عوام ایک بار پھر ہار گئے
گزشتہ ڈھائی سال میں سوائے نعروں، وعدوں، جھوٹ اور بے بسی کے کچھ حاصل نہ ہوا
ملک کا سیاسی ماحول گرم ہے۔ ہر پارٹی کی کوشش ہے کہ وہ میدان مار لے اور سینیٹ میں اپنی سیٹوں کو یا تو بچالے یا اضافہ کرلے۔ تحریک انصاف پر خوف کا سایہ ہے کہ سابقہ کھلاڑی ہارس ٹریڈنگ نہ کرلیں اور وہ اس کوشش میں ہے کہ اپنے ممبران کو اس بات کا پابند کریں کہ ووٹ ہمیں ہی ملے۔ اس کےلیے وہ بار بار ''شو آف ہینڈ'' کا قانون بنانے کی کوشش میں ہے۔
بس ایک افراتفری ہے۔ ایوان بالا میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ لگی ہوئی ہے۔ یہ کیسی سیاست ہے اور کیسی چانکیہ چالیں ہیں کہ جن لوگوں کو 2 سال قبل اپنے ٹکٹ سے کامیاب کروایا گيا، اب انہی پر اعتبار نہیں۔ سابقہ روایات کے مطابق سینیٹ کا الیکشن اس کا ہوتا ہے جو زیادہ سرمایہ کاری کرتا ہے۔ کیونکہ ممبران اسمبلی اور سیاسی کھلاڑیوں کو علم ہوتا ہے کہ یہی ایک سیزن ہے بھرپورمال بٹورنے کا۔ اس کے بعد خسارہ ہی خسارہ۔
کیا ضمیر؟ کیا غریب عوام کا غم؟ کیا حب الوطنی؟ بس سب ہضم کرنے کی ایک جست لگانے کی تیاری میں ہیں۔
بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں ایک بار پھر غریب اور ایماندار شہریوں کا بھرکس اور سفیدپوشی ختم کرنے کےلیے تیار ہوگئی ہیں یا پھر ان پر زبردستی مسلط کی جارہی ہیں۔ دنیا میں ایک بار پھر کورونا عروج پر ہے۔ پٹرول اور گیس کی قیمتیں پھر گرنے لگی ہیں۔ جبکہ پاکستانی عوام کورونا کے ساتھ اس نئی آفت کو بھی بھگتے گی۔
یہ جو چینی کی قیمت ذرا سی کم ہوئی ہے، یہ بھی ایک دھوکا ہے تاکہ غریب کسان سے گنا کم قیمت پر خریدا جاسکے۔ جیسے ہی گنے کا موسم ختم ہوگا اسی لمحے یہ کم بخت چینی بھی ایک دفعہ پھر فواد عالم کی طرح اپنی سینچری بنائے گی، لیکن پاکستان پھر بھی ہار جائے گا، عوام پھر ہار جائیں گے۔
جو نئے چہرے نئی سیاست کو پروان چڑھانے چلے تھے اور اب کی بار بیوروکریسی کو عوامی طاقت سے دبانے کی کوشش کررہے تھے، انہوں نے اس کےلیے ملک کے ہر بڑے شہر میں جلسے اور جلوس کیے۔ کورونا کی خطرناک وبا کو نظر انداز کرتے ہوئے عوام کو باہر نکلنے پر مجبور کیا اور لوگ بھی عوامی طاقت کو بیوروکریسی پر حاوی کرنے کےلیے ان کی آواز پر نکلے۔ گوجرانوالہ، کوئٹہ، کراچی، ملتان، پشاور اور پھر لاہور میں شدید سردی کے باوجود ہزاروں لوگوں نے ان جلسوں کو کامیاب بنانے کےلیے محنت اور کوشش کی تاکہ عوامی حکومت بنے۔ لیکن کیا ہوا؟ میں تو یہ کہوں گا کہ عوام سے ایک بار پھر ہاتھ ہوگیا۔
گزشتہ 2 سال سے سوائے نعروں، وعدوں، جھوٹ اور بے بسی کے کچھ حاصل نہ ہوا۔ ملک کے مختلف شہروں میں ''اداروں'' کے خلاف نعرے بھی لگے، ان کو برا بھلا بھی کہلوایا گیا۔ لیکن یہ اب خود پیچھے ہٹ رہے ہیں اور حکومتی پارٹی ایک بار پھر عوام کا بھرکس نکالنے کےلیے تیار ہے۔ نئے چہروں کی فلم بری طرح فلاپ ہوتی نظر آرہی ہے، یا پھر نئے سال میں فلاپ ہوجائے گی اور عوام پھر وہی پرانی فلم دیکھنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
