بیٹنگ پلان فلاپ ٹاپ آرڈر ناکام کیچز ڈراپ
پاکستان ٹیم کے دورہ نیوزی لینڈ میں کئی کمزوریاں آشکار
کسی دور میں نیوزی لینڈ کا شمار کمزور حریفوں میں کیا جاتا تھا، دنیا کی بڑی ٹیموں کی طرح کیویز کے خلاف پاکستان کی کارکردگی کا گراف بھی بلند رہا لیکن یہ سب ماضی کا قصہ بن چکا۔
نیوزی لینڈ نے مختلف کنڈیشنز میں اپنی کرکٹ پاور کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا لوہا منوایا ہے، خاص طور پر ہوم گراؤنڈز پر تو کیویز کسی ٹیم کو خاطر میں نہیں لاتے، دوسری جانب پاکستان ٹیم کی تینوں فارمیٹ میں کارکردگی زوال آمادہ رہی ہے،اوسط درجے کے کئی کرکٹرز سکواڈ میں شامل اور ڈراپ ہوتے رہے لیکن سٹار کھلاڑیوں کی تلاش ختم نہ ہوئی۔
گزشتہ چند سال میں صرف بابر اعظم ایک ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے ٹاپ بیٹسمینوں کی فہرست میں جگہ بنائی اور برقرار بھی رکھی، محمد حفیظ40 سال کی عمر میں بھی کمزور بیٹنگ کا سہارا بنے ہوئے ہیں لیکن انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ کو خیربادکہہ دیا تھا، دیگر بیٹسمینوں میں سے کئی تجرباتی دور سے گزر چکے یا ابھی ان مراحل میں ہیں،کئی نوجوان کرکٹرز میں سے دوسرا بابراعظم تلاش کیا جا رہا ہے۔
بولنگ میں صرف شاہین شاہ آفریدی کی کارکردگی میں اتنا تسلسل ہے کہ ان کو مستقبل کے سٹار بولرز میں شمار کیا جا سکے لیکن خدشہ یہ ہے کہ تینوں فارمیٹ میں مسلسل کھیلنے کی وجہ سے ان کی ہمت جواب نہ دے جائے، دیگر نوجوان بولرز کو فٹنس میں بہتری اور کارکردگی میں تسلسل لانے کا چیلنج درپیش ہے۔
عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ پی سی بی اپنے ہر فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لیے مستقبل کی پلاننگ کا دعوی کرتا ہے، لمبی ریس کے گھوڑے تلاش کرنے کے عمل میں حاصل ہونے والی ناکامیوں پر شائقین کو صبر سے کام لینے کا کہا جاتا ہے، کوئی بڑی سیریز آتی ہے تو ٹیم پلان اور کمبی نیشن دونوں ہی واضح نہیں ہوتے،نئے تجربات کرنا پڑتے ہیں جس کا خمیازہ شکستوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
دورہ نیوزی لینڈ کیلئے پاکستان نے بھاری بھرکم دستے کا انتخاب ضروری کیا مگر کیوی کنڈیشنز میں بہتر کارکردگی کے لیے درکار مہارت اور تجربہ دونوں کی کمی تھی،رہی سہی کسر 14 روزہ قرنطینہ میں سخت پابندیوں نے پوری کردی، قید تنہائی سے نکلنے کے بعد بابر اعظم کی انجری نے کمزور بیٹنگ کی کمر مزید ٹیڑھی کردی۔
ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بیٹسمینوں کی ناتجربہ کاری کھل کر سامنے آئی، پیس اور باؤنس کے سامنے اپنا نیچرل کھیل بھول جانے والے نوجوان ٹیلنٹ کا اعتماد متزلزل ہوا، بولرز بھی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے، پہلے میچ میں شاداب خان، دوسرے میں محمد حفیظ اور تیسرے میں محمد رضوان کی بیٹنگ مثبت پہلو تھے مگر رواں سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پلان میں شامل سمجھے جانے والے نوجوان کرکٹرز کی ناکامی کئی سوالیہ نشان چھوڑ گئی۔
