2020 میں کورونا کے باعث تعلیمی افق پر بے یقینی چھائی رہی

اداروں کی طویل بندش، آن لائن کلاسز،بغیر امتحانات کے اگلی کلاسز میں پروموشن سمیت کئی ناقابل تصور تبدیلیاں آئیں

سال 2020توختم ہوگیاتاہم اب بھی سندھ سمیت پورے ملک کے طلبہ یہ نہیں جانتے کہ وہ گزشتہ حکومتی اعلانات کے مطابق 11جنوری سے اپنے تعلیمی اداروں کارخ کرپائیں گے۔(فوٹو، فائل)

سال 2020 کے دوران ملک میں ثانوی واعلیٰ تعلیم کے افق پر کوویڈ19کے سائے منڈلاتے رہے۔

پاکستان میں پہلے کیس کے رپورٹ ہوتے ہی اس وبا نے 27فروی 2020سے سندھ کے تعلیمی نظام جبکہ مارچ کے وسط سے پورے ملک کے تعلیمی نظام کواپنے شکنجے میں جکڑلیا۔تعلیمی اداروں کی طویل بندش،گھربیٹھے تدریس، آن لائن کلاسز کاتجربہ،بغیر امتحانات کے اگلی کلاسز میں پروموشن،نصاب میں اختصار اورجامعات کی داخلہ پالیسزمیں بڑی تبدیلیاں اس سال کاخاصہ رہی یوں 2020کوویڈ کی دوسری لہر شروع ہونے کے ساتھ ختم ہوا۔

تاہم سندھ سمیت پورے ملک کے اسکولوں،کالجوں اورجامعات کے طلبہ کی زندگیوں پر اس کے اثرات اب سال 2021 کے ساتھ ساتھ آئندہ برسوں میں بھی جاری رہیں گے جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ رواں تعلیمی سیشن 2021شاید دنوں کے حوالے سے تواپنی گنتی پوری کرلے تاہم فزیکل کلاسز کے حوال سے یہ چند ماہ کا ہوگا۔

کوویڈ 19کی پہلی لہر کے دوروان ملک بھرمیں تعلیمی ادارے پہلے 15روز اورازاں بعد ڈھائی ماہ کے لیے 31مئی تک بند کردیے گئے تاہم اسکول،کالج اورجامعات کی بندش کایہ سلسلہ تھم نہ سکا اورآخر کار حکومت نے 15ستمبرتک ادارے بند رکھنے کااعلان کیااورستمبرکے پہلے ہفتے میں کوویڈکیسز کی تعداد کاجائزہ لے کرتعلیمی ادارے 16ستمبرسے مرحلہ وارکھولنے کافیصلہ کیاگیا۔

ملک میں تعلیمی ادارے ابھی کھلے ہی تھے اوران میں سماجی فاصلوں کے ساتھ کلاسز شروع ہوئی تھیں کہ کوویڈ 19کی دوسری لہرنے ملک کوآلیااورمحض دوماہ اور10دن کی تدریس کے بعد ہی ملک بھرکے تعلیمی ادارے 26ستمبرسے دوبارہ بند کردیے گئے۔ بطاہریہ ادارے 10جنوری تک بندہیں تاہم اس میں توسیع کے قوی امکانات ہیں۔

یادرہے کہ جب کوویڈ 19کے موقع پر ابتداء میں تعلیمی ادارے بند کیے گئے تھے تو نجی شعبے میں تو آن لائن اور دیگر ذرائع سے تعلیم کا سلسلہ کسی نہ کسی طور تو جاری رہا تاہم سرکاری اسکولوں سمیت غریب یا پس ماندہ علاقوں میں قائم وہ نجی اسکول کے طلبہ بغیرتعلیم کے تقریباً7ماہ گھروں پر ہی بیٹھے رہے۔

سندھ حکومت نے اسکولوں کی فیسوں میں تین ماہ کے لے 20فیصد رعایت کانوٹیفیکیشن جاری کردیا۔ابتداء میں درجنوں نجی اسکولوں نے اسے نہیں مانا اوران اسکولوں کے خلاف ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز سندھ میں والدین کی شکایات کاانبار لگ گیا جس پر کچھ نہ کچھ کارروائی بھی ہوئی جب کہ ایک نجی اسکول نے عدالت میں اسے چیلنج کیاتوحکومت نے اس فیصلے کوکابینہ سے منظورکرانے کے بعد لاگوکردیا۔ تاہم کچھ نجی اسکول ایسے بھی تھے جنھوں نے ہٹ دھرمی دکھائی اورفیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا

دوسری جانب حکومتی فیصلوں کی روشنی میں پہلی سے آٹھویں جماعت تک کے طلبہ کوان کی کلاس کی کارکردگی کی بنیادپر اگلی کلاسزمیں پروموٹ کردیاگیااوربظاہریہ کروڑوں طلبہ کے لیے ایک بڑی اورخوش گوارخبرتھی۔ جون میں سرکاری سطح پر باقاعدہ میٹرک اورانٹرکے امتحانات منسوخ کیے جانے اوربراہ راست پروموٹ کیے جانے کے سلسلے میں پروموشن پالیسی کا اعلان کیاگیا۔ کراچی میں میٹرک کی سطح پر امتحان نہ دینے کے سبب پروموشن پالیسی کے تحت 1لاکھ 2ہزار طلبہ ڈی اورای گریڈ میں پاس ہوئے۔


