مخفی کیوں مخفی ہوئی پہلا حصہ
آپ اس’’چیز‘‘پر گہری نظرڈالیے جسے تاریخ کہتے ہیں جس کے بڑے بڑے عالم ہوتے ہیں۔
اس وقت ہمارے پاس علم کا جو ذخیرہ ہے، وہ سارے کا سارا چوری کا ہے کیونکہ کسی درسگاہ یا مخصوص اساتذہ کی سعادت ہمیں نصیب نہیں ہوئی ہے بلکہ جہاں جہاں کسی کے پاس''مال علم''ملا، اس پر ہاتھ صاف کردیا۔ان ہی لوگوں میں سے ایک محترمہ زاہدہ حنا صاحبہ بھی ہیں۔
ان کے پاس بھی چونکہ مطالعہ کی فراوانی ہے، اس لیے شاید انھیں ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ کوئی ''چور''ان کے علم سے مسلسل چوری کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ اس زمانے سے جاری ہے جب وہ عالمی ڈائجسٹ کی مدیرہ ہوا کرتی تھیں اور اب تو پڑوس میں آکر رہائش پذیر ہوگئی ہیں، اس لیے روزانہ کچھ نہ کچھ ہم بھی ان علم سے کچھ نہ کچھ لے لیتے ہیں۔
زیب النساء مخفی پر ایک طویل اور محققانہ کالم لکھ کر انھوں نے ہمارا ایک پرانا بلکہ ''پہلا عشق''یاد دلایا ، شاید آپ کو عجیب سا لگے کہ ہم عین جوانی کے عالم میں زیب النساء مخفی پر دل وجان سے فدا ہوگئے تھے اور اب تک ہیں۔ اب اس عشق موجودہ اور رائج الوقت شکل وصورت کو دیکھ کر آپ یقیناً حیران ہورہے ہوں گے۔
لیکن جس عشق کی بات ہم کررہے ہیں وہ صرف ہوتا ہے بیان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ عشق زمان ومکان، سن وسال اور خدوخال سے بہت پرے ہوتاہے۔ اس عشق کے بارے میں رحمان بابا نے کہا ہے
دا دنیا دہ خدائے لہ عشقہ پیدا کڑے
د تمامو مخلوقاتو پلار دے دا
ترجمہ ،''اس دنیا کو خدانے عشق سے پیدا کیاہے اور تمام مخلوقات کا باپ عشق ہے''۔ ایک پنجابی شاعر عدیم اقبال کا کہنا ہے کہ جب کچھ بھی نہ تھا عشق اس وقت موجود تھا۔تصوف کی اس اصطلاح پر بہت بعد میں آئزک نیوٹن نے طبعیات کی مہر ثبت کردی اور اسے گریوٹی یا کشش ثقل کا نام دیا۔
یونانی دیومالا میں کہاگیا ہے کہ جب کچھ نہ تھا ایک بے پناہ گہرا اور سیاہ اندھیرا تھا، تب اس گہراؤ نے شب سے وصلت کی اور اس سے ایک عجوبہ پیدا ہوا''ایروز''۔چمکدار پروں والا ایروز جس کا احترام زیوس بھی کرتا ہے۔ مولانا روم نے اپنی مثنوی کی ابتدا بھی اس عشق کے بیان سے کی ہے۔
بشنواز نے چوں حکایت می کنی
وزجدائیبا شکایت می کنی
ترجمہ،''بانسری کی سنو جو اپنی حکایت بیان کر رہی ہے اور جدائی کی شکایت کررہی ہے کہ مجھے نیستان (جنگل)سے کاٹا گیاہے''۔اور آگے پھر ساری مثنوی اس عشق کی تفسیر ہے۔بات کو بہت گہرائی اور گیرائی سے بچانے کے لیے صرف اتنا بتادینا کافی ہے کہ یہ پوری کائنات ایک ہمہ گیر کشش میں پروئی ہوئی ہے جسے صوفیانہ اصطلاح میں عشق کہا جاتا ہے۔زیب النساء مخفی کی سوگوار زندگی، المیہ کہانی اور اورنگزیب جیسے حکمران کے دور میں پتھر کے گھر اور اختیار میں ایک ناتوان اور اسیر پنچھی کی زندگی گزارنے والی یہ شہزادی معلوم نہیں کیوں اور کیسے ہمارے حواس پر چھا گئی تھی۔
