پیپلز پارٹی کا معتدل راستہ

ایسا لگتا ہے کہ یکم جنوری کو پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے اجلاس میں کوئی بہت بڑا فیصلہ نہیں ہوپائے گا۔

tauceeph@gmail.com

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے مختلف شہروں میں جلسوں کا دور پورا کیا۔ تو صدر محترم نے ایوان صدر میں میڈیا ورکشاپ میں شرکت کرنے والے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جائے گی نہ اسمبلیاں ٹوٹیں گی۔ قومی ڈائیلاگ کا فیصلہ وزیر اعظم کریں گے۔

صدر عارف علوی نے کہا کہ آئندہ دنوں میںسیاسی تناؤکم ہوگا۔ وفاقی وزراء شبلی فراز، چوہدری فواد حسین اور فیصل واوڈا نے حکومت کے مؤقف میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ پارلیمنٹ میں موجود حزب اختلاف کے ارکان سے مذاکرات ہوسکتے ہیں مگر یہ شرط عائد کی کہ مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔

پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کی 13ویں برسی کے اجتماع میں مریم نواز نے خصوصی طور پر شرکت کی اور دو دن آصفہ بھٹو زرداری کے ساتھ گزارے ۔ اس موقعے پر مریم نواز نے زوردار تقریر کی مگر مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان قریبی رابطوں کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سیاسی حکمت عملی پر یکجہتی نظر نہیں آرہی۔

بے نظیر بھٹو کی اس برسی میں تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے اگلے سال تحریک انصاف کی حکومت کو تبدیل کرنے کا عزم کیا۔ جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے اپنے خطاب میں کہا کہ سلیکٹرز ہاتھ اٹھا لیتے ہیں تو حکومت گرجائے گی۔ مریم نواز نے فرمایا کہ سلیکٹرز پیچھے ہٹ جائیں۔

بلاول بھٹو نے 31 جنوری تک وزیر اعظم عمران خان کے استعفیٰ اور لانگ مارچ کا اعلان کیا مگر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری نے باقی رہنماؤں کے بیانیہ سے مختلف رائے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو بدلنے کا طریقہ تبدیل کرنا ہوگا۔ مشرف کو نکالا، نیازی کو نکالنے کے لیے جیلیں بھرنا ہونگی۔ میں چاہتا ہوں کہ سب جماعتیں ایک سوچ پر آئیں ، ہمیں نہ بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ یوں سیاسی تضادات کے ساتھ ملک کی معیشت بگڑتی جارہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو چین سے قرضہ لے کر دوسرے ملک کا قرضہ ادا کرنا پڑا۔

حکومت کو فوری طور پر بجلی کے نرخ میں اضافہ کرنا پڑا۔ ملک میں موسم سرما میں شدت سے بجلی اور گیس کا بحران شدید ہوگیا ہے۔ موجودہ حکومت کے وزراء گزشتہ دو برسوں سے قطر سے ایل این جی برآمد کرنے پر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر بدعنوانی کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

وفاقی وزیر شیخ رشید نے خاقان عباسی پر ایل این جی ٹرمینل کے قیام پرکمیشن کے الزامات لگاتے ہوئے ان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کی مسلسل پیشگوئی کی تھی۔ یوں شاہد خاقان عباسی 9 ماہ کے قریب نیب کی حراست میں رہے مگر پھر ہائی کورٹ نے انھیں ضمانت پر رہا کیا۔ اب ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے ایل این جی کی خریداری میں غفلت کی جس کی بناء پر گیس کا بحران پیدا ہوا۔ اب یہ اطلاعات شائع ہوئی ہیں کہ ایل این جی دستیاب نہ ہونے سے بجلی پیدا کرنے کے لیے فرنس آئل کی خریداری پر انحصارکیا گیا، یوں ملک کو 30 ارب روپے کے نقصان کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔

اب کہا جارہا ہے کہ حکومت نے تاخیر سے ایل این جی کے لیے بڈز طلب کیں، یوں اب بڈزکی منظوری کی تو آئندہ دو ماہ میں 110 ارب روپے کا نقصان ہوگا اور اگر ایل این جی درآمد نہ کی گئی تو گیس کا بحران شدید تر ہوگا۔ واپڈا اورکراچی الیکٹرک کو متبادل ایندھن کی خریداری پر 20ارب روپے خرچ کرنے ہونگے۔


