سیرتِ خاتم النبیین
ہمیں اپنے معاشروں کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہو گا۔ اپنے رہن سہن اور طور اطوار کو بدلنا ہو گا۔
قارئینِ کرام ! دعا ہے کہ2021 پاکستان اور ہم سب کے لیے مسرت و شادمانی سے بھرپور ہو۔ہم بہت مشکل وقت سے گزر رہے ہیں،کورونا کی وبا نے ساری دنیا کو اپنے چنگل میں دبوچ رکھا ہے۔
گلوبل ولیج بنی ہماری دنیا کے کسی بھی خطے میں سر اُٹھانے والی وبا صرف چند دنوں میں ہر طرف پھیل جاتی ہے۔گلوبلائزیشن کے جہاں بہت سارے فوائد ہیں وہیں ہر روز بڑھتی تیز ترین سفری سہولیات کی وجہ سے یہ بیماریاں ،یہ وبائیں بھی آناً فاناً ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو کر ہماری زندگیاں اجیرن کر دیتی ہیں۔ اس کا شدید امکان ہے کہ ایک کے بعد دوسری وبا سر اٹھاتی رہے گی۔
ہمیں اپنے معاشروں کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہو گا۔ اپنے رہن سہن اور طور اطوار کو بدلنا ہو گا۔ خواہ مخواہ کے خطرات کو گلے لگانا کوئی اچھی بات نہیں۔آئیے تہیہ کر لیں کہ ہر ضروری احتیاط مدِ نظر رکھ کر اپنی جان بچائیں گے اور دوسروں کو بھی خطرے سے دوچار نہیں کریں گے۔ اگر یہ رویہ بن جائے تو ہم آسانی سے وباؤں سے عہدہ برآ نہ ہو سکیں۔
سیرتِ خاتم النبیینﷺ کو اس سے پہلے دو اقساط میں بیان کیا گیا۔ پہلی قسط میں بتایا گیا کہ ایسے تمام شعراء جو بزعمِ خود اپنے آپ کو زبان و بیاں پر مہارت و قدرت کے اعلیٰ ترین معیار پر سمجھتے تھے، انھوں نے بھی حضور کی مدحت میں عجز کا اظہار کیااور کہا کہ حضور کی عظمت و رفعت کا حقیقی بیان ہو ہی نہیں سکتا۔دوسری قسط میں بتایا گیا کہ آپ کی زندگی ہر شعبے میں ذاتی عظمت کی منتہائے کمال تھی۔یہ وہ مقام ہے جس سے آگے کوئی مقام نہیں۔موجودہ کالم چونکہ سال 2021کا میرا پہلا کالم ہے، اس لیے مناسب جانا کہ نئے سال کے پہلے کالم کو سیرتِ پاک سے مزین اور معطر کرنے کی کوشش کی جائے۔
رسول اﷲ کی امتیازی حیثیت
سیدنا ابراہیم ؑکی بعثت سے پہلے اﷲ نے کل عالم میں پھیلی انسانیت کے لیے اپنا پیغام پہنچانے کی غرض سے متعدد نبی مبعوث کیے۔اﷲ نے اس کی اطلاع قرآنِ مجید میں یہ ارشاد فرما کر دی،لِکُلِ اُمتہ رسول۔ایک اور جگہ ارشادِ رب العزت ہوا،لِکلِِ قوم ھاد۔چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی قوم ایسی نہیں جس میں ہدایت کی طرف رہنمائی کرنے والا ہادی،نبی و رسول نہ آیا ہو۔ان میں سے کچھ کا ذکر اﷲ کی آخری کتاب میں آیا ہے اور بہت سوں کا نہیں آیا،علامہ قرطبی کے نزدیک نبیوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار کے لگ بھگ ہے ۔ نبا، عربی میں خبر کو کہتے ہیں۔ یہ خبر کہ اس کل عالم کا ایک ہی خالق ہے،وہی اس کا فرمان روا ہے اور صرف اورصرف وہی عبادت کے لائق ہے اور یہ کہ ایک دن قیامت بپا ہو گی اور اﷲ کی عدالت قائم ہو گی۔ اُس دن ہر فرد کو اﷲ کی عدالت میں جوابدہ ہونا ہے۔
اس خبر کو پہنچانے کے لیے اﷲ کریم نے اپنے جن بندوں کو منتخب کیا،ان کو نبی کہا گیا۔اس حوالے سے ایسی تمام پاک اور منتخب شخصیات نبی ہوئے۔ انبیاء میں کچھ ایسے تھے جن کو کتابِ ہدایت عطا ہوئی تاکہ اس کتاب پر عمل کرکے انسانیت فلاح پائے۔ حاملِ کتاب نبی، اﷲ کے اولو العزم رسول کہلائے۔ان رسولوں کو بہت سخت،کٹھن اور جانگُسل حالات کا سامنا رہا۔ایسے سارے انبیاء کا اﷲ کی آخری کتاب میں ذکر موجود ہے۔یہ بھی بتا دیا گیا کہ محمدﷺرسول اﷲ کے ذریعے جو لائحہ عمل دیا گیا ہے یہ وہ دین ہے جس کو اﷲ نے رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے پسند فرمایا ہے، اس لیے یہ پیغام بھی ابدی ہے،یہ پیغمبر بھی ابدی ہے اور یہ کتاب بھی ابدی ہے۔اس وجہ سے حضوؐر کا مقام و مرتبہ تمام انبیاء میں بلند ترین ہے۔
