کراچی کے نوجوان نے ’’چائے والا رکشا‘‘ متعارف کرادیا

رکشا ہوٹل طارق روڈ پر سوسائٹی قبرستان کے قریب شام کے وقت سجتا ہے جو رات گئے تک گاہکوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے

رکشا ہوٹل طارق روڈ پر سوسائٹی قبرستان کے قریب شام کے وقت سجتا ہے جو رات گئے تک گاہکوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے (فوٹو : ایکسپریس)

شہر قائد کے نوجوان نے روزگار کے لیے ''چائے والا رکشا'' متعارف کرادیا، یہ رکشا ہوٹل شہریوں کو رات گئے تک چائے سے لطف اندوز کراتا ہے۔

کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران نے روایتی کاروبار کو نقصان پہنچایا وہیں کاروبار کے نئے طریقوں کو بھی فروغ مل رہا ہے، آن لائن خریداری اور اشیاء کی ہوم ڈیلیوری کے ساتھ اب چلتی پھرتی دکانوں کا رجحان بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور شہرکے اکثر بڑے تجارتی مراکز اور مصروف چوراہوں پر چلتی پھرتی دکانیں (موبائل شاپس) نظر آرہی ہیں۔

کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوان ان چلتی پھرتی دکانوں کے ذریعے کاروبار کی جانب راغب ہورہے ہیں اور اپنا روزگار کمانے کے ساتھ دیگر افراد کے روزگار کا بھی ذریعہ بن رہے ہیں۔ شہر قائد کے ایسے ہی ٰایک نوجوان عبدالغنی نے چائے والا رکشا متعارف کرادیا شہریوں کی بڑی تعداد سرد راتوں میں اس منفرد ہوٹل اور خوش ذائقہ چائے سے لطف اندوز ہورہی ہے۔



عبدالغنی پرنٹنگ اور آؤٹ ڈور ایڈور ٹائزنگ کے کاروبار سے وابستہ تھے جو لاک ڈاؤن میں بری طرح متاثر ہوا اور اب بھی یہ شعبہ پوری طرح بحران سے باہر نہیں آسکا۔ عبدالغنی نے کاروباری نقصان کے بعد رکشا میں ہوٹل کھولنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے ایک رکشا کو خوبصورتی سے آراستہ کیا۔ یہ رکشا رات کے وقت برقی قمقموں سے چمک رہا ہوتا ہے جس کی چمک دھمک شہریوں کواپنی جانب راغب کرتی ہے۔


رکشا ہوٹل پر گرما گرم چائے تیار کی جاتی ہے اور ہلکے پھلکے کھانے پینے کے آئٹمز بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ عبدالغنی کے مطابق شہریوں کی جانب سے رکشا ہوٹل کا بھرپور رسپانس ملا اور جلد ہی اس رکشا پر پانچ سے چھ افراد کا روزگار جڑگیا۔



رکشا ہوٹل طارق روڈ پر سوسائٹی قبرستان کے قریب شام کے وقت سجایا جاتا ہے جو رات گئے تک گاہکوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ موسم سرد ہونے کی وجہ سے رات کے وقت لکڑیاں جلا کر آگ کا الاؤ بھی روشن کیا جاتا ہے جہاں گاہک گرما گرم چائے اور حرارت پہنچانے والے الاؤ سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

عبدالغنی کے مطابق تعلیم یافتہ نوجوان کوئی بھی کام زیادہ بہتر انداز میں کرسکتے ہیں اس لیے کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کسی بھی کاروبار سے ہر گز نہیں کترانا چاہیے اور چھوٹے پیمانے سے اپنے کاروبار کا آغاز کرنا چاہیے۔

نوجوان نے بتایا کہ کاروبار انہوں نے اپنے وسائل سے شروع کیا اور کسی بھی قسم کا قرض نہیں لیا البتہ نیا کاروبا رشروع کرنے والے وسائل سے محروم نوجوانوں کو اگر بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں تو بڑی تعداد میں نوجوان خود اپنا روزگار کمانے کے ساتھ دیگر نوجوانوں کے لیے بھی روزگار کا ذریعہ بن سکیں گے۔

عبدالغنی نے سندھ حکومت اور شہری انتظامیہ پر زور دیا کہ چلتی پھرتی دکانوں کو ریگولرائز کرنے کے لیے طریقہ کار وضع کریں تاکہ نوجوان ون ونڈ و کی سہولت کے ذریعے اپنا چھوٹا کاروبار رجسٹرڈ کراسکیں اور انہیں مختلف ضلعی، شہری اور صوبائی محکموں کی جانب سے پیدا کی جانے والی رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
Load Next Story