ملک میں سیاحتی مقامات اور جنگلی حیات سے متعلق پروفیشنل فوٹوگرافی کا رحجان بڑھنے لگا
جنگلی حیات کی فوٹوگرافی مشکل اورمحنت طلب کام ہے، فوٹوگرافر نورحسین
وائلڈلائف فوٹوگرافی ایک مشکل اورمحنت طلب کام ہے اس وجہ سے ماضی میں فوٹوگرافرز اس فیلڈ کو ترجیح نہیں دیتے تھے۔ میں نے سفید پشت والے نایاب گدھ کی تصاویر بنائیں جنہیں فوٹوگرافی کے عالمی مقابلوں میں اول پوزیشن ملی ہے۔ حکومت کو ملکی اورغیرملکی سیاحوں کے لئے آسانیاں پیداکرناہوں گی۔ پاکستان کی سرزمین نایاب نسل کے جنگلی جانوروں اورپرندوں کے لئے زرخیز ہے۔ ان خیالات کا اظہار نوجوان فوٹوگرافرنورحسین نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کیا۔
نور حسین نے بتایا ان کا تعلق پنجاب کے شہرملتان سے ہے۔ اپنے بچپن میں جب مختلف اقسام کے پرندوں کو دیکھتااس وقت شوق ہوا کہ ان کی تصاویربنائی جائیں۔ نیشنل جیوگرافیکل چینل دیکھتے توسوچتے تھے کہ پاکستان میں موجود جنگلی حیات کی تصاویر اور ویڈیوز کیوں نہیں بنائی جاتیں۔ جنگلی حیات کی فوٹوگرافی ایک محنت طلب اورمشکل کام ہے۔ نیچر میں جاکرآپ کو نیچر کا حصہ بننا پڑتا ہے، ایک تصویر کے لئے بعض اوقات کئی کئی گھنٹے انتظارکرناپڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اوچھالی جھیل میں آنے والے غیرملکی پرندوں کی تصویربناتے وقت ان کے ساتھ خوفناک حادثہ پیش آیاتھا۔ وہ صبح ساڑھے 3 بجے جھیل پر پہنچے، جھیل کے اندر پلاسٹک کی کشتی میں بیٹھ کروہ سورج نکلنے کا انتظارکرنے لگے، اس دوران ان کی آنکھ لگ گئی اور کشتی گہرے پانی میں چلی گئی، اس کا احساس اس وقت ہواجب وہ کشتی سے نیچے اترنے لگے اوران کے پاؤں نیچے نہیں لگے، کشتی الٹ گئی اورتمام سامان بھی پانی میں بہہ گیا۔ وہ تقریبا صبح 9 بجے تک زندگی اورموت کی کشمش میں رہے اوربالاخروہ کنارے کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
نور حسین کہتے ہیں انہیں نے کچھ عرصہ قبل سفید پشت والے گدھ کی تصویر بنائی تھی جسے عالمی مقابلوں میں اول نمبر ملا ہے ، وہ ایوارڈ لینے کینیا جارہے ہیں۔ الو کی کھینچی گئی ایک تصویر نے انہیں عالمی سطح پر پزیرائی بخشی۔ نوجوان فوٹوگرافراس وجہ سے وائلڈلائف کوترجیح نہیں دیتے کہ یہاں فوری ارنننگ نہیں ہے جبکہ یہ ایک مہنگا اور مشکل کام ہے۔ نور حسین کے مطابق وہ اپنی تصاویر اور ہنر کے ذریعے پاکستان کا قدرتی حسن دنیا کو دکھانے کی کوشش کررہے ہیں، حکومت اگر ملکی اورغیرملکی سیاحوں کو سہولتیں مہیا کرے اور گائیڈ لائنز دے تو سیاحت کا شعبہ مزیدترقی کرسکتا ہے۔
نور حسین نے بتایا ان کا تعلق پنجاب کے شہرملتان سے ہے۔ اپنے بچپن میں جب مختلف اقسام کے پرندوں کو دیکھتااس وقت شوق ہوا کہ ان کی تصاویربنائی جائیں۔ نیشنل جیوگرافیکل چینل دیکھتے توسوچتے تھے کہ پاکستان میں موجود جنگلی حیات کی تصاویر اور ویڈیوز کیوں نہیں بنائی جاتیں۔ جنگلی حیات کی فوٹوگرافی ایک محنت طلب اورمشکل کام ہے۔ نیچر میں جاکرآپ کو نیچر کا حصہ بننا پڑتا ہے، ایک تصویر کے لئے بعض اوقات کئی کئی گھنٹے انتظارکرناپڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اوچھالی جھیل میں آنے والے غیرملکی پرندوں کی تصویربناتے وقت ان کے ساتھ خوفناک حادثہ پیش آیاتھا۔ وہ صبح ساڑھے 3 بجے جھیل پر پہنچے، جھیل کے اندر پلاسٹک کی کشتی میں بیٹھ کروہ سورج نکلنے کا انتظارکرنے لگے، اس دوران ان کی آنکھ لگ گئی اور کشتی گہرے پانی میں چلی گئی، اس کا احساس اس وقت ہواجب وہ کشتی سے نیچے اترنے لگے اوران کے پاؤں نیچے نہیں لگے، کشتی الٹ گئی اورتمام سامان بھی پانی میں بہہ گیا۔ وہ تقریبا صبح 9 بجے تک زندگی اورموت کی کشمش میں رہے اوربالاخروہ کنارے کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
نور حسین کہتے ہیں انہیں نے کچھ عرصہ قبل سفید پشت والے گدھ کی تصویر بنائی تھی جسے عالمی مقابلوں میں اول نمبر ملا ہے ، وہ ایوارڈ لینے کینیا جارہے ہیں۔ الو کی کھینچی گئی ایک تصویر نے انہیں عالمی سطح پر پزیرائی بخشی۔ نوجوان فوٹوگرافراس وجہ سے وائلڈلائف کوترجیح نہیں دیتے کہ یہاں فوری ارنننگ نہیں ہے جبکہ یہ ایک مہنگا اور مشکل کام ہے۔ نور حسین کے مطابق وہ اپنی تصاویر اور ہنر کے ذریعے پاکستان کا قدرتی حسن دنیا کو دکھانے کی کوشش کررہے ہیں، حکومت اگر ملکی اورغیرملکی سیاحوں کو سہولتیں مہیا کرے اور گائیڈ لائنز دے تو سیاحت کا شعبہ مزیدترقی کرسکتا ہے۔