ملک کا سیاسی منظرنامہ

مولانا فضل الرحمن کے خاندان کے تمام ارکان تو الیکشن جیت گئے لیکن فضل الرحمن صاحب ہارگئے


راؤ منظر حیات January 04, 2021
[email protected]

KABUL: 1985 کا الیکشن ملک کے حوالے سے حد درجہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ 28 فروری کو منعقد ہوئے، یہ چناؤ غیرجماعتی بنیادوں پر ہوئے۔ ضیاء الحق کی نگرانی میں ہونے والے ان انتخابات کو شفاف قرار دینا مشکل ہے۔ پیپلزپارٹی نے MRD کے پلیٹ فارم سے اس کی بھرپور مخالفت کی۔

اس الیکشن کے نتائج نے پاکستان خصوصاً پنجاب کی سیاسی ترکیب ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دی۔ ان انتخابات نے ملک میں ایک ایسی سیاسی کلاس کو جنم دیا جس کا کوئی سیاسی نظریہ یا اصول نہ تھا۔ نظریاتی سیاست کی جگہ مذہبی انتہاپسندی، برادری ازم اور دولت کی نمائش نے لے لی۔ طالب علم کی دانست میں آج ملک جن مسائل کا شکار ہے۔

اس کی بنیادیں اسی الیکشن میں رکھی گئی تھیں۔ کئی افراد اور گھرانے سیاسی جدوجہدکے بغیر ایوانِ اقتدار تک پہنچ گئے۔ میرٹ کہیں گم ہو گیا، اقرباپروری اور کرپشن سیاسی نظریہ بن گئی ۔ ضیاالحق دور میں ہونے والے اس الیکشن نے ملک کو اتنا نقصان پہنچایا جس کا تدارک آج تک نہیں ہو سکا۔ پنجاب میں نظریاتی سیاسی سوچ کو ختم کرنے کا کام سرانجام دیا گیا۔ مرکز میں بھی یہ کام، ضیاء الحق کی زیرنگرانی جاری رہا۔ اس دن سے لے کر آج تک ہم ایک ایسے سیاسی راستے پر پیدل چل رہے ہیں جس کی کوئی منزل ہے اور نہ ہی کوئی رہبر۔

پیپلزپارٹی نے1985کے الیکشن کا بائیکاٹ کر کے بہت کچھ گنوا دیا۔ چنانچہ اس دن سے لے کر آج تک اس پارٹی نے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کا کبھی بھی فیصلہ نہیں کیا۔ لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی میں پی ڈی ایم کی قیادت اور موجودہ حکومت کے متعلق گزارشات کرتا ہوں۔ پی ڈی ایم بھی کوئی نظریاتی اتحاد نہیں ہے۔

لفظوں اور اشاروں میں نکتہ چینی کرنے سے یہ اپنی کمزوری سب کے سامنے عیاں کر دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی چاہتے یا نہ چاہتے اس مزاحمتی تحریک کا حصہ ہے۔ سندھ پر عرصہ درازسے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، وہ کس طرح یہ کہہ سکتی ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہے۔ اگر 2018 کا الیکشن دھاندلی شدہ تھا، تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کیسے قائم ہو گئی۔

یہ کیسے مان لیا جائے کہ الیکشن کا سندھ میں نتیجہ بالکل درست ہے اور مرکز میں پہنچنے والی حکومت دھاندلی زدہ ہے۔ یہی وہ جوہری نکتہ ہے جو پیپلز پارٹی کے لیے بہت زیادہ عزت افزائی کا باعث نہیں بن رہا۔ بہرحال یہ سیاست ہے جس کا سب سے بڑا اُصول ہے ہی یہی، کہ اس کا کوئی اُصول نہیں۔ ہر فریق اپنے اپنے داؤ پر ہے۔

2008سے لے کر 2018تک، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سیاست کے میدان کے کھلاڑی ہیں۔ ان کے مقابل کوئی تیسری سیاسی قوت موجود نہیں تھی۔ شاید ان دونوں سیاسی جماعتوں کو یقین ہی نہیں تھا کہ ان کے سامنے تیسری سیاسی قوت ابھرے گی۔ آج یہ دونوں سیاسی جماعتیں اسی مخمصے سے دوچار ہیں کہ ان کے مقابل تیسری قوت کیسے اقتدار میں آگئی۔ انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن نے موجودہ حکومت کے ہر اقدام کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔

