پرانے کلب میں نیا کھلاڑی
آج کا جگری کل کا جانی دشمن اور جانی دشمن کا دشمن جگری دوست بن سکتا ہے۔
گو کلیشے ہی سہی مگر دل کو بھانے والا کلیشے ہے کہ سیاست ناممکنات کو ممکنات بنانے کا فن ہے۔اس میں دو اور دو تین یا پانچ ہونے کی بھی گنجائش رہتی ہے۔ اس میں کوئی مستقل دشمنی یا دوستی نہیں ہوتی۔
آج کا جگری کل کا جانی دشمن اور جانی دشمن کا دشمن جگری دوست بن سکتا ہے۔اس کھیل میں کب ڈور ڈھیلی چھوڑنا ہے اور کس وقت کھینچنا ہے۔ اس کا بھی اندازہ رکھنا پڑتا ہے۔اس کھیل میں کھلی آنکھوں سونے اور بند آنکھوں جاگنے کی مہارت بھی درکار ہے۔
سیاست میں ڈرنے کے باوجود بہادری کی اداکاری کرنا پڑتی ہے اور تمام پتے ہاتھ میں ہونے اور حریف کی اگلی چال معلوم ہونے کے باوجود چہرے کو حسبِ ضرورت عاجز یا تاثرات سے عاری بھی رکھنا پڑتا ہے اور پتے بالکل ہی ناکارہ آ جائیں تب بھی یہ ظاہر کرنا لازم ہے کہ بس حریف نے اگلی چال چلی نہیں اور اسے مات ہوئی نہیں۔
اس کھیل کی اپنی اخلاقیات ، اپنے اصول ، اپنا ضمیر غرض اپنی دنیا ہوتی ہے۔آپ بھلے بلند کردار نہ ہوں مگر بلند آہنگ ہونا ضروری ہے۔آپ بھلے بااصول نہ ہوں مگر بے اصولی کو اصول کی پوشاک پہنانا آنا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ آپ میرٹ پر یقین رکھیں مگر دوسروں کی میرٹ کو مسلسل چیلنج کرنے کا ہنر ازبس ضروری ہے۔ سیاست میں کامیابی کے لیے یادداشت کا اچھا ہونا مگر اس یادداشت کا حالات کے تقاضوں کے مطابق منتخب استعمال ہی موثر ہتھیار ہے۔
سیاسی کھیل میں مروت،ترس، وعدے کی پاسداری، اسپورٹس مین اسپرٹ ، حریف کے اچھے داؤپیچ کی کھلے عام تعریف، ضد ، ہٹ دھرمی ، یک رخی سوچ ، دماغ سے زیادہ دل کا استعمال جیسے اوصاف اس پیشے کے لیے زہر ہیں۔
اگر آپ کی آنکھ حسبِ موقع رنگ نہیں بدل سکتی ، اگر آپ حالاتی تقاضوں کے اعتبار سے سنگ دلی و سفاکی یا نرم و گرم رویے کی صلاحیت سے عاری ہیں ، اگر آپ کچے کانوں کے ہیں، اگر آپ مایوسی کے غار میں گرنے کے بعد اٹھنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور حریف کو کھائی کے کنارے دیکھ کر آخری دھکا دینے کے بجائے ترس کھا جاتے ہیں تو پھر آپ سیاست چھوڑئیے اور کوئی بھی دوسرا پیشہ اختیار کرنے کے بارے میں سوچیے۔
آپ کو میری یہ باتیں محض کتابی لگ رہی ہوں تو بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔صرف پچھلے تہتر برس کے ہر سیاسی کھلاڑی اور وردی ناوردی حکمران کا پروفائل نکال لیجیے آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ کون کیوں کامیاب رہا ، کونِ کامیابی سے بس ایک ہاتھ دور رہ گیا ، کون ایک دن پہلے تک بہت ہی مضبوط تھا اور دوسرے ہی دن اس کے پاؤں تلے سے قالین کیوں کھچ گیا۔
کس کا بظاہر سب لٹ گیا مگر پھر اپنی کس صلاحیت کے بل بوتے پر وہ اپنی شکست کو پہلے سے زیادہ بڑی کامیابی میں بدل گیا۔کون اپنی ذہانت کے زائد از ضرورت استعمال کے ہاتھوں مارا گیا اور کس نے اپنی فطانت کو ہونق چہرے کے پردے میں چھپا کر سب کو چوپٹ کر دیا اور پھر کس غلطی کو معمولی سمجھتے ہوئے کچھ عرصے بعد اپنا بھی دھڑن تختہ کروا لیا۔
