کنٹینرز اور جہازوں کی قلت کرایوں میں من مانے اضافے سے ایکسپورٹرز کو شدید مشکلات
شپنگ کمپنیوں نے فریٹ کی مد میں وصول ہونے والے کرایوں میں چار سے پانچ گنا اضافہ کردیا
KARACHI:
شپنگ کنٹینرز اور بحری جہازوں کی قلت کی وجہ سے پاکستان کے پاس برآمدی آرڈرز ہونے کے باوجود ایکسپورٹرز کو مشکلات کا سامنا ہے جب کہ کنٹینرز اور بحری جہازوں کی قلت کو جواز بنا کر فریٹ فارورڈر کمپنیوں نے من مانے کرائے وصول کرنا شروع کردیے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق شپنگ کمپنیوں نے فریٹ کی مد میں وصول ہونے والے کرایوں میں چار سے پانچ گنا اضافہ کردیا جس سے ایکسپورٹرز کا منافع ختم ہوگیا ہے اور برآمد کنندگان کو شدید مالی دشواریوں کا سامنا ہے۔
پھل سبزیوں کے ایکسپورٹرز کے مطابق سری لنکا اور سنگاپور تک پاکستانی پیاز اور آلو کی ایکسپورٹ میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، بھرپور فصل کے باوجود ایکسپورٹ نہیں ہوسکتی، شپنگ کمپنیاں جو سری لنکا تک 800 ڈالر فریٹ طلب کررہی تھیں اب 3000سے 3500ڈالر فریٹ طلب کررہی ہیں، ایکسپورٹرز اسی طرح سنگا پور کا فریٹ جو 1100 ڈالر تھا اب بڑھا کر 4000 ڈالر کردیا گیا ہے، ہم لوگ اس وقت درحقیقت اپنا نقصان کرکے شپنگ کمپنیوں اور فریٹ فارورڈرز کو کما کر دے رہے ہیں۔
ایف پی سی سی آئی کے سابق نائب صدر خرم اعجاز نے بتایا کہ چین سے پاکستان تک تجارتی سامان کی ترسیل کے لیے فریٹ چارجز 1200 سے 1800 ڈالر سے بڑھ کر اب 4000 ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جس کی وجہ سے درآمدی لاگت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے، چین سے درآمد ہونے والے پرزہ جات خا م مال اور صنعتی استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کنٹینرز کی قلت کی وجہ سے عالمی سپلائی چین درہم برہم ہوکر رہ گئی ہے، اس صورتحال سے درآمد کنندگان کے ساتھ برآمد کنندگان بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں، درآمد کنندگان کی شپمنٹ تاخیر کا شکار ہیں اور درآمدی لاگت بڑھ رہی ہے دوسری جانب ایکسپورٹرز کنٹینرز کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
خرم اعجاز نے پورٹ اتھارٹیز اور کسٹم حکام پر زور دیا کہ پورٹ آپریشنز کو 24 گھنٹے کی بنیاد پر چلایا جائے اور شپمنٹ کی ان اور آؤٹ کا دورانیہ کم سے کم کیا جائے تاکہ گلوبل سپلائی چین کے بحران سے پاکستان پر پڑنے والے اثرات کو کم کیا جاسکے۔
ادھر سیمنٹ ایکسپورٹرز نے بھی بندرگاہوں پر رش اور تاخیر کو سیمنٹ کی ایکسپورٹ میں کمی کا سبب قرار دیتے ہوئے حکومت سے تمام ایکسپورٹ انڈسٹریز کو بندرگاہوں پر ترجیح دینے کا مطالبہ کردیا ہے۔
آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق درآمدی گندم، چینی اور کنولا لانے والے جہازوں کو ترجیح دینے کے حکومتی فیصلے کی وجہ سے سیمنٹ کی ایکسپورٹ مشکلات کا شکار ہیں، حکومتی ہدایت پر درآمدی گندم چینی اور کنولا کے جہازوں کو بندرگاہ پر پہلے برتھ فراہم کی جارہی ہے، سیمنٹ اور کنکر لینے آنے والے بحری جہازوں کو تاخیر کا سامنا ہے۔
ترجمان سیمنٹ مینوفیکچررز کے مطابق بندرگاہوں پر اژدہام سے ایکسپورٹ میں کمی کا سامنا ہے، سیمنٹ کے خریدار ممالک تاخیر کی وجہ سے سودے منسوخ کرنے لگے ہیں، ایکسپورٹرز نے شپمنٹ بھیجنے کے لیے بھی جہازوں کو ترجیح دینے کا مطالبہ کردیا ہے۔
لاجسٹک ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندری تجارت میں اس طرز کا بحران پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا، چین سمیت تمام بڑی بندرگاہوں او رکنٹینرز کے ڈیپوز پر کنٹینرز کی شدید قلت ہے جس کی وجہ سے سمندروں میں رواں دواں اکثر جہاز بھی گنجائش سے کم سامان لے کر چل رہے ہیں، شپنگ کمپنیوں نے نقصان سے بچنے کے لیے جہازوں کی تعداد کم کردی ہے۔
