ہجرتی پرندوں کا غیر قانونی شکار اور انتظامی نااہلی
ہجرتی پرندے ہر سال ہزاروں میل کی پرواز کرکے ہمارے ملک میں سردیاں گزارنے آتے ہیں، اور یہاں بے دردی سے ان شکار ہوتا ہے
ان دنوں سوشل میڈیا پر شکار کیے گئے ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی تصاویر اور ویڈیوز اس طرح شیئر کی جاتی ہیں جیسے ان مہمان پرندوں کو شکار کرنے والوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو جو اس اقدام کو پسند کرے گا، ماسوائے ان کے جنہوں نے ان پرندوں اور جانوروں کا شکار کیا ہوتا ہے۔ درجنوں پرندوں کو شکارکرنے کے بعد سجاکر رکھا جاتا ہے اور پھر فوٹوگرافی ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ان تصاویر اور ویڈیوز کے نیچے کمنٹس دیکھیں تو تقریباً ہر شخص اس اقدام کی مذمت کرتا نظر آئے گا، لیکن اس کے باوجود اکتوبر سے لے کر مارچ کے اختتام تک ہمیں یہ تماشا دیکھنا پڑتا ہے۔ میں خود ایک طویل عرصے سے وائلڈلائف سے متعلق رپورٹنگ کررہا ہوں، اس لیے آج اسی پس منظر میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
جنگلی حیات کے شکار کے حوالے سے اگر ہم پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی بات کریں تو یہاں ہر سال یکم اکتوبر سے 31 مارچ تک مختلف اقسام کی بطخوں، مرغابیوں، فیزنٹ کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے۔ جبکہ پنجاب وائلڈلائف کی طرف سے خود بھی فیزنٹ شوٹنگ کے مقابلے کروائے جاتے ہیں۔ فیزنٹ ایک طرح کے جنگی مرغ ہیں جو ہمارے قدرتی ماحول میں بھی پائے جاتے ہیں، جبکہ عام مرغیوں کی طرح فارم میں ان کی بریڈنگ بھی کی جاتی ہے۔ پنجاب وائلڈلائف اپنے بریڈنگ فارم میں تیار ہونے والے فیزنٹ شکار کرنے کے مقابلے کرواتا ہے۔
ہجرتی پرندے جو ہر سال ہزاروں میل کی پرواز کرکے ہمارے یہاں سردیاں گزارنے آتے ہیں، ہم بیدردی سے ان کا شکار کرتے ہیں۔ ہر ذی شعور کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ ان پرندوں کا شکار کرنے والوں کو روکا کیوں نہیں جاتا؟ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ اس حوالے سے میں نے اپنے بھائی بدرمنیر سے بات کی، جو ناصرف خود ایک شکاری ہیں بلکہ پنجاب وائلڈلائف کے اعزازی گیم وارڈن بھی ہیں۔ یہ ذمے داری ایسے افراد کو دی جاتی ہے جو رضاکارانہ طور پر وائلڈلائف کی افزائش، کنزرویشن اور تحفظ کےلیے کام کرنا چاہتے ہیں۔
بدر منیر کے مطابق شکار کے حوالے سے ہمارے یہاں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے اور اسے مذہب کی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں قانونی اور غیرقانونی شکار میں فرق کو سمجھنا ہوگا۔ قانونی شکار یہ ہوتا ہے کہ آپ سب سے پہلے محکمے سے لائسنس لیں، پھر آپ کے پاس اسلحہ کا لائسنس ہونا چاہیے۔ اس کے بعد محکمہ صرف ان پرندوں اور جانوروں کے شکار کی اجازت دیتا ہے جو وافر تعداد میں ہوتے ہیں، تاہم اس میں بھی کئی شرائط رکھی گئی ہیں۔ ایک شخص ایک دن میں مقررہ تعداد کے مطابق ہی پرندوں کا شکار کرسکتا ہے۔ مرغابیوں کی حد 10 رکھی گئی ہے۔ اسی طرح ایک شکاری ایک دن میں زیادہ سے زیادہ 6 تیتر شکار کرسکتا ہے۔ فاختہ، لالیاں اور دیگر پرندوں کی حد ان کی قدرتی ماحول میں دستیابی کے حساب سے مقرر کی گئی ہے۔ اب اگر کوئی شکاری قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے شکار کرتا ہے تو اس کو نہیں روکا جاسکتا۔ لیکن جہاں تک غیر قانونی شکار، مقررہ حد سے تجاوز کرنے کی بات ہے تو ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہے۔