آئیے! موضوع بدلتے ہیں۔یہ تو سیاسی تاریخ کا ہر طالبِ علم جانتا ہے کہ ضیا الحق نے غیر جماعتی نظام پیپلز پارٹی اور ہم خیال جماعتوں کو کھیل سے باہر رکھنے اور ایک متبادل سیاسی قوت ابھارنے کے لیے بنایا تھا۔ انیس سو اناسی میں ضیا حکومت نے غیر جماعتی بنیادوں پر پہلے بلدیاتی انتخابات کروائے۔پیپلز پارٹی نے عوام دوست امیدواروں کے نام پر یہ انتخاب لڑا اور سندھ اور پنجاب میں جکڑ بندیوں کے باوجود اچھی خاصی کامیابی حاصل کی۔مگر انھی بلدیاتی انتخابات نے ذات ، برادری، علاقے کی بنیاد پر سیاست کے بیج کے لیے زرخیز زمین کا بھی کام دیا۔اور چند برس میں جب اس بیج نے ایک ہرے بھرے درخت کی شکل اختیار کر لی تو وفاقی سیاست کے استحکام کو اپنی چھاؤں میں لے لیا۔اس کا نتیجہ آج تک نکلے ہی چلا جا رہا ہے۔
انیس سو تراسی میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں تحریکِ بحالی جمہوریت ایم آر ڈی نے ضیا حکومت کو سندھ اور پنجاب میں خاصا بڑا جھٹکا دیا مگر اس تحریک کو بزور دبا دیا گیا۔فروری انیس سو پچاسی میں غیر جماعتی پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے۔بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ضیا حکومت کو خدشہ تھا کہ کہیں پیپلز پارٹی نے قومی انتخابات میں بھی حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو پاکستانی سیاست کا قبلہ درست کرنے کے مشن میں کھنڈت ڈل سکتی ہے۔
ضیا الحق نے غیر جماعتی پارلیمانی انتخابات کے بہت عرصے بعد اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ میں ہر نماز میں دعا کرتا تھا کہ اپوزیشن غیر جماعتی انتخابات میں حصہ نہ لے۔شاید ضیا صاحب کی دعا بر آئی اور پیپلز پارٹی نے '' فوجی آمریت کے تحت '' ہونے والے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔یوں بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا اور نئی غیر جماعتی اسمبلی نے اس سیاسی قیادت کو ہاتھ پاؤں عطا کر دیے جس کا حلیہ تو گوشت پوست والا تھا مگر دماغ میں ریموٹ کنٹرولڈ چپ فٹ تھا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے بہت بعد میں جا کر اعتراف کیا کہ انیس سو پچاسی کے انتخابات کا بائیکاٹ فاش سیاسی غلطی تھی۔اس کے بعد پیپلز پارٹی نے یہ غلطی کبھی نہ دھرائی۔
حتی کہ جب ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد میاں نوازشریف نے حالتِ غم میں عام انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو آصف زرداری نے انھیں سمجھا بجھا کر یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا۔
آج پھر حزبِ اختلاف انتخابی عمل میں حصہ لینے نہ لینے اور اسمبلیوں سے استعفیٰ کے دوراہے پر کھڑی ہے۔دونوں باتوں کو خلط ملط نہیں کیا جانا چاہیے۔ضمنی انتخابات ہوں کہ سینیٹ کے انتخابات۔ان میں حصہ لے کر اپنی طاقت ثابت کرنا بھی ایک موثر بالغانہ سیاسی عمل ہوگا اور وقت آنے پر قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفیٰ دینا بھی ایک بالغانہ سیاسی عمل ہوگا۔
