منافق

منافق اعتقادی اور منافق عمل، اس میں منافق اعتقادی وہ ہے کہ زبان سے تو اسلام کا اظہار کرتا ہو لیکن دل میں کفرچھپایا ہو۔

ISLAMABAD:
نبی کریمؐ کے ارشاد کا مفہوم ہے'' جس شخص میں یہ چار باتیں ہوں گی وہ منافق ہے اور جس شخص میں ان چاروں افعال میں سے ایک بات ہوگی تو اس میں نفاق کی ایک حسرت ہوگی، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ سب سے پہلے جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے، دوسری بات، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، تیسرا عمل جب کسی سے کوئی عہد کرے تو عہد شکنی کرے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ جب جھگڑا کرے تو بد زبانی کرے۔

منافق اعتقادی اور منافق عمل، اس میں منافق اعتقادی وہ ہے کہ زبان سے تو اسلام کا اظہار کرتا ہو لیکن دل میں کفر چھپایا ہو، جیسے حضورؐ کے زمانے میں منافقین کی وہ جماعت تھی جو بظاہر کلمہ پڑھتے، نماز، زکوٰۃ کے بھی پابند تھے لیکن منکر تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے ایمان، عقیدے میں نفاق تھا۔ منافق عقیدہ کافر ہے بلکہ کافر سے بھی بد ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ'' منافق اعتقادی کو جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ڈال دیا جائے گا۔''

منافق عملی وہ جس کے ایمان و عقائد میں کوئی خرابی یا نفاق نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ ظاہر و باطن مسلمان ہوتا ہے لیکن اس کے بعض اعمال و خصلتیں منافقین سے ملتی ہیں۔ حدیث پاک میں جس منافق کی چار خصلتوں کا ذکر ہے اس منافق سے مبرا و منافق عملی ہے۔ چاروں منافقانہ خصلتوں سے مراد منافقانہ عمل و کردار ہیں۔ وہ چار خصلتیں یہ ہیں۔

۱۔جب اس کو کوئی امانت سونپی جائے اس میں خیانت کرے۔

۲۔جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔

۳۔جب کسی سے کوئی عہد کرے تو دغا کرے۔

۴۔جب کسی سے معاملے پر جھگڑا کرے گالیاں دے یا بدکلامی کرے۔


یہ چار خصلتیں ہرگز مومن کی نہیں جو گناہ کبیرہ ہیں اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا ،وہ جہنم میں بھیجا جائے گا۔

امانتیں صرف مال و زر نہیں بلکہ راز، ذمے داری، وعدہ بھی امانت ہی کہلاتے ہیں۔ مثلاً کسی نے راز کی بات کی، بتانے والے نے یہ کہا کہ'' یہ راز ہے یا یہ بات امانت ہے اس کا کسی سے ذکر نہ کرنا'' اس کی بتائی ہوئی بات بھی امانت ہوگی۔ اگر یہ بات یا راز کو کسی سے افشا کردیا تو امانت میں خیانت کی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خیال، عقل، اختیار، آنکھ، ناک، کان، ہاتھ پاؤں وغیرہ جسمانی اعضا اور قسم قسم کی طاقتیں سونپ کر حکم دیا ہے کہ میری امانتوں کو میرے حکم کے مطابق استعمال کرنا۔ اگر حکم خداوندی نہیں ادا کیا تو یہ بھی خیانت ہی کہلائے گی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آنکھ، ناک، کان، دل ہر شے کے بارے میں باز پرس (پوچھ گچھ) ہوگی کہ اللہ کی دی ہوئی امانتوں میں خیانت تو نہیں ہوئی۔

مسلم کی حدیث ہے تم لوگ اپنے وجود سے جھوٹ کو بچا کر رکھو، شاید جھوٹ بدکاری کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور بدکاری جہنم میں کھینچ کر لے جاتی ہے اور آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ کا متلاشی رہتا ہے۔ یہاں تک کہ دفتر خداوندی میں لکھ دیا جاتا ہے۔ یہ بہت ہی ملعون عادت ، سخت حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ قرآن مجید میں مشرکوں کی صفت بتائی گئی ہے، کفار کی، منافقین کی اور فاسقین کے بارے میں کہا گیا ہے۔