سب سے تجربہ کار بولر وہاب ریاض کی پٹائی نے بھی پاکستان کی مہم کمزور بنائی، اس کارکردگی کے بعد سینئر پیسر کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی بھی ضرورت پڑ گئی ہے، سیمنگ کنڈیشنز میں فہیم اشرف ایک بہتر بولر کی صورت میں سامنے آئے، ہو سکتا ہے کہ ایشیائی ملکوں میں ان کی کارکردگی کا معیار برقرار نہ رہے، بہرحال انہوں نے اپنی بولنگ اور فٹنس پر کام کیا ہے جس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں، دیگر بولرز کو ابھی بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مانگونئی ٹیسٹ میں قومی ٹیم سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی گئی تھیں،دورہ انگلینڈ کی طرح اس بار بھی گرین کیپس نے اگر کسی کے ایک سیشن میں اچھی کارکردگی دکھائی تو اگلے مواقع ضائع کر دیے،شاہین شاہ آفریدی نے ابتدا میں وکٹیں جلد حاصل کیں تو دیگر بولرز نے ساتھ نہ دیا، رہی سہی کسر ڈراپ کیچز نے پوری کر دی۔
پہلی اننگز میں کین ولیمسن جیسے ٹاپ بیٹسمین کو مواقع دینے کی وجہ سے میزبان ٹیم نے رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا، میچ جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے لیکن بہتر بیٹنگ سے خسارہ کم کرکے ڈرا کی امید پیدا کی جاسکتی تھی، ٹاپ آرڈر اتنی بری طرح لڑکھڑائی کہ سنبھلنے کی نوبت نہیں آئی، مشکل ترین صورتحال میں فہیم اشرف اور محمد رضوان جراتمندانہ اننگز نہ کھیلتے تو صورتحال تباہ کن ہوتی۔
کیویز نے پاکستانی بیٹنگ کی قوت کا اندازہ کرتے ہوئے اننگز ڈیکلیئر کرنے میں زیادہ تاخیر نہیں کی، پچ ایشیائی کنڈیشنز جیسی ہو جانے کے باوجود مہمان ٹیم کی ٹاپ آرڈر ایک بار پھر بری طرح فلاپ ہوئی، فواد عالم اور محمد رضوان نے غیر معمولی مزاحمت کرتے ہوئے کیویز کے تابڑ توڑ حملوں کو بڑی دیر تک ٹالے رکھا لیکن دونوں کی رخصتی کے بعد ٹیل اینڈرز کی ہمت بالآخر جواب دے ہی گئی،آخری جوڑی کو مزید 27 گیندیں کھیلنا تھیں کہ نسیم شاہ وکٹ گنوا بیٹھے۔
ٹاپ اور مڈل آرڈر بیٹسمینوں میں سے کسی ایک نے بھی ذمہ دارانہ بیٹنگ کرتے ہوئے ففٹی بنائی ہوتی تو پاکستان شکست سے بچ سکتا تھا، ماضی میں اکثر دیکھا جاتا تھا کہ مشکل صورتحال میں قومی ٹیم اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے حریفوں کے منصوبے ملیامیٹ کرنے میں کامیاب ہوجاتی، گذشتہ چند برس میں بیشتر ایسے مواقع پر ہمت ہار جانے کی وجہ سے ناکامیاں دیکھنے کو ملی ہیں،اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی نرسریوں سے ایسا نیا ٹیلنٹ سامنے نہیں آیا جو جدید عالمی کرکٹ کے معیار پر پورا اتر سکے۔
مثال کے طور ٹیسٹ کرکٹ میں یونس خان اور مصباح الحق کی ریٹائر منٹ کے بعد اظہر علی اور اسد شفیق سینئر کا بوجھ اٹھاسکے، نہ ہی کوئی ایسے متبادل سامنے آئے جن کی مدد سے متوازن بیٹنگ لائن تشکیل دی جاسکے،اظہر علی اور اسد شفیق دوسروں کیلئے مثال بنتے تو شاید نئے ٹیلنٹ کو بھی تھوڑا حوصلہ ملتا،اگر کرکٹرز کی بڑی کھیپ میسر ہوتی تو10سال سے زائد کے طویل وقفہ کے بعد فواد عالم کو دوبارہ شامل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