ایسا نہیں کہ پنجاب میں غیرقانونی شکار مکمل ختم ہوگیا ہے۔ غیرقانونی شکار کیا جاتا ہے تاہم گزشتہ برسوں کی نسبت اب اس میں کمی بھی آئی ہے۔ اس کی وجہ غیرقانونی شکار کے حوالے سے سزاؤں میں سختی اور بھاری جرمانے ہیں۔ اس کے علاوہ سرویلنس کا نظام بہتر ہوا ہے۔ غیرقانونی شکار کی روک تھام میں کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ کیونکہ ان سی بی اوز کا غیرقانونی شکار کی روک تھام کےلیے خود کا بھی نظام خاصا فعال ہے۔
غیرقانونی شکار کی روک تھام پر مکمل قابو نہ پائے جانے کی بڑی وجہ افرادی قوت اور وسائل کی کمی ہے۔ پورے پنجاب میں وائلڈلائف کے پاس ایک ہزار فیلڈ اسٹاف ہے مگر 300 سیٹیں خالی ہیں۔ گاڑیاں بہت پرانی ہیں، موٹرسائیکل پر فیلڈ اسٹاف ڈیوٹی دیتا ہے۔ پرانی گاڑیوں اور موٹرسائیکل پر شکاریوں کی جدید گاڑیوں اور اسلحہ کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ کئی واقعات میں وائلڈلائف ملازمین شکاریوں کے ہاتھوں زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود ہم نے ہمت نہیں ہاری اور غیرقانونی شکار کی روک تھام کےلیے دن رات کام کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نایاب اور تحفظ شدہ جانوروں اور پرندوں کی تصاویر شیئر کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائیاں کی گئی ہیں۔ سال 2020 کے دوران غیرقانونی شکار کھیلنے والوں کو تقریباً 26 ملین روپے کے جرمانے کیے گئے۔ ان کا اسلحہ اور شکار کیے گئے جانور، پرندے ضبط کیے گئے۔ درجنوں کے خلاف مقدمات عدالتوں میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پرجو تصاویر شیئر کی جاتی ہیں اس میں کچھ تصاویر پرانی بھی ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک سے زائد شکاری اکھٹے شکار پر جاتے ہیں اور زیادہ تر ایسا ہی کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ شکار کیے گئے تمام پرندے اکھٹے ایک جگہ رکھ کر تصویر بناتے اور شیئر کرتے ہیں۔ اسی طرح فیزنٹ کا شکار کیا جاتا ہے تو اس کےلیے محکمے کو فیزنٹ کی قیمت ادا کرکے ان کا شکار ہوتا ہے۔ پنجاب میں پرائیوٹ ایریاز بھی ہیں جہاں لوگ خود پرندوں کی افزائش کرکے انہیں چھوڑتے اور پھر شکار کرتے ہیں۔ لہٰذا سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تمام تصاویر اور ویڈیوز درست نہیں ہوتیں۔
پنجاب وائلڈلائف نے پرندوں کے شکار کی روک تھام کےلیے ابھی جو بڑا اقدام اٹھایا ہے وہ پی سی پی ایئرگن کے ذریعے شکار پر پابندی ہے۔ یہ گن چلتے وقت آواز پیدا نہیں کرتی اور اس سے نہ صرف پرندوں بلکہ کسی جانور کا شکار بھی کیا جاسکتا ہے۔ پنجاب میں مختلف اقسام کی مرغابیوں، بطخوں، جنگلی مرغوں، فاختہ، لالیاں، تیتر اور پنجاب اڑیال (ہرن کی ایک قسم) کا شکار کیا جاسکتا ہے۔ پنجاب اڑیال کے شکار کےلیے ٹرافی ہنٹنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کےلیے ملکی اور غیرملکی شکاری بھاری فیس جمع کرواتے ہیں۔ ٹرافی ہنٹنگ کےلیے غیرملکی شکاریوں سے 75 ہزار ڈالر تک فیس وصول کی جاتی ہے۔ شکاری پاکستان کے مختص علاقوں میں آئی بیکس، مارخور، پنجاب اڑیال، بلیو شیپ کا شکار کرتے ہیں۔ اس شکار سے حاصل ہونے والی آمدن کا 80 فیصد مقامی کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز کو دیا جاتا ہے، جو سال بھر اپنی سی بی اوز کے ایریا میں ان جانوروں کی افزائش اور غیرقانونی شکار کی روک تھام کےلیے اقدامات کرتی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ان تصاویر اور ویڈیوز کے نیچے کمنٹس دیکھیں تو تقریباً ہر شخص اس اقدام کی مذمت کرتا نظر آئے گا، لیکن اس کے باوجود اکتوبر سے لے کر مارچ کے اختتام تک ہمیں یہ تماشا دیکھنا پڑتا ہے۔ میں خود ایک طویل عرصے سے وائلڈلائف سے متعلق رپورٹنگ کررہا ہوں، اس لیے آج اسی پس منظر میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
جنگلی حیات کے شکار کے حوالے سے اگر ہم پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی بات کریں تو یہاں ہر سال یکم اکتوبر سے 31 مارچ تک مختلف اقسام کی بطخوں، مرغابیوں، فیزنٹ کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے۔ جبکہ پنجاب وائلڈلائف کی طرف سے خود بھی فیزنٹ شوٹنگ کے مقابلے کروائے جاتے ہیں۔ فیزنٹ ایک طرح کے جنگی مرغ ہیں جو ہمارے قدرتی ماحول میں بھی پائے جاتے ہیں، جبکہ عام مرغیوں کی طرح فارم میں ان کی بریڈنگ بھی کی جاتی ہے۔ پنجاب وائلڈلائف اپنے بریڈنگ فارم میں تیار ہونے والے فیزنٹ شکار کرنے کے مقابلے کرواتا ہے۔
ہجرتی پرندے جو ہر سال ہزاروں میل کی پرواز کرکے ہمارے یہاں سردیاں گزارنے آتے ہیں، ہم بیدردی سے ان کا شکار کرتے ہیں۔ ہر ذی شعور کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ ان پرندوں کا شکار کرنے والوں کو روکا کیوں نہیں جاتا؟ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ اس حوالے سے میں نے اپنے بھائی بدرمنیر سے بات کی، جو ناصرف خود ایک شکاری ہیں بلکہ پنجاب وائلڈلائف کے اعزازی گیم وارڈن بھی ہیں۔ یہ ذمے داری ایسے افراد کو دی جاتی ہے جو رضاکارانہ طور پر وائلڈلائف کی افزائش، کنزرویشن اور تحفظ کےلیے کام کرنا چاہتے ہیں۔
بدر منیر کے مطابق شکار کے حوالے سے ہمارے یہاں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے اور اسے مذہب کی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں قانونی اور غیرقانونی شکار میں فرق کو سمجھنا ہوگا۔ قانونی شکار یہ ہوتا ہے کہ آپ سب سے پہلے محکمے سے لائسنس لیں، پھر آپ کے پاس اسلحہ کا لائسنس ہونا چاہیے۔ اس کے بعد محکمہ صرف ان پرندوں اور جانوروں کے شکار کی اجازت دیتا ہے جو وافر تعداد میں ہوتے ہیں، تاہم اس میں بھی کئی شرائط رکھی گئی ہیں۔ ایک شخص ایک دن میں مقررہ تعداد کے مطابق ہی پرندوں کا شکار کرسکتا ہے۔ مرغابیوں کی حد 10 رکھی گئی ہے۔ اسی طرح ایک شکاری ایک دن میں زیادہ سے زیادہ 6 تیتر شکار کرسکتا ہے۔ فاختہ، لالیاں اور دیگر پرندوں کی حد ان کی قدرتی ماحول میں دستیابی کے حساب سے مقرر کی گئی ہے۔ اب اگر کوئی شکاری قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے شکار کرتا ہے تو اس کو نہیں روکا جاسکتا۔ لیکن جہاں تک غیر قانونی شکار، مقررہ حد سے تجاوز کرنے کی بات ہے تو ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہے۔