تاریخی تجربات شاہد ہیں کہ کوئی پلیٹ فارم یا فورم خالی چھوڑنا فائدہ مند کم اور جمہوری عمل کے لیے نقصان دہ زیادہ ہوتا ہے۔ایسے جذباتی عمل سے انفرادی و اجتماعی سودے بازی کی قوت کمزور ہوتی ہے۔جمہوری عمل کیسا بھی نام نہاد یا ناقص سہی مگر جاری رہنا چاہیے۔ اسی میں سے ایک نہ ایک دن بتدریج بہتری کی صورت نکلتی رہتی ہے۔نلکے میں سے پانی کم یا زیادہ بہتے رہنا چاہیے۔کیونکہ نلکہ بند ہونے کے بعد دوبارہ جب بھی کھلے اس میں سے دیر تلک گدلا پانی آتا رہتا ہے۔
تحریکِ انصاف کی پوری کوشش ہے کہ بائیکاٹ ہو جائے۔ان کی جانب سے بار بار یہ طعنہ بھی دیا جا رہا ہے کہ ہمت ہے تو استعفیٰ دو۔مگر دو ہزار چودہ میں یہی تحریکِ انصاف تھی جس نے اسمبلیوں پر بار بار لعنت بھیجنے اور اسپیکر کو استعفیٰ جمع کروانے کے باوجود نہ تو عملاً خیبر پختون خوا کی اسمبلی اور حکومت ترک کی نہ ہی قومی اسمبلی سے استعفیٰ کی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا اور پھر دھرنا اچانک ختم کردیا۔
آج یہی تحریکِ انصاف صرف چھ برس پہلے کی کہانی بظاہر بھول کر حزبِ اختلاف کو بار بار غیرت دلانے میں مصروف ہے۔اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی مثالی سیاست کی درسی کتاب کو بالاخر طاق پر رکھ کے سیاست کے روایتی اصولوں اور داؤ پیچ سمجھنا اور برتنا شروع ہو گئی ہے۔لہٰذا پرانے کلب میں نئے رکن کا خیر مقدم تو بنتا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
آج کا جگری کل کا جانی دشمن اور جانی دشمن کا دشمن جگری دوست بن سکتا ہے۔اس کھیل میں کب ڈور ڈھیلی چھوڑنا ہے اور کس وقت کھینچنا ہے۔ اس کا بھی اندازہ رکھنا پڑتا ہے۔اس کھیل میں کھلی آنکھوں سونے اور بند آنکھوں جاگنے کی مہارت بھی درکار ہے۔
سیاست میں ڈرنے کے باوجود بہادری کی اداکاری کرنا پڑتی ہے اور تمام پتے ہاتھ میں ہونے اور حریف کی اگلی چال معلوم ہونے کے باوجود چہرے کو حسبِ ضرورت عاجز یا تاثرات سے عاری بھی رکھنا پڑتا ہے اور پتے بالکل ہی ناکارہ آ جائیں تب بھی یہ ظاہر کرنا لازم ہے کہ بس حریف نے اگلی چال چلی نہیں اور اسے مات ہوئی نہیں۔
اس کھیل کی اپنی اخلاقیات ، اپنے اصول ، اپنا ضمیر غرض اپنی دنیا ہوتی ہے۔آپ بھلے بلند کردار نہ ہوں مگر بلند آہنگ ہونا ضروری ہے۔آپ بھلے بااصول نہ ہوں مگر بے اصولی کو اصول کی پوشاک پہنانا آنا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ آپ میرٹ پر یقین رکھیں مگر دوسروں کی میرٹ کو مسلسل چیلنج کرنے کا ہنر ازبس ضروری ہے۔ سیاست میں کامیابی کے لیے یادداشت کا اچھا ہونا مگر اس یادداشت کا حالات کے تقاضوں کے مطابق منتخب استعمال ہی موثر ہتھیار ہے۔
سیاسی کھیل میں مروت،ترس، وعدے کی پاسداری، اسپورٹس مین اسپرٹ ، حریف کے اچھے داؤپیچ کی کھلے عام تعریف، ضد ، ہٹ دھرمی ، یک رخی سوچ ، دماغ سے زیادہ دل کا استعمال جیسے اوصاف اس پیشے کے لیے زہر ہیں۔
