اعتراف حقیقت کافی نہیں
پی ٹی آئی کو 11 جولائی کو اکثریت دلانے اور 18 اگست کو عمران خان کو وزیر اعظم بننے کی جلدی بھی عمران خان ہی کی تھی۔
وزیر اعظم عمران خان کے اس اعتراف کے بعد کہ'' اب کارکردگی دکھانے کا وقت آ گیا ہے ،ہمارے پاس عذر کی کوئی گنجائش نہیں'' کے بعد اپوزیشن کی خوشی دوچند ہوگئی ہے اور اس کے تئیں اس کا بیانیہ درست ثابت ہو گیا ہے اور اپوزیشن بیانیے کو یہ تقویت وزیر اعظم کے بیان سے ملی،اس بیان پر تنقید ہو رہی ہے۔
وزیر اعظم کے منہ سے نکلے ہوئے حقائق اپوزیشن کی نئی زندگی کا جہاں باعث بنے ہیں وہاں وزیر اعظم کے حامیوں کو عمران خان کے اعتراف حقیقت کا دفاع کرنا مشکل ہو رہا ہے اور وہ مختلف تاویلیں پیش کر رہے ہیں کہ عمران خان واحد وزیر اعظم ہیں کہ جنھوں نے حکومتی اور اپنی غلطیوں اور خامیوں کا اعتراف کیا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کی نصف مدت مکمل ہو رہی ہے اور باقی مدت میں انھوں نے جس کارکردگی کے دکھانے کی بات کی ہے وہ وقت شاید اب باقی نہیں رہا ہے اور نہ ان حقائق کے اعتراف کا یہ وقت تھا اور شاید وزیر اعظم ذاتی طور پر اپنی اس غلطی کا اعتراف کریں کہ انھیں حقائق کا کھلا اعتراف برملا نہیں کابینہ تک محدود رکھ کر کرنا چاہیے تھا جو اب ان کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ اور اپوزیشن کے لیے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
پختون کہاوت کے مطابق لڑائی کے دوران جو مکا دشمن کے منہ پر مارنا یاد نہ آئے وہ بعد میں خود اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔ پی ڈی ایم کی جاری تحریک اب اپنے اختتام کی جانب رواں ہے اور ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس کے تجزیہ کار کے مطابق پی ڈی ایم کے لیے مشکلات بڑھی ہیں اور حکومت کی کم ہوئی ہیں اس لیے یہ وقت مناسب نہیں تھا کہ وزیر اعظم ان حقائق کا اس وقت اعتراف کرتے جب پی ڈی ایم میں مکمل اتفاق نہیں ہے اور وہ وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
وزیر اعظم کے اعتراف نے پی ڈی ایم میں جان ڈال دی ہے اور اس کے رہنماؤں کے ہاتھ عمران خان پر تنقید کرنے کا سنہری موقعہ ہاتھ آگیا ہے جس سے انھوں نے جلسوں میں فائدہ اٹھانا شروع کردیا ہے اور میاں نواز شریف کو یہ کہنے کا موقعہ مل گیا ہے کہ ایسے شخص کو اقتدار میں کیوں لایا گیا جس کی کوئی تیاری تھی نہ اس میں حکومت کرنے کی صلاحیت، قابلیت اور تجربہ تھا جس کی نااہلیت کی سزا ڈھائی سال سے قوم بھگت رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی الزام لگایا ہے کہ حکومت چلانے کی تیاری نہیں مگر شیروانی پہننے کی جلدی اس لیے تھی کہ اقتدار میں آ کر اپنے تمام دوستوں کو سرکاری عہدے دے کر نواز سکیں۔
سیاسی تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ جس عمران خان نے حصول اقتدار کے لیے مخالفین پر الزامات لگائے تھے ان پر اقربا پروری، کرپشن کرنے اور کرانے، بڑی کابینہ بنانے، ملکی دولت اپنی ذات پر لگانے، اقتدار کو بادشاہت بنا لینے، قومی سرمایہ ضایع کرنے اور دیگر بے شمار کہانیاں قوم کو سنائی تھیں اور بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔ اپنی حکومت کے ڈھائی سالوں میں وزیر اعظم بن کر انھوں نے اپنے دعوؤں اور وعدوں کے برعکس کیا اور تبدیلی کے خواہش مندوں کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ عمران خان کے چاہنے والوں کو بھی اب سوچنا پڑ رہا ہے کہ مبینہ چور ڈاکوؤں کے جانے کے بعد ایمان دار کہلانے اور سچائی کے دعویدار تبدیلی لانے میں کیوں ناکام رہے۔