مولانا فضل الرحمن کے خاندان کے تمام ارکان تو الیکشن جیت گئے لیکن فضل الرحمن صاحب ہارگئے۔ اب پھر وہی سوال کہ یہ کیسے مان لیا جائے کہ الیکشن دھاندلی زدہ تھے، اگر ایسا تھا تو ان کا صاحبزادہ کیسے جیت گیا۔ اے این پی بھی میدان سیاست سے باہر ہے۔ لہٰذا اس کے جذبات بھی تلخ ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک موجود ہے۔ پارٹی صدر شہباز شریف مالی الزامات پر قید میں ہے۔ شہباز شریف بخوبی جانتے ہیں کہ مسلم ن کی سیاست کا مستقبل صرف اورصرف مفاہمتی سیاست میں ہے۔ لہٰذا وہ مفاہمت پر زور دے رہے ہیں۔

ویسے بھی پاکستان میں سیاست ذاتی مفادات کا کھیل بن چکی ہے اور سب اپنے اپنے مفادات کو بچانے کی سیاست کر رہے ہیں۔ اس پر مزید کیا کہا جائے۔ ن لیگ کے قائد علاج کے لیے جب لندن گئے تو انھیں یقین تھاکہ ان کی صاحبزادی بھی لندن آجائیں گی کیونکہ مریم صاحبہ ضمانت پرجیل سے باہر ہیں۔تمام تراختلافات کے باوجود ان کی ضمانت منسوخ کرانے کی تگ ودو نہیں کی گئی۔

حالانکہ قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ ضمانت آسانی سے منسوخ کرائی جاسکتی ہے۔ پاکستان کے قانون میں سزایافتہ شخص کو ملک سے باہرجانے کاراستہ نہیں ہے۔ مریم نواز کے معاملے میں عمران خان ڈٹ گئے ۔انھیں علم ہے کہ اگروہ مریم نوازکولندن جانے کی اجازت دے دیتے ہیں تواحتساب کابیانیہ زمین بوس ہوجائے گا۔اجازت نہ دینامکمل طور پر سیاسی عمل ہے، جس کا فائدہ بہرحال پی ٹی آئی کی حکومت کاہورہاہے۔

تحریک انصاف کی طرف آئیے۔اس کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ایک بیانیہ تسلسل سے جاری ہے کہ یہ حکومت مکمل طورپرنااہل اورنکمی ہے۔مہنگائی کا بڑھنااسکی دلیل کے طورپرپیش کیاجاتاہے۔مہنگائی کابڑھناحددرجہ تشویشناک ہے۔یہ بہرحال عمران خان کے لیے مسائل کھڑے کررہی ہے۔اس کاجواب صوبائی حکومتوں کودیناچاہیے۔جو فعال نظرنہیں آتیں۔یہ معاملہ ایساہے جس پرتحریک انصاف کے اکثرلیڈرخاموشی اختیارکرلیتے ہیں۔قصہ کوتاہ یہ کہ پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعت ایک دوسرے کی ضدہیں۔ان کاسیاسی فلسفہ بھی ایک دوسرے سے متضادہے۔

ان میں کوئی بھی لیڈرآنکھ بندکرکے دوسرے پراعتمادکرنے کے لیے تیارنہیں۔سب کاہدف ایک ہی ہے،کسی نہ کسی طرح احتساب کا شکنجہ توڑا جائے۔مگرکچھ ہونہیں پارہا۔دن بدن یہ اتحادمسائل کاشکارہوتاجارہاہے۔یہ ایک بالکل فطری عمل ہے۔پی ڈی ایم کاکمزورہونا،تحریک انصاف کی سب سے بڑی سیاسی خوش قسمتی ہے۔آنے والے وقت میں حکومت کیسے لوگوں کی زندگیوں کوآسان بناتی ہے،اس کے لیے سب سے بڑاعملی امتحان یہی ہے۔میدان میں اب عمران خان کوبہت سوچ سمجھ کرفوری فیصلے کرنے چاہئیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