نیا ڈومیسٹک سٹرکچر متعارف کرواتے ہوئے دعوے تو بہت کئے گئے تھے کہ 6 ایسوسی ایشنز کے مقابلوں میں کرکٹ کم لیکن معیاری ہوگی،دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ سرگرمیاں محدود ہونے سے نیا ٹیلنٹ سامنے آنے کے مواقع بھی کم ہوئے ہیں، ایسوسی ایشنز کی ٹیموں میں بھی بیشتر وہی کرکٹرز شامل ہیں جو ایک عرصہ سے ڈومیسٹک کرکٹ میں مواقع تلاش کرتے کرتے بڑھاپے کی جانب گامزن ہوگئے ہیں، ٹیمیں کم ہونے کی وجہ سے کئی نوجوان کرکٹرز ڈومیسٹک سسٹم کا حصہ نہیں بن پارہے، اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر کرکٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
کلبز کا نظام نئے ڈومیسٹک سٹرکچر کی وجہ سے نہیں چل پارہا، اس صورتحال میں نئے کرکٹرز کی کھیپ میسر آنے کے امکانات کم ہوئے ہیں،ہائی پرفارمنس سنٹر کے تحت بڑے شہروں میں معیاری اکیڈمیز کا قیام اچھی بات ہے لیکن یہاں تک پہنچنے سے قبل راہوں میں ہی گم ہوجانے والے کھلاڑیوں کو تو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جڑیں مضبوط نہیں ہوں گی تو تناور درخت کبھی نہیں بن پائے گا، بیرون ملک بڑی ٹیموں کیخلاف فتوحات سمیٹنے کیلئے سسٹم کو کاغذوں پر نہیں بلکہ میدانوں میں فعال بنانا ہوگا۔
کرائسٹ چرچ میں شروع ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی پاکستان ٹیم کا سخت امتحان ہوگا، ہیگلے اوول سٹیڈیم کی پچ نیوزی لینڈ میں سب سے تیز اور پیسرز کیلئے انتہائی سازگار سمجھی جاتی ہے،دونوں ٹیموں کے پاس اچھے پیسرز موجود ہیں لیکن مہمان بولنگ لائن میں تجربے کی کمی ہے،تجربہ کار سپنر کا اس پچ پر کامیاب ہونے کا زیادہ امکان نہیں۔
اس صورتحال میں ٹاپ آرڈر پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی کہ کم ازکم اتنا ٹوٹل ضرور کریں کہ بولرز کیلئے فائٹ کرنے کا موقع ہوگا، ماؤنٹ مانگونئی ٹیسٹ میں شکست کی بڑی وجہ پاکستان کی ناقص فیلڈنگ تھی، سیریز برابر کرنے یا کم ازکم کلین سوئپ کی خفت سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ فیلڈرز اپنی غلطیوں سے بولرز کی حوصلہ شکنی کا سبب نہ بنیں۔
نیوزی لینڈ نے مختلف کنڈیشنز میں اپنی کرکٹ پاور کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا لوہا منوایا ہے، خاص طور پر ہوم گراؤنڈز پر تو کیویز کسی ٹیم کو خاطر میں نہیں لاتے، دوسری جانب پاکستان ٹیم کی تینوں فارمیٹ میں کارکردگی زوال آمادہ رہی ہے،اوسط درجے کے کئی کرکٹرز سکواڈ میں شامل اور ڈراپ ہوتے رہے لیکن سٹار کھلاڑیوں کی تلاش ختم نہ ہوئی۔
گزشتہ چند سال میں صرف بابر اعظم ایک ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے ٹاپ بیٹسمینوں کی فہرست میں جگہ بنائی اور برقرار بھی رکھی، محمد حفیظ40 سال کی عمر میں بھی کمزور بیٹنگ کا سہارا بنے ہوئے ہیں لیکن انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ کو خیربادکہہ دیا تھا، دیگر بیٹسمینوں میں سے کئی تجرباتی دور سے گزر چکے یا ابھی ان مراحل میں ہیں،کئی نوجوان کرکٹرز میں سے دوسرا بابراعظم تلاش کیا جا رہا ہے۔
بولنگ میں صرف شاہین شاہ آفریدی کی کارکردگی میں اتنا تسلسل ہے کہ ان کو مستقبل کے سٹار بولرز میں شمار کیا جا سکے لیکن خدشہ یہ ہے کہ تینوں فارمیٹ میں مسلسل کھیلنے کی وجہ سے ان کی ہمت جواب نہ دے جائے، دیگر نوجوان بولرز کو فٹنس میں بہتری اور کارکردگی میں تسلسل لانے کا چیلنج درپیش ہے۔
عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ پی سی بی اپنے ہر فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لیے مستقبل کی پلاننگ کا دعوی کرتا ہے، لمبی ریس کے گھوڑے تلاش کرنے کے عمل میں حاصل ہونے والی ناکامیوں پر شائقین کو صبر سے کام لینے کا کہا جاتا ہے، کوئی بڑی سیریز آتی ہے تو ٹیم پلان اور کمبی نیشن دونوں ہی واضح نہیں ہوتے،نئے تجربات کرنا پڑتے ہیں جس کا خمیازہ شکستوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
دورہ نیوزی لینڈ کیلئے پاکستان نے بھاری بھرکم دستے کا انتخاب ضروری کیا مگر کیوی کنڈیشنز میں بہتر کارکردگی کے لیے درکار مہارت اور تجربہ دونوں کی کمی تھی،رہی سہی کسر 14 روزہ قرنطینہ میں سخت پابندیوں نے پوری کردی، قید تنہائی سے نکلنے کے بعد بابر اعظم کی انجری نے کمزور بیٹنگ کی کمر مزید ٹیڑھی کردی۔
ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بیٹسمینوں کی ناتجربہ کاری کھل کر سامنے آئی، پیس اور باؤنس کے سامنے اپنا نیچرل کھیل بھول جانے والے نوجوان ٹیلنٹ کا اعتماد متزلزل ہوا، بولرز بھی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے، پہلے میچ میں شاداب خان، دوسرے میں محمد حفیظ اور تیسرے میں محمد رضوان کی بیٹنگ مثبت پہلو تھے مگر رواں سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پلان میں شامل سمجھے جانے والے نوجوان کرکٹرز کی ناکامی کئی سوالیہ نشان چھوڑ گئی۔
سب سے تجربہ کار بولر وہاب ریاض کی پٹائی نے بھی پاکستان کی مہم کمزور بنائی، اس کارکردگی کے بعد سینئر پیسر کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی بھی ضرورت پڑ گئی ہے، سیمنگ کنڈیشنز میں فہیم اشرف ایک بہتر بولر کی صورت میں سامنے آئے، ہو سکتا ہے کہ ایشیائی ملکوں میں ان کی کارکردگی کا معیار برقرار نہ رہے، بہرحال انہوں نے اپنی بولنگ اور فٹنس پر کام کیا ہے جس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں، دیگر بولرز کو ابھی بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مانگونئی ٹیسٹ میں قومی ٹیم سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی گئی تھیں،دورہ انگلینڈ کی طرح اس بار بھی گرین کیپس نے اگر کسی کے ایک سیشن میں اچھی کارکردگی دکھائی تو اگلے مواقع ضائع کر دیے،شاہین شاہ آفریدی نے ابتدا میں وکٹیں جلد حاصل کیں تو دیگر بولرز نے ساتھ نہ دیا، رہی سہی کسر ڈراپ کیچز نے پوری کر دی۔
پہلی اننگز میں کین ولیمسن جیسے ٹاپ بیٹسمین کو مواقع دینے کی وجہ سے میزبان ٹیم نے رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا، میچ جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے لیکن بہتر بیٹنگ سے خسارہ کم کرکے ڈرا کی امید پیدا کی جاسکتی تھی، ٹاپ آرڈر اتنی بری طرح لڑکھڑائی کہ سنبھلنے کی نوبت نہیں آئی، مشکل ترین صورتحال میں فہیم اشرف اور محمد رضوان جراتمندانہ اننگز نہ کھیلتے تو صورتحال تباہ کن ہوتی۔
کیویز نے پاکستانی بیٹنگ کی قوت کا اندازہ کرتے ہوئے اننگز ڈیکلیئر کرنے میں زیادہ تاخیر نہیں کی، پچ ایشیائی کنڈیشنز جیسی ہو جانے کے باوجود مہمان ٹیم کی ٹاپ آرڈر ایک بار پھر بری طرح فلاپ ہوئی، فواد عالم اور محمد رضوان نے غیر معمولی مزاحمت کرتے ہوئے کیویز کے تابڑ توڑ حملوں کو بڑی دیر تک ٹالے رکھا لیکن دونوں کی رخصتی کے بعد ٹیل اینڈرز کی ہمت بالآخر جواب دے ہی گئی،آخری جوڑی کو مزید 27 گیندیں کھیلنا تھیں کہ نسیم شاہ وکٹ گنوا بیٹھے۔
