مسئلہ مردم شماری کا
کراچی کے مسائل کے حل نہ ہونے اور غلط مردم شماری کو تسلیم کرنے کی وجہ سے عوام ایم کیو ایم سے ناخوش ہیں۔
کراچی آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہے۔ یہ پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم پارٹنر ہے۔ اس کی صنعتیں ملک کے بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
ملک کی 45 فیصد لیبر فورس اس شہر سے مستفید ہو رہی ہے، یہ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو مہیا کر رہا ہے۔ افسوس کہ اتنا کچھ ملک کو دینے والا شہر مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ اس کے مسائل پر نہ سابقہ حکومتوں نے کوئی توجہ مرکوزکی اور نہ ہی موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کوئی توجہ دے رہی ہیں۔ اس شہر سے بے اعتنائی کا یہ حال ہے کہ آج تک اس کی صحیح مردم شماری تک نہیں کرائی جاسکی ہے۔ پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے درست ہی کہا ہے کہ حکمران کراچی کی صحیح مردم شماری کرانے یا یہاں کے عوام کی تعداد گننے سے خوفزدہ ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
یہ گھناؤنا کھیل آخرکب تک کھیلا جاتا رہے گا اور اس شہرکو شہر مسائل بنائے رکھا جائے گا۔ کراچی کی آبادی کو حالیہ مردم شماری میں کم دکھانے پر کراچی کے عوام میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے، مگر اسے کیا کہا جائے کہ کراچی کی ترجمانی اور نمایندگی کرنے والی ایم کیو ایم خود اس شہرکے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کی ذمے دار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ یہاں کے عوام سے ووٹ تو ضرور حاصل کرتی رہی ہے جس کی بنیاد پر ہی ہر حکومت کا حصہ بنتی رہی ہے مگر کراچی کے مسائل کو پس پشت ڈالتی رہی ہے۔ موجودہ حکومت کا حصہ رہنے کی وجہ سے یہ کراچی کی حالیہ متنازعہ مردم شماری کو کابینہ میں شرف قبولیت بخش چکی ہے۔
کراچی کے مسائل کے حل نہ ہونے اور غلط مردم شماری کو تسلیم کرنے کی وجہ سے عوام ایم کیو ایم سے ناخوش ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب یہ عوامی مسائل کو حل نہ کرانے کے ساتھ ساتھ درست مردم شماری تک کرانے میں ناکام رہی تو پھر اسے حکومت سے علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے تھی۔ عوام کے بڑھتے ہوئے غیض و غضب کو دیکھتے ہوئے اب پارٹی کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے حکومت سے علیحدگی کا عندیہ دے دیا تھا مگر دوسرے ہی دن انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ حکومت میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ اب پارٹی کے بجائے عوام کریں گے انھوں نے مزید کہا کہ معاملہ وزارت کے حصول کا نہیں جیساکہ لوگ سمجھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق انھوں نے کراچی کی متنازعہ مردم شماری پر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔
جہاں تک ایم کیو ایم کے حکومت سے اخراج کا معاملہ ہے اس کے نتائج حکومت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے سوا حکومت کے سارے اتحادی اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں، اب حکومت صرف ایم کیو ایم کے سات ووٹوں پر ٹکی ہوئی ہے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ حکومت ایم کیو ایم کے پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑنے کے بیان سے ذرا بھی پریشان نہیں ہے کیونکہ ایم کیو ایم حکومت کو چھوڑ ہی نہیں سکتی۔
مصطفیٰ کمال کہتے ہیں کہ وہ حکومت کوکیسے چھوڑ سکتے ہیں اگر ایسا کرتے ہیں تو ان پر قانونی کارروائی ہونا ناگزیر ہے۔ عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ خالد مقبول نے ہم سے مردم شماری کی بات کی ہے یہ کام ایک یا دو دن میں نہیں ہو سکتا، اس کے لیے وقت درکار ہے پھر ملکی حالات ایسے نہیں ہیں کہ مستقبل قریب میں نئی مردم شماری کرائی جا سکے اس میں بڑے خرچ کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لیے فوج کی ضرورت ہوگی مگر مشرقی سرحد پر حالات سخت کشیدہ ہیں۔ چنانچہ موجودہ مردم شماری کے اعداد و شمارکو تسلیم کرکے ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ البتہ عام انتخابات سے قبل شاید ایسا ممکن ہو سکے۔