جو شخص خود کو پاکستان کا سب سے بڑا سیاستدان سمجھتا تھا، اس سے بھی ہاتھ ہوگیا۔ اس شخص نے دونوں بڑی پارٹیوں کے زعم میں اپنے قریبی ساتھیوں کو بھی جدا کرلیا۔ گویا کہ ان لوگوں کی پارٹی بنانے یا پارٹی بحال کرنے سے ''ف'' پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن ایک بار پھر مذہبی ذہن رکھنے والے لوگوں پر اچھا تاثر نہیں پڑا۔ پاکستانی سیاست دانوں پر عوام کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔
جب بڑے شریف کو گرفتار کیا گیا تو وہ یہ سمجھنے لگے تھے کہ اب کی بار عوام ''ترک بھائیوں'' کی پیروی کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہوں گے۔ لیکن پتا نہیں یہ لوگ عوام کو کیا سمجھتے ہیں کہ خود تو چند دن بھی گرمی، سردی برداشت نہیں کرسکتے اور چاہتے ہیں ''عوام'' ان کےلیے ہر دکھ اور تکلیف برداشت کرے۔ عوام یہ بھی برداشت کرنے کو تیار تھے لیکن یہ خود ہی چند ہفتوں بعد اپنے وعدوں اور باتوں سے مکر گئے۔ گویا کہ عوام چاہتے ہیں کہ انہیں ایک سچا، محب وطن، غریب دوست قائد نصیب ہو۔ نہ کوئی استعفیٰ دینے کےلیے تیار ہے اور نہ ہی اپنی مراعات۔ بہت سے لوگوں کو تو یہ گنگناتے ہوئے بھی سنا کہ ''یہ بیماری تو اک بہانہ ہے... حقیقت تو ملک سے باہر جانا ہے''۔
خدشہ نظر آرہا ہے کہ 2021 شدید مہنگائی، لاقانونیت، چور بازاری اور رشوت کےلیے بھرپور سال ہوگا۔ جو لوگ مہنگائی کررہے ہيں وہ ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا پر بھی قابض ہوجائیں گے اور جو ATMجتنا زیادہ خرچ کرے گی، اتنا ہی زیادہ مستفید ہوگی۔ کیونکہ یہ پاکستانی سیاست ہے۔ اور یہ دنیا کا سب سے بڑا بزنس ہے، جس میں 10 لگا کر 100 کمائے جاتے ہیں۔
جو شخص ایک ادارہ نہیں چلا سکتا تھا، اور ایک حادثے کو انڈے پھٹنے کا نتیجہ قرار دے رہا تھا، اس کے حوالے پورا ملک کردیا گیا ہے۔ بس ایک جملہ کہوں گا کہ سیاست اور خودغرضی جیت گئی، غریب عوام ایک بار پھر ہار گئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بس ایک افراتفری ہے۔ ایوان بالا میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ لگی ہوئی ہے۔ یہ کیسی سیاست ہے اور کیسی چانکیہ چالیں ہیں کہ جن لوگوں کو 2 سال قبل اپنے ٹکٹ سے کامیاب کروایا گيا، اب انہی پر اعتبار نہیں۔ سابقہ روایات کے مطابق سینیٹ کا الیکشن اس کا ہوتا ہے جو زیادہ سرمایہ کاری کرتا ہے۔ کیونکہ ممبران اسمبلی اور سیاسی کھلاڑیوں کو علم ہوتا ہے کہ یہی ایک سیزن ہے بھرپورمال بٹورنے کا۔ اس کے بعد خسارہ ہی خسارہ۔
کیا ضمیر؟ کیا غریب عوام کا غم؟ کیا حب الوطنی؟ بس سب ہضم کرنے کی ایک جست لگانے کی تیاری میں ہیں۔
بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں ایک بار پھر غریب اور ایماندار شہریوں کا بھرکس اور سفیدپوشی ختم کرنے کےلیے تیار ہوگئی ہیں یا پھر ان پر زبردستی مسلط کی جارہی ہیں۔ دنیا میں ایک بار پھر کورونا عروج پر ہے۔ پٹرول اور گیس کی قیمتیں پھر گرنے لگی ہیں۔ جبکہ پاکستانی عوام کورونا کے ساتھ اس نئی آفت کو بھی بھگتے گی۔
یہ جو چینی کی قیمت ذرا سی کم ہوئی ہے، یہ بھی ایک دھوکا ہے تاکہ غریب کسان سے گنا کم قیمت پر خریدا جاسکے۔ جیسے ہی گنے کا موسم ختم ہوگا اسی لمحے یہ کم بخت چینی بھی ایک دفعہ پھر فواد عالم کی طرح اپنی سینچری بنائے گی، لیکن پاکستان پھر بھی ہار جائے گا، عوام پھر ہار جائیں گے۔
