کے۔الیکٹرک کی مہنگی بجلی کا متبادل
حکومتیں جلدبازی میں نجکاری کرتی ہیں تو ایک سرکاری اجارہ داری (مونوپولی) کو ایک نجی اجارہ داری میں تبدیل کر دیتی ہیں
بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ کوئی ناقابل تسخیر مسئلہ نہیں فوٹو: فائل
کسی سرکاری شعبے کے ادارے کی نجکاری پر صارفین توقع کرتے ہیں اور اکثر ایسا ہوتا بھی ہے کہ اس ادارے کی کارکردگی میں بہتری اور قیمتوں میں کمی آتی ہے۔ مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا اور خاص طور پر جب مسابقت کے عنصر کو نجکاری کے وقت نظرانداز کر دیا جائے۔ جب حکومتیں جلدبازی میں نجکاری کرتی ہیں تو بعض اوقات ایک سرکاری اجارہ داری (مونوپولی) کو ایک نجی اجارہ داری میں تبدیل کر دیتی ہیں جو صارفین کے لیے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
جب 1990 کی دہائی میں بجلی کے شعبے میں اصلاحات کی جارہی تھیں ، تو یہ کہا گیا تھا کہ واپڈا کو مختلف شعبوں کے لحاظ سے کئی کمپنیوں میں تقسیم کرنا لازمی ہے تاکہ جنریشن، ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوشن کے نقصانات کوآپس میں گڈمڈ نہ کیا جائے۔ لہٰذا واپڈا کے پاور ونگ کو سترہ (17) کمپنیوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ حیرت ہے کہ نجکاری کے ذمے داروں نے اس بنیادی نکتہ کو کے ای ایس سی کی نجکاری کے وقت نظرانداز کرنا کیوں ضروری سمجھا؟
نتیجہ یہ ہوا کہ اب ایک نجی شعبے کی کمپنی کے الیکٹرک، نہ صرف ایک تقسیم کار کمپنی (ڈسکو) کا کراچی ڈویژن، دہابیجی اور حب کے علاقوں کے لیے ایک مونوپولی لائسنس رکھتی ہے ، بلکہ ان علاقوں کے لیے جنریشن اور ٹرانسمیشن کی اجارہ داری بھی اسی کے پاس ہے۔
اب ایک ایسی نجی کمپنی جس کا صارف کہیں اور سے بجلی نہ خرید سکتا ہو، جس کے مقابلے پر کوئی نہ ہو، اسے بلاوجہ اپنی کارکردگی پر اخراجات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ خاص طور پر جب نیپرا بھی اس معاملے پر کافی عرصہ تک نہ صرف خاموش رہا بلکہ ہر قسم کی شکایات کو نظرانداز کرتا رہا۔
نتیجہ یہ ہے کہ 15 سالہ نجی انتظام کے باوجود کے الیکٹرک اپنے بجلی کے بوسیدہ کارخانوں سے ملک کی مہنگی ترین بجلی بنا رہا ہے۔ یہ 30 سے 35 فیصد کارکردگی والے پلانٹ ہیں جو اب واپڈا نے بھی استعمال کرنا بند کر دیے ہیں۔ باقی پاکستان میں اب52 سے63 فیصد کارکردگی کے پلانٹ سستی بجلی بنا رہے ہیں۔ یوں کراچی، دھابیجی اور حب کے صارفین کو فیول کی مد میں باقی پاکستان کے صارفین کے مقابلے میں دوگنا چارج کیا جا رہا ہے۔
اسی طرح کے الیکٹرک کی طرف سے بجلی پیدا کرنے کی استعداد کو بھی بڑھانے کی بھی کوشش نہیں کی گئی اور2015 میں کراچی میں بجلی کی جو کمی1250 میگاواٹ تھی وہ2020 میں بھی برقرار رہی اور کے الیکٹرک کا انحصار نیشنل گرڈ سے ادھار کی 800میگاواٹ بجلی پر رہے گا جو بہرحال کراچی کے لیے سستی بجلی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
پچھلے سال جب کراچی میں بجلی کے بدترین بحران کے پیش نظر وفاقی حکومت نے بجلی کی اضافی ترسیل کی پیشکش کی تو یہ انکشاف ہوا کہ کے الیکٹرک کے ٹرانسمشن سسٹم میں مزید بجلی وصول کرنے کی استعداد ہی نہیں۔
یہی صورتحال ڈسٹریبیوشن کے شعبے میں رہی۔ نجکاری کے موقع پر کے الیکٹرک کو ایک بہت سازگار ٹیرف نیپرا کی جانب سے دیا گیا جس کے تحت تمام نقصانات صارفین پر ڈال دیے گئے۔ اس شرط پر کہ وہ ڈسٹریبیوشن کے نقصانات کو15 فیصد پر لے آئیں گے۔ لیکن 15 سال بعد بھی یہ 20 فیصد رہے۔ جب کہ باقی پاکستان میں یہ نقصانات کافی نیچے آ چکے ہیں جیسا کہ آئیسکو میں 8 فیصد، فیسکو میں 9 فیصد اور لیسکو میں13 فیصد۔ مجموعی طور پر پاکستان میں یہ18 فیصد کے قریب رہا۔