ہم تصور میں باقاعدہ اسے مجسم صورت میں دیکھتے تھے۔ سر تا پاایک لمبے لبادے میں ملبوس، ایک خاموش پتلے کو میں صاف صاف دیکھتا تھا۔ بہت بعد میں جب فلم ''شعلے'' میں نے دیکھی تو اس میں ٹھاکر کی نوجوان بیوہ بہو کو جب میںنے وسیع وعریض حویلی میں دیپ جلاتے بجھاتے دیکھا تو مجھے لگا جیسے یہ بھی ایک زیب النساء مخفی ہے۔ وہ دیپ نہیں جلا بجارہی تھی بلکہ خود جل بجھ رہی تھی۔میں اکثر خیالوں میں اسے ایک کلی جو ابھی کھلنے والی تھی کی طرح دیکھتا تھا، اس روایتی شعر، ''بن کھلے مرجھاگئی''کی مجسم مثال جو اپنے انجام سے بے خبر اپنے لب وا کیے، سکڑ اور سوکھ رہی ہو۔
کلی کے حال پر روتی شبنم
گلوں کی چاک دامانی سے پہلے
محترمہ زاہدہ حنا تو وضع دار خاتون ہیں، اس لیے اورنگزیب عالم گیر جو رحمتہ علیہ بھی تھا کے بارے میں تفصیل سے نہیں لکھ پائیں۔اس لیے میں چاہتا ہوں کہ صرف زیب النساء مخفی یا اپنے عزیزوں اور اولادوں کے لیے یہ ''ولی اللہ''کیا تھا، کچھ کہوں۔میں بھی اتنا بہادر نہیں ہوں کہ اورنگزیب بلکہ ایک خاص قسم کے انتہاپسند طرف داروں سے الجھ جاؤں لیکن حقائق تو بہرحال حقائق ہوتے ہیں۔ طرف دار کتنا ہی چھپانے کی کوشش کریں، سامنے آہی جاتے ہیں۔اصل میں اورنگ زیب کا ایک نفیساتی تجزیہ بھی ہونا چاہیے تھا۔
ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح جو اپنے بڑے بڑے مظالم کو ''نیکیوں''کی چادر میں لپٹنے کی کوشش کرتے ہیں جو سراسر ناکام کوشش ہوتی ہے لیکن یہ خود کو مطمئن کرنے کے لیے ایساکرتے رہتے ہیں ورنہ خدائے بزرگ وبرتر نے صاف صاف فرمایا ہے کہ میں اپنے حقوق تو بخش سکتا ہوں لیکن دوسروں کے حقوق نہیں بخش سکتا۔تو ظاہر ہے کسی بے گناہ کے قتل کو نمازوں اور چندوں سے نہیں چھپایا جاسکتا۔
مظالم کا داغ مسجد تعمیر کرنے یا مدرسے اسپتال وغیرہ کو چندہ دینے سے صاف ہرگز نہیں ہوگا۔ نوبل کتنے ہی پرائز کیوں نہ جاری کرے، اس ''سرپرائز'' کی تباہیوں کا ازالہ نہیں ہوسکتا جو اس نے ڈائنا مائنٹ کی شکل میں انسانیت کو دیاہے۔ منشیات کے سوداگر اسلحہ جات کے موجد اور تاجر فلاحی کاموں کے جتنے مرضی علمبردار بنیں، چاہے کتنے ہی اسپتال اور فلاحی ادارے قائم کریں۔مساجد بنائیں، مدرسے چلائیں، حج اور عمرے کریں ، حقوق العباد کے مواخذے سے نہیں بچ سکتے۔توبہ اور کفارہ ایک راستہ ہے لیکن اس راستے کی شرط اول بھی یہ ہے کہ وہ کام، وہ گناہ وہ جرم چھوڑ دیا جائے جس کا کفارہ ادا کیا جارہاہے۔ توبہ کا مطلب یہ نہیں کہ گناہ بھی چلتا رہے اور اس کی معافی کے لیے توبہ بھی کی جائے یا کوشش کی جائے۔
شیاد اورنگ زیب کی شخصیت بھی ایسی ہی دوعملی سے عبارت تھی۔ میں اکثر جب اپنے کچھ دوستوں سے مذاق کرتا ہوں تو کہتا ہوں کہ تمہارے نظریے کا بانی اورنگ زیب تھا۔ مظالم پر ظاہرات کی چادر پھیلا کر رعایاکو یا خود کویہ دھوکا دینا کہ نجات مل گئی۔کسی کو ناحق قتل کرنے کا گناہ ، آپ مسجد وتالاب بنانے، حج وعمرہ کرنے اور خیراتیں بانٹ کر زائل نہیں کرسکتے اور بدقسمتی سے آج بھی ہمارے نظام اور معاشرے میں یہی اورنگ زیبی روایت چل رہی ہے۔رہ گئے محققین اور مورخین تو یہ لوگ ہمیشہ ایک طبقے کی طرح اقتدار کے طرف دار ہوتے ہیں۔
