ووٹ کی عزت اور مل کر چلنے کی ضرورت
نواز شریف ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو انھیں اپنی غلطیاں بھی تسلیم کرنی ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار سابق لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب نے ایک ٹاک شو میں ملک میں ماضی میں لگائے جانے والے مارشل لاؤں کی مذمت کرتے ہوئے انھیں غلط قرار دیا اور سوال کیا کہ مارشل لا کی حکومتوں کوکیا ہمیشہ کاندھا سیاستدانوں نے نہیں دیا۔
کیا سیاستدان اپنے مفادات کے لیے فوجی حکومتوں میں شامل نہیں رہے اور فوجی صدرکو دس سال تک وردی میں رہنے کی حمایت سیاستدانوں کی طرف سے نہیں کی گئی اور سیاستدان فوجی حکومتوں کے حامی اور آلہ کار نہیں بنے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جمہوری کہلانے والی حکومتوں میں سیاستدان خود اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں میں رہے جب کہ فوج نے ہمیشہ آئین کے تحت سول حکومتوں کی حمایت جاری رکھی اور کوئی غیر آئینی اقدام نہیں کیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ہمیشہ فوجی سربراہوں سے بگاڑ کر رکھی۔ وزیر اعظم عمران خان کا بار بار یہ کہنا قطعاً مناسب نہیں کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں جب کہ فوج ہر سول حکومت کے آئین و قانون کے تحت ساتھ رہی ہے۔
جنرل (ر) امجد شعیب کے اس حقیقی موقف کو کوئی غلط قرار نہیں دے سکتا۔ ایک اور ریٹائرڈ جنرل نے جو اپنی کتاب میں جو لکھا اورکہا ہے ،اسے بھی غلط قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا مگر اس کی ذمے داری سیاستدانوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو غلط کاموں میں ہمیشہ شریک رہے ہیں۔
ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بھی غلط نہیں ہے اور آج پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں اور جمہوریت کے حامی عوام بھی چاہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت ملنی چاہیے اور عوام کو یہ حق حقیقی طور پر ملنا چاہیے کہ وہ جس کو چاہیں منتخب کریں، ان کا دیا گیا ووٹ چوری نہ ہو بلکہ محفوظ رہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں جو انتخابات کرائے تھے وہ کافی حد تک منصفانہ تھے جس میں مشرقی پاکستان کے عوام نے بھاری تعداد میں عوامی لیگ کو اور مغربی پاکستان میں سندھ و پنجاب میں پیپلز پارٹی، سرحد اور بلوچستان میں جے یو آئی اور نیشنل عوامی پارٹی کو منتخب کیا گیا تھا۔
اس منصفانہ الیکشن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ منصفانہ اس لیے منعقد کرائے گئے تھے کہ جنرل یحییٰ خان چاہتے تھے کہ ووٹ مختلف سیاسی پارٹیوں میں تقسیم ہو جائیں گے اور کوئی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور وہ خود کو صدر منتخب کرالیں گے مگر نتائج ان کی توقع کے برعکس آئے تھے جس پر انھوں نے مشرقی پاکستان کے عوام کے ووٹوں کو عزت نہیں دی تھی جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہو گیا تھا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب بھی نہیں چاہتے تھے کہ اقتدار عوامی لیگ کو ملے اور وہ خود وزیر اعظم نہ بن سکیں، اس لیے انھوں نے ووٹ کی عزت نہیں ہونے دی اور اقتدار عوامی لیگ کو منتقل نہیں ہونے دیا تھا۔ ملک دولخت کرا کر صدر یحییٰ اقتدار سے محروم اور بھٹو صاحب آدھے پاکستان کے وزیر اعظم بنے تھے اور سندھ بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور سرحد و بلوچستان میں جے یو آئی اور نیپ کی حکومتیں بنی تھیں۔ اس طرح مغربی پاکستان میں ووٹ کو عزت ملی تھی اور مشرقی پاکستان میں ووٹ کی عزت پامال کی گئی تھی ۔
1973 کا متفقہ آئین منظور کرانے کے بعد بااختیار وزیر اعظم بن کر ذوالفقار علی بھٹو نے صوبہ سرحد اور بلوچستان کے عوام کے ووٹوں سے بنی صوبائی حکومتوں کو عزت نہیں دی اور نیپ کے عطا اللہ مینگل کی حکومت برطرف کردی تھی جس پر صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ مفتی محمود بطور احتجاج مستعفی ہوگئے تھے جہاں بعد میں ووٹ توڑ کر پیپلز پارٹی کی حکومتیں بنوائی گئی تھیں اور بعد میں نیپ پر بھٹو حکومت نے پابندی لگا دی تھی ۔ 1977 میں عوام کا ووٹ چرائے جانے پر پی این اے نے تحریک چلائی تھی جس پر مارشل لا لگا تھا اور بھٹو صاحب کی حکومت برطرف کی گئی تھی۔
جماعت اسلامی اور جے یو آئی سمیت ملک میں کوئی ایسی پارٹی نہیں جس کا سربراہ اور پارٹی ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہ رہی ہو جن میں عمران خان اور نواز شریف اور ماضی میں بھٹو صاحب خود شامل رہے اور انھی کی مدد سے اقتدار میں آئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ نواز شریف کبھی نہیں چل سکے جب کہ عمران خان ڈھائی سال سے ساتھ چل رہے ہیں ، وہ ماضی میں جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی بھی حمایت کرچکے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق)نے پانچ سال حکومت کی جس کے دوران صوبہ سرحد میں آئی جے آئی کی حکومت نے پانچ سال مکمل کیے مگر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی نام نہاد جمہوری حکومتوں میں صوبہ سرحد میں مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ صابر شاہ اور بلوچستان میں اختر مینگل کی صوبائی حکومتیں ختم ہوئیں اور وفاق میں مسلم لیگ (ن)کی حکومت ہوتے ہوئے بلوچستان میں مسلم لیگ(ن)کے وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری کی حکومت برطرف کرائی گئی جس کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا سہرا آصف علی زرداری لیتے رہے اور وہاں راتوں رات بنوائی گئی نئی سیاسی پارٹی باپ کی حکومت بنوائی گئی۔
جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں بنائی گئی کوئی سول صوبائی حکومت برطرف نہیں ہوئی اور جمہوری کہلانے والی حکومتوں میں سرحد اوربلوچستان اور پنجاب میں گورنر راج کے ذریعے صوبائی حکومتیں تبدیل کرائی گئیں جن سے فوج کا کوئی تعلق نہیں تھا اور اب بھی بعض حلقے توقع کر رہے ہیں کہ فوج مداخلت کرے۔
اب نواز شریف ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو انھیں اپنی غلطیاں بھی تسلیم کرنی تاکہ ملک میں ووٹ کی عزت، جمہوری اقدار برقرار رہ سکتی ہیں اور ہر ادارے کو آئین کے مطابق باہمی طور پر مل کر چلنے اور اتفاق رائے سے ہی ملک میں سیاسی استحکام ممکن ہو سکتا ہے مگر ہر ایک کو اپنی آئینی ذمے داری پوری کرنا ہوگی تاکہ ملک میں جمہوریت کے نام پر کوئی اپنی بادشاہت قائم نہ کرسکے۔