مچھ سانحہ11 مزدور قتل

’’داعش ‘‘ نے سانحہ کی ذمے داری قبول کر لی۔

’’داعش ‘‘ نے سانحہ کی ذمے داری قبول کر لی۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں نامعلوم دہشت گردوں نے کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے 11 کان کنوں کو بے دردی کے ساتھ تیز دھار آلے سے ذبح کردیا۔

غریب مزدوروں کے لیے کان کنی کی سخت جانی اورمشقت کے زمینی مصائب اور مشکلات کیا کم تھے کہ دہشت گردوں نے انھیں سفاک طریقے سے قتل کرکے انسانیت کو شرمسارکر دیا ۔ یہ مزدوروں کو ہلاک کرنے کا بزدلانہ و درد انگیز واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ''داعش '' نے سانحہ کی ذمے داری قبول کر لی۔

بلوچستان طویل عرصہ سے دہشت گردی، قتل وغارت اور سیاسی مسائل کا شکار ہے،کانکنی کے حالیہ واقعہ کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خطے میں کچھ بے رحم طاقتیں بلوچستان کو ٹارگٹ کررہی ہیں۔ پہلے سیکیورٹی فورسزکے خلاف وارداتیں ہوئیں، پھر مختلف انتہاپسند گروپوں کے باہمی گٹھ جوڑکے نتیجے میں سیاسی، فرقہ وارانہ ، وکلا برادری اورٹارگیٹڈ وارداتیں ہونے لگیںٕ، ہزارہ برادری کے خلاف بھی سفاکانہ کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔کوئٹہ میں زندگی کے معمولات درہم برہم ہوئے، اندوہناک ہلاکتوں کے سبب بلوچستان کے سیاسی اور جمہوری تشخص کے لیے سوالات نے سر اٹھایا، اب دوسرے رخ پر سنگدلانہ واقعات جنم لینے لگے ہیں۔

اس باردہشت گرد قوتوں کے عزائم اور اسٹرٹیجی کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے، سہولت کار ادھر ادھر ہی موجود ہیں، ان کی چیرہ دستیاں صاف نظرآتی ہیں، حکام اور ارباب اختیارکان کنی کے اس واقعے کے پس پردہ عناصرکے گھناؤنے کھیل کے بربریت آمیز منظر نامہ کا ادراک کریں اور خونیں گٹھ جوڑ میں ملوث سہولت کاروں کوکیفرکردار تک پہنچائیں جو وقفے وقفے سے بلوچستان کو غیرانسانی اور ہولناک واقعات کے ذریعے الجھائے رکھنا چاہتے ہیں جب کہ بے گناہ محنت کشوں کو بزدلانہ اور ظالمانہ طریقے سے انتقام کا نشانہ بنانے کی چنگیزی روایت کی خونیں تاریخ رقم کررہے ہیں۔ انسان دشمنی اور بے رحمی کے اس سلسلہ کو سختی سے کچل دینے کی ضرورت ہے۔

حکام کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے علاقے کا محاصرہ کر کے حملہ آوروں کی تلاش شروع کردی ہے، زخمیوں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ، ڈپٹی کمشنرکچھی مراد کاسی کے مطابق ہفتہ اور اتوارکی درمیانی شب نا معلوم مسلح افراد نے گشتری میں مقامی کوئلہ کان میں کام کرنے والے مزدوروں کو ان کے رہائشی کمروں سے اغواء کیا اور قریب ہی واقع ایک مکان میں لے جا کر ہاتھ پاؤں اورآنکھوں پر پٹیاں باندھ کر تیز دھار آلے سے ان کی گردنیں کاٹ ڈالیںاور موقع سے فرار ہوگئے۔

بلاشبہ قاتلوں کے طریقہ واردات کو اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو اس سفاکی کا میتھڈ علیحدگی پسند قوم پرستوں یا گوریلا وار میں ملوث انتہا پسندوں سے ملتا جلتا نظرآتا ہے مگر حالیہ سیاسی تحریکوں میں تشدد ، ماورائے آئین و غیرانسانی اقدامات کا رجحان بربریت کے نئے ہیجانی ونفسیاتی رجحان کی عکاسی کرتا ہے، گلے کاٹنے ، ذبح کرنے اور وحشیانہ طریقے استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بیگناہ مزدوروں کو قتل کرنے کے پیچھے بھی منصوبہ یا سازش کوئی اور ہے ۔ کان کنی کے پیشے سے وابستہ مزدوروں کے کیا عزائم ہوسکتے ہیں۔