آپ اس''چیز''پر گہری نظرڈالیے جسے تاریخ کہتے ہیں جس کے بڑے بڑے عالم ہوتے ہیں، ڈگریاں دی جاتی ہیں اور کتابیں لکھی جاتی ہیں تو بابل وعراق کی تختیوں سے لے کر آج کے میڈیا تک سب کے سب پندرہ فیصد حکمرانوں اور اہل سیف کے مداح خوان نظرآئیں گے۔
(جاری ہے)
ان کے پاس بھی چونکہ مطالعہ کی فراوانی ہے، اس لیے شاید انھیں ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ کوئی ''چور''ان کے علم سے مسلسل چوری کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ اس زمانے سے جاری ہے جب وہ عالمی ڈائجسٹ کی مدیرہ ہوا کرتی تھیں اور اب تو پڑوس میں آکر رہائش پذیر ہوگئی ہیں، اس لیے روزانہ کچھ نہ کچھ ہم بھی ان علم سے کچھ نہ کچھ لے لیتے ہیں۔
زیب النساء مخفی پر ایک طویل اور محققانہ کالم لکھ کر انھوں نے ہمارا ایک پرانا بلکہ ''پہلا عشق''یاد دلایا ، شاید آپ کو عجیب سا لگے کہ ہم عین جوانی کے عالم میں زیب النساء مخفی پر دل وجان سے فدا ہوگئے تھے اور اب تک ہیں۔ اب اس عشق موجودہ اور رائج الوقت شکل وصورت کو دیکھ کر آپ یقیناً حیران ہورہے ہوں گے۔
لیکن جس عشق کی بات ہم کررہے ہیں وہ صرف ہوتا ہے بیان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ عشق زمان ومکان، سن وسال اور خدوخال سے بہت پرے ہوتاہے۔ اس عشق کے بارے میں رحمان بابا نے کہا ہے
دا دنیا دہ خدائے لہ عشقہ پیدا کڑے
د تمامو مخلوقاتو پلار دے دا
ترجمہ ،''اس دنیا کو خدانے عشق سے پیدا کیاہے اور تمام مخلوقات کا باپ عشق ہے''۔ ایک پنجابی شاعر عدیم اقبال کا کہنا ہے کہ جب کچھ بھی نہ تھا عشق اس وقت موجود تھا۔تصوف کی اس اصطلاح پر بہت بعد میں آئزک نیوٹن نے طبعیات کی مہر ثبت کردی اور اسے گریوٹی یا کشش ثقل کا نام دیا۔
یونانی دیومالا میں کہاگیا ہے کہ جب کچھ نہ تھا ایک بے پناہ گہرا اور سیاہ اندھیرا تھا، تب اس گہراؤ نے شب سے وصلت کی اور اس سے ایک عجوبہ پیدا ہوا''ایروز''۔چمکدار پروں والا ایروز جس کا احترام زیوس بھی کرتا ہے۔ مولانا روم نے اپنی مثنوی کی ابتدا بھی اس عشق کے بیان سے کی ہے۔
بشنواز نے چوں حکایت می کنی
وزجدائیبا شکایت می کنی
ترجمہ،''بانسری کی سنو جو اپنی حکایت بیان کر رہی ہے اور جدائی کی شکایت کررہی ہے کہ مجھے نیستان (جنگل)سے کاٹا گیاہے''۔اور آگے پھر ساری مثنوی اس عشق کی تفسیر ہے۔بات کو بہت گہرائی اور گیرائی سے بچانے کے لیے صرف اتنا بتادینا کافی ہے کہ یہ پوری کائنات ایک ہمہ گیر کشش میں پروئی ہوئی ہے جسے صوفیانہ اصطلاح میں عشق کہا جاتا ہے۔زیب النساء مخفی کی سوگوار زندگی، المیہ کہانی اور اورنگزیب جیسے حکمران کے دور میں پتھر کے گھر اور اختیار میں ایک ناتوان اور اسیر پنچھی کی زندگی گزارنے والی یہ شہزادی معلوم نہیں کیوں اور کیسے ہمارے حواس پر چھا گئی تھی۔
ہم تصور میں باقاعدہ اسے مجسم صورت میں دیکھتے تھے۔ سر تا پاایک لمبے لبادے میں ملبوس، ایک خاموش پتلے کو میں صاف صاف دیکھتا تھا۔ بہت بعد میں جب فلم ''شعلے'' میں نے دیکھی تو اس میں ٹھاکر کی نوجوان بیوہ بہو کو جب میںنے وسیع وعریض حویلی میں دیپ جلاتے بجھاتے دیکھا تو مجھے لگا جیسے یہ بھی ایک زیب النساء مخفی ہے۔ وہ دیپ نہیں جلا بجارہی تھی بلکہ خود جل بجھ رہی تھی۔میں اکثر خیالوں میں اسے ایک کلی جو ابھی کھلنے والی تھی کی طرح دیکھتا تھا، اس روایتی شعر، ''بن کھلے مرجھاگئی''کی مجسم مثال جو اپنے انجام سے بے خبر اپنے لب وا کیے، سکڑ اور سوکھ رہی ہو۔