اگر آپ کی آنکھ حسبِ موقع رنگ نہیں بدل سکتی ، اگر آپ حالاتی تقاضوں کے اعتبار سے سنگ دلی و سفاکی یا نرم و گرم رویے کی صلاحیت سے عاری ہیں ، اگر آپ کچے کانوں کے ہیں، اگر آپ مایوسی کے غار میں گرنے کے بعد اٹھنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور حریف کو کھائی کے کنارے دیکھ کر آخری دھکا دینے کے بجائے ترس کھا جاتے ہیں تو پھر آپ سیاست چھوڑئیے اور کوئی بھی دوسرا پیشہ اختیار کرنے کے بارے میں سوچیے۔
آپ کو میری یہ باتیں محض کتابی لگ رہی ہوں تو بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔صرف پچھلے تہتر برس کے ہر سیاسی کھلاڑی اور وردی ناوردی حکمران کا پروفائل نکال لیجیے آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ کون کیوں کامیاب رہا ، کونِ کامیابی سے بس ایک ہاتھ دور رہ گیا ، کون ایک دن پہلے تک بہت ہی مضبوط تھا اور دوسرے ہی دن اس کے پاؤں تلے سے قالین کیوں کھچ گیا۔
کس کا بظاہر سب لٹ گیا مگر پھر اپنی کس صلاحیت کے بل بوتے پر وہ اپنی شکست کو پہلے سے زیادہ بڑی کامیابی میں بدل گیا۔کون اپنی ذہانت کے زائد از ضرورت استعمال کے ہاتھوں مارا گیا اور کس نے اپنی فطانت کو ہونق چہرے کے پردے میں چھپا کر سب کو چوپٹ کر دیا اور پھر کس غلطی کو معمولی سمجھتے ہوئے کچھ عرصے بعد اپنا بھی دھڑن تختہ کروا لیا۔
آئیے! موضوع بدلتے ہیں۔یہ تو سیاسی تاریخ کا ہر طالبِ علم جانتا ہے کہ ضیا الحق نے غیر جماعتی نظام پیپلز پارٹی اور ہم خیال جماعتوں کو کھیل سے باہر رکھنے اور ایک متبادل سیاسی قوت ابھارنے کے لیے بنایا تھا۔ انیس سو اناسی میں ضیا حکومت نے غیر جماعتی بنیادوں پر پہلے بلدیاتی انتخابات کروائے۔پیپلز پارٹی نے عوام دوست امیدواروں کے نام پر یہ انتخاب لڑا اور سندھ اور پنجاب میں جکڑ بندیوں کے باوجود اچھی خاصی کامیابی حاصل کی۔مگر انھی بلدیاتی انتخابات نے ذات ، برادری، علاقے کی بنیاد پر سیاست کے بیج کے لیے زرخیز زمین کا بھی کام دیا۔اور چند برس میں جب اس بیج نے ایک ہرے بھرے درخت کی شکل اختیار کر لی تو وفاقی سیاست کے استحکام کو اپنی چھاؤں میں لے لیا۔اس کا نتیجہ آج تک نکلے ہی چلا جا رہا ہے۔
انیس سو تراسی میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں تحریکِ بحالی جمہوریت ایم آر ڈی نے ضیا حکومت کو سندھ اور پنجاب میں خاصا بڑا جھٹکا دیا مگر اس تحریک کو بزور دبا دیا گیا۔فروری انیس سو پچاسی میں غیر جماعتی پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے۔بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ضیا حکومت کو خدشہ تھا کہ کہیں پیپلز پارٹی نے قومی انتخابات میں بھی حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو پاکستانی سیاست کا قبلہ درست کرنے کے مشن میں کھنڈت ڈل سکتی ہے۔