جب کسی سے کوئی عہد کرنے کے بعد دغا بازی کرے، عہد شکنی کرے، کوئی معاہدہ یا وعدہ کرکے کسی عذر شرعی کے اس معاہدے یا وعدے سے پھر جانا حرام و گناہ ہے۔ قرآن پاک میں رب تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے ''اے ایمان والو! اپنے عہد اور وعدوں کو پورا کرو۔'' یہ واضح رہے کہ جس طرح کسی مخلوق سے عہد شکنی حرام و گناہ ہے اسی طرح اپنے خالق و مالک اللہ تعالیٰ سے بھی عہد شکنی و بدعہدی اس سے کہیں بڑھ کر حرام و گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان سے اپنی توحید کا اقرار کیا ہے اور علما کرام سے خصوصی طور پر عہد لیا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی حال میں بھی حق کو نہ چھپائیں اس لیے کہ جو مسلمان یا علما کرام اپنی کسی دنیاوی غرض کی بنیاد پر مشرکین و منافقین کی خوشنودی کے لیے جھوٹ بولتے ہیں شرک کا کام کر بیٹھتے ہیں دنیاوی مرتبہ حاصل کرنے کے لیے کلمہ حق کو چھپاتے ہیں اس کو بیان نہیں کرتے اپنے ناجائز مقاصد حاصل کرنے کے لیے مکاری، عیاری، چال بازی، مکر و فریب کے آلہ کار بنتے ہیں (جیساکہ موجودہ دور میں ظاہر ہے) وہ عہد شکنی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ دغا کرنے کے مجرم ہیں جو سخت گناہ ہے۔

بدگوئی، ناشائستہ گفتار، سخت ترین تلخ لہجہ، بدکلامی، گالم گلوچ خصوصاً اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ انتہائی کمین خصلت، گھناؤنی عادت ہے۔ گالی گلوچ تو کجا بلکہ مسلمان سے اس طرح کے ہنسی مذاق کرنا جس سے اس کی دل آزاری ہو یا کسی کو ایسے القابات سے یاد کیا جائے جس سے اس شخص کو تکلیف پہنچتی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کو حرام قرار دیا ہے۔ اے ایمان والو! نہ مرد، مردوں کا مذاق اڑائیں، عجب نہیں کہ وہ ہنسی اڑانے والوں سے بہتر ہو اور نہ عورتیں، عورتوں سے ہنسی ٹھٹھہ کریں، ہو سکتا ہے ان سے وہ بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنہ مت دو، اور نہ ہی کسی دوسرے کے برے نام رکھو، کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا، اور جو توبہ نہ کرے وہی لوگ ظالم ہیں۔

جب کسی بھی مسلمان سے اس قسم کا مذاق بھی جائز نہیں جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو نہ کسی مومن کو ایسے برے الفاظ سے پکارنا جائز ہے جس میں اس کی تضحیک کا پہلو ہو تو پھر کسی مسلمان کو گالیاں دینا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ ایک حدیث پاک میں آیا ہے کہ'' کسی مسلمان سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے اور کسی مسلمان سے جنگ کرنا کفار کا کام ہے۔'' بہر حال کسی بھی مسلمان کو گالیاں دینا، اس کے سامنے بے ہودہ الفاظ زبان سے نکال کر ایذا دینا یہ منافقوں کی حرکت اور منافقین کا طریقہ ہے۔ بے ہودگی، بدکلامی ہرگز ہرگز کسی مومن کا کام نہیں۔

شائستہ و شستہ گفتار، آہستہ بولنا یہ اچھے اعمال میں شمار ہے ۔ بحیثیت مسلمان ہمیں کوشش کرنی چاہیے بلکہ عمل کرنا لازم ہے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچائی جائے کسی سے کیا ہوا وعدہ بھلایا نہ جائے کسی عہد کو کسی شرعی مجبوری و ضابطے بغیر نہ توڑا جائے۔ دروغ گویائی سے پرہیز کریں ایک مسلمان کے لیے جھوٹ بولنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ایسے کسی بھی عمل سے دور رہیں جو باعث شرمندگی ہو۔

اللہ تعالیٰ نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے ہر موڑ پر برائی بدکاری سے بچائے۔
Load Next Story