کلی کے حال پر روتی شبنم
گلوں کی چاک دامانی سے پہلے
محترمہ زاہدہ حنا تو وضع دار خاتون ہیں، اس لیے اورنگزیب عالم گیر جو رحمتہ علیہ بھی تھا کے بارے میں تفصیل سے نہیں لکھ پائیں۔اس لیے میں چاہتا ہوں کہ صرف زیب النساء مخفی یا اپنے عزیزوں اور اولادوں کے لیے یہ ''ولی اللہ''کیا تھا، کچھ کہوں۔میں بھی اتنا بہادر نہیں ہوں کہ اورنگزیب بلکہ ایک خاص قسم کے انتہاپسند طرف داروں سے الجھ جاؤں لیکن حقائق تو بہرحال حقائق ہوتے ہیں۔ طرف دار کتنا ہی چھپانے کی کوشش کریں، سامنے آہی جاتے ہیں۔اصل میں اورنگ زیب کا ایک نفیساتی تجزیہ بھی ہونا چاہیے تھا۔
ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح جو اپنے بڑے بڑے مظالم کو ''نیکیوں''کی چادر میں لپٹنے کی کوشش کرتے ہیں جو سراسر ناکام کوشش ہوتی ہے لیکن یہ خود کو مطمئن کرنے کے لیے ایساکرتے رہتے ہیں ورنہ خدائے بزرگ وبرتر نے صاف صاف فرمایا ہے کہ میں اپنے حقوق تو بخش سکتا ہوں لیکن دوسروں کے حقوق نہیں بخش سکتا۔تو ظاہر ہے کسی بے گناہ کے قتل کو نمازوں اور چندوں سے نہیں چھپایا جاسکتا۔
مظالم کا داغ مسجد تعمیر کرنے یا مدرسے اسپتال وغیرہ کو چندہ دینے سے صاف ہرگز نہیں ہوگا۔ نوبل کتنے ہی پرائز کیوں نہ جاری کرے، اس ''سرپرائز'' کی تباہیوں کا ازالہ نہیں ہوسکتا جو اس نے ڈائنا مائنٹ کی شکل میں انسانیت کو دیاہے۔ منشیات کے سوداگر اسلحہ جات کے موجد اور تاجر فلاحی کاموں کے جتنے مرضی علمبردار بنیں، چاہے کتنے ہی اسپتال اور فلاحی ادارے قائم کریں۔مساجد بنائیں، مدرسے چلائیں، حج اور عمرے کریں ، حقوق العباد کے مواخذے سے نہیں بچ سکتے۔توبہ اور کفارہ ایک راستہ ہے لیکن اس راستے کی شرط اول بھی یہ ہے کہ وہ کام، وہ گناہ وہ جرم چھوڑ دیا جائے جس کا کفارہ ادا کیا جارہاہے۔ توبہ کا مطلب یہ نہیں کہ گناہ بھی چلتا رہے اور اس کی معافی کے لیے توبہ بھی کی جائے یا کوشش کی جائے۔
شیاد اورنگ زیب کی شخصیت بھی ایسی ہی دوعملی سے عبارت تھی۔ میں اکثر جب اپنے کچھ دوستوں سے مذاق کرتا ہوں تو کہتا ہوں کہ تمہارے نظریے کا بانی اورنگ زیب تھا۔ مظالم پر ظاہرات کی چادر پھیلا کر رعایاکو یا خود کویہ دھوکا دینا کہ نجات مل گئی۔کسی کو ناحق قتل کرنے کا گناہ ، آپ مسجد وتالاب بنانے، حج وعمرہ کرنے اور خیراتیں بانٹ کر زائل نہیں کرسکتے اور بدقسمتی سے آج بھی ہمارے نظام اور معاشرے میں یہی اورنگ زیبی روایت چل رہی ہے۔رہ گئے محققین اور مورخین تو یہ لوگ ہمیشہ ایک طبقے کی طرح اقتدار کے طرف دار ہوتے ہیں۔
آپ اس''چیز''پر گہری نظرڈالیے جسے تاریخ کہتے ہیں جس کے بڑے بڑے عالم ہوتے ہیں، ڈگریاں دی جاتی ہیں اور کتابیں لکھی جاتی ہیں تو بابل وعراق کی تختیوں سے لے کر آج کے میڈیا تک سب کے سب پندرہ فیصد حکمرانوں اور اہل سیف کے مداح خوان نظرآئیں گے۔
(جاری ہے)