حکومت نے دراصل متحدہ کو لالی پاپ دے دیا ہے اور ادھر ایم کیو ایم نے عوام کو لالی پاپ دے دیا ہے اس طرح حکومت سے اس کے نکلنے کی باتیں عوام کو بہلانے کے سوا کچھ نہیں۔ پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ میں متنازعہ مردم شماری کی منظوری میں ایم کیو ایم نے حصہ لے کر کراچی کے عوام کے ساتھ سراسر زیادتی کی ہے۔ یہ کراچی کے عوام کے نام پر دھوکہ ہے ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر خالد مقبول صدیقی سندھ کے عوام کے ساتھ مخلص ہیں تو حکومتی اتحاد سے فوری علیحدگی اختیار کر لینا چاہیے اس طرح وہ شہری علاقوں کے عوام کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کے حقوق کا دفاع کریں مگر وہ ایسا نہیں کریں گے۔
پیپلز پارٹی کے حکومتی ترجمان اور قانونی مشیر مرتضیٰ وہاب نے بھی ایم کیو ایم سے کہا ہے کہ وہ عوام کو لالی پاپ دینا بند کرے حکومت سے نکلے بغیر سڑکوں پر آنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم نے کراچی کی جعلی مردم شماری کو وفاقی و صوبائی حکومتوں اور ایم کیو ایم کی ملی بھگت کا شاہکار قرار دیا ہے۔ مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ کراچی میں نادرا نے ڈھائی کروڑ شناختی کارڈ جاری کیے ہیں تو کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ کیسے ہو سکتی ہے؟ جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ کراچی کی آبادی کسی طرح بھی تین کروڑ سے کم نہیں ہے ،انھوں نے اس سلسلے میں ایک عوامی ریفرنڈم کرا کے یہ ثابت بھی کر دیا ہے۔ متنازعہ مردم شماری پر مصلحت آمیزی اختیار کرنا پیپلز پارٹی کی جانب سے اسے قبول کرنے کے مترادف ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی شہری آبادی کو کم دکھانے پر خوش ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ قومی یا سندھ اسمبلی میں شہری نشستیں بڑھ سکیں کیونکہ اس طرح اسے دیہی علاقوں سے جو بھرپور نمایندگی ملتی ہے وہ بے معنی ہو کر رہ جائے گی مگر حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی یہ سوچ غلط ہے شہری نشستیں بڑھنے سے اس کے شہری علاقوں کے امیدواروں کی فتح کی صورت میں اس کی بھی اسمبلیوں میں نمایندگی بڑھے گی۔ اس لیے اسے شہری علاقوں کی مردم شماری کو حق و انصاف کے مطابق کرانے کے لیے وفاقی حکومت پر بھرپور زور ڈالنا چاہیے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایم کیو ایم جعلی مردم شماری پر جو ناراضگی دکھا رہی ہے وہ محض دکھاوا ہے جب وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ کراچی کی مردم شماری میں ڈنڈی ماری گئی ہے اور جان بوجھ کر غلط اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں تو اسے کابینہ میں اس کی منظوری دینے کے بجائے احتجاج کرکے اپنی طرف سے اسے رد کر دینا چاہیے تھا اور اسی وقت اس زیادتی کے خلاف حکومت کو خیرباد کہہ دینا چاہیے تھا۔ اب یہ معاملہ اگلی مردم شماری تک ٹل چکا ہے مگر دس سال بعد ہونے والی مردم شماری میں پھر موجودہ غلطی کو روکنے کے لیے کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو تیاری کر لینی چاہیے۔
موجودہ غلط مردم شماری کو پی ایس پی پہلے ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کرچکی ہے مگر اس وقت کے مخصوص حالات میں اس کا کوئی خاص نتیجہ نہ نکل سکا مگر اب پھر سے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے سے اس کا مثبت نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کیونکہ چیف جسٹس گلزار احمد خود کراچی کی ایک کروڑ 60 لاکھ آبادی کو غلط کہہ چکے ہیں، ان کے مطابق اس شہر کی آبادی تین کروڑ سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اگر چیف جسٹس صاحب نے پھر سے مردم شماری کرانے کا حکم دے دیا تو پھر حکومت کو لازمی طور پر اس پر جلد عمل کرنا ہوگا اور یوں بلدیاتی انتخابات بھی پھر نئی مردم شماری کے مطابق ہی کرانا پڑیں گے۔