معاملہ صرف بجلی، گیس اور تیل تک محدود نہیں ہے، ایندھن فراہم کرنے والے ان بنیادی محلول کی مہنگائی اور عدم دستیابی سے تمام بنیادی اشیاء مہنگی ہوجائیں گی۔ روزمرہ کے استعمال کی ان اشیاء کی قیمتیں گزشتہ دو برسوں میں بہت بڑھ گئی ہیں۔ اب حکومت کی ناقص پالیسی کی بناء پر عوام کے لیے زندگی مزید اجیرن ہوجائے گی۔ حکومت کی کارکردگی اتنی مایوس کن ہے کہ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اور اقتصادی امورکے ماہر یوسف نذر نے کہا کہ وہ پہلے سمجھتے تھے کہ سابق صدر آصف زرداری کا دور طرزِ حکومت کے اعتبار سے برا دور تھا مگر عمران خان کا دور تو سب سے زیادہ برا ہے۔

پی ڈی ایم نے اپنے آغاز سے یہ بیانیہ اختیار کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے حکومتی معاملات میں کردار کے خاتمے سے ہی حکومتیں آزادی سے اپنے فرائض انجام دے سکتی ہیں اور پولیٹیکل انجنیئرنگ کے ہتھیار کے ذریعہ انتخابی عمل کو غیر شفاف بنا دیا جاتا ہے۔ 2018 کے انتخابات اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ اس بناء پر پی ڈی ایم کی قیادت کا مؤقف تھا کہ ان کا مقابلہ اس دفعہ عمران خان سے نہیں بلکہ انھیں لانے والوں سے ہوگا۔

سیاسی منظرنامہ میں نئی تبدیلیاں رونما ہونی شروع ہوئی ہیں۔کیپٹن صفدرکی گرفتاری کے معاملہ میں آئی جی سندھ کے اغواء کے بارے میں حکومت سندھ کے وزراء پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ جاری ہوگئی۔ اس رپورٹ میں آئی جی مشتاق شاہ کے اغواء کے الزام کو غلط قرار دیا گیا ہے۔ اب پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے کراچی میں ہونے والے اجلاس کے فیصلوں کے تجزیہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی ایک دوسرا راستہ اختیارکرنے والی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ پیپلز پارٹی سینیٹ انتخابات میں حصہ لے گی۔

ان کا بیانیہ تھا کہ اسمبلیوں میں مقابلہ کیا جائے گا۔ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ اسمبلی کے استعفوں کو نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط کرنے کی خبروں کی تصدیق یا تردید نہیں کروں گا۔ وہ کہتے ہیں کہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی رائے ہے کہ حکومت کا ہر ہتھیارکے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لیں اور قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانی چاہیے۔ حکومتی وزراء اور سیاسی مبصرین کافی عرصہ سے پیپلز پارٹی کے اسمبلیوں سے استعفیٰ نہ دینے کی پیشگوئی کررہے تھے مگر اب پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے اجتماعی فیصلہ سے ثابت ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی 2018کے انتخابات کے نتیجہ میں قائم سیاسی نظام میں حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔

بقول ایک سیاسی کارکن کے پیپلز پارٹی معتدل رویہ اختیارکررہی ہے اور مستقبل کے انتخابی ڈھانچہ میں بالادستی کی خواہاں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس معتدل رویہ سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت برقرار رہے گی اور نیب کے مقدمات سے کچھ ڈھیل مل جائے گی۔ اب حکومت اور نیب کا سارا زور مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام پر ہوگا۔ وفاقی وزیر داخلہ کی طرف سے جمعیت علماء اسلام کے ایک مفتی کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور نواز شریف کے پاسپورٹ کی توثیق نہ کرنے کا فیصلہ اور مسلم لیگ ن کے رہنماخواجہ آصف کو گرفتار کرنے سے یہ مفروضے درست ثابت ہوا ہے۔

آئندہ ہفتوں میں مزید گرفتاریوں کے امکانات ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یکم جنوری کو پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے اجلاس میں کوئی بہت بڑا فیصلہ نہیں ہوپائے گا۔ معروف صحافی زاہد حسین نے پاکستان کے سیاسی منظرنامہ کا تجزیہ یوں کیا ہے کہ The extractive nature of the state institutions has stunted the growth of an inclusive democratic process. Democracy is not about power but about fundamental structural political reform.

اس پوری صورتحال کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا خواب ابھی پورا نہیں ہوگا۔
Load Next Story