شپنگ کنٹینرز اور بحری جہازوں کی قلت کی وجہ سے پاکستان کے پاس برآمدی آرڈرز ہونے کے باوجود ایکسپورٹرز کو مشکلات کا سامنا ہے جب کہ کنٹینرز اور بحری جہازوں کی قلت کو جواز بنا کر فریٹ فارورڈر کمپنیوں نے من مانے کرائے وصول کرنا شروع کردیے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق شپنگ کمپنیوں نے فریٹ کی مد میں وصول ہونے والے کرایوں میں چار سے پانچ گنا اضافہ کردیا جس سے ایکسپورٹرز کا منافع ختم ہوگیا ہے اور برآمد کنندگان کو شدید مالی دشواریوں کا سامنا ہے۔
پھل سبزیوں کے ایکسپورٹرز کے مطابق سری لنکا اور سنگاپور تک پاکستانی پیاز اور آلو کی ایکسپورٹ میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، بھرپور فصل کے باوجود ایکسپورٹ نہیں ہوسکتی، شپنگ کمپنیاں جو سری لنکا تک 800 ڈالر فریٹ طلب کررہی تھیں اب 3000سے 3500ڈالر فریٹ طلب کررہی ہیں، ایکسپورٹرز اسی طرح سنگا پور کا فریٹ جو 1100 ڈالر تھا اب بڑھا کر 4000 ڈالر کردیا گیا ہے، ہم لوگ اس وقت درحقیقت اپنا نقصان کرکے شپنگ کمپنیوں اور فریٹ فارورڈرز کو کما کر دے رہے ہیں۔
ایف پی سی سی آئی کے سابق نائب صدر خرم اعجاز نے بتایا کہ چین سے پاکستان تک تجارتی سامان کی ترسیل کے لیے فریٹ چارجز 1200 سے 1800 ڈالر سے بڑھ کر اب 4000 ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جس کی وجہ سے درآمدی لاگت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے، چین سے درآمد ہونے والے پرزہ جات خا م مال اور صنعتی استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کنٹینرز کی قلت کی وجہ سے عالمی سپلائی چین درہم برہم ہوکر رہ گئی ہے، اس صورتحال سے درآمد کنندگان کے ساتھ برآمد کنندگان بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں، درآمد کنندگان کی شپمنٹ تاخیر کا شکار ہیں اور درآمدی لاگت بڑھ رہی ہے دوسری جانب ایکسپورٹرز کنٹینرز کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
خرم اعجاز نے پورٹ اتھارٹیز اور کسٹم حکام پر زور دیا کہ پورٹ آپریشنز کو 24 گھنٹے کی بنیاد پر چلایا جائے اور شپمنٹ کی ان اور آؤٹ کا دورانیہ کم سے کم کیا جائے تاکہ گلوبل سپلائی چین کے بحران سے پاکستان پر پڑنے والے اثرات کو کم کیا جاسکے۔
ادھر سیمنٹ ایکسپورٹرز نے بھی بندرگاہوں پر رش اور تاخیر کو سیمنٹ کی ایکسپورٹ میں کمی کا سبب قرار دیتے ہوئے حکومت سے تمام ایکسپورٹ انڈسٹریز کو بندرگاہوں پر ترجیح دینے کا مطالبہ کردیا ہے۔
آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق درآمدی گندم، چینی اور کنولا لانے والے جہازوں کو ترجیح دینے کے حکومتی فیصلے کی وجہ سے سیمنٹ کی ایکسپورٹ مشکلات کا شکار ہیں، حکومتی ہدایت پر درآمدی گندم چینی اور کنولا کے جہازوں کو بندرگاہ پر پہلے برتھ فراہم کی جارہی ہے، سیمنٹ اور کنکر لینے آنے والے بحری جہازوں کو تاخیر کا سامنا ہے۔
ترجمان سیمنٹ مینوفیکچررز کے مطابق بندرگاہوں پر اژدہام سے ایکسپورٹ میں کمی کا سامنا ہے، سیمنٹ کے خریدار ممالک تاخیر کی وجہ سے سودے منسوخ کرنے لگے ہیں، ایکسپورٹرز نے شپمنٹ بھیجنے کے لیے بھی جہازوں کو ترجیح دینے کا مطالبہ کردیا ہے۔
لاجسٹک ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندری تجارت میں اس طرز کا بحران پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا، چین سمیت تمام بڑی بندرگاہوں او رکنٹینرز کے ڈیپوز پر کنٹینرز کی شدید قلت ہے جس کی وجہ سے سمندروں میں رواں دواں اکثر جہاز بھی گنجائش سے کم سامان لے کر چل رہے ہیں، شپنگ کمپنیوں نے نقصان سے بچنے کے لیے جہازوں کی تعداد کم کردی ہے۔