ایسا نہیں کہ پنجاب میں غیرقانونی شکار مکمل ختم ہوگیا ہے۔ غیرقانونی شکار کیا جاتا ہے تاہم گزشتہ برسوں کی نسبت اب اس میں کمی بھی آئی ہے۔ اس کی وجہ غیرقانونی شکار کے حوالے سے سزاؤں میں سختی اور بھاری جرمانے ہیں۔ اس کے علاوہ سرویلنس کا نظام بہتر ہوا ہے۔ غیرقانونی شکار کی روک تھام میں کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ کیونکہ ان سی بی اوز کا غیرقانونی شکار کی روک تھام کےلیے خود کا بھی نظام خاصا فعال ہے۔
غیرقانونی شکار کی روک تھام پر مکمل قابو نہ پائے جانے کی بڑی وجہ افرادی قوت اور وسائل کی کمی ہے۔ پورے پنجاب میں وائلڈلائف کے پاس ایک ہزار فیلڈ اسٹاف ہے مگر 300 سیٹیں خالی ہیں۔ گاڑیاں بہت پرانی ہیں، موٹرسائیکل پر فیلڈ اسٹاف ڈیوٹی دیتا ہے۔ پرانی گاڑیوں اور موٹرسائیکل پر شکاریوں کی جدید گاڑیوں اور اسلحہ کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ کئی واقعات میں وائلڈلائف ملازمین شکاریوں کے ہاتھوں زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود ہم نے ہمت نہیں ہاری اور غیرقانونی شکار کی روک تھام کےلیے دن رات کام کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نایاب اور تحفظ شدہ جانوروں اور پرندوں کی تصاویر شیئر کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائیاں کی گئی ہیں۔ سال 2020 کے دوران غیرقانونی شکار کھیلنے والوں کو تقریباً 26 ملین روپے کے جرمانے کیے گئے۔ ان کا اسلحہ اور شکار کیے گئے جانور، پرندے ضبط کیے گئے۔ درجنوں کے خلاف مقدمات عدالتوں میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پرجو تصاویر شیئر کی جاتی ہیں اس میں کچھ تصاویر پرانی بھی ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک سے زائد شکاری اکھٹے شکار پر جاتے ہیں اور زیادہ تر ایسا ہی کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ شکار کیے گئے تمام پرندے اکھٹے ایک جگہ رکھ کر تصویر بناتے اور شیئر کرتے ہیں۔ اسی طرح فیزنٹ کا شکار کیا جاتا ہے تو اس کےلیے محکمے کو فیزنٹ کی قیمت ادا کرکے ان کا شکار ہوتا ہے۔ پنجاب میں پرائیوٹ ایریاز بھی ہیں جہاں لوگ خود پرندوں کی افزائش کرکے انہیں چھوڑتے اور پھر شکار کرتے ہیں۔ لہٰذا سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تمام تصاویر اور ویڈیوز درست نہیں ہوتیں۔
پنجاب وائلڈلائف نے پرندوں کے شکار کی روک تھام کےلیے ابھی جو بڑا اقدام اٹھایا ہے وہ پی سی پی ایئرگن کے ذریعے شکار پر پابندی ہے۔ یہ گن چلتے وقت آواز پیدا نہیں کرتی اور اس سے نہ صرف پرندوں بلکہ کسی جانور کا شکار بھی کیا جاسکتا ہے۔ پنجاب میں مختلف اقسام کی مرغابیوں، بطخوں، جنگلی مرغوں، فاختہ، لالیاں، تیتر اور پنجاب اڑیال (ہرن کی ایک قسم) کا شکار کیا جاسکتا ہے۔ پنجاب اڑیال کے شکار کےلیے ٹرافی ہنٹنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کےلیے ملکی اور غیرملکی شکاری بھاری فیس جمع کرواتے ہیں۔ ٹرافی ہنٹنگ کےلیے غیرملکی شکاریوں سے 75 ہزار ڈالر تک فیس وصول کی جاتی ہے۔ شکاری پاکستان کے مختص علاقوں میں آئی بیکس، مارخور، پنجاب اڑیال، بلیو شیپ کا شکار کرتے ہیں۔ اس شکار سے حاصل ہونے والی آمدن کا 80 فیصد مقامی کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز کو دیا جاتا ہے، جو سال بھر اپنی سی بی اوز کے ایریا میں ان جانوروں کی افزائش اور غیرقانونی شکار کی روک تھام کےلیے اقدامات کرتی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