ضیا الحق نے غیر جماعتی پارلیمانی انتخابات کے بہت عرصے بعد اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ میں ہر نماز میں دعا کرتا تھا کہ اپوزیشن غیر جماعتی انتخابات میں حصہ نہ لے۔شاید ضیا صاحب کی دعا بر آئی اور پیپلز پارٹی نے '' فوجی آمریت کے تحت '' ہونے والے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔یوں بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا اور نئی غیر جماعتی اسمبلی نے اس سیاسی قیادت کو ہاتھ پاؤں عطا کر دیے جس کا حلیہ تو گوشت پوست والا تھا مگر دماغ میں ریموٹ کنٹرولڈ چپ فٹ تھا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے بہت بعد میں جا کر اعتراف کیا کہ انیس سو پچاسی کے انتخابات کا بائیکاٹ فاش سیاسی غلطی تھی۔اس کے بعد پیپلز پارٹی نے یہ غلطی کبھی نہ دھرائی۔
حتی کہ جب ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد میاں نوازشریف نے حالتِ غم میں عام انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو آصف زرداری نے انھیں سمجھا بجھا کر یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا۔
آج پھر حزبِ اختلاف انتخابی عمل میں حصہ لینے نہ لینے اور اسمبلیوں سے استعفیٰ کے دوراہے پر کھڑی ہے۔دونوں باتوں کو خلط ملط نہیں کیا جانا چاہیے۔ضمنی انتخابات ہوں کہ سینیٹ کے انتخابات۔ان میں حصہ لے کر اپنی طاقت ثابت کرنا بھی ایک موثر بالغانہ سیاسی عمل ہوگا اور وقت آنے پر قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفیٰ دینا بھی ایک بالغانہ سیاسی عمل ہوگا۔
تاریخی تجربات شاہد ہیں کہ کوئی پلیٹ فارم یا فورم خالی چھوڑنا فائدہ مند کم اور جمہوری عمل کے لیے نقصان دہ زیادہ ہوتا ہے۔ایسے جذباتی عمل سے انفرادی و اجتماعی سودے بازی کی قوت کمزور ہوتی ہے۔جمہوری عمل کیسا بھی نام نہاد یا ناقص سہی مگر جاری رہنا چاہیے۔ اسی میں سے ایک نہ ایک دن بتدریج بہتری کی صورت نکلتی رہتی ہے۔نلکے میں سے پانی کم یا زیادہ بہتے رہنا چاہیے۔کیونکہ نلکہ بند ہونے کے بعد دوبارہ جب بھی کھلے اس میں سے دیر تلک گدلا پانی آتا رہتا ہے۔
تحریکِ انصاف کی پوری کوشش ہے کہ بائیکاٹ ہو جائے۔ان کی جانب سے بار بار یہ طعنہ بھی دیا جا رہا ہے کہ ہمت ہے تو استعفیٰ دو۔مگر دو ہزار چودہ میں یہی تحریکِ انصاف تھی جس نے اسمبلیوں پر بار بار لعنت بھیجنے اور اسپیکر کو استعفیٰ جمع کروانے کے باوجود نہ تو عملاً خیبر پختون خوا کی اسمبلی اور حکومت ترک کی نہ ہی قومی اسمبلی سے استعفیٰ کی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا اور پھر دھرنا اچانک ختم کردیا۔
آج یہی تحریکِ انصاف صرف چھ برس پہلے کی کہانی بظاہر بھول کر حزبِ اختلاف کو بار بار غیرت دلانے میں مصروف ہے۔اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی مثالی سیاست کی درسی کتاب کو بالاخر طاق پر رکھ کے سیاست کے روایتی اصولوں اور داؤ پیچ سمجھنا اور برتنا شروع ہو گئی ہے۔لہٰذا پرانے کلب میں نئے رکن کا خیر مقدم تو بنتا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)