پرانی آنکھیں… نئے خواب

یہ 2021کی دنیا کی تصویر کا وہ رخ ہے جس کا بہرطور ہم سب کو مل کر سامنا کرنا ہے مگر اس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔


Amjad Islam Amjad January 03, 2021
[email protected]

یوں تو ہر سال ہی نئے سال کے آغاز پر مختلف انداز میں خوشیاں منائی جاتی ہیں اور لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد کے پیغام بھیجتے ہیں لیکن جدید تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقع ہے جس میں یہ دعا بھی کی جا رہی ہے کہ خدا کرے، یہ اگلا سال پچھلے سال جیسا نہ ہو۔

ممکن ہے اس طرح کی دعائیں انفرادی طور پر یا کسی ایک گروہ یا قوم نے اس سے پہلے بھی مانگی ہوں مگر ساری کی ساری خلق خدا اور دنیا کے نقشے پر موجود ہر ملک اس پر آمین کہے۔ یہ کمال صرف ایک ننگی آنکھ سے دکھائی نہ دے سکنے والے کرونا نامی وائرس کا ہے کہ جس نے سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔

اس ایک برس میں اس کی پھیلائی ہوئی تباہ کاریوں سے بھی زیادہ اس کی دہشت نے کاروبارِ زندگی کو کچھ اس طرح سے مفلوج کر کے رکھ دیا ہے کہ اب اگر اس کی ویکسین اس زمین پر موجود ہر انسان تک پہنچ بھی گئی تب بھی وہ اس طرح کی زندگی کبھی نہیں گزار سکے گا جو وہ اس سے پہلے گزار رہا تھا۔ اس اٹل تبدیلی سے تو انکار ممکن نہیں مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس کا اثر انسانوں کی سوچ، معیارِ زندگی اور باہمی تعلقات پر کیا اور کیسا ہو گا۔

ہوٹل انڈسٹری، فضائی سفر کے متعلقات اور دفتری طریقہ کار ہائے کے آداب کے ساتھ ساتھ جو بہت سی انڈسٹریز اس کی زد میں آئی ہیں ان کا دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکنا ایک سوالیہ نشان کی صورت اختیار کر گیا ہے اور یہی نشان ان کروڑوں لوگوں کے مستقبل پر بھی ثبت ہو گیا ہے جو ان شعبوں سے متعلق تھے۔ دنیا بھر کے علوم وفنون، تہذیب، تعلیم اور معیشت کے مراکز اور تصورات بھی بدلیں گے اور یوں وہ پرانی آنکھیں جو نئے سال کے آغاز پر نئے خواب دیکھنے کی عادی تھیں، اب ایسے ایسے مناظر دیکھنے پر مجبور ہوں گی جو کل تک کسی کے گمان میں بھی نہ تھے۔

ایسا کیوں ہوا؟ اس پر تو اہل خرد، مذہب اور سائنس دونوں حوالوں سے نئی سے نئی تاویلات پیش کرتے ہی رہیں گے مگر اس سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ نسل آدم نے اجتماعی طور پر اس سے کیا سیکھا ہے؟ یعنی فرض کریں کہ ویکسین اور دعا دونوں کامیاب ہو جاتے ہیں اور یہ بلا ہمارے سر پر اپنی موجودہ شکل میں ٹل جاتی ہے تو کیا ہم اسے بھی سیلابوں، زلزلوں، وباؤں اور عظیم جنگوں کی طرح تاریخ کا ایک واقعہ سمجھ کر یا تو بالکل بھول جائیں گے یا اس کو تاریخ کے صفحات میں ہی حوالے کے طور پر درج کر کے اپنے فرض کی بجاآوری سے فارغ ہو جائیں گے... میرے خیال میں اس بار ایسا کرنا بہت مشکل ہو گا کیونکہ نہ صرف اس کا بھوت ہمارے ہمراہ رہے گا بلکہ عملی طور پر بھی اسے ہم اپنی روزمرہ زندگی میں قدم قدم پر موجود پائیں گے۔

آنے والی نسلوں کو پہلے تو صرف ''مصنوعی دانش'' کی ترقی کے اس پہلو کا سامنا تھا کہ وہ یا تو روبوٹ کو انسان کی جگہ دے دے گی یا پھر انسانوں کو ہی روبوٹ کی شکل میں ڈھال کر ا ن کی ایک بہت بڑی تعداد کو ''فالتو'' قرار دے دے گی جو اپنی جگہ پر ایک انتہائی خوفناک مسئلہ ہے مگر اس بعدازکرونا زندگی کی جو تصویر بن رہی ہے وہ ایک اعتبار سے اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہے کہ گھروں میں بیٹھ کر کمپیوٹر اور موبائل فون کے ذریعے دفتری کاموں کو نمٹا سکنے کی یہ صلاحیت آگے چل کر معاشروں کی اس بنیاد کو ہی تہس نہس کر دے گی جس پر انھوں نے اپنے نظام حیات کو استوار کر رکھا ہے۔

تمام شعبہ ہائے حیات جو ترقی یعنی Progress کے موڈ میں تھے، Survival یعنی بقاء کی کیفیت میں مبتلا ہو جائیں گے اور یوں تمام عالم انسانیت بالعموم اور کثیرآبادیوں والی تیسری دنیا بالخصوص گوناگوں مسائل کا شکار ہوتی چلی جائے گی۔

یہ 2021کی دنیا کی تصویر کا وہ رخ ہے جس کا بہرطور ہم سب کو مل کر سامنا کرنا ہے مگر اس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے اور وہ یہ کہ ہم سب مل کر تعصب، تکبر، خبط عظمت، ذاتی مفادات اور اختلافات کو زور سے No کہنا سیکھ لیں اور جس طرح کرونا نے ہم سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ہے، اسی طرح ہم ایک دوسرے کو جینے کا برابر حق اور اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ کے مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے یک دل اور یک جان ہو جائیں تو عین ممکن ہے یہ نیا سال ان خدشوں سے محفوظ اور ان خوابوں کی تعبیروں سے روشن اور منور ہو جائے جن سے ہم سب کا مستقبل وابستہ ہے۔ چند برس پہلے کے ایک نئے سال کی استقبالیہ نظم بھی اس زنجیر کی ایک کڑی ہے۔ سو، آیئے اس کے ساتھ کچھ وقت گزارتے ہیں:

چلو کچھ آج حسابِ زیانِ جان کریں

الم شمار کریں... درد آشکار کریں

گلے جو دل کی تہوں میں ہیں آبلوں کی طرح

انھیں بھی آج شناسائے نوکِ خار کریں

جو بے وفا ہو اسے بے وفا کہیں کھل کر

حدیث چشم و لب سوختہ کہیں کھل کر

کہاں تلک یہ تکلم زمانہ سازی کے

پس کلام ہے جو کچھ ذرا کہیں کھل کر

خنک خنک سی ہنسی ہنس کے مل رہے ہو کیوں

لہو ہے سرد تو آنکھیں بھی منجمد کر لو

جو دل میں دفن ہے چہروں پہ اشتہار کریں

الم شمار کریں... درد آشکار کریں

تمہارا میرا تعلق بس ایک لفظ کا ہے

لغت کے انت میں سمٹا ہوا فقط اِک لفظ

اس ایک لفظ میں مسیحائی ہے زمانوں کی

چلو کہ آج یہی لفظ اختیار کریں

تمام عمر پڑی ہے منافقت کے لیے

اس ایک لفظ کا دامن نہ داغدار کریں

الم شمار کریں... درد آشکار کریں

چلو کچھ آج حسابِ زیانِ جان کریں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں