ختم نہیں کیا تھا جس کے بعد وفاقی حکومت نے درست مردم شماری کا اہم مطالبہ مسترد کردیا جب کہ ایم کیو ایم کنوینر کے بقول پی ٹی آئی حکومت اور وزیر اعظم نے دو سالوں میں ایم کیو ایم سے کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا جس میں تنظیم کے دفاترکھولے جانے اور ایک اور وزارت دینے کی یقین دہانی بھی شامل تھی۔
کراچی کی مردم شماری کو درست قرار دیے جانے کے بعد جماعت اسلامی نے شہر میں بینرز آویزاں کیے ہیں اور شہر کی حقیقی آبادی گنتی میں نصف دکھائے جانے پر احتجاج شروع کر رکھا ہے اور غلط مردم شماری تسلیم کیے جانے کوکراچی کے ساتھ ظلم اور ناانصافی قرار دیا ہے اورکراچی کی حقیقی آبادی کے مطابق شہر کو اس کے حقوق دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
وفاقی کابینہ میں کراچی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے تین وزیر بھی شامل ہیں۔ تینوں نے کراچی کی نمایندگی کرنے کی بجائے کابینہ اجلاس میں کوئی بات نہیں کی اور تینوں نے خاموش تماشائی کا ثبوت دیا جب کہ ایم کیو ایم کی دھمکی ملنے کے بعد پی ٹی آئی رہنما اور گورنر سندھ نے ایم کیو ایم کو منانے کے لیے بیان دیا کہ کراچی کی مردم شماری میں واقعی ابہام ہے اور جو آبادی ظاہر کی گئی ہے اسے میں بھی درست نہیں سمجھتا جب کہ ان کی وفاقی کابینہ مردم شماری کو درست قرار دے کر ایم کیو ایم کا سب سے اہم مطالبہ مسترد کرچکی ہے جس پر ایم کیو ایم نے دو پریس کانفرنسیں کرکے معمولی اور دکھاوے کا احتجاج کیا ہے اور حکومت چھوڑنے کا فیصلہ عوام پر چھوڑ کر حکومت میں رہنے کو ترجیح دی ہے۔
مردم شماری میں کراچی کی آبادی نصف دکھائی گئی ہے جب کہ آبادی تین کروڑ سے زیادہ ہے اور اس غلط مردم شماری کو وفاقی کابینہ درست قرار دے چکی ہے جب کہ حکومت چاہے تو 2017 کی مردم شماری کو متنازعہ قرار دے کر سات سال قبل دوبارہ مردم شماری کرا سکتی ہے جو آئینی طور پر ہر دس سال بعد ہونی چاہیے مگر موجودہ غلط مردم شماری 18 سال بعد کی گئی جو اب قبل از وقت کرائی جاسکتی ہے مگر وفاقی حکومت جان بوجھ کر مردم شماری درست نہیں کرائے گی۔ کراچی میں تین کروڑ کے قریب نادرا شناختی کارڈ جاری کر چکا ہے مگر مردم شماری میں آبادی تقریباً پونے دوکروڑ کیسے درست ہو سکتی ہے۔
یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ کراچی سے تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی نمایندگی جعلی ہے ،اس لیے وہ مردم شماری دوبارہ کرانے کی بات نہیں کرتے۔ اپنی نشستیں چھینے جانے کے بعد بے بس ایم کیو ایم دکھاؤے کے لیے عوام سے رجوع کرنے کی جو بات کی ہے وہ حکومت میں رہنے کا محض بہانہ ہے کیا پی ٹی آئی کا حلیف بننے، خالد مقبول کی جگہ امین الحق کی تبدیلی لانے کا فیصلہ عوام سے رجوع کرکے کیا گیا تھا؟ اہم فیصلے رابطہ کمیٹی کرتی ہے نام عوام کا لیا جاتا ہے۔
سیاسی حلقے چہ میگوئیاں کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی ہی نہیں ایم کیو ایم بھی عوام کو دھوکا دے رہی ہے اور کراچی سے وہ بھی مخلص نہیں اور آج جو کراچی سے مخلصی دکھا رہے ہیں وہ بھی حکومت میں ہوتے تو ان کا رویہ بھی تحریک انصاف جیسا ہوتا اور درست مردم شماری وہ بھی نہ ہونے دیتے اور ملک اور سندھ کو پالنے والے کراچی کو اس کے جائز حقوق کبھی نہیں دیتے، ماضی سے یہی ہوتا آ رہا ہے کیونکہ کراچی سے کوئی مخلص نہیں ہے۔