اسی طرح کراچی میں انٹرمیڈیٹ کی سطح پر "پری انجینیئرنگ،پری میڈیکل اورکامرس"کی سطح پر 40ہزار سے زائد طلبہ ایسے ہیں جو45فیصد سے کم مارکس لے کر"ڈی اورای"گریڈزمیں پاس ہوئے اسی طرح اے،بی اورسی گریڈزلینے والے طلبہ کے بھی پاسنگ مارکس کی شرح گرگئی۔

کیوں کہ جوطلبہ سال اول میں ایک یادوپرچوں میں فیل تھے انھیں دوبارہ متعلقہ پرچہ دینے کاموقع نہیں ملابلکہ انھیں متعلقہ پرچے میں سال اول اوردوئم میں 33/33مارکس دے کرہی پاس کردیاگیا۔یہ پالیسی آئی بی سی سی کی جانب سے وفاقی سطح پر بنائی گئی تھی اورصوبوں نے معمولی ردوبدل کے ساتھ اسی پالیسی کااطلاق کیا۔

پالیسی کے تحت جن طلبہ کے سال اول میں متعلقہ پاس مضامین میں مارکس تھے وہی مارکس سال آخرمیں بھی دے دیے گئے بات یہی نہیں رکی بلکہ جن طلبہ کوبغیرامتحانات کے نویں سے دسویں جماعت اورگیارہویں سے بارہویں جماعتوں میں پروموٹ کیاگیاہے ان کے نویں اورگیارہویں کے امتحانی نتائج اب سال 2021میں ان طلبہ کے ہونے والے دسویں اوربارہویں کے امتحانات اوران کے نتائج کی بنیادپر دیے جائیں گے۔

دوسری جانب کیمبرج نے دنیابھرکی طرح پاکستان میں بھی اے اوراولیول کے امتحانات منسوخ کیے اوربراہ راست گریڈنگ کااعلان کیااس حوالے سے کیمبرج نے ایک نظام وضع کیا جس کے تحت اسکولوں کی جانب سے بھجوائے گئے predictedگریڈزپران کی گریڈنگ کردی گئی تاہم نتائج جاری ہوئے توجیسے طوفان کھڑاہوگیا۔ طلبہ کے نتائج ان کے سابقہ گریڈزکے بالکل ہی برعکس جاری ہوئے طلبہ نے احتجاج شروع کیااورآکرکار کیمبرج کو نتائج سے دست بردارہوناپڑا۔

این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈٹیکنالوجی کی انتظامیہ اس طرح کی ملکی وغیرملکی پروموشنزپالیسیز کے نتائج کوشایدمحسوس کرچکی تھی اوراین ای ڈی نے اپنی تاریخ میں پہلی بار طلبہ کوانٹرسال دوئم کے بجائے سال اول کے نتائج کی بنیادپر پروویژنل داخلے دینے کافیصلہ کیاجو ایک بہت بڑافیصلہ تھاتاہم یونیورسٹی انتظامیہ اس فیصلے پر قائم رہی اوراس پر عمل درآمدبھی کیا۔

آئی بی اے کراچی نے اس اثنا میں اپنے داخلے شروع کیے توپہلی بار داخلہ ٹیسٹ کے بغیرہی محض اوپن میرٹ پر داخلے دیے۔ اس سے قبل آئی بی اے نے سیمسٹرنتائج بھی باقاعدہ امتحانات کے بجائے آن لائن اسائمنٹس کی بنیادپرجاری کیے تھے۔

کراچی یونیورسٹی کوویڈ کے ابتدائی تین ماہ تک کسی بھی قسم کی آن لائن سرگرمی نہیں کرسکی۔ کراچی یونیورسٹی نے طویل مشاورت اوراپنی اکیڈمک کونسل کی منظوری کے بعد جون سے آن لائن کلاسز کاآغاز کیا۔اس اثناء میں جب ایم فل/پی ایچ ڈی کے داخلوں کا وقت آیا تو پرانے نظام کی طرز پر یہ داخلے بھی بغیرٹیسٹ کے محض انٹرویوزکی بنیادپردیے گئے۔ لیکن ستمبرکے وسط سے جب تعلیمی ادارے کھلے توجامعہ کراچی نے ہائبرڈ سسٹم کے تحت سیمسٹرامتحانات کچھ آن لائن اورکچھ فزیکل بھی لیے یہ فیصلہ طلبہ کے دوروز تک شدید احتجاج کے بعد کیاگیاتھا۔

سال 2020توختم ہوگیاتاہم اب بھی سندھ سمیت پورے ملک کے طلبہ یہ نہیں جانتے کہ وہ گزشتہ حکومتی اعلانات کے مطابق 11جنوری سے اپنے تعلیمی اداروں کارخ کرپائیں گے۔
Load Next Story