کے الیکٹرک کی اس غیرتسلی بخش کارکردگی اور اس کے نتیجے میں بجلی کے زاید نرخ اگر عوام کو منتقل کر دیے جاتے تو وہ باقی پاکستان سے تقریباً 50 فیصد زیادہ مہنگی بجلی خرید رہے ہوتے۔ وہ تو بھلا ہو پچھلی اور موجودہ حکومتوں کا جنھوں نے ملک بھر کے بجلی کے صارفین کے لیے یکساں نرخوں کا اجراء کیا اور اس کو جاری رکھا ہوا ہے۔ لہٰذا ملک کی سب سے اچھی کارکردگی والی ڈسکو یعنی آئیسکو جس کا نرخ سب سے کم ہوتا ہے اس نرخ کو سارے پاکستان پر لاگو کیا جاتا ہے۔ یوں خراب کارکردگی والی ڈسکوز جن میں کے الیکٹرک نقصانات کے حجم کے مطابق سرفہرست ہے، انھیں ہر سال150 سے 200 ارب روپوں کی سبسڈی دی جاتی ہے۔ یوں ان کی خراب کارکردگی کا نقصان سرکاری خزانے کو، یعنی ملک کے ٹیکس ادا کرنے والوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کے الیکٹرک کو اس مد میں سالانہ20 سے40 ارب تک ادا کیے جاتے ہیں۔
ذرا سوچئیے اگر یہ بوجھ کبھی کراچی، دھابیجی اور حب کے عام صارفین اور انڈسٹری پر ڈال دیا گیا تو کیا ہو گا؟ یا اگر کے الیکٹرک کی اضافی بجلی پیدا کرنے میں ناکامی پر اسے نیشنل گرڈ سے بجلی کی امدادی فراہمی نہ ملے؟ کیا کراچی جیسے اہم معاشی مرکز کو ایسی غیریقینی کی صورتحال میں مسلسل مبتلا رکھنا دانشمندی ہے؟
اس گرداب سے نکلنے کا راستہ ہے جو تمام فریقین کو محفوظ مستقبل دے سکتا ہے۔ اس کے لیے بنیادی غلطی کو ٹھیک کرنا ہوگا یعنی2005 میں نجکاری کے دوران کی گئی غفلت کا تدارک۔
کے الیکٹرک کے تینوں لائسنسوں کو الگ الگ کر دیا جائے۔ جنریشن کے کام کے لیے کے الیکٹرک ایک الگ کمپنی (آئی پی پی) بنا کر اس کی بجلی نیشنل گرڈ کو ضابطے کے مطابق فروخت کرے نہ کہ کے الیکٹرک کے صارفین کو۔ اس طرح جنریشن کی خراب کارکردگی کا بوجھ صارفین کے نرخوں پر نہیں پڑے گا۔
کے الیکٹرک کو صرف ایک ڈسٹریبیوشن کمپنی کے طور پر چلایا جائے اور اسے کراچی، دھابیجی اور حب کے عام اور صنعتی صارفین کے لیے نیشنل گرڈ سے ان کی ضرورت کے مطابق اور اسی قیمت پر بجلی فراہم کی جائے جس پر باقی پاکستان کے ڈسکوز کو مہیا کی جاتی ہے۔ اس طرح جہاں کراچی اور گردونواح کے صارفین کو تقریباً30 سے 40فیصد سستی بجلی ملے گی وہاں وفاقی بجٹ پر سبسڈی کا بوجھ بھی کم ہو جائے گا۔اس کا فائدہ باقی ملک کے بجلی کے صارفین کو بھی ہوگا جن کے بلوں پر سے کیپیسٹی چارجز کم ہو جائیں گے۔
سال2021 کی گرمیوں میں کراچی میں بجلی کی فراہمی سے متعلق پائی جانے والی بے یقینی کو ختم کرنے کے لیے این ٹی ڈی سی کو ہنگامی بنیادوں پر قومی گرڈ سے کراچی کو اضافی بجلی مہیا کرنے کا انتظام کرنا چاہیے۔
رہا سوال کے الیکٹرک کی ڈسٹریبیوشن کی کارکردگی میں بہتری لانے کا تو اس کے لیے ابھی سے یہ اعلان کر دیا جائے کہ کے الیکٹرک کے مونوپولی لائسنس میں کوئی توسیع نہیں کی جائے گی جو کہ2023 میں ختم ہو رہا ہے۔ اور مزید ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے جائیں۔
ان اقدامات کا اعلان اور ان پر عملدرآمد جلد از جلد کیا جائے تاکہ کے الیکٹرک کی کسی اور نجی کمپنی کو فروخت سے پہلے حکومتی پالیسی واضع ہو جائے اور کراچی کے عوام اور صنعتی شعبے کے لیے موسم گرما میں بجلی کی غیریقینی صورتحال کا خاتمہ کیا جاسکے۔
کے الیکٹرک کے لیے بھی صحتمند مسابقتی ماحول میں اچھی کارکردگی سے صارفین کی بہتر خدمت کا یہ ایک سنہری موقع ہوگا اور کراچی کے صارفین کو صحیح معنوں میں نجی شعبے کی اچھی خدمات اور ارزاں نرخوں کا فائدہ ملے گا۔
(صاحب مضمون وفاقی سیکریٹری برائے خزانہ، پانی و بجلی، تجارت اور ہاؤسنگ کے عہدوں
پر خدمات انجام دے چکے ہیں)