جو نئے چہرے نئی سیاست کو پروان چڑھانے چلے تھے اور اب کی بار بیوروکریسی کو عوامی طاقت سے دبانے کی کوشش کررہے تھے، انہوں نے اس کےلیے ملک کے ہر بڑے شہر میں جلسے اور جلوس کیے۔ کورونا کی خطرناک وبا کو نظر انداز کرتے ہوئے عوام کو باہر نکلنے پر مجبور کیا اور لوگ بھی عوامی طاقت کو بیوروکریسی پر حاوی کرنے کےلیے ان کی آواز پر نکلے۔ گوجرانوالہ، کوئٹہ، کراچی، ملتان، پشاور اور پھر لاہور میں شدید سردی کے باوجود ہزاروں لوگوں نے ان جلسوں کو کامیاب بنانے کےلیے محنت اور کوشش کی تاکہ عوامی حکومت بنے۔ لیکن کیا ہوا؟ میں تو یہ کہوں گا کہ عوام سے ایک بار پھر ہاتھ ہوگیا۔
گزشتہ 2 سال سے سوائے نعروں، وعدوں، جھوٹ اور بے بسی کے کچھ حاصل نہ ہوا۔ ملک کے مختلف شہروں میں ''اداروں'' کے خلاف نعرے بھی لگے، ان کو برا بھلا بھی کہلوایا گیا۔ لیکن یہ اب خود پیچھے ہٹ رہے ہیں اور حکومتی پارٹی ایک بار پھر عوام کا بھرکس نکالنے کےلیے تیار ہے۔ نئے چہروں کی فلم بری طرح فلاپ ہوتی نظر آرہی ہے، یا پھر نئے سال میں فلاپ ہوجائے گی اور عوام پھر وہی پرانی فلم دیکھنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
جو شخص خود کو پاکستان کا سب سے بڑا سیاستدان سمجھتا تھا، اس سے بھی ہاتھ ہوگیا۔ اس شخص نے دونوں بڑی پارٹیوں کے زعم میں اپنے قریبی ساتھیوں کو بھی جدا کرلیا۔ گویا کہ ان لوگوں کی پارٹی بنانے یا پارٹی بحال کرنے سے ''ف'' پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن ایک بار پھر مذہبی ذہن رکھنے والے لوگوں پر اچھا تاثر نہیں پڑا۔ پاکستانی سیاست دانوں پر عوام کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔
جب بڑے شریف کو گرفتار کیا گیا تو وہ یہ سمجھنے لگے تھے کہ اب کی بار عوام ''ترک بھائیوں'' کی پیروی کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہوں گے۔ لیکن پتا نہیں یہ لوگ عوام کو کیا سمجھتے ہیں کہ خود تو چند دن بھی گرمی، سردی برداشت نہیں کرسکتے اور چاہتے ہیں ''عوام'' ان کےلیے ہر دکھ اور تکلیف برداشت کرے۔ عوام یہ بھی برداشت کرنے کو تیار تھے لیکن یہ خود ہی چند ہفتوں بعد اپنے وعدوں اور باتوں سے مکر گئے۔ گویا کہ عوام چاہتے ہیں کہ انہیں ایک سچا، محب وطن، غریب دوست قائد نصیب ہو۔ نہ کوئی استعفیٰ دینے کےلیے تیار ہے اور نہ ہی اپنی مراعات۔ بہت سے لوگوں کو تو یہ گنگناتے ہوئے بھی سنا کہ ''یہ بیماری تو اک بہانہ ہے... حقیقت تو ملک سے باہر جانا ہے''۔
خدشہ نظر آرہا ہے کہ 2021 شدید مہنگائی، لاقانونیت، چور بازاری اور رشوت کےلیے بھرپور سال ہوگا۔ جو لوگ مہنگائی کررہے ہيں وہ ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا پر بھی قابض ہوجائیں گے اور جو ATMجتنا زیادہ خرچ کرے گی، اتنا ہی زیادہ مستفید ہوگی۔ کیونکہ یہ پاکستانی سیاست ہے۔ اور یہ دنیا کا سب سے بڑا بزنس ہے، جس میں 10 لگا کر 100 کمائے جاتے ہیں۔
جو شخص ایک ادارہ نہیں چلا سکتا تھا، اور ایک حادثے کو انڈے پھٹنے کا نتیجہ قرار دے رہا تھا، اس کے حوالے پورا ملک کردیا گیا ہے۔ بس ایک جملہ کہوں گا کہ سیاست اور خودغرضی جیت گئی، غریب عوام ایک بار پھر ہار گئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