جس رہنما کا دعویٰ تھا کہ وہ دنیا کی بہترین ٹیم منتخب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اقتدار میں آکر ان کے پاس دو سو قابل ترین بندوں کی ٹیم ہے جو ماضی سے بہت بہتر طور پر حکومت چلا کر دکھائے گی اور ملک میں حقیقی تبدیلی لا کر ملک و قوم کی حالت بدل دے گی۔ عمران خان کی مبینہ باصلاحیت دو سو افراد کی ٹیم کا انتخاب چند کے سوا خود عمران خان نے کیا تھا جن میں اسد عمر سب سے نمایاں تھے جنھوں نے وزیر خزانہ بن کر تباہ حال معیشت بقول عمران خان کی حالت بہتر بنانی تھی جنھیں پی ٹی آئی کے دیگر اہم رہنماؤں کی طرح حکومت چلانے کا تجربہ تو تھا نہیں صرف دعوے ہی انھوں نے بھی کیے تھے اور وزیر اعظم کو سب سے پہلے مایوس بھی اسد عمر نے ہی کیا جنھیں سب سے پہلے ہٹا کر امریکا سے حفیظ شیخ کو بلا کر مشیر خزانہ بنانا پڑا جو عمران خان کی ٹیم میں شامل ہی نہیں تھے۔
اپنے ہی پرانے رہنماؤں کی قابلیت کو نظر انداز کرکے پرویز خٹک کو وزیر دفاع بنانے کا فیصلہ بھی عمران خان کا تھا جنھوں نے 5 سال تک کے پی کے کی حکومت کامیابی سے چلا کر دکھائی تھی۔ پنجاب میں شہباز شریف کے پائے کا وزیر اعلیٰ لانے کی بجائے کسی وزارت کا تجربہ بھی نہ رکھنے والے عثمان بزدار کو وسیم اکرم پلس سمجھ کر اتنا اہم عہدہ دینے والے بھی خود عمران خان تھے۔ اپنے قابل حلیفوں پر عدم اعتماد کرکے مرضی کے وزیر اعلیٰ اور تینوں جگہ وزیروں کے تقرر اور پھر ان کی وزارتیں تبدیل بھی وزیر اعظم کی ہدایت پر ہوتی رہیں۔
ناقص کارکردگی پر سزا دینے کی بجائے وزیروں کے محکمے تبدیل اور پارٹی میں تقرریاں بھی چیئرمین کے حکم پر ہوئیں۔ جارحانہ مزاج کے حامل لوگوں کو ان کے عہدے سے ہٹا کر واپس پھر وزیر بنانا اور پھر ہٹا دینے کی منطق بھی وزیر اعظم ہی بہتر جانتے ہیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار حکومتی ترجمانوں کی فوج بھی وزیر اعظم کی مرضی سے وجود میں آئی جن کا کام صرف اپوزیشن کو رگڑنا اور بیانات دینا ہی ہے۔
وزیروں کو ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کے برعکس محکمے دینا، اسپیکر بنانا اور بعد میں دو سال مسلم لیگ (ق) کو نظرانداز، ایم کیو ایم کے ساتھ کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہ کرنا، بی این پی مینگل سے معاہدے پر عمل نہ کرنا، جی ڈی اے کو بھی ناراض رکھنا، حلیفوں کو ساتھ رکھنے اور چلنے کی صلاحیت نہ رکھنا بھی اسی حکومت ہی کا کارنامہ ہے کہ جن کے ووٹوں کی اکثریت سے وہ اقتدار میں آئی اور بعد میں انھیں نظرانداز کرنے کی شکایات بھی حلیف کرتے رہے مگر توجہ نہ دی گئی ۔
پی ٹی آئی کو 11 جولائی کو اکثریت دلانے اور 18 اگست کو عمران خان کو وزیر اعظم بننے کی جلدی بھی عمران خان ہی کی تھی اور جلدی کی بجائے کچھ انتظار کرکے حکومت سیکھ کر بنانی تھی کیونکہ یہاں امریکی طرز کا صدارتی نظام نہیں۔ جلد بازی اور جلدی کے فیصلے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ سمجھنے کے 3 ماہ بھی درست فیصلے نہ ہونے سے گڈ گورننس آ سکی نہ تبدیلی بلکہ عوام کو مایوس اور مسائل و مہنگائی کے پہاڑ تلے دبا دیا گیا۔ دو سال بعد حقیقت کا اعتراف کافی نہیں بلکہ معاملات کو درست طریقے سے چلانا ہے۔ جب اس سچائی کا اظہار کر ہی دیا ہے تو عوام کو مزید حقائق بتائے جائیں۔