وہ غریب مزدور تھے، دہشت گرد تھے، نہ ان کا انتہاپسندوں سے کوئی تعلق تھا، وہ جرائم پیشہ نہ تھے، سیدھے سادے محنت کش تھے، جو لوگ کان کنی کی صنعت سے گہری واقفیت رکھتے ہیں انھیں اندازہ ہے کہ کان کن کی زندگی کتنی مشکل ہوتی ہے اور ان کوکون سی مراعات ملتی ہیں یہ بھی کسی کو پتہ نہیں، سخت محنت کے بعد ہی انھیں زندہ رہنے کے لیے کچھ معاوضہ ملتا ہے، ان کی ہلاکت بلوچستان کے سیاسی ، سماجی اور تزویراتی بحران کا ایک دردناک سوالنامہ ہے جس کا غیر روایتی انداز میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔

بلوچستان میں دہشت گردی کا ایک غیرملکی کنکشن بھی ہے، خطے کی صورتحال سیکیورٹی کے فیصلہ کن اقدامات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں، دشمن ہشت پہلو عزائم رکھتا ہے، اس کے سیاسی ،دہشت گردانہ اور مکروہ مالیاتی گٹھ جوڑکے تانے بانوں کے نیٹ ورک سے نمٹنا بھی ہے، اس لیے صرف مذمتی بیانات کافی نہیں۔ ڈپٹی کمشنر کچھی کے مطابق اطلاع ملتے ہی ضلع انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی ۔ شواہد اکٹھے کیے گئے۔

سیکیورٹی ذرایع کے مطابق جاں بحق ہونے والوں کی شناخت محمد ہاشم،عزیز، انور، احمد شاہ، محمد صادق، چمن علی، حسن جان ، عبداللہ، آصف کے ناموں سے ہوئی ہے، ایک غیر ملکی معاصرکے مطابق کچھ کے گلے تیز دھار آلے سے کاٹے گئے جب کہ چندکو تشدد کے بعد فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔


دریں اثناء واقعہ کے خلاف مشتعل افراد نے مچھ میں قومی شاہراہ 4گھنٹے تک بلاک رکھی جب کہ نعشیں کوئٹہ پہنچنے کے بعد مغربی بائی پاس پر ہزارہ کمیونٹی کی خواتین اور مردوں نے دھرنا دیکر ٹریفک معطل کردی، احتجاج کا یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہا، ادھرکوئٹہ پریس کلب کے باہر مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ کیاگیا۔

ابتدائی تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ حملہ آوروں نے کان کنوں میں سے ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں کو شناخت کرکے الگ کیا اور انھیں دور لے جا کر قتل کردیا جب کہ دیگرکو نقصان نہیں پہنچایا۔ سیکریٹری داخلہ بلوچستان حافظ عبدالباسط نے ایک سعودی نشریاتی ادارے کی اردو ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ مرنے والے افراد کا تعلق افغانستان اور ہزارہ برادری سے تھا۔

صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کر لی ہے، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے مچھ میں دہشت گردی کی مذمت اورجانی نقصان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ملزموں کو جلدکیفرکردار تک پہنچائیں گے۔گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی نے نہتے کان کنوں پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے واقعے میں ملوث شرپسند عناصر کی فوری گرفتاری کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خصوصی ہدایت کی ہے، وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کان کنوں پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے آئی جی بلوچستان سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔

صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے مچھ بلوچستان میں11 بے گناہ کان کنوں کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے دہشتگردی کی ایک بزدلانہ اورغیر انسانی کارروائی قراردیا ہے اورکہا ہے کہ ریاست ذمے داروں کو ڈھونڈ نکالے گی۔ اتوارکو اپنے مذمتی بیان میں صدر مملکت نے غمزدہ خاندانوں سے دلی ہمدردی اور افسوس کے ساتھ مقتولین کے درجات کی بلندی اور غمزدہ خاندانوں کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں ایف سی کو حکم دیا ہے کہ تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ حکومت متاثرہ خاندانوں کو بالکل تنہا نہیں چھوڑے گی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کوئٹہ میں کان کنوں کی الم ناک ہلاکت دردانگیز سانحہ ہے،ان کا کہنا ہے کہ مزدوروں کا بہیمانہ قتل پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کان کنوں کی ہلاکت سے ملکی سیاسی بھنورکو اپنی سمت درست کرنا ہوگی، ارباب اختیار سوچیں کہ خطے کی صورتحال اور سیاسی و جمہوری قوتوں میں شو ڈاؤن کسی کے مفاد میں نہیں، حکومت اورپی ڈی ایم کو سیاسی،مذہبی اور دیگر حوالوں سے وقت کی نزاکت کا ادراک کرنا چاہیے۔

یہ وقت دور اندیشی اور سیاسی بصیرت کا ہے، ملک کے دشمن اپنی گریٹ گیم بڑی عیاری سے بھارت کے گٹھ جوڑ سے بلوچستان میں کھیلنے پر کمر بستہ ہیں، وہ بلوچستان میں اپنے اس ایجنڈے کو جسے پاک فوج نے کلبھوشن یادیو کے دہشتگردانہ نیٹ ورک کے خاتمے کے بعد اسے زمین بوس کردیا تھا اب وہ نئی مہم جوئی کی تلاش میں ہے، بتایا جاتا ہے کہ دہشتگردی کے جتنے واقعات ہوئے ہیں ان میں بھارت کی شمولیت خالی از علت نہیں ہے، حکمراں سیاسی تصادم کا راستہ روکیں، اپوزیشن اور حکمرانوں میں فہمیدہ عناصر مل کر سیاسی صورتحال کو تناؤ سے بچائیں، خطے میں بڑھتے ہوئے سرحدی خطرات کا ادراک کریں۔

سیاسی اسٹیک ہولڈرز قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے پیچھے ہٹ جائیں، جو سیاست دان زمینی حقائق کا بروقت درست ادراک کریں گے وہی دشمن کی چالوں کو ناکام بناسکتے ہیں، لہٰذا احساس کریں کہ وطن عزیزکو چار طرف سے عناد اور مخاصمت کی قوتیں گھیراؤکے لیے آگے بڑھنے کی راہیں ڈھونڈ رہی ہیں اور ہم آٓپس میں لڑ رہے ہیں۔

یہ کہاں کی دوراندیشی ،کہاں کی سیاسی دانائی ہے۔ بلوچستان کو امن کی ضرورت ہے، صوبہ کے عوام داخلی چپقلش اورسیاسی عدم استحکام کے ہر گز متحمل نہیں ہوسکتے، بداندیشوں کی نظر بلوچستان پر مرکوز ہے، دیگر حساس مقامات بھی ارباب ہنر سے دوراندیشی کا تقاضہ کرتے ہیں، ہزارہ برادری کو بھی امن وانصاف سے زندہ رہنے کا حق ملنا چاہیے،کیا ہمیں یاد نہیں کہ دہشت گردوں نے،کوئٹہ ، گوادر اور اورماڑہ میں کیا وارداتیں کیں،ہمارے پاک افغان اور پاک ایران بارڈرز اسٹرٹیجیکلی سیکیورٹی کے لیے غیرمعمولی اقدامات کے منتظر ہیں۔

مذکورہ بارڈر سیل ہونے چاہئیں، آمد ورفت پر چیک لگنا چاہیے، دہشتگرد ہمارے اندر موجود ہیں، ملک کو ہمہ اقسام کے چیلنجز درپیش ہیں، خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں ، ایک داخلی ، بے رحمانہ ، بلاامتیاز، سخت اور اعصاب شکن آپریشن ناگزیر ہے، بلوچستان میں بھارت قدم جمانے کے لیے مقامی سہولت کاروں کا نیٹ ورک بنانے اورسیاسی افراتفری پیدا کرکے بلوچستان کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے بے چین ہے، دہشت گرد مقامی سہولت کاروں کے بغیر کام نہیں کرسکتے،کیا یہ وقت ویک اپ کال دینے کا نہیں؟
Load Next Story