ٹاپ اور مڈل آرڈر بیٹسمینوں میں سے کسی ایک نے بھی ذمہ دارانہ بیٹنگ کرتے ہوئے ففٹی بنائی ہوتی تو پاکستان شکست سے بچ سکتا تھا، ماضی میں اکثر دیکھا جاتا تھا کہ مشکل صورتحال میں قومی ٹیم اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے حریفوں کے منصوبے ملیامیٹ کرنے میں کامیاب ہوجاتی، گذشتہ چند برس میں بیشتر ایسے مواقع پر ہمت ہار جانے کی وجہ سے ناکامیاں دیکھنے کو ملی ہیں،اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی نرسریوں سے ایسا نیا ٹیلنٹ سامنے نہیں آیا جو جدید عالمی کرکٹ کے معیار پر پورا اتر سکے۔
مثال کے طور ٹیسٹ کرکٹ میں یونس خان اور مصباح الحق کی ریٹائر منٹ کے بعد اظہر علی اور اسد شفیق سینئر کا بوجھ اٹھاسکے، نہ ہی کوئی ایسے متبادل سامنے آئے جن کی مدد سے متوازن بیٹنگ لائن تشکیل دی جاسکے،اظہر علی اور اسد شفیق دوسروں کیلئے مثال بنتے تو شاید نئے ٹیلنٹ کو بھی تھوڑا حوصلہ ملتا،اگر کرکٹرز کی بڑی کھیپ میسر ہوتی تو10سال سے زائد کے طویل وقفہ کے بعد فواد عالم کو دوبارہ شامل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
نیا ڈومیسٹک سٹرکچر متعارف کرواتے ہوئے دعوے تو بہت کئے گئے تھے کہ 6 ایسوسی ایشنز کے مقابلوں میں کرکٹ کم لیکن معیاری ہوگی،دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ سرگرمیاں محدود ہونے سے نیا ٹیلنٹ سامنے آنے کے مواقع بھی کم ہوئے ہیں، ایسوسی ایشنز کی ٹیموں میں بھی بیشتر وہی کرکٹرز شامل ہیں جو ایک عرصہ سے ڈومیسٹک کرکٹ میں مواقع تلاش کرتے کرتے بڑھاپے کی جانب گامزن ہوگئے ہیں، ٹیمیں کم ہونے کی وجہ سے کئی نوجوان کرکٹرز ڈومیسٹک سسٹم کا حصہ نہیں بن پارہے، اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر کرکٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
کلبز کا نظام نئے ڈومیسٹک سٹرکچر کی وجہ سے نہیں چل پارہا، اس صورتحال میں نئے کرکٹرز کی کھیپ میسر آنے کے امکانات کم ہوئے ہیں،ہائی پرفارمنس سنٹر کے تحت بڑے شہروں میں معیاری اکیڈمیز کا قیام اچھی بات ہے لیکن یہاں تک پہنچنے سے قبل راہوں میں ہی گم ہوجانے والے کھلاڑیوں کو تو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جڑیں مضبوط نہیں ہوں گی تو تناور درخت کبھی نہیں بن پائے گا، بیرون ملک بڑی ٹیموں کیخلاف فتوحات سمیٹنے کیلئے سسٹم کو کاغذوں پر نہیں بلکہ میدانوں میں فعال بنانا ہوگا۔
کرائسٹ چرچ میں شروع ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی پاکستان ٹیم کا سخت امتحان ہوگا، ہیگلے اوول سٹیڈیم کی پچ نیوزی لینڈ میں سب سے تیز اور پیسرز کیلئے انتہائی سازگار سمجھی جاتی ہے،دونوں ٹیموں کے پاس اچھے پیسرز موجود ہیں لیکن مہمان بولنگ لائن میں تجربے کی کمی ہے،تجربہ کار سپنر کا اس پچ پر کامیاب ہونے کا زیادہ امکان نہیں۔
اس صورتحال میں ٹاپ آرڈر پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی کہ کم ازکم اتنا ٹوٹل ضرور کریں کہ بولرز کیلئے فائٹ کرنے کا موقع ہوگا، ماؤنٹ مانگونئی ٹیسٹ میں شکست کی بڑی وجہ پاکستان کی ناقص فیلڈنگ تھی، سیریز برابر کرنے یا کم ازکم کلین سوئپ کی خفت سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ فیلڈرز اپنی غلطیوں سے بولرز کی حوصلہ شکنی کا سبب نہ بنیں۔