انسان کائنات کا خلاصہ ہے۔اس کا ذکر قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔فرمان ہے، لقد خلقنا الانسان فی احسنِ تقویم۔ لقد کرمنا بنی آدم۔ انی جا عل فی الا رض، خلیفہ۔ انسان اپنے صحیح عقیدہ اور اعمالِ صالحہ کے ساتھ زمین پر اپنے خدا،اپنے آقا کا خلیفہ ہے۔ انسانوں میں سب سے اعلیٰ مرتبہ انبیاء کا ہے۔انبیاء میں سے بھی رسولوں کا درجہ بلند ہے اور اولو العزم رسولوں کا بلند تر اور ان سب میں بلند ترین خاتم النبیین کا مقام ہے۔
پیغمبر کا ادراک حقیقی علم کی بنیاد پر ان سب سے بلند تر ہوتا ہے۔اسی سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ بلند ترین پیغمبر، وہ جو خاتم النبیین ہو ، وہ جو حاملِ قرآن ہو، ا س کا مقام و مرتبہ کیا ہو گا۔ اﷲ نے اپنے آخری رسولﷺ کو اپنے آخری اور ابدی پیغام کے ساتھ انسانی تاریخ کے تاریک دورDark Agesمیں نہیں بلکہ روشنی کے دور میں جلوہ افروز کیا۔ختم المرسلین سے پہلے تمام انبیا ء کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کا زمانہ تاریخ کا تاریک دور تھا لیکن حضور کے دور کے بارے میں یہ حکم نہیں لگایا جا سکتا۔آپ کی پوری زندگی روزِ روشن کی طرح عیاں اور ایک کھلی کتاب کی طرح ہے جبکہ آپ سے پہلے انبیاء کرام کی زندگیوں کی بہت ساری تفصیلات نہیں ملتیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس جدید ترین دور میں جب کسی بھی انفارمیشن کا حصول بہت آسان بنا دیا گیا ہے،ایسے دور میں بھی کسی مصلح، ہادی، قائد یا لیڈر کی زندگی کی تفصیلات اس طرح اور اتنی معلوم نہیں جتنی حضور کی زندگی کے بارے میں ہمیں معلوم ہیں تو شاید یہ ہرگز مبالغہ نہ ہو گا۔ جنھوں نے آپ کو نہیں دیکھا اور ہم نے نہیں دیکھا لیکن ہم سب کے لیے آپ کے سراپا،آپ کے جسمِ اطہر کے خدو خال سے لیکر زندگی کے ہر زاویے اور ہر پہلو سے پوری تفصیلات محفوظ ہیں۔ شمائلِ ترمذی میں آپ کا حلیہ مبارک،آپ کے بالوں، کنگھی،موزے،تلوار، عمامہ، نعلین، نشست و برخاست اور تکیہ تک کی تفصیلات وضاحت کے ساتھ درج ہیں۔
جن لوگوں نے احادیث جمع کی ہیں انہوں نے قولِ رسول کے راویوں کے بارے میں اس قدر چھان بین کی ہے کہ بقول سپنگلر چھ لاکھ سے زائد افراد کے حالاتِ زندگی تفصیل سے جمع ہو گئے ہیں۔ جس میں ان راویوں کے ذریعہ معاش،طور اطوار،رہن سہن، سچا یا جھوٹا ہونے کے بارے میں عمومی رائے،عبادات اور شعائرِ اسلام کی پابندی کی جزیات تک موجود ہیں۔ کسی سرکاری ملازم سے روایت قبول نہیں کی جاتی تھی۔ وکیع جو امام شافعی کے استادِ محترم ہیں، ان کے والد سرکاری ملازم تھے۔وہ اپنے والد کی روایات نہیں لیتے تھے۔ اس عظیم کام کو اسماء الرجال کہا جاتا ہے۔
عام طور پر مفکروں اور مصلحین کی پرائیویٹ زندگی آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہے لیکن امہات المومنینؓ نے حضور کی اندرونِ خانہ زندگی کی پوری رپورٹ کی جس سے آپ کی خانگی زندگی بھی بہترین نمونہ کی شکل میں سامنے آگئی۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ آپ کی حیاتِ طیبہ ایک بھرپور زندگی تھی جس میں دعوت، تبلیغ،تعلیم اور تلقین کی تمام تفصیلات موجود ہیں جو پوری طرح جامع ہیں۔یہ زندگی محض واعظ اور محض مجاہد کی نہ تھی بلکہ ایک باپ،ایک بھائی، ایک رفیق ایک فریق ایک پڑوسی،ایک شوہر،ایک دوست غرضیکہ ہر پہلو سے زندگی کا ہر زاویہ سامنے لاتی ہے۔